شدت پسندوں کیخلاف آپریشن شروع ہوگیا خرم دستگیر
مذاکرات ہوتے توبہتر ہوتا، جاوید ہاشمی،حکومت اپنا کام نہیں کر رہی، کشمالہ طارق
لاہور:
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کیخلاف آپریشن شروع ہوگیا ہے اس کو جنگ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں پرکوئی مخالف فوج نہیں ہے یہ اسلام کی جنگ نہیں ہے اورنہ ہی امریکا مخالف ردعمل ہے، چند لوگ ہیں جو زمین کے ٹکڑے کیلئے پاکستان کے عوام کی جان لے رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''ٹو دی پوائنٹ'' میں میزبان شاہ زیب خانزادہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ہم آج بھی مذاکرات کے حق میں ہیں جو گروپ ہم سے مذاکرات کریں گے ان سے مذاکرات کئے جائیں گے لیکن جو لوگ مذاکرات نہیں چاہتے اور وہ جس زبان میں ہم سے بات کریں گے ان سے اسی زبان میں بات کی جائیگی۔ وفاقی حکومت بلوچستان کے مسئلے میں کردار ادا کریگی، بگٹیوں کوان کے گھروں میں جاناچاہیے۔ تحریک انصاف کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ قوم کے حق میں جوفیصلے ہوں گے ہم ان میں سے پیچھے تو نہیں ہٹیں گے لیکن بہتر ہوتاکہ مذاکرات کیلیے راہ ہموار ہو جاتی، میں طالبان کو یہ حق نہیں دونگاکہ وہ ہماری فوج کو ماریں میں بندوق لیکراپنے فوجیوں کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
ایک لحاظ سے آپریشن شروع ہوگیا ہے اب اس کے نتائج پر بات پارلیمنٹ میں کریں گے ۔ طالبان نے پاکستان کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق نے کہا کہ حکومت اپناکام نہیں کر رہی، بگٹی قبائل سڑکوں پر دولاشیں رکھ کر بیٹھے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ حکومت کا کوئی نمائندہ وہاں نہیں گیا۔ ہمیں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے، (ن) لیگ کو چاہیے کہ وہ پالیسی دے سب ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بی این پی کے رہنما میرحاصل بزنجو نے کہا کہ ہم خود بگٹیوں کو لیکر آئے تھے لیکن انھوں نے گھروں میں جانے سے قبل پیسوں کا مطالبہ کیا ہے ہم ان کو ہر طرح کا تحفظ دینے کو تیار ہیں لیکن وہ اس پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔ شاہ زین بگٹی نے کہا کہ ہم نے کسی سے پیسے کی بات نہیں کی میرے ساتھ 12 ہزار خاندان ہیں۔ ہم سے وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ جب ہم اپنے گھروں کو جائیں گے توہمیں مراعات دی جائیں گی ہمارے لیے کیمپ لگائے جائیںگے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ حکومت بلوچستان اپنی کسی بات پر پورا نہیں اتری اور جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے کہا ہے کہ شدت پسندوں کیخلاف آپریشن شروع ہوگیا ہے اس کو جنگ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں پرکوئی مخالف فوج نہیں ہے یہ اسلام کی جنگ نہیں ہے اورنہ ہی امریکا مخالف ردعمل ہے، چند لوگ ہیں جو زمین کے ٹکڑے کیلئے پاکستان کے عوام کی جان لے رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''ٹو دی پوائنٹ'' میں میزبان شاہ زیب خانزادہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ہم آج بھی مذاکرات کے حق میں ہیں جو گروپ ہم سے مذاکرات کریں گے ان سے مذاکرات کئے جائیں گے لیکن جو لوگ مذاکرات نہیں چاہتے اور وہ جس زبان میں ہم سے بات کریں گے ان سے اسی زبان میں بات کی جائیگی۔ وفاقی حکومت بلوچستان کے مسئلے میں کردار ادا کریگی، بگٹیوں کوان کے گھروں میں جاناچاہیے۔ تحریک انصاف کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ قوم کے حق میں جوفیصلے ہوں گے ہم ان میں سے پیچھے تو نہیں ہٹیں گے لیکن بہتر ہوتاکہ مذاکرات کیلیے راہ ہموار ہو جاتی، میں طالبان کو یہ حق نہیں دونگاکہ وہ ہماری فوج کو ماریں میں بندوق لیکراپنے فوجیوں کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔
ایک لحاظ سے آپریشن شروع ہوگیا ہے اب اس کے نتائج پر بات پارلیمنٹ میں کریں گے ۔ طالبان نے پاکستان کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق نے کہا کہ حکومت اپناکام نہیں کر رہی، بگٹی قبائل سڑکوں پر دولاشیں رکھ کر بیٹھے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہورہی۔ حکومت کا کوئی نمائندہ وہاں نہیں گیا۔ ہمیں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے، (ن) لیگ کو چاہیے کہ وہ پالیسی دے سب ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بی این پی کے رہنما میرحاصل بزنجو نے کہا کہ ہم خود بگٹیوں کو لیکر آئے تھے لیکن انھوں نے گھروں میں جانے سے قبل پیسوں کا مطالبہ کیا ہے ہم ان کو ہر طرح کا تحفظ دینے کو تیار ہیں لیکن وہ اس پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔ شاہ زین بگٹی نے کہا کہ ہم نے کسی سے پیسے کی بات نہیں کی میرے ساتھ 12 ہزار خاندان ہیں۔ ہم سے وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ جب ہم اپنے گھروں کو جائیں گے توہمیں مراعات دی جائیں گی ہمارے لیے کیمپ لگائے جائیںگے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ حکومت بلوچستان اپنی کسی بات پر پورا نہیں اتری اور جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہے۔