خورشید شاہد اور اللہ دِتّا لُونے والا
جانے والوں کے رشتے دار اور عزیز دوست بھی حقیقت کو جاننے کے باوجود اُس سے انکار کی کیفیت میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
PESHAWAR:
گزشتہ ہفتے میں ایک ہی دن کے فرق سے ہماری (غالباً) سینئر ترین اداکارہ خورشید شاہد اور لوک موسیقی کا ایک بہت بڑا نام اللہ دتا لُونے والا آگے پیچھے اُس سفر پر روانہ ہوگئے ہیں جس پر جانا تو ہر ذِی رُوح نے ہے مگر اسے کوئی بھی دل سے اور آسانی سے قبول نہیں کرتا۔
جانے والوں کے رشتے دار اور عزیز دوست بھی حقیقت کو جاننے کے باوجود اُس سے انکار کی کیفیت میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور بعض اوقات بہت دیر تک اسی میں مبتلا رہتے ہیں جب کہ اُن کو کسی نہ کسی حوالے سے جاننے والوں میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کو مرحومین کی پہلی برسی کی تاریخ بھی یاد رہتی ہو البتہ پریس، کیمرے اور ٹیپ ریکارڈر کی ایجاد کے بعد صُورتِ حال کچھ کچھ بدلی ہے کہ اب فنکار اپنی جسمانی موت کے بعد بھی اپنی فن کے حوالے سے دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
خورشید شاہد اور اللہ دتہ لُونے والا اگرچہ فن کے اعتبار سے بظاہر دو مختلف میدانوں سے تعلق رکھتے تھے کہ مرحومہ خورشید شاہد کو دنیا ریڈیو ، فلم اور بالخصوص ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے جانتی ہے جب کہ اللہ دتہ لُونے والا کی وجہ شہرت اُن کا لوک گائک ہونا تھا مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ مرحومہ خورشید شاہد کا بھی موسیقی سے گہرا تعلق رہا ہے اور وہ عظیم کلاسیکی موسیقار روشن آرا بیگم کے ساتھ تانپورے پر سنگت بھی کیا کرتی تھیں۔
گزشتہ چند برسوں سے علالت اور بڑھاپے کے باعث انھوں نے کیمرے کے سامنے آنا چھوڑ دیا تھا مگر جن لوگوں نے ستر، اّسی اور نوّے کی دہائیوں کا ٹی وی ڈرامہ دیکھا ہے اُن کے ذہنوں میں آج بھی اُن کے کیے ہوئے بہت سے کردار زندہ ہیں، خود مجھے ذاتی طور پر یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انھوں نے کچھ سیریلز کے علاوہ میرے کچھ انفرادی ڈراموں میں بھی پرفارم کیا ہے اپنے فن کے ساتھ اُن کا لگاؤ اور کمٹ منٹ ہمارے آج کے نوجوان فن کاروں کے لیے یقیناً ایک قیمتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، اپنے رول کو سمجھنے کے لیے جستجو، اسے ادا کرنے میں محنت اور ذمے داری اور وقت کی پابندی ایسی خوبیاں تھیں جنھیں مثالی کہا جاسکتاہے۔
مجھے یاد ہے اَسّی کی دہائی میں میرے ایک انفرادی کھیل کی ریکارڈنگ کے لیے شدید گرمی میں ایک ویرانہ نما جگہ پرانھیں ایک ایسی مظلوم ماں کا کردار کرنا تھا جو اپنے بچے کی تلاش میں سر گرداں ہے اور پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ کئی دن کے فاقے سے ہے۔
شوٹنگ جلو کے قریب ایک میدان میں ہورہی تھی شدید گرمی اور حبس کے باوجود انھوں نے ائیر کنڈیشنڈ لوبی وین میں یہ کہہ کر بیٹھنے سے انکار کردیا کہ اس رول میں اُن سے جس قسم کی مظلومیت کی توقع ہے اُس کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اس تکلیف کو عملی طور پر جھیلیں۔ نوجوان نسل شائد انھیں اُن کے باکمال بیٹے اور غیر معمولی فن کار سلمان شاہد کی ماں ہونے کے حوالے سے زیادہ جانتی تھی مگر یہ بات شائد کم لوگوں کے علم میں ہو کہ سلمان کے والد نے جو ایک ریڈیو پروڈیوسر تھے خورشید شاہد سے شادی کے لیے اپنا آبائی ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوگئے تھے اور سلیم شاہد کے نام سے BBC ریڈیو کے ساتھ وابستہ رہ کر بہت نام کمایا ، بدقسمتی سے یہ شادی بوجوہ زیادہ دیر نہ چل سکی ۔
وہ ایک بے حد مہذب اور باوقار خاتون تھیں، اُن کے اعترافِ فن کے لیے حکومت نے انھیں تمغہ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔ اشفاق صاحب کے ایک شاندار کھیل فہمیدہ کی کہانی اُستانی راحت کی زبانی میں اُن کی پرفارمنس کو بے حد سراہا گیا انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ ہال روڈ لاہور سے منسلک ایک ایسے احاطے میں گزارا جس کے مکینوں میں منٹو صاحب ، ملک معراج خالد اور مستنصر حسین تارڑ بھی شامل ہیں۔
اللہ دِتا لُونے والا کا تعلق عالم لوہار ، طفیل نیازی اور عنایت حسین بھٹی سے کچھ دیر بعد اُبھرنے والی فوک گلوکاروں کی اُس نسل سے تھا جس میں ریشماں، اقبال باہو، شوکت علی اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے بھی اپنے اپنے کمال فن کے جوہر دکھائے اگرچہ یہ سب لوگ اپنے اپنے مخصوص انداز کے حوالے سے نمایاں اور مقبول ہوئے مگر اللہ دتہ لُونے والا کا کمال یہ ہے کہ اُس نے پنجابی فوک سے باہر کچھ دیکھنے اور گانے کی کوشش ہی نہیں کی۔
برادرم ڈاکٹر عمر عادل کے گھر مجھے اُس کے بہت ہونہار بیٹے ندیم عباس کو تو سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا ہے مگر اللہ دِتا لُونے والا سے یہ واسطہ اُس کی ریکارڈنگز تک ہی محدود رہا۔میں موسیقی کے بارے میں زیادہ جانکاری کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں ہوں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ لوک گیت صرف گلے سے نہیں بلکہ پورے وجود سے گایا جاتاہے اور اس میں لگائی جانے والی تانیں کبھی کبھی راگوں کی شکلیں بھی بدل دیتی ہیں لیکن یہ کام ہماشما کے بس کا نہیں ہوتا اس کے لیے اللہ دِتا لُونے والا جیسے ریاض اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے بلاشبہ وہ اپنے گیتوں میں تب بھی زندہ رہے گا جب ہم نہیں ہوں گے ۔
گزشتہ ہفتے میں ایک ہی دن کے فرق سے ہماری (غالباً) سینئر ترین اداکارہ خورشید شاہد اور لوک موسیقی کا ایک بہت بڑا نام اللہ دتا لُونے والا آگے پیچھے اُس سفر پر روانہ ہوگئے ہیں جس پر جانا تو ہر ذِی رُوح نے ہے مگر اسے کوئی بھی دل سے اور آسانی سے قبول نہیں کرتا۔
جانے والوں کے رشتے دار اور عزیز دوست بھی حقیقت کو جاننے کے باوجود اُس سے انکار کی کیفیت میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور بعض اوقات بہت دیر تک اسی میں مبتلا رہتے ہیں جب کہ اُن کو کسی نہ کسی حوالے سے جاننے والوں میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کو مرحومین کی پہلی برسی کی تاریخ بھی یاد رہتی ہو البتہ پریس، کیمرے اور ٹیپ ریکارڈر کی ایجاد کے بعد صُورتِ حال کچھ کچھ بدلی ہے کہ اب فنکار اپنی جسمانی موت کے بعد بھی اپنی فن کے حوالے سے دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
خورشید شاہد اور اللہ دتہ لُونے والا اگرچہ فن کے اعتبار سے بظاہر دو مختلف میدانوں سے تعلق رکھتے تھے کہ مرحومہ خورشید شاہد کو دنیا ریڈیو ، فلم اور بالخصوص ٹی وی ڈرامے کے حوالے سے جانتی ہے جب کہ اللہ دتہ لُونے والا کی وجہ شہرت اُن کا لوک گائک ہونا تھا مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ مرحومہ خورشید شاہد کا بھی موسیقی سے گہرا تعلق رہا ہے اور وہ عظیم کلاسیکی موسیقار روشن آرا بیگم کے ساتھ تانپورے پر سنگت بھی کیا کرتی تھیں۔
گزشتہ چند برسوں سے علالت اور بڑھاپے کے باعث انھوں نے کیمرے کے سامنے آنا چھوڑ دیا تھا مگر جن لوگوں نے ستر، اّسی اور نوّے کی دہائیوں کا ٹی وی ڈرامہ دیکھا ہے اُن کے ذہنوں میں آج بھی اُن کے کیے ہوئے بہت سے کردار زندہ ہیں، خود مجھے ذاتی طور پر یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انھوں نے کچھ سیریلز کے علاوہ میرے کچھ انفرادی ڈراموں میں بھی پرفارم کیا ہے اپنے فن کے ساتھ اُن کا لگاؤ اور کمٹ منٹ ہمارے آج کے نوجوان فن کاروں کے لیے یقیناً ایک قیمتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے، اپنے رول کو سمجھنے کے لیے جستجو، اسے ادا کرنے میں محنت اور ذمے داری اور وقت کی پابندی ایسی خوبیاں تھیں جنھیں مثالی کہا جاسکتاہے۔
مجھے یاد ہے اَسّی کی دہائی میں میرے ایک انفرادی کھیل کی ریکارڈنگ کے لیے شدید گرمی میں ایک ویرانہ نما جگہ پرانھیں ایک ایسی مظلوم ماں کا کردار کرنا تھا جو اپنے بچے کی تلاش میں سر گرداں ہے اور پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ کئی دن کے فاقے سے ہے۔
شوٹنگ جلو کے قریب ایک میدان میں ہورہی تھی شدید گرمی اور حبس کے باوجود انھوں نے ائیر کنڈیشنڈ لوبی وین میں یہ کہہ کر بیٹھنے سے انکار کردیا کہ اس رول میں اُن سے جس قسم کی مظلومیت کی توقع ہے اُس کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اس تکلیف کو عملی طور پر جھیلیں۔ نوجوان نسل شائد انھیں اُن کے باکمال بیٹے اور غیر معمولی فن کار سلمان شاہد کی ماں ہونے کے حوالے سے زیادہ جانتی تھی مگر یہ بات شائد کم لوگوں کے علم میں ہو کہ سلمان کے والد نے جو ایک ریڈیو پروڈیوسر تھے خورشید شاہد سے شادی کے لیے اپنا آبائی ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوگئے تھے اور سلیم شاہد کے نام سے BBC ریڈیو کے ساتھ وابستہ رہ کر بہت نام کمایا ، بدقسمتی سے یہ شادی بوجوہ زیادہ دیر نہ چل سکی ۔
وہ ایک بے حد مہذب اور باوقار خاتون تھیں، اُن کے اعترافِ فن کے لیے حکومت نے انھیں تمغہ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا۔ اشفاق صاحب کے ایک شاندار کھیل فہمیدہ کی کہانی اُستانی راحت کی زبانی میں اُن کی پرفارمنس کو بے حد سراہا گیا انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ ہال روڈ لاہور سے منسلک ایک ایسے احاطے میں گزارا جس کے مکینوں میں منٹو صاحب ، ملک معراج خالد اور مستنصر حسین تارڑ بھی شامل ہیں۔
اللہ دِتا لُونے والا کا تعلق عالم لوہار ، طفیل نیازی اور عنایت حسین بھٹی سے کچھ دیر بعد اُبھرنے والی فوک گلوکاروں کی اُس نسل سے تھا جس میں ریشماں، اقبال باہو، شوکت علی اور عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے بھی اپنے اپنے کمال فن کے جوہر دکھائے اگرچہ یہ سب لوگ اپنے اپنے مخصوص انداز کے حوالے سے نمایاں اور مقبول ہوئے مگر اللہ دتہ لُونے والا کا کمال یہ ہے کہ اُس نے پنجابی فوک سے باہر کچھ دیکھنے اور گانے کی کوشش ہی نہیں کی۔
برادرم ڈاکٹر عمر عادل کے گھر مجھے اُس کے بہت ہونہار بیٹے ندیم عباس کو تو سامنے بیٹھ کر سننے کا موقع ملا ہے مگر اللہ دِتا لُونے والا سے یہ واسطہ اُس کی ریکارڈنگز تک ہی محدود رہا۔میں موسیقی کے بارے میں زیادہ جانکاری کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں تو نہیں ہوں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ لوک گیت صرف گلے سے نہیں بلکہ پورے وجود سے گایا جاتاہے اور اس میں لگائی جانے والی تانیں کبھی کبھی راگوں کی شکلیں بھی بدل دیتی ہیں لیکن یہ کام ہماشما کے بس کا نہیں ہوتا اس کے لیے اللہ دِتا لُونے والا جیسے ریاض اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے بلاشبہ وہ اپنے گیتوں میں تب بھی زندہ رہے گا جب ہم نہیں ہوں گے ۔