اپوزیشن کا اسپیکر قومی اسمبلی پر بجٹ منظوری کے لیے دھاندلی کرنے کا الزام
وزیراعظم کے پاس 172 ووٹ نہیں تھے لیکن اسپیکر نے پوری کوشش کی ووٹ پورے کرے، بلاول بھٹو زرداری کا اسمبلی میں اظہار خیال
KARACHI:
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر قومی اسمبلی پر پر الزام لگایا ہے کہ وہ دھاندلی نہ کرتے تو وزیراعظم کے پاس بجٹ منظوری کے لیے 172 ووٹ نہیں تھے۔
قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جس انداز سے بجٹ اجلاس کا آغاز ہوا یہ سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، حکومتی بینچوں سے قائد حزب اختلاف پر حملے کی کوشش کی گئی، گزشتہ روز بجٹ منظوری کے موقع پر بھی ایسی ہی صورتحال رہی، آپ نے ہم سے ووٹ کا حق چھینا، قوم کو پتا ہونا چاہیے تھا کہ عوام دشمن بجٹ کے کون مخالف ہیں اور کون حامی، آپ کرسی کی عزت برقرار رکھنے کے لیے غیر متنازع رہتے تو اچھا ہوتا، اسپیکر آپ دھاندلی نہ کرتے تو وزیراعظم کے پاس 172 ووٹ نہیں تھے، آپ نے پوری کوشش کی کہ حکومت 172 ووٹ پورے کرے۔ عامر ڈوگر کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ اسپیکر کی حمایت سے اپنے ارکان پورے کر گئے۔ آپ نے ہماری ترامیم کے سلسلے کو بھی غلط کنڈکٹ کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ فنانس بل کی حتمی منظوری پر ووٹنگ نہیں کرائی گئی، قانون نمبر 276 کے مطابق زبانی ووٹ پر اعتراض ہوتو اسپیکر کے لیے ضروری ہے کہ دوبارہ ووٹنگ کراتے، آخری وقت میں خود آپ کے ووٹ کو چیلنج کیا تھا،میرے مطالبے کے باوجود آپ نے ووٹنگ نہیں کرائی اور چلے گئے۔ آپ کے اس عمل سے بجٹ کی قانون حیثیت پر انگلی اٹھ گئی ہے، میرے والد آصف زرداری بیماری کے باوجود آخری وقت تک یہاں بیٹھے رہے،ہم بجٹ یا قانون سازی میں اپنا احتجاج نہیں کر سکتے تو یہ دھاندلی نہیں تو کیا ہے۔
ایوان روایات پر چلتا ہے اسپیکر کی مرضی پر نہیں
مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم بلاول بھٹو زرداری کی باتوں کی تائید کرتے ہیں، ہماری بدنصیبی ہے کہ 3 سال کے دوران ایوان کو نہ تو آئین اور نہ ہی پارلیمانی روایات کے مطابق چلایا گیا، کئی مرتبہ مل بیٹھ کر ایوان چلانے کے لئے معاملات طے کئے گئے عمل نہیں ہوا، قواعد و ضوابط کے مطابق جب بجٹ چیلنج ہو تو اس پر گنتی ضروری ہے، ایوان کے اراکین کو جعلی مقدمات پر جیلوں میں ڈالا گیا، ایوان روایات پر چلتا ہے اسپیکر کی مرضی پر نہیں، ایوان کیسے چلے گا اگر اسے روایات کے مطابق نہیں چلایا جائے گا، اگر اپوزیشن لیڈر تقریر نہیں کرسکتا تو قائد ایوان بھی نہیں کرسکتا۔
ڈکٹیٹ کرنے کی بات پر اسپیکر برہم
بلاول بھٹو زرداری اور شاہد خاقان عباسی کے بعد شاہ محمود قریشی جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اپوزشن نے خواجہ آصف کو بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر اپوزیشن کا احتجاج کیا اسعد محمود کو بات کرنے کی اجازت دینے کے مطالبے پر اسپیکر نے جے یو آئی ارکان سے مکالمہ کیا کہ مجھے ڈکٹیٹ نہ کریں، کسی میں جرات نہیں کہ مجھے ڈکٹیٹ کرے۔
کہاں بھاگ گیا آپ کا وزیر اعظم؟
ہم آپ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے ہیں لیکن حکومتی بینچوں پر موجود ارکان ڈکٹیٹ کرسکتے ہیں، ہم اپنا حق آپ سے چھین کر رہیں گے، ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ، بھیک نہیں مانگیں گے، آپ نے ان ایم این ایز کے خلاف بھی کارروائی کی جو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں تھے، آپ کے وزیر میز پر اچھل کر قائد حزب اختلاف کو نشانہ بنا رہے تھے ، کمیٹی بنا کر فیصلہ کیا جائے کہ ایوان کا ماحول خراب کرنے کا اصل مجرم کون تھا۔ اپ کہتے ہے کہاں بھاگ گیا بلاول، کہاں بھاگ گیا شاہد خاقان عباسی ، آپ ہمیں بتائیں کہاں بھاگ گیا آپ کا وزیر اعظم؟، آپ کا وزیراعظم تو ہر وقت بھاگتا ہے، مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم بھاگ گیا، مسئلہ ختم نبوت پر وزیراعظم بھاگ گیا ،آپ بھارت سے انکھوں میں انکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے تو ہمارے ساتھ کیسے کرسکتے ہیں؟َ۔
ہماری جگہ کوئی اور لے رہا ہے
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ جس طرح یہ ایوان چلاہے اس کی عزت میں کمی آئی ہے، ایوان میں سب سے بڑی ذمہ داری اسپیکر پر عائد ہوتی ہے، ہم باہر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں ، ایوان میں بھی اس پر عمل ہونا چاہیے، جب یہاں ہنگامہ ہوتا ہے تو 22 کروڑ عوام کےسر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اگر گزشتہ روز ووٹنگ ہو جاتی تو کیا حرج تھا؟ قانون سازی پر بہت سی کمیٹیاں بنائی گئیں،ان کا کیا بنا کسی کو کوئی پتہ نہیں۔ جو کچھ اسپیکر چیمبر میں طے ہوتا ہے اس پر عمل کروائیں، سیاستدانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہماری جگہ کوئی اور لے رہا ہے۔ آج شاہ محمود قریشی نے پہلے اپوزیشن کو بول لینے کا کہا، کاش حکومت پہلے ہی ایسا کرلیتی۔
عمران خان نہیں بولے گا تو بلاول اور شہباز بھی نہیں بولیں گے
اپوزیشن رہنماؤں کے خطاب کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسعد محمود نے کہا کہ اس بجٹ سے قوم خوش نہیں ہے، آپ کو کہنا چاہتا ہوں قوم کے 172 نمائندوں نے بجٹ کے حق میں ووٹ دیا، ووٹ کو بالکل عزت دینی چاہیے، اپوزیشن کی طرح حکومت والے بھی ووٹ لے کر آئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے رولز کی بات کی، رولز کے مطابق اسپیکر کی ذات پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، اسپیکر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر چیمبر میں جا کر بات ہوتی ہے، ایک سابق وزیر اعظم سب کے سامنے اسپیکر کو دھمکی دیتا ہے، سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو تقریر کرنے کا موقع نہ دیا، سندھ کا وزیر خزانہ بجٹ بحث سمیٹے بغیر چلا گیا، کیا سندھ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن سے ہے، یہ آئینہ دکھاتے ہیں دیکھتے نہیں ہیں۔ شورشرابےاورغل غپاڑے سے ہمیں دبایا نہیں جاسکتا،اگر عمران خان نہیں بولے گا تو بلاول اور شہباز بھی نہیں بولیں گے
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پر بات کی گئی، وزارت خارجہ کے دفتر میں تمام اپوزیشن کی پارٹیوں کو بلایا گیا، کل قومی سلامتی کا اجلاس بلایا ہے اور سب کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر قومی اسمبلی پر پر الزام لگایا ہے کہ وہ دھاندلی نہ کرتے تو وزیراعظم کے پاس بجٹ منظوری کے لیے 172 ووٹ نہیں تھے۔
قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جس انداز سے بجٹ اجلاس کا آغاز ہوا یہ سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہے، حکومتی بینچوں سے قائد حزب اختلاف پر حملے کی کوشش کی گئی، گزشتہ روز بجٹ منظوری کے موقع پر بھی ایسی ہی صورتحال رہی، آپ نے ہم سے ووٹ کا حق چھینا، قوم کو پتا ہونا چاہیے تھا کہ عوام دشمن بجٹ کے کون مخالف ہیں اور کون حامی، آپ کرسی کی عزت برقرار رکھنے کے لیے غیر متنازع رہتے تو اچھا ہوتا، اسپیکر آپ دھاندلی نہ کرتے تو وزیراعظم کے پاس 172 ووٹ نہیں تھے، آپ نے پوری کوشش کی کہ حکومت 172 ووٹ پورے کرے۔ عامر ڈوگر کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ اسپیکر کی حمایت سے اپنے ارکان پورے کر گئے۔ آپ نے ہماری ترامیم کے سلسلے کو بھی غلط کنڈکٹ کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ فنانس بل کی حتمی منظوری پر ووٹنگ نہیں کرائی گئی، قانون نمبر 276 کے مطابق زبانی ووٹ پر اعتراض ہوتو اسپیکر کے لیے ضروری ہے کہ دوبارہ ووٹنگ کراتے، آخری وقت میں خود آپ کے ووٹ کو چیلنج کیا تھا،میرے مطالبے کے باوجود آپ نے ووٹنگ نہیں کرائی اور چلے گئے۔ آپ کے اس عمل سے بجٹ کی قانون حیثیت پر انگلی اٹھ گئی ہے، میرے والد آصف زرداری بیماری کے باوجود آخری وقت تک یہاں بیٹھے رہے،ہم بجٹ یا قانون سازی میں اپنا احتجاج نہیں کر سکتے تو یہ دھاندلی نہیں تو کیا ہے۔
ایوان روایات پر چلتا ہے اسپیکر کی مرضی پر نہیں
مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم بلاول بھٹو زرداری کی باتوں کی تائید کرتے ہیں، ہماری بدنصیبی ہے کہ 3 سال کے دوران ایوان کو نہ تو آئین اور نہ ہی پارلیمانی روایات کے مطابق چلایا گیا، کئی مرتبہ مل بیٹھ کر ایوان چلانے کے لئے معاملات طے کئے گئے عمل نہیں ہوا، قواعد و ضوابط کے مطابق جب بجٹ چیلنج ہو تو اس پر گنتی ضروری ہے، ایوان کے اراکین کو جعلی مقدمات پر جیلوں میں ڈالا گیا، ایوان روایات پر چلتا ہے اسپیکر کی مرضی پر نہیں، ایوان کیسے چلے گا اگر اسے روایات کے مطابق نہیں چلایا جائے گا، اگر اپوزیشن لیڈر تقریر نہیں کرسکتا تو قائد ایوان بھی نہیں کرسکتا۔
ڈکٹیٹ کرنے کی بات پر اسپیکر برہم
بلاول بھٹو زرداری اور شاہد خاقان عباسی کے بعد شاہ محمود قریشی جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اپوزشن نے خواجہ آصف کو بات کرنے کی اجازت نہ دینے پر اپوزیشن کا احتجاج کیا اسعد محمود کو بات کرنے کی اجازت دینے کے مطالبے پر اسپیکر نے جے یو آئی ارکان سے مکالمہ کیا کہ مجھے ڈکٹیٹ نہ کریں، کسی میں جرات نہیں کہ مجھے ڈکٹیٹ کرے۔
کہاں بھاگ گیا آپ کا وزیر اعظم؟
ہم آپ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے ہیں لیکن حکومتی بینچوں پر موجود ارکان ڈکٹیٹ کرسکتے ہیں، ہم اپنا حق آپ سے چھین کر رہیں گے، ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے ، بھیک نہیں مانگیں گے، آپ نے ان ایم این ایز کے خلاف بھی کارروائی کی جو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں تھے، آپ کے وزیر میز پر اچھل کر قائد حزب اختلاف کو نشانہ بنا رہے تھے ، کمیٹی بنا کر فیصلہ کیا جائے کہ ایوان کا ماحول خراب کرنے کا اصل مجرم کون تھا۔ اپ کہتے ہے کہاں بھاگ گیا بلاول، کہاں بھاگ گیا شاہد خاقان عباسی ، آپ ہمیں بتائیں کہاں بھاگ گیا آپ کا وزیر اعظم؟، آپ کا وزیراعظم تو ہر وقت بھاگتا ہے، مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم بھاگ گیا، مسئلہ ختم نبوت پر وزیراعظم بھاگ گیا ،آپ بھارت سے انکھوں میں انکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے تو ہمارے ساتھ کیسے کرسکتے ہیں؟َ۔
ہماری جگہ کوئی اور لے رہا ہے
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ جس طرح یہ ایوان چلاہے اس کی عزت میں کمی آئی ہے، ایوان میں سب سے بڑی ذمہ داری اسپیکر پر عائد ہوتی ہے، ہم باہر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہیں ، ایوان میں بھی اس پر عمل ہونا چاہیے، جب یہاں ہنگامہ ہوتا ہے تو 22 کروڑ عوام کےسر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اگر گزشتہ روز ووٹنگ ہو جاتی تو کیا حرج تھا؟ قانون سازی پر بہت سی کمیٹیاں بنائی گئیں،ان کا کیا بنا کسی کو کوئی پتہ نہیں۔ جو کچھ اسپیکر چیمبر میں طے ہوتا ہے اس پر عمل کروائیں، سیاستدانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہماری جگہ کوئی اور لے رہا ہے۔ آج شاہ محمود قریشی نے پہلے اپوزیشن کو بول لینے کا کہا، کاش حکومت پہلے ہی ایسا کرلیتی۔
عمران خان نہیں بولے گا تو بلاول اور شہباز بھی نہیں بولیں گے
اپوزیشن رہنماؤں کے خطاب کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسعد محمود نے کہا کہ اس بجٹ سے قوم خوش نہیں ہے، آپ کو کہنا چاہتا ہوں قوم کے 172 نمائندوں نے بجٹ کے حق میں ووٹ دیا، ووٹ کو بالکل عزت دینی چاہیے، اپوزیشن کی طرح حکومت والے بھی ووٹ لے کر آئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے رولز کی بات کی، رولز کے مطابق اسپیکر کی ذات پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، اسپیکر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر چیمبر میں جا کر بات ہوتی ہے، ایک سابق وزیر اعظم سب کے سامنے اسپیکر کو دھمکی دیتا ہے، سندھ میں اپوزیشن لیڈر کو تقریر کرنے کا موقع نہ دیا، سندھ کا وزیر خزانہ بجٹ بحث سمیٹے بغیر چلا گیا، کیا سندھ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن سے ہے، یہ آئینہ دکھاتے ہیں دیکھتے نہیں ہیں۔ شورشرابےاورغل غپاڑے سے ہمیں دبایا نہیں جاسکتا،اگر عمران خان نہیں بولے گا تو بلاول اور شہباز بھی نہیں بولیں گے
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پر بات کی گئی، وزارت خارجہ کے دفتر میں تمام اپوزیشن کی پارٹیوں کو بلایا گیا، کل قومی سلامتی کا اجلاس بلایا ہے اور سب کو اعتماد میں لیا جائے گا۔