سارے رنگ
اپنی زندگی آدمی خود بناتا ہے اور یہ محنت و عمل کے ذریعے سے سنوارتی ہے۔
پانچ کروڑ کی سڑک پر پانچ ہزار کے واٹر ٹینکر!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
شہرِقائد کے مرکز میں ایسی بے شمار شاہ راہیں ہیں، جو کہ مضافاتی سڑکوں سے بھی گئی گزری ہیں، ایسے میں اگر کسی سڑک کے گڑھے بھرنے کی بھی اطلاع ملتی ہے، تو یقین مانیے ہمارا دل بَلّیوں اچھلنے لگتا ہے، مَن میں لڈو سے پھوٹنے لگتے ہیں اور عوامی زبان میں کہیے تو 'بالکل ''لبِ شیریں سا'' لگنے لگتا ہے!''
ایسے ہی گزشتہ ہفتے ایک خبر کلفٹن، کراچی کے 'چوہدری خلیق الزماں روڈ' کی تعمیر نو کی پڑھی، واقعی دل خوشی سے بھر گیا۔۔۔ یہ سڑک تو ہم نے خود بھی دیکھی ہوئی ہے، شام ڈھلتے ہی اس سڑک پر ایسا اندھیارا سا چھا جاتا تھا کہ خوف آتا تھا، اب نہ صرف یہاں جدید بَتیاں نصب کر دی گئی ہیں، بلکہ سڑک کے کناروں پر خوب صورت پودے بھی لگا دیے گئے ہیں، جسے لہلاتا ہوا دیکھ کر واقعی نظروں کو بڑا بھلا معلوم ہوتا ہے۔۔۔ ہم اس سڑک کی تزئین وآرائش کا کام کافی دنوں سے خود بھی دیکھ رہے تھے۔
گذشتہ دنوں اخبار میں اس کے باقاعدہ افتتاح کی خبر پڑھی، چار کلو میٹر طویل اس سڑک پر پانچ کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔۔۔ یقیناً ہمارے لیے یہ صرف بڑے ہندسے ہیں، لیکن اس کے پیچھے پورا منصوبہ، سوچ وفکر، ماہرین کی آرا اور پوری منصوبہ بندی کا ایک سلسلہ رہا ہوگا۔۔۔ اس کام کی راہ میں آنے والی بہت سی مشکلات علاحدہ باب ہوں گی۔۔۔ تین تلوار چورنگی یا کینٹ ریلوے اسٹیشن کی طرف سے جب آپ 'ریس کورس' کا سنگل پار کرتے ہیں، تو بائیں طرف آپ کو 'خوش آمدید' لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے اور پھر یہ سڑک آگے عسکری اپارٹمنٹ (ون)، کلفٹن بلاک 8، (جس کے عقب میں دہلی کالونی، پنجاب کالونی ہے) سے 'آب دوز چورنگی' المعروف پنجاب چورنگی سے آگے گزری تک دراز نظر آتی ہے۔
اس پر 'چوہدری خلیق الزماں پارک' المعروف عید گاہ بھی واقع ہے، ایک وقت میں یہاں ریت اڑا کرتی تھی، پھر چند برس قبل اسے ایک خوب صورت پارک میں تبدیل کر دیا گیا اور قرب وجوار کے مکینوں کو پیدل مسافت پر ایک سبزہ زار میسر آگیا۔۔۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ یہاں سے گزرتے ہوئے آپ کراچی کے ساحل کی روایتی خنک ہوا کے جھونکوں سے بھی خوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔۔۔ لیکن دوسری طرف دہلی کالونی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پانی کا بحران تاحال دور نہیں ہو پایا۔۔۔ کونسلروں کا دور آکر گزر بھی گیا، لیکن اگر حل نہیں ہوا تو یہاں کا پانی کا مسئلہ! اب آپ سوچیے، یہ کراچی شہر کے بیچوں بیچ ایک 70 برس پرانی بستی کا حال ہے۔
جہاں لوگ مجبوراً بورنگ کرا رہے ہیں اور سمندر سے محض تین کلو میٹر دور ہونے کے باوجود یہاں زیرِزمین پانی کی سطح تشویش ناک حد تک نیچے ہوتی جا رہی ہے، جہاں آج سے20، 22 برس پہلے تک سڑکوں، گلیوں اور گھروں میں زمین پر پانی کی نمی آجاتی تھی، گھروں کی گلیوں اور دیواروں پر سمندری پانی کے نمک کے نشان پڑ جاتے تھے، گھر کی زمین پر بچھی ہوئی 'پلاسٹک کی شیٹ' اٹھائی جاتی، تو اس میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ کوئی گڑھا کھودا جائے، تو دو فٹ کے بعد پانی نکل آتا تھا، وہاں اب آٹھ، آٹھ فٹ کھدائی کے بعد بھی پانی کی کوئی خبر نہیں ملتی۔۔۔ یہی نہیں 'بورنگ' بھی اب 30، 40 فٹ سے بڑھ کر 250 فٹ تک گہری کرنی پڑتی ہے، اور وہ بھی جلد ہی خشک ہو جاتی ہے۔۔۔ آج یہاں ہر گھر اور عمارت کے لیے ہونے والی یہ بورنگ زمین کو بُھربُھرا بنا کر زمین کے دھنسنے کا سبب بن سکتی ہے۔۔۔ لیکن کیا کریں۔
کراچی کا ایک سنگین مسئلہ ہونے کے باوجود اس پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی جتنی دی جانی چاہیے، حالاں کہ ہر کچھ عرصے بعد کراچی کی مختلف سڑکوں کے دھنسنے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ تازہ واقعہ 4 جون 2021ء کو 'کلب روڈ' پر پیش آیا، جس کی تصویر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے سڑک کے بیچوں بیچ اتنا بڑا گڑھا پڑا ہے۔۔۔ ہمارے منہ میں خاک اگر زمین کا یہ دھنسائو کسی عمارت کی بنیادوں میں ہوا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کس قدر خوف ناک ہو سکتا ہے۔۔۔! چلیے، ہم بھی ''بے حس'' بن کر اس سے آنکھیں موند لیتے ہیں کہ سرِدست پانی کی کم یابی ہمارا مسئلہ ہے، کیوں کہ زمین کا دھنسائو بھی تو براہ راست پانی کی کمی ہی سے جڑا ہوا ہے۔
اب چوہدری خلیق الزماں روڈ پر خرچ کی جانے والی پانچ کروڑ روپے کی خطیر رقم کے ساتھ اگر کچھ توجہ اسی سڑک کے کنارے بسنے والوں کی طرف بھی کر لی جائے، تو کیا ہی بات ہو۔۔۔ جہاں کے بدنصیب رہایشیوں نے اس سڑک پر بھی احتجاج کیا اور کراچی پریس کلب بھی گئے، کونسلر، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو بھی ساتھ لیا، مختلف سیاسی جماعتوں کے در پر بھی گِریہ کیا، لیکن نہ جانے کیوں ''کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ'' اور متعلقہ ادارے اس مسئلے کو حل کرنے میں بالکل بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔۔۔ علاقے کے مکینوں کی شکایت ہے کہ اسی پانچ کروڑ کی نوتعمیر شدہ سڑک پر 'کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن' کا پانی کا پمپ بھی موجود ہے، جس سے بڑے پیمانے پر پانی کے ٹینکر بھی بھرے جا رہے ہیں۔
ہر چند کہ وہ پانی بھی لوگوں کو فراہم کرنے کے لیے ہے، لیکن کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ پہلے یہاں کے گھروں میں پانی فراہم کیا جائے، نہ کہ پانی کے ٹینکر بھرے جائیں۔۔۔ پھر یہ بھی تو سوچیے کہ پانچ کروڑ کی خوب صورت سڑک پر پانچ، پانچ ہزار روپے والے پانی کے ٹینکر گزرتے ہوئے کس قدر بھدے اور برے معلوم ہوں گے۔۔۔! کیوں۔۔۔؟ ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں ناں۔۔۔ چلیے پانچ سال سے یہاں کے لوگوں کا ورنا دھونا تو رائیگاں گیا، لیکن اب 'سرکار' کی پانچ کروڑ روپے سے بنی ہوئی سڑک کے حُسن اور تحفظ کا ہی سوال سمجھ لیجیے، ہم کہنا نہیں چاہتے، لیکن اگر لوگ بدستور پانی کی اسی کمی کا شکار رہے، تو یہاں کی زمین بھی دھنسنے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔۔۔ اس لیے اس متوسط طبقے کی آبادی کو پانی جیسی بنیادی سہولت فراہم کر دیں کہ یہ لوگ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ٹینکروں یا چھوٹی 'پانی گاڑیوں' سے گھروں پر پانی ڈلواتے رہیں۔۔۔
اب آپ کہیں گے، کہ ہم بھی زمین کے دھنسائو کا اہم موضوع چھوڑ کر جا رہے ہیں، تو عرض یہ ہے خاکم بدہن وہ تو جب ہوگا، تب ہوگا، فی الحال تو لوگ پانی نہ ملنے سے ''مر'' رہے ہیں، اس لیے پہلے پانی فراہم کردیا جائے اور یہ صرف ایک کالونی کی نہیں، بلکہ پورے کراچی کی صدا ہے!
ایک مزدور بے کار آدمی سے کہیں بہتر ہے
حکیم محمد سعید
اپنی زندگی آدمی خود بناتا ہے اور یہ محنت و عمل کے ذریعے سے سنوارتی ہے۔ محنت سے عزت حاصل ہوتی ہے۔ محنت کے بغیر خود اپنی نظر میں بھی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ بچپن ہی سے محنت کی عادت ڈالنی چاہیے، تاکہ بڑے ہو کر انسان محنت سے نہ گھبرائے، ایک بار محنت کی عادت پختہ ہو جائے، تو وہ عمر بھر کام آتی ہے اور انسان کی دولت و عزت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ محنت باعث ذلت نہیں، ذریعہ عزت ہے۔ محنت کرنے سے عزت حاصل ہوتی ہے، محنت کسی بھی قسم کی ہو، فائدہ پہنچاتی ہے۔ محنتی آدمی بہت جلد کام یاب ہو کر عزت کا مستحق بن جاتا ہے۔
ایک مزدور جو دن بھر محنت کر کے اپنی روزی کماتا ہے، اس پیسے والے آدمی سے کہیں بہتر ہے، جو دن بھر بے کار رہتا ہو اور کاہلی میں اپنا وقت گزارتا ہو۔ جو طالب علم اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے محنت مزدوری کر کے اپنی تعلیمی مصارف پورے کرتا ہو، وہ ان طالب علموں سے بھی زیادہ قابل قدر ہے، جن کے والدین ان کی تعلیم کا خرچ برداشت کرتے ہیں۔ دولت نہ ہو تو آدمی غریب نہیں ہوتا، وہ محنت سے دولت حاصل کر سکتا ہے، لیکن محنت کی عادت نہ ہو تو امیر آدمی بھی اپنی دولت کھو کر غریب ہو جائے گا اور دوبارہ اس کو دولت میسر نہیں آئے گی۔ جو لوگ محنت نہیں کرے، وہ محنتی آدمی کی عزت بھی نہیں کرتے۔ محنت کی عادت ڈالو، محنتی آدمی کی عزت کرو۔
جنھیں اپنے رونے کا سبب بھی معلوم نہ ہو!
فیاض اعوان
روزنامہ 'حُریّت' جو ایک محدود گردش کا اخبار ہوا کرتا تھا، یہاں سلیم احمد اپنا کالم بہت تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھا کرتے تھے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب چوٹی پر پہنچا ہوا ادیب، جسے پاکستان کا بڑا اخبار مسلسل اپنے ہاں لکھنے کی دعوت دے رہا تھا ایک چھوٹے سے اخبار میں تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھنا کیسا تھا اور کیا وہ اس کے بعد زندہ رہ سکتا تھا۔ میں ان دنوں 1980ء کی دہائی میں شایع ہونے والے حُریّت اخبار کے وہ کالم پڑھ رہا ہوں، جو سلیم احمد نے لکھے تھے، میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ سلیم احمد وہاں تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھا کرتے تھے۔
ایک عظیم رائٹر جو ٹیلی ویژن ڈرامے کا ناقابل فراموش نام تھا۔ جس نے صرف اپنی سوچ سے متصادم ہونے کے سبب فلم کے لیے لکھنے کی سات لاکھ روپے کی پیش کش قبول نہ کی۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ جب سلیم احمد تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھنے لگیں، تو کیا معاشرہ واقعی زندہ رہ سکتا ہے؟ وہ مر نہیں جاتا۔ ایسا معاشرہ زندہ نہیں ہوتا۔ اگرچہ سلیم احمد کو دنیا چھوڑے 36 سال ہو چکے، مگر میں انھیں نہیں بھولا ہوں۔ میرے دل میں سوالات اٹھ رہے ہیں، پیسہ اور تھوڑا سا پیسہ کیا شے ہوتا ہے۔
وہ مجھ ایسے شخص کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔ سلیم احمد جن کی زندگی کا مرکز اور محور اسلام اور پاکستان تھا۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے تھے۔ وہ مجھے بتا رہے تھے، انھیں ایک شعر بہت پسند ہے جو خود انھی کا ہے؎
روتا ہوں مگر بچوں کی طرح رونے کا سبب معلوم نہیں
کیا معلوم اب بھی کتنے ہی لوگ ایسے ہوں جو بچوں کی طرح روتے ہوں اور انھیں اپنے رونے کا سبب بھی معلوم نہ ہو!
کبھی کہانی کہتے کہتے کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔
مشتاق احمد یوسفی
قدیم زمانے میں چین میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کا مذاق اڑانا مقصود ہوتا، اس کی ناک پر سفیدی پوت دیتے تھے۔ پھر وہ دُکھیا کتنی بھی گمبھیر بات کہتا، کلائون ہی لگتا تھا۔ کم و بیش یہی حشر مزاح نگار کا ہوتا ہے۔ وہ اپنی فولس کیپ اتار کر پھینک بھی دے، تو لوگ اسے جھاڑ پونچھ کر دوبارہ پہنا دیتے ہیں۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ کوچہ سود خواراں میں سر پر دستار رہی یا نہیں، تاہم آپ اس کتاب کا موضوع ، مزاج اور ذائقہ مختلف پائیں گے۔ موضوع اور تجربہ خود اپنا پیرایہ اور لہجہ متعین کرتے چلے جاتے ہیں۔
اقبال خدا کے حضور مسلمانوں کا شکوہ اپنے استاد فصیح الملک داغ دہلوی کی نخرے چونچلے کرتی زبان میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ رسوا کی 'امرا ئو جانِ ادا' اور طوائفوں سے متعلق منٹو کے افسانوں کا ترجمہ اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی جِناتی زبان میں کر کے انھیں (طوائفوں کو) بالجبر سنایا جائے، تو مجھے یقین ہے کہ ایک ہی صفحہ سن کر کان پکڑلیں اور اپنے دھندے سے تائب ہو جائیں۔ وہ تو وہ، خود ہم اپنے طرز نگارش و معاش سے توبہ کرلیں کہ آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ بہرکیف اس بار موضوع، مواد اور مشاہدات سب قدرے مختلف تھے۔ سو وہی لکھا جو دیکھا۔ قلندر ہرچہ گویدہ گودیدہ۔
قصہ گو قلندر کو اپنی عیاری یا راست گفتاری کا کتنا ہی زعم ہو، اور اس نے اپنا سرکتنا ہی باریک کیوں نہ ترشوا رکھا ہو، بافندگان حرف و حکایت کی پرانی عادت ہے کہ کہانی کا تانا بانا بُنتے بُنتے اچانک اس کا رنگ، رخ اور ذائقہ بدل دیتے ہیں، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی کہتے کہتے خود کہنے والے کو کچھ ہو جاتا ہے۔ وہ پھر وہ نہیں رہتا کہ جو تھا۔ سو کچھ ایسی ہی واردات اس نامہ سیاہ راقم سطور کے ساتھ ہوئی۔
(کتاب ''آب گم'' سے اخذ کی گئی کچھ سطریں)
'اردو' میں کیا کیا کچھ ہے۔۔۔؟
مرسلہ: سارہ یحییٰ، کراچی
اردو پر''اسد اللہ'' ہمیشہ ''غالب'' رہے۔۔۔ ''اقبال'' ہمیشہ بلند اقبال رہے اور ''فیض'' کا فیض جاری ہے۔ کوئی ندی ہے، کوئی دریا اور کوئی سمندر، ہمیں ادب سے ''شورش'' نہیں۔ اس لیے ہم کسی کے ''فراق'' میں نہیں رہتے۔ اردو میں ''میر'' ہی نہیں، ''امیر'' ترین لوگ بھی ہیں۔ اردو پر کسی قسم کا داغ نہیں، ہاں ''داغ دہلوی'' ضرور ہیں۔ یہاں لوگ ''ریاض'' کرتے کرتے، ''مومن'' بنے اور ان کے ''ذوق'' کا یہ عالم تھا کہ دہلی، لکھنو اور دکن باقاعدہ دبستان بن گئے، بلکہ ''دبستان اردو'' بن گئے۔
یہاں ایک سے ایک ''ولی'' بھی ہیں اور ایک سے ایک جو اردو کی محبت میں نہ صرف ''سرشار'' رہتے ہیں، بلکہ اس پر ''جاں نثار'' بھی رہتے ہیں۔ اس لیے کسی کی حیثیت ''مجروح'' نہ کیجیے۔ ''شبلی'' کو شبلی ہی رہنے دیجیے۔ ''جنید'' و ''شبلی'' نہ بنائیے۔ ''اکبر'' اگر الہ آباد میں بے نظیر ہیں۔ تو ''اکبر آباد'' میں اپنے ''نظیر'' بھی کچھ کم نہیں۔ تنقید سے کسی کو فرار نہیں۔ بغیر تنقید کہ نہ کوئی ''فراز'' بن سکتا ہے اور نہ سرفراز!
اردو ادب ہمیشہ ادیبوں اور شاعروں کا مشکور رہا، بلکہ وہ شاکر بھی رہا۔ اس نے شاکر ہی نہیں ''پروین شاکر'' جیسی ''خوش بو'' بھی دی ہے۔ اس نے ''مسدس حالی'' بھی دیا اور اس نے نہ جانے کتنے ''سید'' بھی دیے، جو نہ صرف ''سلیمان'' ہیں، بلکہ ان کے پاس تخت سلیمانی بھی ہے، جس پر ایک دو سید ہی نہیں، بلکہ ''سر سید'' بھی بیٹھے۔ یہاں نہ صرف ''رشید'' ہیں، بلکہ ''مشتاق'' جیسے ''یوسفی'' بھی ہیں۔ ''پطرس'' جیسے طنزو مزاح کے ''بخاری'' بھی ہیں۔ یہاں مختلف رنگ ہی نہیں، بلکہ ''نارنگ'' بھی ہیں، بلکہ
''شمس الرحمٰن'' جیسے ''فاروقی'' بھی ہیں۔ یہاں ''عبد الماجد'' جیسے صاحب طرز ادیبوں کا ایک 'دریا آباد' ہے۔ یہاں ایک سے ایک ''آزاد'' ہیں اور ایک سے ایک اعلیٰ شخصیات ہیں، بلکہ ''ابولاعلٰی'' اور ''ابو الکلام'' بھی ہیں۔ اللہ اردو کی اس فضا کو مزید وسیع کر دے، تاکہ اس کا ''فیض'' مسلسل جاری رہے اور یہ ہمیشہ بلند ''اقبال'' اور ''غالب'' رہے۔۔۔آمین !
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
شہرِقائد کے مرکز میں ایسی بے شمار شاہ راہیں ہیں، جو کہ مضافاتی سڑکوں سے بھی گئی گزری ہیں، ایسے میں اگر کسی سڑک کے گڑھے بھرنے کی بھی اطلاع ملتی ہے، تو یقین مانیے ہمارا دل بَلّیوں اچھلنے لگتا ہے، مَن میں لڈو سے پھوٹنے لگتے ہیں اور عوامی زبان میں کہیے تو 'بالکل ''لبِ شیریں سا'' لگنے لگتا ہے!''
ایسے ہی گزشتہ ہفتے ایک خبر کلفٹن، کراچی کے 'چوہدری خلیق الزماں روڈ' کی تعمیر نو کی پڑھی، واقعی دل خوشی سے بھر گیا۔۔۔ یہ سڑک تو ہم نے خود بھی دیکھی ہوئی ہے، شام ڈھلتے ہی اس سڑک پر ایسا اندھیارا سا چھا جاتا تھا کہ خوف آتا تھا، اب نہ صرف یہاں جدید بَتیاں نصب کر دی گئی ہیں، بلکہ سڑک کے کناروں پر خوب صورت پودے بھی لگا دیے گئے ہیں، جسے لہلاتا ہوا دیکھ کر واقعی نظروں کو بڑا بھلا معلوم ہوتا ہے۔۔۔ ہم اس سڑک کی تزئین وآرائش کا کام کافی دنوں سے خود بھی دیکھ رہے تھے۔
گذشتہ دنوں اخبار میں اس کے باقاعدہ افتتاح کی خبر پڑھی، چار کلو میٹر طویل اس سڑک پر پانچ کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔۔۔ یقیناً ہمارے لیے یہ صرف بڑے ہندسے ہیں، لیکن اس کے پیچھے پورا منصوبہ، سوچ وفکر، ماہرین کی آرا اور پوری منصوبہ بندی کا ایک سلسلہ رہا ہوگا۔۔۔ اس کام کی راہ میں آنے والی بہت سی مشکلات علاحدہ باب ہوں گی۔۔۔ تین تلوار چورنگی یا کینٹ ریلوے اسٹیشن کی طرف سے جب آپ 'ریس کورس' کا سنگل پار کرتے ہیں، تو بائیں طرف آپ کو 'خوش آمدید' لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے اور پھر یہ سڑک آگے عسکری اپارٹمنٹ (ون)، کلفٹن بلاک 8، (جس کے عقب میں دہلی کالونی، پنجاب کالونی ہے) سے 'آب دوز چورنگی' المعروف پنجاب چورنگی سے آگے گزری تک دراز نظر آتی ہے۔
اس پر 'چوہدری خلیق الزماں پارک' المعروف عید گاہ بھی واقع ہے، ایک وقت میں یہاں ریت اڑا کرتی تھی، پھر چند برس قبل اسے ایک خوب صورت پارک میں تبدیل کر دیا گیا اور قرب وجوار کے مکینوں کو پیدل مسافت پر ایک سبزہ زار میسر آگیا۔۔۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ یہاں سے گزرتے ہوئے آپ کراچی کے ساحل کی روایتی خنک ہوا کے جھونکوں سے بھی خوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔۔۔ لیکن دوسری طرف دہلی کالونی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پانی کا بحران تاحال دور نہیں ہو پایا۔۔۔ کونسلروں کا دور آکر گزر بھی گیا، لیکن اگر حل نہیں ہوا تو یہاں کا پانی کا مسئلہ! اب آپ سوچیے، یہ کراچی شہر کے بیچوں بیچ ایک 70 برس پرانی بستی کا حال ہے۔
جہاں لوگ مجبوراً بورنگ کرا رہے ہیں اور سمندر سے محض تین کلو میٹر دور ہونے کے باوجود یہاں زیرِزمین پانی کی سطح تشویش ناک حد تک نیچے ہوتی جا رہی ہے، جہاں آج سے20، 22 برس پہلے تک سڑکوں، گلیوں اور گھروں میں زمین پر پانی کی نمی آجاتی تھی، گھروں کی گلیوں اور دیواروں پر سمندری پانی کے نمک کے نشان پڑ جاتے تھے، گھر کی زمین پر بچھی ہوئی 'پلاسٹک کی شیٹ' اٹھائی جاتی، تو اس میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ کوئی گڑھا کھودا جائے، تو دو فٹ کے بعد پانی نکل آتا تھا، وہاں اب آٹھ، آٹھ فٹ کھدائی کے بعد بھی پانی کی کوئی خبر نہیں ملتی۔۔۔ یہی نہیں 'بورنگ' بھی اب 30، 40 فٹ سے بڑھ کر 250 فٹ تک گہری کرنی پڑتی ہے، اور وہ بھی جلد ہی خشک ہو جاتی ہے۔۔۔ آج یہاں ہر گھر اور عمارت کے لیے ہونے والی یہ بورنگ زمین کو بُھربُھرا بنا کر زمین کے دھنسنے کا سبب بن سکتی ہے۔۔۔ لیکن کیا کریں۔
کراچی کا ایک سنگین مسئلہ ہونے کے باوجود اس پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی جتنی دی جانی چاہیے، حالاں کہ ہر کچھ عرصے بعد کراچی کی مختلف سڑکوں کے دھنسنے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ تازہ واقعہ 4 جون 2021ء کو 'کلب روڈ' پر پیش آیا، جس کی تصویر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے سڑک کے بیچوں بیچ اتنا بڑا گڑھا پڑا ہے۔۔۔ ہمارے منہ میں خاک اگر زمین کا یہ دھنسائو کسی عمارت کی بنیادوں میں ہوا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کس قدر خوف ناک ہو سکتا ہے۔۔۔! چلیے، ہم بھی ''بے حس'' بن کر اس سے آنکھیں موند لیتے ہیں کہ سرِدست پانی کی کم یابی ہمارا مسئلہ ہے، کیوں کہ زمین کا دھنسائو بھی تو براہ راست پانی کی کمی ہی سے جڑا ہوا ہے۔
اب چوہدری خلیق الزماں روڈ پر خرچ کی جانے والی پانچ کروڑ روپے کی خطیر رقم کے ساتھ اگر کچھ توجہ اسی سڑک کے کنارے بسنے والوں کی طرف بھی کر لی جائے، تو کیا ہی بات ہو۔۔۔ جہاں کے بدنصیب رہایشیوں نے اس سڑک پر بھی احتجاج کیا اور کراچی پریس کلب بھی گئے، کونسلر، اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو بھی ساتھ لیا، مختلف سیاسی جماعتوں کے در پر بھی گِریہ کیا، لیکن نہ جانے کیوں ''کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ'' اور متعلقہ ادارے اس مسئلے کو حل کرنے میں بالکل بھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔۔۔ علاقے کے مکینوں کی شکایت ہے کہ اسی پانچ کروڑ کی نوتعمیر شدہ سڑک پر 'کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن' کا پانی کا پمپ بھی موجود ہے، جس سے بڑے پیمانے پر پانی کے ٹینکر بھی بھرے جا رہے ہیں۔
ہر چند کہ وہ پانی بھی لوگوں کو فراہم کرنے کے لیے ہے، لیکن کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ پہلے یہاں کے گھروں میں پانی فراہم کیا جائے، نہ کہ پانی کے ٹینکر بھرے جائیں۔۔۔ پھر یہ بھی تو سوچیے کہ پانچ کروڑ کی خوب صورت سڑک پر پانچ، پانچ ہزار روپے والے پانی کے ٹینکر گزرتے ہوئے کس قدر بھدے اور برے معلوم ہوں گے۔۔۔! کیوں۔۔۔؟ ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں ناں۔۔۔ چلیے پانچ سال سے یہاں کے لوگوں کا ورنا دھونا تو رائیگاں گیا، لیکن اب 'سرکار' کی پانچ کروڑ روپے سے بنی ہوئی سڑک کے حُسن اور تحفظ کا ہی سوال سمجھ لیجیے، ہم کہنا نہیں چاہتے، لیکن اگر لوگ بدستور پانی کی اسی کمی کا شکار رہے، تو یہاں کی زمین بھی دھنسنے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔۔۔ اس لیے اس متوسط طبقے کی آبادی کو پانی جیسی بنیادی سہولت فراہم کر دیں کہ یہ لوگ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ٹینکروں یا چھوٹی 'پانی گاڑیوں' سے گھروں پر پانی ڈلواتے رہیں۔۔۔
اب آپ کہیں گے، کہ ہم بھی زمین کے دھنسائو کا اہم موضوع چھوڑ کر جا رہے ہیں، تو عرض یہ ہے خاکم بدہن وہ تو جب ہوگا، تب ہوگا، فی الحال تو لوگ پانی نہ ملنے سے ''مر'' رہے ہیں، اس لیے پہلے پانی فراہم کردیا جائے اور یہ صرف ایک کالونی کی نہیں، بلکہ پورے کراچی کی صدا ہے!
ایک مزدور بے کار آدمی سے کہیں بہتر ہے
حکیم محمد سعید
اپنی زندگی آدمی خود بناتا ہے اور یہ محنت و عمل کے ذریعے سے سنوارتی ہے۔ محنت سے عزت حاصل ہوتی ہے۔ محنت کے بغیر خود اپنی نظر میں بھی کوئی وقعت نہیں رہتی۔ بچپن ہی سے محنت کی عادت ڈالنی چاہیے، تاکہ بڑے ہو کر انسان محنت سے نہ گھبرائے، ایک بار محنت کی عادت پختہ ہو جائے، تو وہ عمر بھر کام آتی ہے اور انسان کی دولت و عزت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ محنت باعث ذلت نہیں، ذریعہ عزت ہے۔ محنت کرنے سے عزت حاصل ہوتی ہے، محنت کسی بھی قسم کی ہو، فائدہ پہنچاتی ہے۔ محنتی آدمی بہت جلد کام یاب ہو کر عزت کا مستحق بن جاتا ہے۔
ایک مزدور جو دن بھر محنت کر کے اپنی روزی کماتا ہے، اس پیسے والے آدمی سے کہیں بہتر ہے، جو دن بھر بے کار رہتا ہو اور کاہلی میں اپنا وقت گزارتا ہو۔ جو طالب علم اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے محنت مزدوری کر کے اپنی تعلیمی مصارف پورے کرتا ہو، وہ ان طالب علموں سے بھی زیادہ قابل قدر ہے، جن کے والدین ان کی تعلیم کا خرچ برداشت کرتے ہیں۔ دولت نہ ہو تو آدمی غریب نہیں ہوتا، وہ محنت سے دولت حاصل کر سکتا ہے، لیکن محنت کی عادت نہ ہو تو امیر آدمی بھی اپنی دولت کھو کر غریب ہو جائے گا اور دوبارہ اس کو دولت میسر نہیں آئے گی۔ جو لوگ محنت نہیں کرے، وہ محنتی آدمی کی عزت بھی نہیں کرتے۔ محنت کی عادت ڈالو، محنتی آدمی کی عزت کرو۔
جنھیں اپنے رونے کا سبب بھی معلوم نہ ہو!
فیاض اعوان
روزنامہ 'حُریّت' جو ایک محدود گردش کا اخبار ہوا کرتا تھا، یہاں سلیم احمد اپنا کالم بہت تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھا کرتے تھے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب چوٹی پر پہنچا ہوا ادیب، جسے پاکستان کا بڑا اخبار مسلسل اپنے ہاں لکھنے کی دعوت دے رہا تھا ایک چھوٹے سے اخبار میں تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھنا کیسا تھا اور کیا وہ اس کے بعد زندہ رہ سکتا تھا۔ میں ان دنوں 1980ء کی دہائی میں شایع ہونے والے حُریّت اخبار کے وہ کالم پڑھ رہا ہوں، جو سلیم احمد نے لکھے تھے، میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ سلیم احمد وہاں تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھا کرتے تھے۔
ایک عظیم رائٹر جو ٹیلی ویژن ڈرامے کا ناقابل فراموش نام تھا۔ جس نے صرف اپنی سوچ سے متصادم ہونے کے سبب فلم کے لیے لکھنے کی سات لاکھ روپے کی پیش کش قبول نہ کی۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ جب سلیم احمد تھوڑے سے پیسے کے لیے لکھنے لگیں، تو کیا معاشرہ واقعی زندہ رہ سکتا ہے؟ وہ مر نہیں جاتا۔ ایسا معاشرہ زندہ نہیں ہوتا۔ اگرچہ سلیم احمد کو دنیا چھوڑے 36 سال ہو چکے، مگر میں انھیں نہیں بھولا ہوں۔ میرے دل میں سوالات اٹھ رہے ہیں، پیسہ اور تھوڑا سا پیسہ کیا شے ہوتا ہے۔
وہ مجھ ایسے شخص کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔ سلیم احمد جن کی زندگی کا مرکز اور محور اسلام اور پاکستان تھا۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے تھے۔ وہ مجھے بتا رہے تھے، انھیں ایک شعر بہت پسند ہے جو خود انھی کا ہے؎
روتا ہوں مگر بچوں کی طرح رونے کا سبب معلوم نہیں
کیا معلوم اب بھی کتنے ہی لوگ ایسے ہوں جو بچوں کی طرح روتے ہوں اور انھیں اپنے رونے کا سبب بھی معلوم نہ ہو!
کبھی کہانی کہتے کہتے کچھ ہو جاتا ہے۔۔۔
مشتاق احمد یوسفی
قدیم زمانے میں چین میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کا مذاق اڑانا مقصود ہوتا، اس کی ناک پر سفیدی پوت دیتے تھے۔ پھر وہ دُکھیا کتنی بھی گمبھیر بات کہتا، کلائون ہی لگتا تھا۔ کم و بیش یہی حشر مزاح نگار کا ہوتا ہے۔ وہ اپنی فولس کیپ اتار کر پھینک بھی دے، تو لوگ اسے جھاڑ پونچھ کر دوبارہ پہنا دیتے ہیں۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ کوچہ سود خواراں میں سر پر دستار رہی یا نہیں، تاہم آپ اس کتاب کا موضوع ، مزاج اور ذائقہ مختلف پائیں گے۔ موضوع اور تجربہ خود اپنا پیرایہ اور لہجہ متعین کرتے چلے جاتے ہیں۔
اقبال خدا کے حضور مسلمانوں کا شکوہ اپنے استاد فصیح الملک داغ دہلوی کی نخرے چونچلے کرتی زبان میں نہیں لکھ سکتے تھے۔ رسوا کی 'امرا ئو جانِ ادا' اور طوائفوں سے متعلق منٹو کے افسانوں کا ترجمہ اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی جِناتی زبان میں کر کے انھیں (طوائفوں کو) بالجبر سنایا جائے، تو مجھے یقین ہے کہ ایک ہی صفحہ سن کر کان پکڑلیں اور اپنے دھندے سے تائب ہو جائیں۔ وہ تو وہ، خود ہم اپنے طرز نگارش و معاش سے توبہ کرلیں کہ آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ بہرکیف اس بار موضوع، مواد اور مشاہدات سب قدرے مختلف تھے۔ سو وہی لکھا جو دیکھا۔ قلندر ہرچہ گویدہ گودیدہ۔
قصہ گو قلندر کو اپنی عیاری یا راست گفتاری کا کتنا ہی زعم ہو، اور اس نے اپنا سرکتنا ہی باریک کیوں نہ ترشوا رکھا ہو، بافندگان حرف و حکایت کی پرانی عادت ہے کہ کہانی کا تانا بانا بُنتے بُنتے اچانک اس کا رنگ، رخ اور ذائقہ بدل دیتے ہیں، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی کہتے کہتے خود کہنے والے کو کچھ ہو جاتا ہے۔ وہ پھر وہ نہیں رہتا کہ جو تھا۔ سو کچھ ایسی ہی واردات اس نامہ سیاہ راقم سطور کے ساتھ ہوئی۔
(کتاب ''آب گم'' سے اخذ کی گئی کچھ سطریں)
'اردو' میں کیا کیا کچھ ہے۔۔۔؟
مرسلہ: سارہ یحییٰ، کراچی
اردو پر''اسد اللہ'' ہمیشہ ''غالب'' رہے۔۔۔ ''اقبال'' ہمیشہ بلند اقبال رہے اور ''فیض'' کا فیض جاری ہے۔ کوئی ندی ہے، کوئی دریا اور کوئی سمندر، ہمیں ادب سے ''شورش'' نہیں۔ اس لیے ہم کسی کے ''فراق'' میں نہیں رہتے۔ اردو میں ''میر'' ہی نہیں، ''امیر'' ترین لوگ بھی ہیں۔ اردو پر کسی قسم کا داغ نہیں، ہاں ''داغ دہلوی'' ضرور ہیں۔ یہاں لوگ ''ریاض'' کرتے کرتے، ''مومن'' بنے اور ان کے ''ذوق'' کا یہ عالم تھا کہ دہلی، لکھنو اور دکن باقاعدہ دبستان بن گئے، بلکہ ''دبستان اردو'' بن گئے۔
یہاں ایک سے ایک ''ولی'' بھی ہیں اور ایک سے ایک جو اردو کی محبت میں نہ صرف ''سرشار'' رہتے ہیں، بلکہ اس پر ''جاں نثار'' بھی رہتے ہیں۔ اس لیے کسی کی حیثیت ''مجروح'' نہ کیجیے۔ ''شبلی'' کو شبلی ہی رہنے دیجیے۔ ''جنید'' و ''شبلی'' نہ بنائیے۔ ''اکبر'' اگر الہ آباد میں بے نظیر ہیں۔ تو ''اکبر آباد'' میں اپنے ''نظیر'' بھی کچھ کم نہیں۔ تنقید سے کسی کو فرار نہیں۔ بغیر تنقید کہ نہ کوئی ''فراز'' بن سکتا ہے اور نہ سرفراز!
اردو ادب ہمیشہ ادیبوں اور شاعروں کا مشکور رہا، بلکہ وہ شاکر بھی رہا۔ اس نے شاکر ہی نہیں ''پروین شاکر'' جیسی ''خوش بو'' بھی دی ہے۔ اس نے ''مسدس حالی'' بھی دیا اور اس نے نہ جانے کتنے ''سید'' بھی دیے، جو نہ صرف ''سلیمان'' ہیں، بلکہ ان کے پاس تخت سلیمانی بھی ہے، جس پر ایک دو سید ہی نہیں، بلکہ ''سر سید'' بھی بیٹھے۔ یہاں نہ صرف ''رشید'' ہیں، بلکہ ''مشتاق'' جیسے ''یوسفی'' بھی ہیں۔ ''پطرس'' جیسے طنزو مزاح کے ''بخاری'' بھی ہیں۔ یہاں مختلف رنگ ہی نہیں، بلکہ ''نارنگ'' بھی ہیں، بلکہ
''شمس الرحمٰن'' جیسے ''فاروقی'' بھی ہیں۔ یہاں ''عبد الماجد'' جیسے صاحب طرز ادیبوں کا ایک 'دریا آباد' ہے۔ یہاں ایک سے ایک ''آزاد'' ہیں اور ایک سے ایک اعلیٰ شخصیات ہیں، بلکہ ''ابولاعلٰی'' اور ''ابو الکلام'' بھی ہیں۔ اللہ اردو کی اس فضا کو مزید وسیع کر دے، تاکہ اس کا ''فیض'' مسلسل جاری رہے اور یہ ہمیشہ بلند ''اقبال'' اور ''غالب'' رہے۔۔۔آمین !