پاکستان میں امیراور غریب کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے اوکسم
دولت، وسائل اور اقتدار پر ایلیٹ قابض ہیں،سماجی بے چینی پیدا ہوسکتی ہے.
RAWALPINDI:
دنیاکے زیادہ ترممالک میں انتہائی امیرافراد اور اربوں لوگوں کے درمیان خلیج تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔
امریکی تنظیم اوکسم کے تجزیے کے مطابق دنیا کی دولت 2حصوں میںتقسیم ہوچکی ہے۔ صرف ایک فیصدلوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی آدھی دنیاکو میسرہے۔ 85ارب پتی افرادکے پاس دولت کے اتنے ذخائر(1.7کھرب ڈالر) ہیںجتنے ساڑھے 3ارب لوگوں کے پاس ہیں۔ تنظیم کے مطابق انتہائی امیرافراد اوراربوں لوگوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے مہلک اثر سے سماجی بے چینی جنم لے سکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں بھی دولت، وسائل اوراقتدار پرایلیٹ قابض ہیں جس کے نتیجے میںامیر اورغریب میںخلیج روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر امیرتر اورغریب غریب ترہوتا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت امراکی ہے جو قانون سازی میں اپنے مخصوص مفادات مدنظر رکھتے ہیں۔ انھیں ریاست یاغریب عوام کی کوئی پروانہیں۔ پاکستان میں آمدنی پر ٹیکسوں سے بچنے کا یہ حال ہے کہ کم از کم ایک کروڑ افراد کی آمدن قابل ٹیکس ہے تاہم صرف 25لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی مجموعی قومی پیداوار پر ٹیکس کی شرح نہایت کم ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، سیرالیون جیسے ملک سے بھی پیچھے ہے۔ اس کے باوجود کہ ہر پارلیمنٹیرین کے پاس اوسطاً اثاثہ جات 9لاکھ ڈالرمالیت کے ہیں۔ (امیرترین پارلیمنٹیرین کے پاس 37 ملین ڈالرکے اثاثے ہیں۔) چندایک ارکان پارلیمنٹ ہی ٹیکس اداکرتے ہیں۔
2010کی ایک رپورٹ کے مطابق سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیون کے 61 فیصد ارکان ٹیکس نہیں دیتے تھے جن میںخود (اس وقت کے)وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور وزیرخزانہ عبدالحفیظ سمیت ان کی کابینہ کے 25 وزرابھی شامل تھے۔ پارلیمنٹ ٹیکسیشن کے حوالے سے ایسی قانون سازی کرتی ہے اور اس میں ایسے سقم چھوڑ دیتی ہے جس سے لوگوں کو قانونی طورپر ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر 1990میں ایسا قانون بنایا گیا کہ باہرسے آنے والی دولت سے متعلق سوال پوچھا ہی نہیں جا سکتا تھا حتیٰ کہ دولت کے حصول بارے بھی سوال نہیں ہو سکتاتھا۔ اس قانون کی آڑ میں دبئی سے اربوں روپے پاکستان منتقل کئے گئے۔
پارلیمنٹ میں اکثریت زمینداروں اور جاگیرداروں کی ہے جو زرعی ٹیکس نہیں لگنے دے رہے۔ دوسری طرف غریب اور مڈل کلاس پاکستانی جن پر انکم ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا وہ اشیائے صرف پر سیلزٹیکس کی صورت میں بھاری ٹیکس دینے پر مجبور ہیں، ایک سابق ٹیکس ایڈمنسٹریٹر ریاض نقوی کا کہنا ہے کہ یہاںکا ٹیکس سسٹم، ایلیٹ نے ایلیٹ کے لیے ہی بنایاہے۔ اس سسٹم کے تحت غریب آدمی، امیرآدمی کوسبسڈی دے رہاہے۔ حقیقی ٹیکس بیس کی عدم موجودگی میں حکومت غیرملکی امداد اور قرضوں کے لیے کشکول پکڑنے پرمجبور ہے۔ ملکی ٹیکس ریونیو میں کمی کے باعث حکومت، تعلیم، صحت اورانفرااسٹرکچرجیسی بنیادی سہولتوںمیں مناسب سرمایہ کاری کرنے سے قاصرہے۔ ملک میںایک مضبوط مڈل کلاس وجودمیں نہیںآ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ امرااور غرباکے درمیان معاشی اورسیاسی خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
دنیاکے زیادہ ترممالک میں انتہائی امیرافراد اور اربوں لوگوں کے درمیان خلیج تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔
امریکی تنظیم اوکسم کے تجزیے کے مطابق دنیا کی دولت 2حصوں میںتقسیم ہوچکی ہے۔ صرف ایک فیصدلوگوں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی آدھی دنیاکو میسرہے۔ 85ارب پتی افرادکے پاس دولت کے اتنے ذخائر(1.7کھرب ڈالر) ہیںجتنے ساڑھے 3ارب لوگوں کے پاس ہیں۔ تنظیم کے مطابق انتہائی امیرافراد اوراربوں لوگوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے مہلک اثر سے سماجی بے چینی جنم لے سکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں بھی دولت، وسائل اوراقتدار پرایلیٹ قابض ہیں جس کے نتیجے میںامیر اورغریب میںخلیج روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر امیرتر اورغریب غریب ترہوتا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت امراکی ہے جو قانون سازی میں اپنے مخصوص مفادات مدنظر رکھتے ہیں۔ انھیں ریاست یاغریب عوام کی کوئی پروانہیں۔ پاکستان میں آمدنی پر ٹیکسوں سے بچنے کا یہ حال ہے کہ کم از کم ایک کروڑ افراد کی آمدن قابل ٹیکس ہے تاہم صرف 25لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کی مجموعی قومی پیداوار پر ٹیکس کی شرح نہایت کم ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، سیرالیون جیسے ملک سے بھی پیچھے ہے۔ اس کے باوجود کہ ہر پارلیمنٹیرین کے پاس اوسطاً اثاثہ جات 9لاکھ ڈالرمالیت کے ہیں۔ (امیرترین پارلیمنٹیرین کے پاس 37 ملین ڈالرکے اثاثے ہیں۔) چندایک ارکان پارلیمنٹ ہی ٹیکس اداکرتے ہیں۔
2010کی ایک رپورٹ کے مطابق سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیون کے 61 فیصد ارکان ٹیکس نہیں دیتے تھے جن میںخود (اس وقت کے)وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور وزیرخزانہ عبدالحفیظ سمیت ان کی کابینہ کے 25 وزرابھی شامل تھے۔ پارلیمنٹ ٹیکسیشن کے حوالے سے ایسی قانون سازی کرتی ہے اور اس میں ایسے سقم چھوڑ دیتی ہے جس سے لوگوں کو قانونی طورپر ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طورپر 1990میں ایسا قانون بنایا گیا کہ باہرسے آنے والی دولت سے متعلق سوال پوچھا ہی نہیں جا سکتا تھا حتیٰ کہ دولت کے حصول بارے بھی سوال نہیں ہو سکتاتھا۔ اس قانون کی آڑ میں دبئی سے اربوں روپے پاکستان منتقل کئے گئے۔
پارلیمنٹ میں اکثریت زمینداروں اور جاگیرداروں کی ہے جو زرعی ٹیکس نہیں لگنے دے رہے۔ دوسری طرف غریب اور مڈل کلاس پاکستانی جن پر انکم ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا وہ اشیائے صرف پر سیلزٹیکس کی صورت میں بھاری ٹیکس دینے پر مجبور ہیں، ایک سابق ٹیکس ایڈمنسٹریٹر ریاض نقوی کا کہنا ہے کہ یہاںکا ٹیکس سسٹم، ایلیٹ نے ایلیٹ کے لیے ہی بنایاہے۔ اس سسٹم کے تحت غریب آدمی، امیرآدمی کوسبسڈی دے رہاہے۔ حقیقی ٹیکس بیس کی عدم موجودگی میں حکومت غیرملکی امداد اور قرضوں کے لیے کشکول پکڑنے پرمجبور ہے۔ ملکی ٹیکس ریونیو میں کمی کے باعث حکومت، تعلیم، صحت اورانفرااسٹرکچرجیسی بنیادی سہولتوںمیں مناسب سرمایہ کاری کرنے سے قاصرہے۔ ملک میںایک مضبوط مڈل کلاس وجودمیں نہیںآ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ امرااور غرباکے درمیان معاشی اورسیاسی خلیج دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔