وفاق نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس کا پلان پس پشت ڈال دیا
ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے نارمل انکم ٹیکس رجیم کے تحت ٹیکس وصولی کی تجویز ختم کردی گئی۔
وفاقی حکومت نے خاموشی کے ساتھ ریئل اسٹیٹ انکم پر عام کاروباری آمدن کی طرح ٹیکس عائد کرنے کا منصوبہ پس پشت ڈال دیا ہے۔
حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے آمدن کی سطح کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے کیلیے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 37 میں ترمیم تجویز کی تھی، جس کے تحت جائیداد و کی خریدوفروخت سے حاصل شدہ نفع کو عام کاروباری آمدن تصور کیا جاتا تاہم حکومت نے اسی روز یہ تجویز ختم کردی جس روز قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہوا تھا۔
نہ صرف یہ کہ تجویز ختم کردی گئی بلکہ اس بجٹ تجویز پر بھی سمجھوتا کرلیا گیا جس کے تحت ریئل اسٹیٹ کے بڑے کھلاڑیوں سے نارمل انکم ٹیکس رجیم کے تحت ٹیکس وصول کیا جانا تھا۔
ایک اہم ٹیکس ترمیم کو واپس لینے سے ریئل اسٹیٹ ڈیولپرز اور بلڈرز کے لیے چوردروازہ کھل گیا ہے اور ان سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے دی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ختم ہونے کے بعد بھی نارمل انکم ٹیکس رجیم کے تحت ٹیکس نہیں لیا جاسکے گا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر ان لینڈ ریونیو پالیسی چوہدری محمد طارق نے مجوزہ ترمیم کو واپس لینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر میں اس معاملے پر غوروخوض کیا گیا تھا کہ مختلف کیس لاز پراپرٹی انکم کو بزنس انکم کے طور پر ٹریٹ کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ تجویز واپس لینے اور کیس لاز پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر اکرام الحق کا اس بارے میں کہنا تھا کہ کاروباری آمدن کے تحت غیرمنقولہ جائیداد کی ٹرانزیکشن کے لیے تمام تفصیلات ظاہر کرنی پڑتیں اور ٹیکس کی شرح بھی زیادہ ہوتی مگر اس سے ایک بار پھر احتراز کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جائیداد کی خریدوفروخت میں ملوث ڈیولپرز مافیا کو سپورٹ کرنے کا ایک کلاسک معاملہ ہے کہ وہ پہلے تجویز کیے گئے سیکشن18 کے بجائے سیکشن 37 کے تحت ہی ٹیکس ادا کریں گے۔
حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے آمدن کی سطح کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے کیلیے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 37 میں ترمیم تجویز کی تھی، جس کے تحت جائیداد و کی خریدوفروخت سے حاصل شدہ نفع کو عام کاروباری آمدن تصور کیا جاتا تاہم حکومت نے اسی روز یہ تجویز ختم کردی جس روز قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہوا تھا۔
نہ صرف یہ کہ تجویز ختم کردی گئی بلکہ اس بجٹ تجویز پر بھی سمجھوتا کرلیا گیا جس کے تحت ریئل اسٹیٹ کے بڑے کھلاڑیوں سے نارمل انکم ٹیکس رجیم کے تحت ٹیکس وصول کیا جانا تھا۔
ایک اہم ٹیکس ترمیم کو واپس لینے سے ریئل اسٹیٹ ڈیولپرز اور بلڈرز کے لیے چوردروازہ کھل گیا ہے اور ان سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے دی گئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ختم ہونے کے بعد بھی نارمل انکم ٹیکس رجیم کے تحت ٹیکس نہیں لیا جاسکے گا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر ان لینڈ ریونیو پالیسی چوہدری محمد طارق نے مجوزہ ترمیم کو واپس لینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر میں اس معاملے پر غوروخوض کیا گیا تھا کہ مختلف کیس لاز پراپرٹی انکم کو بزنس انکم کے طور پر ٹریٹ کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ تجویز واپس لینے اور کیس لاز پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر اکرام الحق کا اس بارے میں کہنا تھا کہ کاروباری آمدن کے تحت غیرمنقولہ جائیداد کی ٹرانزیکشن کے لیے تمام تفصیلات ظاہر کرنی پڑتیں اور ٹیکس کی شرح بھی زیادہ ہوتی مگر اس سے ایک بار پھر احتراز کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جائیداد کی خریدوفروخت میں ملوث ڈیولپرز مافیا کو سپورٹ کرنے کا ایک کلاسک معاملہ ہے کہ وہ پہلے تجویز کیے گئے سیکشن18 کے بجائے سیکشن 37 کے تحت ہی ٹیکس ادا کریں گے۔