یہ تم ہو

وہ جذبہ جو ہر پاکستانی میں ہے، جس کو بہتر طور پر استعمال کرکے ہم بڑے سے بڑا پہاڑ سر کرسکتے ہیں

wabbasi@yahoo.com

ہم پاکستانی ہیں۔ یہی ہے ہماری پہلی اور آخری پہچان دنیا کے سامنے۔ چاہے ہم دنیا کے بہت بڑے رائٹر، کھلاڑی، بزنس مین،آرٹسٹ یا سیاست داں کیوں نہ ہوں، ہر پہچان سے پہلے ہماری ایک پہچان پاکستانی کی ہوتی ہے۔

ہم چالیس سال سے زیادہ بھی کیوں نہ انگلینڈ یا امریکا میں مقیم ہوں، گھر خاندان بزنس زندگی وہیں کی چیزوں سے کیوں نہ جڑی ہو، پھر بھی جب ہم کوئی خبر بناتے ہیں تو ہمارے نام سے پہلے لکھا جاتا ہے ''پاکستان سے تعلق رکھنے والے امریکا میں مقیم'' یعنی ہم کچھ بھی بن جائیں، ہم سب سے پہلے پاکستانی ہی رہیں گے۔ ہمیں فخر ہے اپنے پاکستانی ہونے پر، کیونکہ پاکستانی باصلاحیت قوم ہے اور یہ ہم ان گنت بار ثابت کرچکے ہیں۔

احمد خٹک ایک 26 سالہ پاکستانی نوجوان ہے۔ ایک عام سا پاکستانی لڑکا جو پاکستان کے ہر گھر میں موجود ہے۔ ہر لڑکے کی طرح اس کو بھی اسپورٹس کا شوق تھا۔ احمد اسکواش بہت اچھا کھیلتا ہے اور اِسی بِنا پر احمد کو 2004 میں امریکا کی یونیورسٹی YALES سے فل اسکالر شپ ملی۔ ہر نئے آنے والے کی طرح احمد کو بھی امریکا مختلف لگا پاکستان سے، رہن سہن نیا، طور طریقے نئے، امریکا کے اِن نئے انداز سیکھنے کی مشکلات میں سے ایک تھی وہاں کی موبائل فون سروس حاصل کرنا۔

امریکا میں ہر شخص کا ایک آئی ڈی نمبر ہوتا ہے جسے سوشل سیکیورٹی نمبر کہا جاتا ہے، جس سے اس شخص کی زندگی کی ہر فنانشل ہسٹری جڑی ہوتی ہے۔ کہیں بھی آپ گاڑی، گھر یا کسی بھی طرح کا قرضہ (لون) لینے جائیں تو لینڈر فوراً آپ کی کریڈٹ ہسٹری نکال کر تصدیق کرتا ہے کہ اِس شخص کی قسط کی ادائیگی کی کتنی استعداد ہے اور اسے کتنا کریڈٹ دینا چاہیے۔

کریڈٹ ہسٹری امریکا میں موجود تمام پوسٹ پیڈ موبائل کمپنیاں بھی چیک کرتی ہیں۔ آپ کو سروس دینے سے پہلے اور یہی احمد کا مسئلہ تھا کیونکہ وہ امریکا میں نیا تھا اور اس کا اسٹیٹس ''اسٹوڈنٹ'' تھا۔ احمد کے پاس سوشل سیکیورٹی نمبر اور نہ ہی کوئی کریڈٹ ہسٹری تھی۔ احمد اپنے گھر والوں کو پاکستان فون کرنے کے لیے موبائل سروس لینا چاہتا تھا لیکن وہ حیران رہ گیا جب اسے معلوم ہوا کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں کوئی بھی اسے موبائل سروس نہیں فراہم کرے گا کیونکہ اس کی کوئی کریڈٹ ہسٹری نہیں ہے، احمد نے کئی موبائل کمپنیوں سے رابطہ کیا لیکن اسے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔

بالآخر احمد کے روم میٹ نے Co-sign کرکے اسے موبائل سروس دلوادی لیکن کالج میں رہتے احمد کو تمام عرصے یہ بات ستاتی رہی کہ امریکا میں ان لوگوں کے لیے موبائل سروس کیوں نہیں جن کے پاس کریڈٹ نہیں۔ کوئی بھی لڑکا ہوتا تو وہ موبائل سروس مل جانے کے کچھ عرصے بعد یہ بات بھول جاتا لیکن پاکستانیوں کی ایک خاص بات ہے، ان کے اندر کا نیچرل بزنس مائنڈ۔ ہم کمال کے لوگ ہیں، کسی چیز میں بارگین کیسے کرتے ہیں، ہمیں قدرتی طور پر معلوم ہوتا ہے، کسی چیز کو بہتر بنا کر کیسے پیش کرتے ہیں، اِس چیز میں بھی ہمارا دماغ بہت تیز چلتا ہے، کسی بھی چیز کا بزنس ماڈل سمجھنے میں دیر نہیں لگتی اور یہی پاکستانی خصوصیات احمد خٹک میں بھی تھیں۔


2007 میں انٹرن شپ کرکے احمد لندن گیا، جہاں اسے لندن ایئرپورٹ پر ہی ایک کمپنی بنانے کا خیال آیا۔ اس نے ایئرپورٹ کی وینڈنگ مشین سے پندرہ پائونڈ کا ایک سِم کارڈ خریدا، اپنے ان لاک فون سے اِسے استعمال کرکے وہ انٹرنیشنل اور لوکل کالز بھی کافی سستی کرسکتا تھا۔ امریکا میں فون کیریئر لاکڈ ہوتے ہیں یعنی اگر کوئی Verizon سے آئی فون خریدتا ہے تو وہ صرف اسی کے نیٹ ورک پر استعمال کرسکتا ہے Verizon کی سروس لیے بغیر وہ فون بے کار ہے۔

احمد کو امریکا میں ایسی کمپنی بنانے کا خیال آیا جو Unlocked فون بیچے گی جس سے بِنا کریڈٹ والوں کو اور انھیں آسانی ہوگی جو کسی ایک کمپنی سے بندھنا نہیں چاہتے۔ جب احمد کی عمر کے کلاس کے باقی امریکن طلباء جو وہاں کے سسٹم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، کہیں نوکری لگ جائے گی کی فکر میں لگے ہوئے تھے، اسی وقت احمد جو امریکا کے سسٹم سے اتنا واقف بھی نہیں تھا، کو آپریٹ امریکا میں اپنا نام بنانے کی کوشش کررہا تھا، نہ اس کے پاس تجربہ تھاا نہ امریکا کی موبائل کمپنیوں کی زیادہ معلومات، لیکن اس کے پاس ایک چیز تھی پاکستانی جذبہ۔ وہ جذبہ جو ہر پاکستانی میں ہے، جس کو بہتر طور پر استعمال کرکے ہم بڑے سے بڑا پہاڑ سر کرسکتے ہیں اور یہی احمد نے کیا۔

احمد کے پاس نہ امریکا کا مستقل ویزا تھا نہ بزنس شروع کرنے کے لیے فنڈز۔ آپ ہارتے ہیں جب آپ Give up کردیتے ہیں اور احمد نے یہی نہیں کیا۔ اپنے کالج کی مدد سے پہلے اپنے ویزا کا انتظام کیا اور کئی لوگوں سے رابطوں کے بعد اپنے ڈینٹسٹ سے دو لاکھ ڈالر کی انوسٹمنٹ کرکے مارچ 2010 میں اپنا بزنس شروع کیا۔ پاکستانیوں میں ایک چیز خاص ہے۔

ہماری لگن، جس چیز کی ہمیں لگن ہوتی ہے اس میں پوری جان لگادیتے ہیں اور یہی لگن احمد کے لیے کامیابی کا باعث بنی۔ 2010 کے آخر تک احمد کی کمپنی نو ملین ڈالرز کا بزنس کرچکی تھی۔ 2011 کے اندر اس نے 35 ملین کا بزنس کیا اور 2012 کے آخر تک امید ہے کہ احمد پچاس ملین ڈالرز کا بزنس کرے گا۔

یہ صرف احمد خٹک کی کامیابی نہیں۔ یہ میری اور آپ کی کامیابی ہے، یہ ثبوت ہے ہمارے ہنر کا، ہماری طاقت ہمارے باصلاحیت ہونے کا۔ ہزاروں لاکھوں طالب علم دنیا بھر سے تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ امریکا جاتے ہیں اور اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی طلباء کئی دوسری قوموں کے طالب علموں سے کہیں زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں پٹ کر زندگی کو مشکل سمجھ کر ہم پاکستان میں رہتے خود اپنی ویلیو نہیں سمجھ پاتے۔ کیوں ہم ملک سے باہر جا کر اِتنے کامیاب ہوجاتے ہیں اور ملک میں رہتے خود کو ناکام سمجھتے رہتے ہیں؟

''سوچ'' ہے جس کے بدلنے سے چیزیں بدل جائیں گی، ایک 26 سال کا پاکستانی لڑکا نئے ماحول میں بِنا کسی بیک گرائونڈ اور مدد کے 50 ملین کا بزنس کرنے والا کامیاب اِنسان بن سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں۔ جب انسان پورے جذبے سے ارادہ کرلیتا ہے تو چیزیں خود بخود آسان ہوجاتی ہیں۔ ارادہ کرکے دیکھیں۔
Load Next Story