زرعی فصلیں اور فوڈ گروپ کی درآمد

انقلابی تبدیلی لائی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ برآمدات بہت زیادہ درآمدات کم اور فوڈ گروپ کی درآمد کی ضرورت ہی نہ رہے۔

پہلے صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد دنیا بھرکی دولت یورپ میں جمع ہو رہی تھی۔ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک ان میں سے بیشتر ابھی آزاد نہیں ہوئے تھے۔ جہاں یورپ کی مختلف اقوام کی حکومت بھی تھی اور ان صنعتی ممالک کی کالونیاں بن چکی تھیں۔ لہٰذا اہل یورپ اپنے کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکالنے کے لیے اپنے تسلط کردہ علاقوں سے سستا ترین خام مال خریدکر جہازوں میں بھر کر لے جا رہے تھے۔

یہاں دو باتوں نے جنم لیا ، یورپ اور امریکا و دیگر صنعتی ممالک کے کارخانے اور ملوں میں ٹریڈ یونینز مضبوط سے مضبوط ہوکر اپنے مزدوروں کے لیے بہتر شرائط ملازمت طے کر رہے تھے ، لہٰذا وہاں کے عوام کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔

دوسری بات انتہائی سنگین رقابت کہ غریب زرعی ممالک (آزاد اور مقبوضہ) کے کاشتکار ہاریوں سے ان کی زرعی پیداوار (خام مال) کے طور پر انتہائی کم داموں خرید کر مصنوعات وغیرہ کی شکل میں ڈھال کر انتہائی مہنگے داموں برآمد کردیا جاتا تھا۔ اس طرح لوٹ مارکا سلسلہ بڑی فراخ دلی سے جاری تھا۔ مغربی اقوام امیر صنعتی ممالک میں تبدیل ہونے لگے۔ 1930 کے عظیم اقتصادی بحران کے بعد بہت سے ممالک بتدریج آزاد ہونے لگے تو ان میں ترقی کی شدید خواہش نے جنم لیا۔

لہٰذا وہ مشینریوں، کیپٹل گڈز، وہیکلز اور بہت سی مصنوعات بھاری قیمت ادا کرکے خریدنے (امپورٹ) پر مجبور ہوئے اور عالمی منڈی میں خریدار ممالک ان کی مصنوعات یا زرعی پیداوار یا زراعت پر مبنی مصنوعات وغیرہ کی انتہائی کم قیمت ادا کرتے رہے یہاں سے افریقہ اور ایشیا کی سوائے چند ایک تمام ممالک ناموافق تجارت کے باعث تجارتی خسارے کی لپیٹ میں آ کر مالی بحران کا شکار ہوتے رہے۔ ان کی مالی بدحالی کو اپنے شکنجے میں کسنے کے لیے آئی ایم ایف۔ جی 7 گروپ اور نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن وغیرہ وغیرہ رو بہ عمل رہے۔

ان ممالک کے مسائل اپنی جگہ لیکن پاکستان کا المیہ یا معاشی بدحالی، یا تجارت میں عدم توازن، کم برآمدات اور زیادہ سے زیادہ زرعی درآمدات کا ہونا انتہائی تعجب خیز، حیرت انگیز ہے۔ ہر سال 8 یا 9 ارب ڈالرز زرعی درآمدات پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق 11 لاکھ 27 ہزار 5 سو میٹرک ٹن دالوں کی درآمد پر تقریباً ایک ارب 6 کروڑ35 ہزار ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں۔

یہ صرف جولائی 2020 تا مئی 2021 یعنی11 ماہ کی درآمدات کا صرفہ ہے۔ ایک زرعی ملک اگر 74 برس صرف اس بات پر صرف کردیتا ہے کہ کس طرح دالوں کی مختلف اقسام کی پیداوار بڑھائی جائیں، فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جائیں۔ ملک بھر میں دالوں کی مجموعی پیداوار اتنی بڑھا دی جائیں کہ درآمد کی ضرورت ہی نہ رہے بلکہ پاکستان دال برآمد کرنے والا ایک اہم ترین ملک بن کر اربوں ڈالرز کی صرف دال ہی برآمد کر رہا ہوتاتو شاید آئی ایم ایف سے صرف 50 کروڑ ڈالرز کی قسط وصول کرنے کے لیے اتنی دھمکیاں نہ سننا پڑتیں کہ کبھی یہ دھمکی کہ پروگرام معطل کردیا جائے گا یا مختلف شرائط پر عملدرآمد کو ضروری قرار دیا جاتا ہے۔


اگرچہ ان سخت ترین شرائط اور پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی وجہ دیگر عالمی سیاسی عوامل بھی ہیں خاص طور پر پاکستان کو اپنے دباؤ میں رکھنے کے لیے معاشی طور پر کمزور رکھنا بھی ہے۔ لیکن پاکستان کی مالی حالت میں کمزوری آج کی نہیں بلکہ 70 کی دہائی سے قبل کی ہے۔ ان 5 یا 6 دہائیوں میں اگر اپنی زراعت کو ہی ترقی یافتہ بنا لیتے۔ شاید زرعی درآمدات و فوڈ گروپ کی درآمدات 4 یا 5 ارب ڈالر کی کم ہوسکتی تھیں بلکہ زرعی و فوڈ گروپ کی برآمدات میں بھی مزید 4 یا 5 ارب ڈالرز کا اضافہ ہو سکتا تھا۔

پھر پاکستان کا کون سا مالی بحران، کون سی کمزور معیشت، کون قرضے مانگتا، اور کیسی گرے لسٹ وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان دودھ کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے پھر بھی ہر سال تقریباً 20 کروڑ ڈالرز تک کی دودھ اور دودھ سے بنی غذائی اشیا کی درآمد پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ صرف جولائی 2020 تا مئی 2021 کے دوران 17 کروڑ 57 لاکھ ڈالرز کی دودھ اور اس سے بنی غذائی اشیا کی درآمد پر صرف ہوئے۔

پاکستان میں دودھ کو محفوظ کرنے کے جدید ٹیکنالوجی کے فقدان اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر لاکھوں لیٹرز دودھ سالانہ ضایع ہو جاتا تھا۔ جس میں اب کمی آئی ہے لیکن دودھ سے بنی مختلف اشیا و غذائیت کی پیداواری صنعت کے کم ہونے کے باعث درآمد کی ضرورت پڑتی ہے۔ بات صرف عدم توجہ ترجیح اور مخصوص مافیاز کی طرف سے کوئی ایسی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ اب ایک اور اہم پیداوار گندم جس کی درآمد گزشتہ مالی سال بھی ہوئی تھی۔ رواں مالی سال کے دوران پھر گندم درآمد کی جائے گی۔

پاکستان گنے کی پیداوار سے متعلق خودکفیل ملک ہے اور چینی کی پیداوار بھی وافر مقدار میں ہوتی ہے لیکن جولائی تا مئی کے دوران تقریباً 13کروڑ ڈالر کی چینی کی درآمد ہوچکی ہے۔ اس طرح کوئی دور ایسا بھی رہا ہے کہ بڑی مقدار میں کپاس کی گانٹھوں کی پیداوار تھی۔

برآمد بھی ہو رہی تھی، لیکن اب درآمد بھی کر رہے ہیں، اگر پاکستان چند اہم ترین پیداوار میں اضافے، فی ایکڑ پیداوار کے حصول میں اضافے اور زراعت کو سب سے زیادہ ترجیح دے ایسی صورت میں ملک صرف زرعی پیداوار کے سہارے کافی زرمبادلہ کما سکتا ہے اور بچا بھی سکتا ہے یعنی درآمدات کم سے کم کرنے کی صورت میں۔ پاکستان 29 لاکھ 57 ہزار میٹرک ٹن پام آئل گزشتہ مالی سال کے گیارہ ماہ کے دوران درآمد کرچکا ہے جس پر تقریباً 2 ارب 40 کروڑ ڈالر صرف کیے جاچکے ہیں مختلف ادوار میں پام آئل کی پیداوار کے لیے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ تاحال معاملہ بے نتیجہ ہی رہا ہے۔

بہرحال ترقی یافتہ ممالک نے عالمی منڈیوں میں ترقی پذیر ممالک کے خام مال کی قیمت اتنی کم رکھی کہ غریب ممالک کی نسبت درآمد برآمد پر منفی اثرات ہی مرتب ہوئے۔ تجارتی خسارہ بڑھتا رہا۔ توازن ادائیگی ناموافق رہا۔ لیکن کئی ممالک ایسی روشن مثال بھی بن گئے کہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمد پر توجہ دی اور کئی ممالک نے زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے فی ایکڑ پیداوار کو بہت زیادہ بڑھایا۔

کئی ممالک نے غیر ضروری درآمدات میں خاصی کمی کی۔ بہرحال اگر کوشش کرتے تو ہمارے لیے پون صدی کم نہ تھی۔ اب اس میں دوسروں کا قصور کم اپنا زیادہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔ جس کی اصلاح کے لیے تبدیلی احوال، تبدیلی ترجیحات، تبدیلی ماحول اور بہت کچھ بدل دینے کی ضرورت ہے۔ انقلابی تبدیلی لائی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ برآمدات بہت زیادہ درآمدات کم اور فوڈ گروپ کی درآمد کی ضرورت ہی نہ رہے۔
Load Next Story