مذاہب عالم میں تصوّرِ قربانی
’’اﷲ کو نہ تو ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
مذاہبِ عالم میں چند باتیں مشترک رہی ہیں۔ مثال کے طور پر تصورِ خدا، نجات دہندہ، دعا اور اپنے خالق کی خوش نودی کے لیے قربانی کا تصور۔ ان میں عملًا دعا اور قربانی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان امور کے سرانجام دینے کے طریقۂ کار اور چناؤ میں اختلاف رہا ہے۔ لیکن مقاصد اور نتائج میں سب متفق ہیں۔ یعنی اپنے خالق و مالک اور نجات دہندہ و دیوتا کا قرب حاصل کرنا۔
اسلام بھی قربانی کا تصور پیش کرتا ہے۔ لیکن اسلام کا تصورِ قربانی سب سے جدا ہے۔ اسلام مال، جان اور خاندان ہر چیز کی قربانی دینے کا درس دیتا ہے۔ لیکن ایسے کہ کسی کے حقوق ضایع نہ ہوں۔ ہمارے آج کے موضوع میں مروجہ قربانی سے مراد مخصوص ایام میں مخصوص جانوروں کا ذبح کرنا ہے۔ اسلام میں اس کے لیے نسک، نحر، ہدی، قلائد، بہیمۃ الانعام ، بدنہ اور قربانی جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
جب کہ دیگر مذاہب میں اسے قربان، بھینٹ، بلوٹان، تھوسیا ، یگیا اور قوربانیا جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ عام طور پر قربانی کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے جانوروں اور مال کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ ادوار میں بعض آدم خور وحشی قبائل اور دیگر مذاہب میں انسانوں کو بھی دیوتا کے چرنوں میں بھینٹ کے طور پر چڑھا دیا جاتا تھا۔
اسلام میں مخصوص ایام میں عمدہ جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد رضائے الہی کا حصول، گناہوں کی معافی، سنت ابراہیمؑ کی پیروی اور حکم خداوندی کی تکمیل ہے۔ جب کہ دیگر مذاہب میں محض دنیاوی امور کے حصول، دیوتاؤں کی خوش نودی اور موسموں میں تبدیلی کے لیے قربانی کی جاتی ہے۔
قبل از سلام مصری دریائے نیل کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ہر سال ایک خوب صورت اور کنواری دوشیزہ کی قربانی دیتے تھے۔ جسے زیورات وغیرہ سے سجا سنوار کر دریا کے عین وسط میں چھوڑ دیا جاتا، جس کے بعد دریائے نیل رواں ہوجاتا۔
اسی طرح افریقا، جنوبی امریکا، انڈونیشیا، جرمنی اور سکینڈے نیویا کے بعض قبائل اپنے دیوتاؤں کے غضب سے بچنے، ان کی خوش نودی حاصل کرنے، کسی نئی عمارت، پُل یا بادشاہ کی موت، یا ناگہانی آفت کے وقت انسانوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق قدیم یونانی بھی انسانی قربانی کے قائل تھے جس کی تصدیق ان ہڈیوں سے ہوتی ہے جنہیں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کھدائی کے دوران برآمد کیا ہے۔
ایتھنز کے باشی قربانی کے لیے باربرداری میں جوتے جانے والے بیل کا انتخاب کرتے۔ قدیم ایرانیوں کے ہاں بھی قربانی کا تصور موجود تھا۔ چناں چہ وہ ''بہار گاؤ'' کے موقع پر ''اہور امزدا '' یعنی آگ، مٹی، ہوا اور پانی کی بقاء کے لیے قربانی کیا کرتے۔ البتہ قربانی کے طریقۂ کار میں اختلاف ہوتا تھا۔ کوئی پورے جانور کو آگ لگا دیتا تو کوئی جانور کی صرف دُم کو جلاتا اور کوئی اپنے جانور کو لق و دق صحرا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔
مشرکین مکہ بھی قربانی کے قائل تھے اور گاہے بہ گاہے اپنے جانور خانۂ کعبہ کی بھینٹ چڑھایا کرتے۔ ان کے نام بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ نذر کے جانور بھی قربان کرتے۔ منٰی میں قربانی کا بندوبست کیا جاتا جس میں سیکڑوں جانور ذبح کیے جاتے۔ مشرکین مکہ کے ہاں بھی انسانی جان کی قربانی کا تصور پایا جاتا تھا۔
یہود بھی قربانی کے قائل تھے۔ جب انہیں اپنے پیغمبروں کی جانب سے قربانی کا حکم ہوتا تو آبادی سے باہر اپنے جانور کو پہاڑ یا کسی اونچی جگہ پر جا کر چھوڑ دیتے۔ تھوڑی دیر میں آسمان سے آگ اترتی جو اس جانور کو جلا کر راکھ کر دیتی۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ ان کی قربانی قبول کر لی گئی ہے۔
دنیا کے سب سے پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں قابیل اور ہابیل میں کسی بات پر جھگڑا ہوا تو اﷲ تعالی نے دونوں سے قربانی مانگی۔ دونوں نے اپنی قربانی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دی۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی اور جانور کو آگ کھا گئی جب کہ قابیل کی قربانی قبول نہ ہوسکی۔
مسلمان عیدالاضحی کے مخصوص ایام میں اپنے جانوروں کی قربانی محض رضائے الہی کے لیے کرتے ہیں۔ اس کا کوئی دنیاوی مقصد نہیں ہوتا۔ بل کہ یہ عمل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔ نیز اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ اے اﷲ! تُونے ہم سے ہمارے جانوروں کی جان اور خون مانگے ہیں۔ ہم بہ خوشی دینے کے لیے تیار ہیں۔ صرف یہی نہیں، اگر تو ہم سے ہماری جان، ہمارا خون مانگے گا تو ہم اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
حکم الہی کے مطابق مسلمان اپنے مخصوص جانوروں (اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور دنبہ) کو ذبح کرتے اور اس کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک حصہ اپنے لیے، ایک رشتے داروں اور احباب کے لیے اور ایک حصہ غرباء و مساکین کے لیے۔ اس طرح قربانی کے فوائد نچلے طبقات تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا جنہیں سارا سال گوشت نصیب نہیں ہوتا، انہیں بھی عید قربان پر باسہولت مل جاتا ہے۔
اﷲ تعالی کے فرمان کا مفہوم: ''اﷲ کو نہ تو ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنادیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اﷲ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوش خبری سنا دو۔''
اب دیکھنا یہ ہے کہ دورِ حاضر کے ہم واقعی رضائے الہی کے لیے شریعت کے اصولوں کے عین مطابق قربانی کرتے ہیں کہ جس سے معاشرے میں اس کے ثمرات نظر آئیں یا ہم بھی گزشتہ مذاہب کی طرح محض رسم ہی نبھانا چاہتے ہیں؟
اﷲ تعالی ہمیں اپنے حکم جس پر ہمارے راہ بر و راہ نما اور اﷲ کے پیغمبر آخر جناب نبی کریم ﷺ نے عمل کرکے دکھایا، قربانی کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین
اسلام بھی قربانی کا تصور پیش کرتا ہے۔ لیکن اسلام کا تصورِ قربانی سب سے جدا ہے۔ اسلام مال، جان اور خاندان ہر چیز کی قربانی دینے کا درس دیتا ہے۔ لیکن ایسے کہ کسی کے حقوق ضایع نہ ہوں۔ ہمارے آج کے موضوع میں مروجہ قربانی سے مراد مخصوص ایام میں مخصوص جانوروں کا ذبح کرنا ہے۔ اسلام میں اس کے لیے نسک، نحر، ہدی، قلائد، بہیمۃ الانعام ، بدنہ اور قربانی جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
جب کہ دیگر مذاہب میں اسے قربان، بھینٹ، بلوٹان، تھوسیا ، یگیا اور قوربانیا جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ عام طور پر قربانی کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے جانوروں اور مال کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ ادوار میں بعض آدم خور وحشی قبائل اور دیگر مذاہب میں انسانوں کو بھی دیوتا کے چرنوں میں بھینٹ کے طور پر چڑھا دیا جاتا تھا۔
اسلام میں مخصوص ایام میں عمدہ جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد رضائے الہی کا حصول، گناہوں کی معافی، سنت ابراہیمؑ کی پیروی اور حکم خداوندی کی تکمیل ہے۔ جب کہ دیگر مذاہب میں محض دنیاوی امور کے حصول، دیوتاؤں کی خوش نودی اور موسموں میں تبدیلی کے لیے قربانی کی جاتی ہے۔
قبل از سلام مصری دریائے نیل کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ہر سال ایک خوب صورت اور کنواری دوشیزہ کی قربانی دیتے تھے۔ جسے زیورات وغیرہ سے سجا سنوار کر دریا کے عین وسط میں چھوڑ دیا جاتا، جس کے بعد دریائے نیل رواں ہوجاتا۔
اسی طرح افریقا، جنوبی امریکا، انڈونیشیا، جرمنی اور سکینڈے نیویا کے بعض قبائل اپنے دیوتاؤں کے غضب سے بچنے، ان کی خوش نودی حاصل کرنے، کسی نئی عمارت، پُل یا بادشاہ کی موت، یا ناگہانی آفت کے وقت انسانوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق قدیم یونانی بھی انسانی قربانی کے قائل تھے جس کی تصدیق ان ہڈیوں سے ہوتی ہے جنہیں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کھدائی کے دوران برآمد کیا ہے۔
ایتھنز کے باشی قربانی کے لیے باربرداری میں جوتے جانے والے بیل کا انتخاب کرتے۔ قدیم ایرانیوں کے ہاں بھی قربانی کا تصور موجود تھا۔ چناں چہ وہ ''بہار گاؤ'' کے موقع پر ''اہور امزدا '' یعنی آگ، مٹی، ہوا اور پانی کی بقاء کے لیے قربانی کیا کرتے۔ البتہ قربانی کے طریقۂ کار میں اختلاف ہوتا تھا۔ کوئی پورے جانور کو آگ لگا دیتا تو کوئی جانور کی صرف دُم کو جلاتا اور کوئی اپنے جانور کو لق و دق صحرا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیتا۔
مشرکین مکہ بھی قربانی کے قائل تھے اور گاہے بہ گاہے اپنے جانور خانۂ کعبہ کی بھینٹ چڑھایا کرتے۔ ان کے نام بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ نذر کے جانور بھی قربان کرتے۔ منٰی میں قربانی کا بندوبست کیا جاتا جس میں سیکڑوں جانور ذبح کیے جاتے۔ مشرکین مکہ کے ہاں بھی انسانی جان کی قربانی کا تصور پایا جاتا تھا۔
یہود بھی قربانی کے قائل تھے۔ جب انہیں اپنے پیغمبروں کی جانب سے قربانی کا حکم ہوتا تو آبادی سے باہر اپنے جانور کو پہاڑ یا کسی اونچی جگہ پر جا کر چھوڑ دیتے۔ تھوڑی دیر میں آسمان سے آگ اترتی جو اس جانور کو جلا کر راکھ کر دیتی۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ ان کی قربانی قبول کر لی گئی ہے۔
دنیا کے سب سے پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کے بیٹوں قابیل اور ہابیل میں کسی بات پر جھگڑا ہوا تو اﷲ تعالی نے دونوں سے قربانی مانگی۔ دونوں نے اپنی قربانی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دی۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی اور جانور کو آگ کھا گئی جب کہ قابیل کی قربانی قبول نہ ہوسکی۔
مسلمان عیدالاضحی کے مخصوص ایام میں اپنے جانوروں کی قربانی محض رضائے الہی کے لیے کرتے ہیں۔ اس کا کوئی دنیاوی مقصد نہیں ہوتا۔ بل کہ یہ عمل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔ نیز اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ اے اﷲ! تُونے ہم سے ہمارے جانوروں کی جان اور خون مانگے ہیں۔ ہم بہ خوشی دینے کے لیے تیار ہیں۔ صرف یہی نہیں، اگر تو ہم سے ہماری جان، ہمارا خون مانگے گا تو ہم اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
حکم الہی کے مطابق مسلمان اپنے مخصوص جانوروں (اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور دنبہ) کو ذبح کرتے اور اس کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک حصہ اپنے لیے، ایک رشتے داروں اور احباب کے لیے اور ایک حصہ غرباء و مساکین کے لیے۔ اس طرح قربانی کے فوائد نچلے طبقات تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا جنہیں سارا سال گوشت نصیب نہیں ہوتا، انہیں بھی عید قربان پر باسہولت مل جاتا ہے۔
اﷲ تعالی کے فرمان کا مفہوم: ''اﷲ کو نہ تو ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنادیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اﷲ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی، اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوش خبری سنا دو۔''
اب دیکھنا یہ ہے کہ دورِ حاضر کے ہم واقعی رضائے الہی کے لیے شریعت کے اصولوں کے عین مطابق قربانی کرتے ہیں کہ جس سے معاشرے میں اس کے ثمرات نظر آئیں یا ہم بھی گزشتہ مذاہب کی طرح محض رسم ہی نبھانا چاہتے ہیں؟
اﷲ تعالی ہمیں اپنے حکم جس پر ہمارے راہ بر و راہ نما اور اﷲ کے پیغمبر آخر جناب نبی کریم ﷺ نے عمل کرکے دکھایا، قربانی کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین