برساتی نالے موسمیاتی ڈزاسٹر
کراچی کی پوش آبادیوں سے بھی برساتی نالے گزرتے ہیں، کئی بڑی شاہراہیں گندے پانی کی جھیلیں بن گئی ہیں۔
بارش، سیلاب اور موسمیاتی تباہ کاریوں کے سلسلے تھمے نہیں ہیں، سیاست اور انسانی زندگی کے مابین فطرت کی سب سے بڑی جنگ جاری ہے، لیکن مون سون بارشوں کی یاد آ رہی ہے۔
ارباب اختیار کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ضروری بھی ہے کیونکہ برساتی نالوں کی صفائی، ان کی مرمت، ان کے مخدوش کناروں پر تعمیرات اور آبادیوں کے خاتمے پر انہدامی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
متاثرین نے عدالتی حکم سے رجوع بھی کیا ہے لیکن گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں میامی فلوریڈا میں ایک بلڈنگ منہدم ہونے کا المیہ سامنے آیا، جزوی طور پر منہدم اس عمارت کا المیہ امریکا کے ایک پوش علاقے کی ریتیلی زمین پر رونما ہوا، عمارت کے تقابلی جائزے میں پاکستان کے بیشتر علاقوں میں بننے والے مکانات کی تصویری جھلک نظروں کے سامنے آ گئی، درد انگیز تفصیلات ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عمارت گرنے سے پہلے انھوں نے ایک گڑگڑاہٹ سنی تھی۔ عمارت کا درمیانی حصہ پہلے زمیں بوس ہوا اور پھر تقریباً 30 سیکنڈ بعد دوسرا حصہ بھی گر گیا۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ 2018 میں تیار ہونے والی عمارت کو ہونے والے سنگین نقصانات کا ذکر ایک رپورٹ میں کیا گیا تھا۔
عمارت کے نیچے بنے پارکنگ لاٹ میں عمارت کا وزن برداشت کرنے والی بنیادوں میں دراڑیں موجود تھیں۔ عمارت کا سوئمنگ پول لیک کر رہا تھا اور پانی نیچے موجود پارکنگ لاٹ کے ستونوں میں رس رہا تھا۔
یہ بات ناممکن ہے کہ آپ اس بدقسمت عمارت کے بارے میں ہونے والی کوریج دیکھ رہے ہوں اور یہ سوچ کر کانپ نہ جائیں کہ کراچی کے ساحلی علاقوں میں قائم اسی قسم کی کثیر المنزلہ عمارتوں کی کیا حالت ہوگی۔ پاکستان میں عمارتوں کا گرنا عمومی واقعات میں شمار ہونے لگا ہے۔ ان میں اکثر واقعات ان غریب کچی آبادیوں میں ہوتے ہیں جہاں بدعنوان ٹھیکے دار ناقص تعمیراتی سامان سے کئی منزلہ عمارتیں بنا دیتے ہیں۔
یہ سب کچھ کرتے ہوئے عوامی تحفظ کے لیے بنے کسی قانون پر توجہ نہیں دی جاتی۔ گزشتہ سال سکھر میں ایک عمارت زمیں بوس ہوئی، اس کے بعد کراچی میں لیاری کے علاقے میں ایک 5 منزلہ عمارت بھی گر گئی۔
70 کی دہائی میں لیاری کی ایک نو تعمیر شدہ ''بسم اللہ بلڈنگ'' گری تھی، وہ ماہرین تعمیرات کے مطابق ریت کی دیوار ثابت ہوئی، پھر ڈیفنس کے علاقے میں ایک معروف بلڈر کی تعمیر کردہ دو چار منزلہ سائٹس پر عجیب منظر دیکھا گیا کہ ساتھ کھڑے دو فلیٹ سائٹس میں ایک صحیح سلامت تھی مگر دوسری زمین بوس ہو گئی تھی جیسے کسی نے منظم طریقے سے گرا دیا ہو، یہ در حقیقت عروس البلاد کراچی میں عمارتوں کے منہدم ہونے اور راتوں رات تعمیراتی طلسم کے ظہور پذیر ہونے کا ایک تیز رفتار سلسلہ تھا، پہلے شہر قائد میں ادارہ ترقیات کراچی KDA کے نام سے قائم تھا جس نے شہر میں تعمیرات اور ماسٹر پلانز کے ذریعے شہر کی خوبصورتی، تنوع، توسیع اور اربن تمدن کی بنیاد ڈالنے کی کوششیں کیں مگر پھر شہر غیر قانونی عمارتوں کے چنگل میں پھنس گیا، بے ترتیب بلڈنگز، برساتی نالوں، اور مخدوش و خستہ عمارتوں کے سانحات نے شہر کراچی کو ایشیا کے عظیم اور خوبصورت شہر سے رسوائیوں اور غلاظتوں کی کچرا کنڈی بنا دیا، آج مقامی حکومتیں کہیں نظر نہیں آتیں، جمہوریت کا چہرہ کوڑے کے ڈھیر میں چھپ گیا ہے۔
گڈ گورننس کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، سیوریج کے پانی کی عدم نکاسی، پینے کے صاف پانی سے محرومی نے کراچی کی عروس البلاد حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور بلڈر مافیا کے باعث کراچی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوتا گیا اس پر ریگولیٹنگ ادارے، صوبائی حکومتوں کے نمایندے شہروں میں صحت صفائی اور تعمیراتی منصوبوں کی نگرانی میں دلچسپی نہیں لیتے، گزشتہ سال ہونے والی مون سون بارشوں میں بھی عمارتیں گرنے کے واقعات سامنے آئے جس میں سے ایک میں 10 افراد جاں بحق ہوئے۔
اس سال بھی بارشوں کی اسی شدت کی پیش گوئی کی جا رہی ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کراچی کے دیگر اداروں کی طرح) مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں خالی کروانے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کر سکی ہے۔ اس ضمن میں نہ ہی کوئی تیاری کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی انسپیکشن۔ مزید یہ کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر کئی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔
گزشتہ سال ایک رپورٹ میں ایک پوش ایریا سمیت سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر تعمیر ہونے والی عمارتوں میں موجود مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ فلوریڈا میں گرنے والی عمارت کی طرح ہی یہاں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں موجود ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے کہ ان کی منصوبہ بندی میں کن معیارات کو مدِنظر رکھا گیا ہے اور عمارت کی تعمیر کس بہتر انداز میں کی گئی ہے۔
یہ بات بھی غیر واضح ہے کہ کیا مستقبل میں ان نئی اور پرانی عمارتوں کی جانچ پڑتال ہوتی رہے گی تاکہ اس بات کا تعین کیا جاتا رہے کہ یہ عمارتیں قابلِ رہائش ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے بھی کم معلومات دستیاب ہیں کہ کراچی کے ساحل پر ان فلک بوس عمارتوں کے نقشہ ساز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں کہ یہ عمارتیں مستقبل میں سمندر برد نہیں ہونگی کیونکہ جو عمارتیں سمندر کنارے تعمیر ہوتی ہیں انھیں ہوا، سمندر اور ریت سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
دبئی میں تعمیر ہونے والی عمارتوں (جنھیں دیکھ کر یہاں عمارتیں بنائی جا رہی ہیں) کی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ سمندری پانی سے ہونیوالے نقصانات کی مرمت کروا سکیں اور عمارت کے ڈھانچے کو بہتر حالت میں رکھ سکیں۔ پاکستانیوں کو بچت کی عادت ہوتی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ کام ہم ساحلی علاقوں میں ہونے والی تعمیرات میں بھی کرینگے۔ اس کے نتیجے میں جو عمارتیں تعمیر ہونگی وہ کچھ غیر مستحکم اور تھوڑی متزلزل ہونگی لیکن ان کی تعمیر ممکن بنانے والے سیاسی کھلاڑی ہمیشہ کی طرح روایتی رویہ اختیار کیے رہیں گے۔
فلوریڈا کے سرف سائیڈ میں واقع چیمپلن ٹاورز اور کونڈومینیئمس کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ عمارت کا باقیماندہ حصہ جو اب بھی کھڑا ہے خوفناک منظر دکھا رہا ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کو ملبے میں سے جو کھلونے مل رہے ہیں وہ انھیں ایک مقام پر ان بچوں کی یادگار کے طور پر جمع کر رہے ہیں جو اس حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ عمارت گرنے کے اگلے ہی دن بارش ہوئی اور ہر چیز بھیگ گئی یوں ملبے میں تلاش کا کام مزید دشوار ہو گیا۔ اس کے بعد حادثے کی جگہ پر آگ بھڑک اٹھی جس سے وہ مقام دھوئیں سے بھر گیا اور ملبے میں کسی کے زندہ بچ جانے کے امکانات مزید کم ہو گئے۔
سرف سائیڈ میں ہونے والا حادثہ کراچی کی ساحلی پٹی پر تعمیرات کرنیوالوں کے لیے ایک تنبیہہ ہے۔ اگر سندھ حکومت، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یا کسی اور ادارے کے پاس ان عمارتوں کی تعمیر سے قبل کے کوئی منصوبے موجود ہیں تو انھیں ان منصوبوں کو پبلک کرنا چاہیے تاکہ عوام بھی انھیں دیکھ سکیں۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ عمارتوں میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے ایسے راستے موجود ہوں جنھیں رہائشی کسی زلزلے یا آگ لگنے کی صورت میں آسانی سے استعمال کر سکیں۔
چیمپلن ٹاورز کے 100 سے زائد رہائشی (جن میں سے اکثر گرنے والے حصے کی دوسری جانب رہتے تھے) ان ہنگامی راستوں کی مدد سے ہی عمارت سے باہر نکلے۔ کشادہ، بغیر کسی رکاوٹ کے اور باقاعدہ طور پر نشان زدہ ہنگامی راستے شاید ہی کراچی کی کسی عمارت میں موجود ہوں اور یہ کبھی بھی کسی سانحے کا سبب بن سکتی ہیں۔
یہ بات تو ناممکن ہی لگتی ہے کہ چیمپلن ٹاورز کے ملبے میں اب کوئی زندہ بچا ہو۔ کراچی کی فلک بوس عمارتوں خاص طور پر ساحل سمندر پر واقع عمارتوں کے رہائشیوں کو اس حوالے سے نظر رکھنی چاہیے۔ اور اپنی جگہ بدلتی ہوئی ریت اور اس پر قائم عمارتوں کے حوالے سے لاتعلق ہوکر نہیں رہنا چاہیے۔
شہری علاقوں میں منہدم ہونے والی عمارتوں کے مخدوش ریکارڈ کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے، ارباب اختیار اس بات کا جائزہ لیں کہ گزشتہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے حکومتی اداروں نے کیا سبق سیکھا، بارشیں اب بھی کسی کا انتظار نہیں کریں گی، ہر خرابی کو درست کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ماسٹر پلانز کی ضرورت پڑیگی، پہلے برساتی نالوں کی صفائی کے کاموں کی تکمیل کے لیے بلدیاتی حکام اپنے پلانز کو اپ ٹو ڈیٹ کریں، کراچی کے بیشتر برساتی نالے، گجر نالے، محمود آباد، لانڈھی، لیاری ندی،اورنگی ٹاؤن، مچھر کالونی سمیت کئی نالے خبروں میں رہتے ہیں، نالہ لئی کا حوالہ بھی آیا ہے۔
کراچی کی پوش آبادیوں سے بھی برساتی نالے گزرتے ہیں، کئی بڑی شاہراہیں گندے پانی کی جھیلیں بن گئی ہیں، کراچی کے بعض علاقوں میں ٹرانسپورٹ کے بڑے مسائل ہیں، شہریوں کے لیے راستہ چلنا مشکل ہوگیا ہے، نمازی حضرات مسجد تک بڑی مشکل سے پہنچ پاتے ہیں، اگر یہی روز و شب رہے تو بارشیں پچھلے سال کی طرح بہت قیامت ڈھائیں گی، پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور لاہور و دیگر شہروں میں عمارتوں کی خستہ حالی اور ان کی مخدوشی کے مسائل درد انگیز ہیں، اربنائزیشن کے ایک ماہر کا کہنا ہے کراچی میں رہائش کے مسائل نے شہریوں کو بند پنجروں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے، لاکھوں افراد چھوٹے فلیٹس میں زندگی گزار دیتے ہیں۔
ارباب اختیار برسات کے موسم کی سابقہ تباہ کاریوں کو یاد رکھتے ہوئے برساتی نالوں، سیوریج، ڈرینج سسٹم کو بہتر بنائیں، سڑکوں کی مرمت اور گٹر کے ڈھکنوں کو بند کرنے کی مہم پر توجہ دیں، معصوم بچے ندی نالوں میں گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں، اس غیر انسانی صورتحال کا ان سیاست دانوں کو فوری نوٹس لینا چاہیے جو زندگی کے حاشیوں پر رہنے والوں کے مسائل سے بے خبر ہیں۔
ارباب اختیار کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ضروری بھی ہے کیونکہ برساتی نالوں کی صفائی، ان کی مرمت، ان کے مخدوش کناروں پر تعمیرات اور آبادیوں کے خاتمے پر انہدامی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
متاثرین نے عدالتی حکم سے رجوع بھی کیا ہے لیکن گزشتہ دنوں ایک رپورٹ میں میامی فلوریڈا میں ایک بلڈنگ منہدم ہونے کا المیہ سامنے آیا، جزوی طور پر منہدم اس عمارت کا المیہ امریکا کے ایک پوش علاقے کی ریتیلی زمین پر رونما ہوا، عمارت کے تقابلی جائزے میں پاکستان کے بیشتر علاقوں میں بننے والے مکانات کی تصویری جھلک نظروں کے سامنے آ گئی، درد انگیز تفصیلات ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عمارت گرنے سے پہلے انھوں نے ایک گڑگڑاہٹ سنی تھی۔ عمارت کا درمیانی حصہ پہلے زمیں بوس ہوا اور پھر تقریباً 30 سیکنڈ بعد دوسرا حصہ بھی گر گیا۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ 2018 میں تیار ہونے والی عمارت کو ہونے والے سنگین نقصانات کا ذکر ایک رپورٹ میں کیا گیا تھا۔
عمارت کے نیچے بنے پارکنگ لاٹ میں عمارت کا وزن برداشت کرنے والی بنیادوں میں دراڑیں موجود تھیں۔ عمارت کا سوئمنگ پول لیک کر رہا تھا اور پانی نیچے موجود پارکنگ لاٹ کے ستونوں میں رس رہا تھا۔
یہ بات ناممکن ہے کہ آپ اس بدقسمت عمارت کے بارے میں ہونے والی کوریج دیکھ رہے ہوں اور یہ سوچ کر کانپ نہ جائیں کہ کراچی کے ساحلی علاقوں میں قائم اسی قسم کی کثیر المنزلہ عمارتوں کی کیا حالت ہوگی۔ پاکستان میں عمارتوں کا گرنا عمومی واقعات میں شمار ہونے لگا ہے۔ ان میں اکثر واقعات ان غریب کچی آبادیوں میں ہوتے ہیں جہاں بدعنوان ٹھیکے دار ناقص تعمیراتی سامان سے کئی منزلہ عمارتیں بنا دیتے ہیں۔
یہ سب کچھ کرتے ہوئے عوامی تحفظ کے لیے بنے کسی قانون پر توجہ نہیں دی جاتی۔ گزشتہ سال سکھر میں ایک عمارت زمیں بوس ہوئی، اس کے بعد کراچی میں لیاری کے علاقے میں ایک 5 منزلہ عمارت بھی گر گئی۔
70 کی دہائی میں لیاری کی ایک نو تعمیر شدہ ''بسم اللہ بلڈنگ'' گری تھی، وہ ماہرین تعمیرات کے مطابق ریت کی دیوار ثابت ہوئی، پھر ڈیفنس کے علاقے میں ایک معروف بلڈر کی تعمیر کردہ دو چار منزلہ سائٹس پر عجیب منظر دیکھا گیا کہ ساتھ کھڑے دو فلیٹ سائٹس میں ایک صحیح سلامت تھی مگر دوسری زمین بوس ہو گئی تھی جیسے کسی نے منظم طریقے سے گرا دیا ہو، یہ در حقیقت عروس البلاد کراچی میں عمارتوں کے منہدم ہونے اور راتوں رات تعمیراتی طلسم کے ظہور پذیر ہونے کا ایک تیز رفتار سلسلہ تھا، پہلے شہر قائد میں ادارہ ترقیات کراچی KDA کے نام سے قائم تھا جس نے شہر میں تعمیرات اور ماسٹر پلانز کے ذریعے شہر کی خوبصورتی، تنوع، توسیع اور اربن تمدن کی بنیاد ڈالنے کی کوششیں کیں مگر پھر شہر غیر قانونی عمارتوں کے چنگل میں پھنس گیا، بے ترتیب بلڈنگز، برساتی نالوں، اور مخدوش و خستہ عمارتوں کے سانحات نے شہر کراچی کو ایشیا کے عظیم اور خوبصورت شہر سے رسوائیوں اور غلاظتوں کی کچرا کنڈی بنا دیا، آج مقامی حکومتیں کہیں نظر نہیں آتیں، جمہوریت کا چہرہ کوڑے کے ڈھیر میں چھپ گیا ہے۔
گڈ گورننس کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، سیوریج کے پانی کی عدم نکاسی، پینے کے صاف پانی سے محرومی نے کراچی کی عروس البلاد حیثیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور بلڈر مافیا کے باعث کراچی کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوتا گیا اس پر ریگولیٹنگ ادارے، صوبائی حکومتوں کے نمایندے شہروں میں صحت صفائی اور تعمیراتی منصوبوں کی نگرانی میں دلچسپی نہیں لیتے، گزشتہ سال ہونے والی مون سون بارشوں میں بھی عمارتیں گرنے کے واقعات سامنے آئے جس میں سے ایک میں 10 افراد جاں بحق ہوئے۔
اس سال بھی بارشوں کی اسی شدت کی پیش گوئی کی جا رہی ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (کراچی کے دیگر اداروں کی طرح) مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں خالی کروانے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کر سکی ہے۔ اس ضمن میں نہ ہی کوئی تیاری کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی انسپیکشن۔ مزید یہ کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر کئی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔
گزشتہ سال ایک رپورٹ میں ایک پوش ایریا سمیت سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر تعمیر ہونے والی عمارتوں میں موجود مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ فلوریڈا میں گرنے والی عمارت کی طرح ہی یہاں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں موجود ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے کہ ان کی منصوبہ بندی میں کن معیارات کو مدِنظر رکھا گیا ہے اور عمارت کی تعمیر کس بہتر انداز میں کی گئی ہے۔
یہ بات بھی غیر واضح ہے کہ کیا مستقبل میں ان نئی اور پرانی عمارتوں کی جانچ پڑتال ہوتی رہے گی تاکہ اس بات کا تعین کیا جاتا رہے کہ یہ عمارتیں قابلِ رہائش ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے بھی کم معلومات دستیاب ہیں کہ کراچی کے ساحل پر ان فلک بوس عمارتوں کے نقشہ ساز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں کہ یہ عمارتیں مستقبل میں سمندر برد نہیں ہونگی کیونکہ جو عمارتیں سمندر کنارے تعمیر ہوتی ہیں انھیں ہوا، سمندر اور ریت سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔
دبئی میں تعمیر ہونے والی عمارتوں (جنھیں دیکھ کر یہاں عمارتیں بنائی جا رہی ہیں) کی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ سمندری پانی سے ہونیوالے نقصانات کی مرمت کروا سکیں اور عمارت کے ڈھانچے کو بہتر حالت میں رکھ سکیں۔ پاکستانیوں کو بچت کی عادت ہوتی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ کام ہم ساحلی علاقوں میں ہونے والی تعمیرات میں بھی کرینگے۔ اس کے نتیجے میں جو عمارتیں تعمیر ہونگی وہ کچھ غیر مستحکم اور تھوڑی متزلزل ہونگی لیکن ان کی تعمیر ممکن بنانے والے سیاسی کھلاڑی ہمیشہ کی طرح روایتی رویہ اختیار کیے رہیں گے۔
فلوریڈا کے سرف سائیڈ میں واقع چیمپلن ٹاورز اور کونڈومینیئمس کے لیے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ عمارت کا باقیماندہ حصہ جو اب بھی کھڑا ہے خوفناک منظر دکھا رہا ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کو ملبے میں سے جو کھلونے مل رہے ہیں وہ انھیں ایک مقام پر ان بچوں کی یادگار کے طور پر جمع کر رہے ہیں جو اس حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ عمارت گرنے کے اگلے ہی دن بارش ہوئی اور ہر چیز بھیگ گئی یوں ملبے میں تلاش کا کام مزید دشوار ہو گیا۔ اس کے بعد حادثے کی جگہ پر آگ بھڑک اٹھی جس سے وہ مقام دھوئیں سے بھر گیا اور ملبے میں کسی کے زندہ بچ جانے کے امکانات مزید کم ہو گئے۔
سرف سائیڈ میں ہونے والا حادثہ کراچی کی ساحلی پٹی پر تعمیرات کرنیوالوں کے لیے ایک تنبیہہ ہے۔ اگر سندھ حکومت، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یا کسی اور ادارے کے پاس ان عمارتوں کی تعمیر سے قبل کے کوئی منصوبے موجود ہیں تو انھیں ان منصوبوں کو پبلک کرنا چاہیے تاکہ عوام بھی انھیں دیکھ سکیں۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ عمارتوں میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے ایسے راستے موجود ہوں جنھیں رہائشی کسی زلزلے یا آگ لگنے کی صورت میں آسانی سے استعمال کر سکیں۔
چیمپلن ٹاورز کے 100 سے زائد رہائشی (جن میں سے اکثر گرنے والے حصے کی دوسری جانب رہتے تھے) ان ہنگامی راستوں کی مدد سے ہی عمارت سے باہر نکلے۔ کشادہ، بغیر کسی رکاوٹ کے اور باقاعدہ طور پر نشان زدہ ہنگامی راستے شاید ہی کراچی کی کسی عمارت میں موجود ہوں اور یہ کبھی بھی کسی سانحے کا سبب بن سکتی ہیں۔
یہ بات تو ناممکن ہی لگتی ہے کہ چیمپلن ٹاورز کے ملبے میں اب کوئی زندہ بچا ہو۔ کراچی کی فلک بوس عمارتوں خاص طور پر ساحل سمندر پر واقع عمارتوں کے رہائشیوں کو اس حوالے سے نظر رکھنی چاہیے۔ اور اپنی جگہ بدلتی ہوئی ریت اور اس پر قائم عمارتوں کے حوالے سے لاتعلق ہوکر نہیں رہنا چاہیے۔
شہری علاقوں میں منہدم ہونے والی عمارتوں کے مخدوش ریکارڈ کو پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے، ارباب اختیار اس بات کا جائزہ لیں کہ گزشتہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے حکومتی اداروں نے کیا سبق سیکھا، بارشیں اب بھی کسی کا انتظار نہیں کریں گی، ہر خرابی کو درست کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ماسٹر پلانز کی ضرورت پڑیگی، پہلے برساتی نالوں کی صفائی کے کاموں کی تکمیل کے لیے بلدیاتی حکام اپنے پلانز کو اپ ٹو ڈیٹ کریں، کراچی کے بیشتر برساتی نالے، گجر نالے، محمود آباد، لانڈھی، لیاری ندی،اورنگی ٹاؤن، مچھر کالونی سمیت کئی نالے خبروں میں رہتے ہیں، نالہ لئی کا حوالہ بھی آیا ہے۔
کراچی کی پوش آبادیوں سے بھی برساتی نالے گزرتے ہیں، کئی بڑی شاہراہیں گندے پانی کی جھیلیں بن گئی ہیں، کراچی کے بعض علاقوں میں ٹرانسپورٹ کے بڑے مسائل ہیں، شہریوں کے لیے راستہ چلنا مشکل ہوگیا ہے، نمازی حضرات مسجد تک بڑی مشکل سے پہنچ پاتے ہیں، اگر یہی روز و شب رہے تو بارشیں پچھلے سال کی طرح بہت قیامت ڈھائیں گی، پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور لاہور و دیگر شہروں میں عمارتوں کی خستہ حالی اور ان کی مخدوشی کے مسائل درد انگیز ہیں، اربنائزیشن کے ایک ماہر کا کہنا ہے کراچی میں رہائش کے مسائل نے شہریوں کو بند پنجروں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے، لاکھوں افراد چھوٹے فلیٹس میں زندگی گزار دیتے ہیں۔
ارباب اختیار برسات کے موسم کی سابقہ تباہ کاریوں کو یاد رکھتے ہوئے برساتی نالوں، سیوریج، ڈرینج سسٹم کو بہتر بنائیں، سڑکوں کی مرمت اور گٹر کے ڈھکنوں کو بند کرنے کی مہم پر توجہ دیں، معصوم بچے ندی نالوں میں گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں، اس غیر انسانی صورتحال کا ان سیاست دانوں کو فوری نوٹس لینا چاہیے جو زندگی کے حاشیوں پر رہنے والوں کے مسائل سے بے خبر ہیں۔