تجرباتی بیٹنگ آرڈر کامیاب ہوسکے گا
انگلش کنڈیشنز میں قومی ٹیم کا مشکل امتحان
ISLAMABAD:
انگلینڈ کی کنڈیشنز پاکستان کے لیے ہمیشہ سازگار رہی ہیں، مہمان ٹیم نے یہاں جب بھی اچھی کرکٹ کھیلی یادگار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، چیمپئنز ٹرافی ٹائٹل کی جیت اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے، تسلسل کے ساتھ انگلینڈ کے ٹورز کی وجہ سے بھی کھلاڑی یہاں کے ماحول سے اچھی طرح آشنا ہیں۔
عام طور پر قومی ٹیم یہاں قبل از وقت پہنچ کر کنڈیشنز سے ہم آہنگ بھی حاصل کر لیتی ہے، اس بار بھی کھلاڑی اور معاون اسٹاف ارکان نے25 جون کو ہی چارٹرڈ طیارے میں انگلینڈ پہنچ کر دبئی میں ڈیرے ڈال دیے تھے، یہاں 3روز کی روم آئسولیشن مکمل ہونے کے بعد پلیئرز نے بھرپور مشقوں کا آغاز بھی کردیا، ون ڈے سیریز سے قبل انٹرا اسکواڈ میچز سے بھی کھلاڑیوں کو اچھی تیاری کا موقع مل گیا ہے۔
پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ قومی اسکواڈ کا انتخاب ابوظبی میں پی ایس ایل ختم ہونے سے قبل ہی کر دیا گیا تھا،لیگ کے دوران بابر اعظم اور محمد رضوان کے سوا کسی کی کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آیا جس کی وجہ سے ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے،خاص طور پر آل راؤنڈرز کی پرفارمنس پر سوالیہ نشان موجود ہے، شاداب خان نے 36.11کی اوسط سے 9وکٹیں حاصل کیں اور صرف 94رنز بنائے،محمد نواز نے 32.50کی ایوریج سے 6 شکار کئے اور 109رنز اسکور کئے، عماد وسیم 34.42کی اوسط سے 7وکٹیں لینے کے ساتھ 68رنز بناسکے، فہیم اشرف نے 21.11کی بہتر ایوریج سے 8وکٹیں تو لیں مگر رنز صرف 77بنائے۔
بابر اعظم اور محمد رضوان نے تو اپنی فارم برقرار رکھتے ہوئے ٹاپ پر جگہ بنائی،اوپنرز شرجیل خان نے 30.72کی اوسط سے 338اور فخرزمان نے 31.88کی ایوریج سے 287رنز بناکر ٹاپ 10میں ضرور شامل ہیں مگر ابوظبی میں میچز کے دوران کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آیا،امام الحق نے 6میچز میں صرف 107رنز بنائے ہیں،مڈل آرڈر میں سرفراز احمد45.85کی اوسط سے 321اور محمد حفیظ 33.87کی ایوریج سے 271رنز بنانے میں کامیاب ہوئے مگر ابوظبی میں دونوں بطور سینئر فتوحات کی راہ ہموار نہیں کرسکے،پہلی بار قومی اسکواڈ میں جگہ بنانے والے اعظم خان نے سخت مایوس کیا،انہوں نے 17.40کی اوسط سے 174رنز بنائے،سلمان علی آغا نے 4میچز میں35رنز بنائے۔
ایونٹ کے ٹاپ بولرز میں شاہنواز دھانی کو صرف قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں منتخب کیا گیا ہے، یوں ایک ان فارم بولر کی خدمات میسر نہیں ہوں گی، بیٹنگ کوچ یونس خان کے استعفٰی کے بعد اگر پی ایس ایل کرکٹ آپریشنز کے سربراہ عثمان واہلہ جہاز میں سوار نہ ہوتے تو شاہنواز دھانی کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل بڑی ٹیم کیخلاف آزمانے کا ایک اچھا موقع مل سکتا تھا، پی ایس ایل کے ایک اور کامیاب بولر وہاب ریاض نظر انداز ہیں،شاہین شاہ آفریدی16،حسن علی13، محمد وسیم جونیئر12شکار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
سرفہرست 15بولرز میں مہنگے ترین حارث رؤف نے34.20کی اوسط سے 10وکٹیں لیں،محمد حسنین نے 32.44کی ایوریج سے 9شکار کئے،ارشد اقبال نے 32.50کی اوسط سے 8وکٹیں حاصل کیں، یہ تینوں بولرز بھی اس وقت اسکواڈ کے ساتھ ہیں،نئے ٹینٹ میں محمد وسیم جونیئر کی صلاحیتوں کو پرکھنے کا اچھا موقع ہوگا۔
پی ایس ایل میں کارکردگی کو دیکھا جائے تو بیشتر کرکٹرز دورہ انگلینڈ میں اپنی افادیت ثابت کرنے کے لیے فکر مند ہوں گے، سب سے اہم مسئلہ بیٹنگ آرڈر کا ہے، جنوبی افریقہ میں کئی تجربات کے باوجود مڈل آرڈر کا کھویا ہوا اعتماد واپس نہیں آ سکا، اس بار بھی اسکواڈ میں5 اوپنرز موجود ہیں، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے فخر زمان کو مڈل آرڈر میں کھلانا پڑا۔
ون ڈے کرکٹ میں امام الحق کی کارکردگی بھی اچھی ہے،5 ویں اوپنر شرجیل خان بھی اسکواڈ کے ساتھ موجود ہیں،حارث سہیل کو مڈل آرڈر مستحکم بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے، ماضی میں کئی بار انجریز کا شکار رہنے والے بیسٹمین کے بارے میں انگلینڈ سے بھی اچھی خبر نہیں آ رہیں،ایک تو وہ فٹنس مسائل کا سامنا کر رہے ہیں دوسرے حال ہی میں سنٹرل کنٹریکٹ پانے والوں کی فہرست سے باہر ہونے پر بھی ان کا اعتماد متزلزل ہو گا۔
اس صورتحال میں پی ایس ایل کے بہترین بیٹسمین صہیب مقصود امیدوں کا مرکز بن چکے ہیں، سلمان علی آغا اور سعود شکیل کے ناتواں کندھے شاید ابھی انٹرنیشنل کرکٹ کا دباؤ برداشت نہ کر سکیں، ایک روزہ کرکٹ میں عالمی چیمپئن انگلش ٹیم کو اس کی اپنی کنڈیشنز میں سخت چیلنج ہوگا،سپورٹنگ پچز پر فتوحات حاصل کرنے کے لیے مڈل آرڈر کے ساتھ آل راؤنڈرز کو بھی ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
انگلینڈ کی کنڈیشنز پاکستان کے لیے ہمیشہ سازگار رہی ہیں، مہمان ٹیم نے یہاں جب بھی اچھی کرکٹ کھیلی یادگار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، چیمپئنز ٹرافی ٹائٹل کی جیت اس کی ایک بہت بڑی مثال ہے، تسلسل کے ساتھ انگلینڈ کے ٹورز کی وجہ سے بھی کھلاڑی یہاں کے ماحول سے اچھی طرح آشنا ہیں۔
عام طور پر قومی ٹیم یہاں قبل از وقت پہنچ کر کنڈیشنز سے ہم آہنگ بھی حاصل کر لیتی ہے، اس بار بھی کھلاڑی اور معاون اسٹاف ارکان نے25 جون کو ہی چارٹرڈ طیارے میں انگلینڈ پہنچ کر دبئی میں ڈیرے ڈال دیے تھے، یہاں 3روز کی روم آئسولیشن مکمل ہونے کے بعد پلیئرز نے بھرپور مشقوں کا آغاز بھی کردیا، ون ڈے سیریز سے قبل انٹرا اسکواڈ میچز سے بھی کھلاڑیوں کو اچھی تیاری کا موقع مل گیا ہے۔
پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ قومی اسکواڈ کا انتخاب ابوظبی میں پی ایس ایل ختم ہونے سے قبل ہی کر دیا گیا تھا،لیگ کے دوران بابر اعظم اور محمد رضوان کے سوا کسی کی کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آیا جس کی وجہ سے ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے،خاص طور پر آل راؤنڈرز کی پرفارمنس پر سوالیہ نشان موجود ہے، شاداب خان نے 36.11کی اوسط سے 9وکٹیں حاصل کیں اور صرف 94رنز بنائے،محمد نواز نے 32.50کی ایوریج سے 6 شکار کئے اور 109رنز اسکور کئے، عماد وسیم 34.42کی اوسط سے 7وکٹیں لینے کے ساتھ 68رنز بناسکے، فہیم اشرف نے 21.11کی بہتر ایوریج سے 8وکٹیں تو لیں مگر رنز صرف 77بنائے۔
بابر اعظم اور محمد رضوان نے تو اپنی فارم برقرار رکھتے ہوئے ٹاپ پر جگہ بنائی،اوپنرز شرجیل خان نے 30.72کی اوسط سے 338اور فخرزمان نے 31.88کی ایوریج سے 287رنز بناکر ٹاپ 10میں ضرور شامل ہیں مگر ابوظبی میں میچز کے دوران کارکردگی میں تسلسل دیکھنے میں نہیں آیا،امام الحق نے 6میچز میں صرف 107رنز بنائے ہیں،مڈل آرڈر میں سرفراز احمد45.85کی اوسط سے 321اور محمد حفیظ 33.87کی ایوریج سے 271رنز بنانے میں کامیاب ہوئے مگر ابوظبی میں دونوں بطور سینئر فتوحات کی راہ ہموار نہیں کرسکے،پہلی بار قومی اسکواڈ میں جگہ بنانے والے اعظم خان نے سخت مایوس کیا،انہوں نے 17.40کی اوسط سے 174رنز بنائے،سلمان علی آغا نے 4میچز میں35رنز بنائے۔
ایونٹ کے ٹاپ بولرز میں شاہنواز دھانی کو صرف قومی ٹیسٹ اسکواڈ میں منتخب کیا گیا ہے، یوں ایک ان فارم بولر کی خدمات میسر نہیں ہوں گی، بیٹنگ کوچ یونس خان کے استعفٰی کے بعد اگر پی ایس ایل کرکٹ آپریشنز کے سربراہ عثمان واہلہ جہاز میں سوار نہ ہوتے تو شاہنواز دھانی کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل بڑی ٹیم کیخلاف آزمانے کا ایک اچھا موقع مل سکتا تھا، پی ایس ایل کے ایک اور کامیاب بولر وہاب ریاض نظر انداز ہیں،شاہین شاہ آفریدی16،حسن علی13، محمد وسیم جونیئر12شکار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
سرفہرست 15بولرز میں مہنگے ترین حارث رؤف نے34.20کی اوسط سے 10وکٹیں لیں،محمد حسنین نے 32.44کی ایوریج سے 9شکار کئے،ارشد اقبال نے 32.50کی اوسط سے 8وکٹیں حاصل کیں، یہ تینوں بولرز بھی اس وقت اسکواڈ کے ساتھ ہیں،نئے ٹینٹ میں محمد وسیم جونیئر کی صلاحیتوں کو پرکھنے کا اچھا موقع ہوگا۔
پی ایس ایل میں کارکردگی کو دیکھا جائے تو بیشتر کرکٹرز دورہ انگلینڈ میں اپنی افادیت ثابت کرنے کے لیے فکر مند ہوں گے، سب سے اہم مسئلہ بیٹنگ آرڈر کا ہے، جنوبی افریقہ میں کئی تجربات کے باوجود مڈل آرڈر کا کھویا ہوا اعتماد واپس نہیں آ سکا، اس بار بھی اسکواڈ میں5 اوپنرز موجود ہیں، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں بابر اعظم اور محمد رضوان نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے فخر زمان کو مڈل آرڈر میں کھلانا پڑا۔
ون ڈے کرکٹ میں امام الحق کی کارکردگی بھی اچھی ہے،5 ویں اوپنر شرجیل خان بھی اسکواڈ کے ساتھ موجود ہیں،حارث سہیل کو مڈل آرڈر مستحکم بنانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے، ماضی میں کئی بار انجریز کا شکار رہنے والے بیسٹمین کے بارے میں انگلینڈ سے بھی اچھی خبر نہیں آ رہیں،ایک تو وہ فٹنس مسائل کا سامنا کر رہے ہیں دوسرے حال ہی میں سنٹرل کنٹریکٹ پانے والوں کی فہرست سے باہر ہونے پر بھی ان کا اعتماد متزلزل ہو گا۔
اس صورتحال میں پی ایس ایل کے بہترین بیٹسمین صہیب مقصود امیدوں کا مرکز بن چکے ہیں، سلمان علی آغا اور سعود شکیل کے ناتواں کندھے شاید ابھی انٹرنیشنل کرکٹ کا دباؤ برداشت نہ کر سکیں، ایک روزہ کرکٹ میں عالمی چیمپئن انگلش ٹیم کو اس کی اپنی کنڈیشنز میں سخت چیلنج ہوگا،سپورٹنگ پچز پر فتوحات حاصل کرنے کے لیے مڈل آرڈر کے ساتھ آل راؤنڈرز کو بھی ذمہ دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔