ریاست کے خدو خال
بھٹکتی ریاست کا بیانیہ تا دیر تک عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکے گا۔
آپ یہ یقین کر لیں کہ بھٹکتے رہنے کا نہ کوئی سن ہوتا ہے اور نہ ہی بھٹکنے میں عمر حائل ہوتی ہے،بھٹکنا اور مسلسل خود کو اس میں مبتلا رکھنا ایک ایسے مرض کی نشاندہی کرتا ہے جو فرد سے زیادہ ہجوم کو مریض رکھنا چاہتا ہے۔
جب یہ مرض فرد سے نکل کر ریاستوں کی بنیادوں میں پرورش پانے کا سبب بن جائے تو پھر یہ تنگ نظر سوچ اقوام کی تقدیر کا وہ ناسور بن جاتی ہے جس سے قوم کی تعمیر کے بجائے اس کی سوچ معذور بن کر آخرکار غلامی کی اس اتھاہ میں داخل ہو جاتی ہے جہاں سے نکلنا نا ممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔
ریاست کا یہ پہلو مجھے اور میرے ایسے بہت سے ترقی پسند و روشن خیال سوچ کے صحافیوں اور دوستوں کو ایک عرصے سے تنگ کیے ہوئے ہے،مگر آج لاہور کے یار جانی عامر ریاض نے کراچی میں ایک ریڈیو پروگرام میں بار بار اس ریاست کے خدو خال کے حوالے سے سوالات کے ہتھوڑے مجھ پر پروگرام کے دوران مارے بھی اور بعد کی گفتگو میں بھی ''ریاست کی سمت'' کے سوال سے مجھے کچوکے لگاتے رہے،جس سے میرے ذہن میں موجودہ ریاست کے بیانیے کے ابتدائی سال کے واقعات سفر کرتے رہے۔
جمہوریت اور عوامی حقوق کی بالا دست ریاست کا تصور دینے والے پاکستان میں اس کے قائم ہونے کے ابتدائی سالوں سے ہی آمرانہ بیانیے کی بازگشت ہماری تاریخ کا وہ دردناک پہلو ہے جس سے ہم سات دہائیاں گذارنے کے باوجود چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں،گو اس درمیاں قائد اعظم سے لے کر سہروردی تک یہ کوششیں رہیں کہ کسی طرح اس ریاست کو سول بالا دستی دلا کر عالمی سطح پر ترقی اور جمہوریت کی راہ پر لے جایا جائے۔
واقعاتی طور جنرل گریسی کے بعد جس طرح سازشی انداز سے طاقتور اشرافیہ نے جنرل ایوب کے عوام دشمن بیانیئے کو تقویت دی،وہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ریاست کا اسٹبلشمنٹ زدہ قومی سلامتی کا بیانیہ بنا ہوا ہے،جس کی سوچ نے ملک کو دہشت گردی اور مذہبی تنگ نظری میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ اس سماج میں لاقانونیت اور غلط بیانی کو تنگ نظری کی چادر میں لپیٹ کر دولت مند ہونے کا ہر وہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جس میں ریاستی حکمرانوں کی مانند زمینی قبضہ طاقت اور ایمان کی نشانی بنا دیا گیا ہے جب کہ اس کے بر عکس جمہوری بیانیئے کو رد کرنے اور سماج میں تندرست سوچ کے پروان چڑھنے کو روکنے کے کے لیے جنرل ایوب نے ایک ایسی قوت تیار کی جس کا کام سماج کے مختلف شعبوں میں داخل ہو کر منصوبہ بندی کے تحت ماہر بننا تھا تاکہ گلے سڑے بیانیے کو نسل کے ذہنوں میں ڈالا جائے۔
اس مقصد کے لیے آمر جنرل ایوب نے کہیں صحافی، کہیں وکیل، کہیں صداکار کہیں اداکار کہیں ماہر لسانیات کہیں شاعر و ادیب تو کہیں سیاسی و معاشی تجزیہ کار کے طور پر ریاستی سر پرستی میں آمرانہ مزاج کے مربیوں کو سماج کے مختلف شعبہ جات میں داخل کیا اور انھیں عوامی ترجمان بنانے کی کوششیں پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھیں اور ریاستی اشرافیائی بیانیے میں سویلین کی مدد کی ضرورت پڑی تو وہاں انھوں نے اپنے ریاستی بیانیہ کی ترویج کی خاطر صحافی یا سماج کا دانشور بنا کر مذکورہ کے مضامین ذریعے افغان جنگ کو ایمانی جہاد بنا کر پاکستانی عوام کو دھوکے میں رکھ کر مدارس کا وہ نیٹ ورک بنایا جس سے عوام کی بہتری کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے مفادات حاصل کیے گئے،جن کے اثرات سے اب تک ملک ایک تنگ نظر مذہبی اور جہادی سوچ کی ریاست بنتا چلا آرہا ہے،جس میں زمانے کی ترقی کے تناظر میں بہتری آنے کے بجائے ایسی انتہا پسند سوچ جنم لے رہی ہے جو اپنے آخری نتیجے میں ملک کے لیے صرف ضرر رساں ہی ثابت ہوگی،یہی نہیں بلکہ اب قومی سلامتی کے نام پر اظہار رائے کے ذرایع کو وہ مضامین چھاپنے کو کہا جاتاہے جو ریاست کے جمہوریت مخالف بیانیے کو تقویت دیں۔
اس سلسلے میں آجکل ریاست کے اعلیٰ کردار حکمرانوں کے انتخاب کا درد منظر عام پر آ رہا ہے،جس میں جمہوری نمایندے کے انتخاب سے قبل اس کی چھان پھٹک ایک اعلیٰ متقی اور پرہیزگار کمیٹی سے کروا کر ایک با کردار منتخب رکن اسمبلی لانا چاہتے ہیں جو اس ملک کی اسلامی نشاۃ ثانیہ کا علمبردار ہو اور ایمانی جذبے کی بنا پر ملک سے کرپشن،منی لانڈرنگ کا تو خاتمہ کر دے مگر طاقتور اداروں کے زیر استعمال کسی چیز یا ناجائز قبضے کو چھیڑنے کی کوشش نہ کرے کہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے جو ریاست کے ایمان کے لیے ضرر رساں ہونگے،ایرانی طرز کے صدارتی اور ایمانی نظام کی حمایت میں آواز بلند کی جا رہی ہے اور اسی کے ساتھ برطانوی اور امریکی جمہوریت بے سود اور بے وقعت دکھایا جا رہا ہے۔
بات کسی کی خواہش سے زیادہ اس لمحے کی ہے جس لمحے اس خیال کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لایا گیا ہے،یہ بالکل اسی طرح کا خیال یا دھوکا ہے کہ ہم امن پسند ملک ہیں اور امن کی ہر صورت میں حمایت کریں گے چاہے وہ امن طالبان قتل و غارت اور طاقت کی بنیاد پر افغانستان میں قائم کیا جائے،لیکن چونکہ قتل و غارت کے بعد بھی امن ہمیں عزیز ہے لہٰذا ہم طالبان کو تسلیم کرنے میں کیوں تردد کا شکار ہوں،کیونکہ پاکستانی ریاست پڑوس کے امن کی دل و جان سے خواہاں ہے،لہٰذا ابھی امن امن کی ڈگڈگی ہی بجانا ریاستی بیانیئے کی بقا ٹہرایا جائے،جس میں قومی حمیت اور غیرت کا تڑکہ بھی بہت ضروری ہے۔
اس قسم کے بیانیئے کے یہ ریاستی مربی دراصل ایک خاص وقت میں ہانکے جاتے ہیں جس کا مقصد عوام کے منتشر ذہن کی ریاست سازی کی کوشش ہوتی ہے جس سے باخبر رہنا اور اس قسم کے عوام دشمن بیانیئے کا متبادل دینا روشن خیال جمہوری سوچ کے صحافی اور کالم نگار کا فرض بن جاتاہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ نظام انصاف پر قدغن لگانے کی کوششیں کس حد تک یہ ریاست قبول کرتی ہے اور کس حد تک عدلیہ کی آزادی کے خواہاں ریاست سے لڑ کر آئینی طور سے حق لینے میں کامیاب ہوتے ہیں،مگر یہ بات طے ہے کہ بھٹکتی ریاست کا بیانیہ تا دیر تک عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکے گا اور آخر کار عوام کو آئینی و جمہوری آزادی دینا ریاست کا لازمی حصہ ہوگا وگرنہ عوام کے بغیر ریاست خلاؤں میں سفر طے نہیں کیا کرتی۔
جب یہ مرض فرد سے نکل کر ریاستوں کی بنیادوں میں پرورش پانے کا سبب بن جائے تو پھر یہ تنگ نظر سوچ اقوام کی تقدیر کا وہ ناسور بن جاتی ہے جس سے قوم کی تعمیر کے بجائے اس کی سوچ معذور بن کر آخرکار غلامی کی اس اتھاہ میں داخل ہو جاتی ہے جہاں سے نکلنا نا ممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔
ریاست کا یہ پہلو مجھے اور میرے ایسے بہت سے ترقی پسند و روشن خیال سوچ کے صحافیوں اور دوستوں کو ایک عرصے سے تنگ کیے ہوئے ہے،مگر آج لاہور کے یار جانی عامر ریاض نے کراچی میں ایک ریڈیو پروگرام میں بار بار اس ریاست کے خدو خال کے حوالے سے سوالات کے ہتھوڑے مجھ پر پروگرام کے دوران مارے بھی اور بعد کی گفتگو میں بھی ''ریاست کی سمت'' کے سوال سے مجھے کچوکے لگاتے رہے،جس سے میرے ذہن میں موجودہ ریاست کے بیانیے کے ابتدائی سال کے واقعات سفر کرتے رہے۔
جمہوریت اور عوامی حقوق کی بالا دست ریاست کا تصور دینے والے پاکستان میں اس کے قائم ہونے کے ابتدائی سالوں سے ہی آمرانہ بیانیے کی بازگشت ہماری تاریخ کا وہ دردناک پہلو ہے جس سے ہم سات دہائیاں گذارنے کے باوجود چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں،گو اس درمیاں قائد اعظم سے لے کر سہروردی تک یہ کوششیں رہیں کہ کسی طرح اس ریاست کو سول بالا دستی دلا کر عالمی سطح پر ترقی اور جمہوریت کی راہ پر لے جایا جائے۔
واقعاتی طور جنرل گریسی کے بعد جس طرح سازشی انداز سے طاقتور اشرافیہ نے جنرل ایوب کے عوام دشمن بیانیئے کو تقویت دی،وہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ریاست کا اسٹبلشمنٹ زدہ قومی سلامتی کا بیانیہ بنا ہوا ہے،جس کی سوچ نے ملک کو دہشت گردی اور مذہبی تنگ نظری میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ اس سماج میں لاقانونیت اور غلط بیانی کو تنگ نظری کی چادر میں لپیٹ کر دولت مند ہونے کا ہر وہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے جس میں ریاستی حکمرانوں کی مانند زمینی قبضہ طاقت اور ایمان کی نشانی بنا دیا گیا ہے جب کہ اس کے بر عکس جمہوری بیانیئے کو رد کرنے اور سماج میں تندرست سوچ کے پروان چڑھنے کو روکنے کے کے لیے جنرل ایوب نے ایک ایسی قوت تیار کی جس کا کام سماج کے مختلف شعبوں میں داخل ہو کر منصوبہ بندی کے تحت ماہر بننا تھا تاکہ گلے سڑے بیانیے کو نسل کے ذہنوں میں ڈالا جائے۔
اس مقصد کے لیے آمر جنرل ایوب نے کہیں صحافی، کہیں وکیل، کہیں صداکار کہیں اداکار کہیں ماہر لسانیات کہیں شاعر و ادیب تو کہیں سیاسی و معاشی تجزیہ کار کے طور پر ریاستی سر پرستی میں آمرانہ مزاج کے مربیوں کو سماج کے مختلف شعبہ جات میں داخل کیا اور انھیں عوامی ترجمان بنانے کی کوششیں پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھیں اور ریاستی اشرافیائی بیانیے میں سویلین کی مدد کی ضرورت پڑی تو وہاں انھوں نے اپنے ریاستی بیانیہ کی ترویج کی خاطر صحافی یا سماج کا دانشور بنا کر مذکورہ کے مضامین ذریعے افغان جنگ کو ایمانی جہاد بنا کر پاکستانی عوام کو دھوکے میں رکھ کر مدارس کا وہ نیٹ ورک بنایا جس سے عوام کی بہتری کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے مفادات حاصل کیے گئے،جن کے اثرات سے اب تک ملک ایک تنگ نظر مذہبی اور جہادی سوچ کی ریاست بنتا چلا آرہا ہے،جس میں زمانے کی ترقی کے تناظر میں بہتری آنے کے بجائے ایسی انتہا پسند سوچ جنم لے رہی ہے جو اپنے آخری نتیجے میں ملک کے لیے صرف ضرر رساں ہی ثابت ہوگی،یہی نہیں بلکہ اب قومی سلامتی کے نام پر اظہار رائے کے ذرایع کو وہ مضامین چھاپنے کو کہا جاتاہے جو ریاست کے جمہوریت مخالف بیانیے کو تقویت دیں۔
اس سلسلے میں آجکل ریاست کے اعلیٰ کردار حکمرانوں کے انتخاب کا درد منظر عام پر آ رہا ہے،جس میں جمہوری نمایندے کے انتخاب سے قبل اس کی چھان پھٹک ایک اعلیٰ متقی اور پرہیزگار کمیٹی سے کروا کر ایک با کردار منتخب رکن اسمبلی لانا چاہتے ہیں جو اس ملک کی اسلامی نشاۃ ثانیہ کا علمبردار ہو اور ایمانی جذبے کی بنا پر ملک سے کرپشن،منی لانڈرنگ کا تو خاتمہ کر دے مگر طاقتور اداروں کے زیر استعمال کسی چیز یا ناجائز قبضے کو چھیڑنے کی کوشش نہ کرے کہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے جو ریاست کے ایمان کے لیے ضرر رساں ہونگے،ایرانی طرز کے صدارتی اور ایمانی نظام کی حمایت میں آواز بلند کی جا رہی ہے اور اسی کے ساتھ برطانوی اور امریکی جمہوریت بے سود اور بے وقعت دکھایا جا رہا ہے۔
بات کسی کی خواہش سے زیادہ اس لمحے کی ہے جس لمحے اس خیال کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لایا گیا ہے،یہ بالکل اسی طرح کا خیال یا دھوکا ہے کہ ہم امن پسند ملک ہیں اور امن کی ہر صورت میں حمایت کریں گے چاہے وہ امن طالبان قتل و غارت اور طاقت کی بنیاد پر افغانستان میں قائم کیا جائے،لیکن چونکہ قتل و غارت کے بعد بھی امن ہمیں عزیز ہے لہٰذا ہم طالبان کو تسلیم کرنے میں کیوں تردد کا شکار ہوں،کیونکہ پاکستانی ریاست پڑوس کے امن کی دل و جان سے خواہاں ہے،لہٰذا ابھی امن امن کی ڈگڈگی ہی بجانا ریاستی بیانیئے کی بقا ٹہرایا جائے،جس میں قومی حمیت اور غیرت کا تڑکہ بھی بہت ضروری ہے۔
اس قسم کے بیانیئے کے یہ ریاستی مربی دراصل ایک خاص وقت میں ہانکے جاتے ہیں جس کا مقصد عوام کے منتشر ذہن کی ریاست سازی کی کوشش ہوتی ہے جس سے باخبر رہنا اور اس قسم کے عوام دشمن بیانیئے کا متبادل دینا روشن خیال جمہوری سوچ کے صحافی اور کالم نگار کا فرض بن جاتاہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ نظام انصاف پر قدغن لگانے کی کوششیں کس حد تک یہ ریاست قبول کرتی ہے اور کس حد تک عدلیہ کی آزادی کے خواہاں ریاست سے لڑ کر آئینی طور سے حق لینے میں کامیاب ہوتے ہیں،مگر یہ بات طے ہے کہ بھٹکتی ریاست کا بیانیہ تا دیر تک عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکے گا اور آخر کار عوام کو آئینی و جمہوری آزادی دینا ریاست کا لازمی حصہ ہوگا وگرنہ عوام کے بغیر ریاست خلاؤں میں سفر طے نہیں کیا کرتی۔