پاکستان کا افغانستان بارے دو ٹوک موقف

پاکستان اپنی تاریخ میں کب نہیں آزمائشی وقت سے گذرا لیکن جب بھی گذرا ایسا لگا کہ پہلی مرتبہ گذرا ہے

www.facebook.com/shah Naqvi

پاکستان اپنی تاریخ میں کب نہیں آزمائشی وقت سے گذرا لیکن جب بھی گذرا ایسا لگا کہ پہلی مرتبہ گذرا ہے۔ہم اور ہماری نسلیں یہ سن سن کر بوڑھے ہوگئے کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، ملک چاہے نازک دور سے گذرے یا آزمائشی دور سے ہمارے حکمران طبقات کے عیش وعشرت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جب کہ عوام کی آزمائشیں بڑھتی چلی گئیں۔

قیام پاکستان کے ساتھ ہی کٹھن وقت شروع ہوگیا۔اس کے بعد جمہوریت آمریت کی کشمکش میں بالآخر آمریت کو فتح ہوئی اور جمہوریت پسپا ہوتے ہوتے آخر کار علامتی بن گئی، محدود جمہوریت اس کا مقدر ٹھہری کہ دنیا کے نقشے پر اس کا محل وقوع ہی ایسا تھا۔ اس محل وقوع کی وجہ سے ہماری آزادی وخومختاری بھی رہن رکھی گئی۔دنیا کے دوسرے ممالک اور ہمارے ہمسائے بڑی تیزی سے ترقی کرتے رہے اور ہم سامراجی چنگل میں پھنسے زندگی اور موت کی کشمکش سے گذرتے رہے۔

ہماری پوری تاریخ اس سے عبارت ہے۔جمہوری زوال اپنے ساتھ معاشی پس ماندگی بھی لایا۔ پاکستان کا شمار پس ماندہ ملکوں میں ہوگیا۔سامراجی مقاصد کے لیے مذہبی شدت پسندی کانشانہ اس طرح بنے کہ ہم پوری دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے۔ اسٹرٹیجک گہرائی کا تصور جس کے ہاتھوں ہم نے بے پناہ نقصان اٹھائے۔یہ نظریہ پیش کرنے والے بقراط آج کہاں ہیں۔

لال قلعہ ماسکو واشنگٹن پر جھنڈا لہرانے والے۔ آج تو پاکستان کی اپنی بقا خطرے میں پڑی ہوئی ہے اسامہ بن لادن ایک وقت میں امریکی سی آئی اے کا پسندیدہ جھانسہ دیا۔ اسے افغانستان میں حکومت قائم کرنے کا۔ پھر اسے استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو پوری دنیا کے دہشت گردوں کا اڈا بنا دیا کہ کشمیر سے لے کر سینٹرل ایشیا تک اسلامی سلطنت بھی تو قائم کرنا تھی۔

کس قدر سادہ لوحی تھی کہ اس کی تعبیر یہ نکلی کہ پورا خطہ آگ وخون میں ڈوب گیا کہ لاکھوں مسلمان مارے گئے کروڑوں تباہ بربادہوئے۔عراق، شام، لیبیا،یمن، ایران کی فوجی معاشی قوت پاش پاش کردی گئی نتیجہ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ کا مالک بن گیا۔آج ہمارے حکمران اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کی دہائیاں دے رہے ہیں اور پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو اس وقت ہم اندھے بہرے بنے ہوئے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے تحریر کردہ مضمون میں اسی بات کا رونا رویا ہے کہ ماضی میں پاکستان اور اس کے شہریوں کے ساتھ بہت ظلم وزیادتیاں ہوئیں۔وزیراعظم نے کہا کہ امریکا ہمارا اتحادی تھا مگر ہماری ہی سر زمین پر عرصے تک ڈرون حملے کرکے ہمارے بے قصور شہریوں کو قتل کرتا رہا اور اسے کولیٹرول ڈیمیج کا نام دیاگیا۔گویا انسان نہیں جانور مرے ہیں۔


اس پر افسوس کرنے کی بھی ضرورت نہیں جنگوں میں تو ایسا ہوتا رہتا ہے جب کہ ایک امریکی فوجی مرنے پر درجنوں شہریوں کو ماردیا جاتا ہے، 20سالہ اس امریکی جنگ میں مجموعی طور پر پاکستان کو 150ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا اور بدلے میں صرف 20 ارب ڈالر ملے وہ بھی قسطوں میں اوپر سے ٹرمپ کی ڈانٹ ڈپٹ بونس میں، سوال یہ ہے کہ امریکا کو پاکستان سے فوجی اڈے مانگنے کے بجائے پہلے 150ارب ڈالر کے نقصانات کا ازالہ کرنا چاہیے۔

یہ وہ خوفناک مالی نقصان تھا جس نے پاکستان کی معیشت کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا۔اس کے علاوہ 70ہزار انسانوں کاخون ناحق بھی امریکا کی گردن پر ہے۔اس کا ازالہ کیسے ہوگا۔وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم آدھے انسان ہیں کیا ہماری جانوں کی کوئی قدر نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ امریکیوں کے نزدیک ان کے علاوہ تیسری دنیا کے لوگ آدھے انسان تو کیا اس سے بھی کمتر سطح کی شے ہیں۔فاتح کا کام ہے قتل کرنا اور مفتوح کا کام ہے قتل ہونا۔تقریر میں انھوں نے کہا کہ امریکی جنگ میں شامل ہونا ہماری حماقت تھی۔

ہائے اس زدو پیشمان کا پیشمان ہونا، وہ بھی صرف چالیس سال بعد۔امریکا نے تعاون کو سراہنے کے بجائے ہمیں برا بھلا اور افغانستان میں ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگایا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت نہیں چاہیے ، ہم اسٹرٹیجک گہرائی نہیں امن چاہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کہیں کسی نے یہ بات سنی ہو کہ آپ کا اتحادی ہی آپ پر بمباری کررہا ہو۔یہ اگر صحیح ہے توکیا ہم 30سال سے لندن میں بیٹھے اپنے دہشت گرد پر ڈرون حملہ کرسکتے ہیں۔

ہم اسے ڈرون سے ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا۔اگر وہ اجازت نہیں دے گا تو ہم نے کیوں ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی۔ اس پر سونا پر سہاگہ ڈرون حملوں پر ہماری حکومتوں نے عوام سے جھوٹ بولاتھا۔اس ساری صورت حال میں دنیا نے نہیں بلکہ ہم نے خود اپنی تذلیل کی اس کے باوجود کہتے ہیں کہ دنیا ہماری عزت کیوں نہیں کررہی۔

امریکا کے عزائم کھل کرسامنے آگئے ہیں صرف فوجی اڈے ہی نہیں بلکہ وہ پاکستان سے یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان چین سے دوری اختیار کرے اس کے لیے وہ سی پیک کا خاتمہ بھی چاہتا ہے جس پر پاکستان کے معاشی مستقبل کا دارومدار ہے۔ پاکستان نے امریکا کو واضح طور پر بتا دیا کہ کسی دباؤ پر چین سے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ پاکستان جب بھی کسی مشکل کا شکارہوا چین پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا، جو کچھ ہو پاکستان ہر قیمت پر چین سے 70 سال پرانے تعلقات کا دفاع کرے گا۔

امریکا نے ہمارے خطے میں بھارت کے ساتھ ایک علاقائی اتحاد تشکیل دے رکھا ہے اور پاکستان سے توقع کی جارہی ہے کہ چین سے تعلقات کی قربانی دے کر چین کے خلاف امریکا کے ساتھ کھڑا ہوجائے۔یہ تو اپنے ہاتھوں خودکشی کرنے والی بات ہوئی۔امریکا کے بارے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ 70 سال پاکستان کو تباہ برباد کرنے کے باوجود انوکھا لاڈلا کھیلن کومانگے چاند۔صورت حال بظاہر تشویش ناک لیکن افغانستان کے معاملے پر روس چین ایران پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ریاست پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں دنیا پر اپنا موقف واضح کردیا ہے۔اب ہم کمزور نہیں طاقتور پوزیشن میں آگئے ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
Load Next Story