شمال مغربی بارڈر مرکزِ نگاہ رہے

پاکستان کو مزید چوکنا ہونا چاہیے، افغان فیکٹر دہشتگردی کی نئی لہر میں ملوث پایا گیا ہے۔

پاکستان کو مزید چوکنا ہونا چاہیے، افغان فیکٹر دہشتگردی کی نئی لہر میں ملوث پایا گیا ہے۔فوٹو:فائل

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پارلیمانی نظام کی وجہ سے ماضی میں بلوچستان پر توجہ نہیں دی گئی۔ حکومتوں نے صرف الیکشن جیتنے کی سیاست کی، بلوچستان کے ناراض لوگوں سے بھی بات کرنے کا سوچ رہا ہوں، قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سارے ملک کو ایک ساتھ اوپر اٹھایا جائے۔

گوادر میں مقامی عمائدین، طلبا اور کاروباری شخصیات سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتوں کی سیاست الیکشن جیتنے کی طرف ہوتی ہے اور وہ ہر وہ کام کرتی ہیں جس سے وہ زیادہ نشستیں حاصل کر کے وزیر اعظم بن سکیں، ماضی میں نواز شریف اور آصف زرداری نے بھی یہی کیا۔ انھوں نے بلوچستان اور پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کیا۔

ماضی کے حکمرانوں کے مقاصد اور سوچ مختلف تھی۔ جو سیاستدان الیکشن کے بارے میں سوچتے ہیں وہ بلوچستان کے بجائے صرف فیصل آباد ڈویژن پر توجہ دیتے ہیں جس کی نشستیں بلوچستان سے زیادہ ہیں۔ ماضی میں بلوچستان اور سابق فاٹا کے علاقوں کو نظر انداز کیا گیا، ان علاقوں میں انسانوں پر پیسہ خرچ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔

بلوچستان کی پسماندگی، سیاسی اور سماجی مسائل انداز نظر سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، ملک کے سب سے بڑے صوبے کے حوالے سے اسے ملکی ترقی، عوام کی خوشحالی اور بہترین محل وقوع کے تناظر میں ایک منفرد سیاسی، سماجی مقام ملنا ناگزیر تھا لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ بلوچستان میں دلگداز سیاسی کشمکش، زمینی حقائق اور قوم پرست بلوچ سیاسی رہنماؤں اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین ایک دائمی تناؤ نے نہ صرف سیاست کو تقسیم در تقسیم کیا بلکہ بلوچوں اور وفاق کے درمیان دوری و بدگمانی کے خاتمے کی کوششوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔

اس کی تفصیل دردانگیز بھی ہے اور سیاسی تاریخ کے طالب علموں اور سیاسی محققین کے لیے فکر انگیز بھی تاہم بلوچوں کے بارے میں ایک بنیادی مغالطہ ان کی علیحدگی پسندی کے التباس اور رومانویت کا بھی ہے، ان کے پہاڑوں پر جانے کی مزاحمتی مراجعت بھی بتائی جاتی ہے لیکن کوئی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ کوسٹل ایریا کے بلوچ سیاست دان اس قبائلی پس منظر، تشدد پسندی اور وفاق گریز سوچ سے الگ تھلگ رہے، مین اسٹریم آئینی و سیاسی سسٹم سے منسلک رہے، گورنری اور وزارت اعلیٰ سنبھالی، تصادم سے گریزاں رہے۔

ان میں نواب اکبر بگٹی، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل اور سردار اخترمینگل، عبدالمالک بلوچ و دیگر معتبر بلوچ سیاسی خانوادے بھی شامل تھے جو ہمیشہ وفاق کے ساتھ چلتے رہے، انھوں نے انتخابات میں حصہ لیا، پھر ایسا کیا ہوا کہ تقسیم گہری ہوتی چلی گئی؟ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اب اگر وزیر اعظم نے بلوچ قوم پرست سیاست دانوں سے مکالمہ کے آغاز کا سوچا ہے تو یہ خوش آیند پیش رفت ہوگی، اس بات چیت کے صوبے کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوںگے، شاید کوئی اعتراض بھی نہ کرے کیونکہ بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔

وہ ساری محرومیاں صرف ایک کھلے بازو کی منتظر اور سیاسی اختلافات کے تھمنے اور خیر سگالی کے جذبہ کو فروغ دینے کی ہے۔ ضرورت بلوچستان میں ترقی و عوام کی خوشحالی کی پیش رفت کی ہے، سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبوں کو مکمل کرنے اور دہشتگردی کے امکانات اور سیاسی تلخیوں کے خاتمہ کی ہے۔

دوسری طرف خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں بلوچستان، ایران اور افغانستان بارڈر سے جڑے مسائل کا ہے بلوچستان، افغانستان اور ایران سیاست کا ایک اہم حصہ ہیں، تینوں ملک خطے کے سیاسی، معاشی، سفارتی اور تزویراتی منظرنامہ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، عالمی طاقتیں خطے کی صورت گری کا جو بھی پلان ذہنوں میں بٹھائے ہوئے ہیں لیکن اہم اور کلیدی کردار پاکستان کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا، امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے، صورتحال کے فہم اور تدبر سے مسائل اور بارڈر کے معاملات پر سنجیدہ سوچ بچار کی ضرورت ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور طالبان مزید علاقوں میں کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، تاہم اس تناظر میں مہاجرین کی پاکستان آمد کا خدشہ موجود ہے لیکن اس مرتبہ اسلام آباد افغان مہاجرین کے لیے اپنی سرحد کھولنے کے حق میں نہیں ہے اور اگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہوا تو پاکستان 'ایرانی ماڈل' کو زیر غور لائے گا۔

رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بتایا کہ ہم نے پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد نہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن امدادی ادارے دوسری طرف سے بھی ضرورت مندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ''اگر صورتحال بگڑتی ہے تو ہم اپنی سرزمین میں پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی لگاتے ہوئے سخت کنٹرول اور نگرانی کے ساتھ سرحد کے ساتھ بستیاں قائم کریں گے''۔ شیخ رشید نے مزید کہا کہ حکومت ان کیمپوں میں مہاجرین پر قابو پانے اور ان کا موثر انتظام کرنے کے لیے ایرانی ماڈل کی بھی پیروی کرے گی۔


اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں 8 لاکھ افغان مہاجرین موجود تھے، وہ سب 1980 کی دہائی میں ایرانی سرحدی علاقوں میں قائم گاؤں میں رہ رہے تھے اور انھیں شہروں اور قصبوں میں آباد ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

دوسری جانب ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے تصدیق کی کہ وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کی شام ایرانی صدر منتخب ہونے والے ابراہیم رئیسی سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ وزیر اعظم نے صدارتی انتخاب میں کامیابی پر ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے افغانستان میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس کے منفی نتائج پاکستان اور ایران دونوں ہی ممالک کے لیے یکساں ہوں گے۔

عہدیدار کے حوالے سے میڈیا نے بتایا ہے کہ افغانستان سے متعلق اپنی گفتگو کے دوران دونوں فریقین نے ایرانی ماڈل پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ وزارت داخلہ، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر متعلقہ محکموں کے عہدیداروں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی ٹیم، ماڈل کے کامیاب نفاذ کو سمجھنے کے لیے جلد ہی ایران کا دورہ کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ بیشتر سرحد پر باڑ لگا دی گئی ہے جس سے غیر قانونی نقل و حرکت مشکل ہوگئی ہے۔

اگرچہ پاکستان، اقوام متحدہ کے مہاجرین کے کنونشن 1951 اور 1967 کے پروٹوکول پر دستخط کنندہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود یہ ملک 4 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افغان مہاجرین سے جڑا سب سے بڑا مسئلہ افغان فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی طاقت میں اضافہ ہوسکتا ہے جنھیں فوج نے ختم کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے پر تشویش ہے، لاہور میں دہشت گردی کا حالیہ واقعہ بھارت کی پشت پناہی سے ہوا، بھارت دہشتگردوں کی تربیت اور مالی امداد سے پاکستان میں تخریب کاری میں ملوث ہے، بھارت میں یورینیم کی غیر قانونی فروخت کے واقعات پر عالمی برادری کی بے حسی اور خاموشی باعث تشویش ہے۔

انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان کے ملک کی اقتصادی خوشحالی اور مسلم امہ میں اتحاد کے فروغ کے لیے کردار کو سراہا، افغانستان میں مفاہمانہ کوششوں سے نتائج خیزی کی توقع بھی امید افزا ہے، ترجمان افغان طالبان نے کہا ہے کہ میدان جنگ میں مضبوط پوزیشن کے باوجود طالبان مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں، برطانوی نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں افغان حکومت سے مذاکرات میں تیزی آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ دونوں جانب سے تحریری امن منصوبے کی تیاری میں ایک ماہ لگ سکتا ہے۔ دوسری جانب ترجمان وزارت افغان امور نے طالبان کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بارڈرز پر کڑی نگرانی، باڑ کی تنصیب اور آمدورفت پر کنٹرولنگ کے کثیر جہتی نظام کی تشکیل ناگزیر ہے، طورخم بارڈر پر سختی کی گئی ہے، نقل وحمل کو روک لیا گیا ہے، عالمی سطح پر بھی جنگی حالات میں بارڈر کی کڑی نگرانی ایک مسلمہ اصول ہے، ماضی میں افغان مہاجرین کی پاکستان میں آمد سے مسائل پیدا ہوئے، لسانی کشمکش اور ملکی معیشت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس کے اعادہ کی غلطی نہیں ہونی چاہیے، دہشتگردی کے واقعات نے افغان مسئلہ کی سنگینی کو دو چند کر دیا ہے، لاہور میں دہشت گردی کے واقعہ میں بھارت کے ملوث ہونے کی بات کے ساتھ یہ بھی بتایا گیاہے کہ دہشت گرد عیدگل کا تعلق افغانستان سے ہے۔

اس کے بعد پاکستان کو مزید چوکنا ہونا چاہیے، افغان فیکٹر دہشتگردی کی نئی لہر میں ملوث پایا گیا ہے، لہٰذا پاک افغان اور ایران بارڈر کے سیل ہونے کی ضرورت ناگزیر ہوگئی ہے، حکومت ایران ماڈل کے ساتھ ساتھ ملکی اقتصادیات، سیاسی حالات اور خطے میں شورش اور صورتحال میں مداخلت کے خطرات کا سدباب کرنے میں جلدی کرے، قومی سلامتی کے معاملات میں ارباب اختیار کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلیے ہمہ وقت الرٹ رہنا ہوگا۔

امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عالمی طاقتیں افغان صورتحال کے پیش نظر افغان مہاجرین کی پاکستان ہجرت کے لیے زور بھی دیں تب بھی پاکستان کو ملکی معیشت، حالات کے جبری تناؤ اور دہشتگردی کے خطرات کے پیش نظر اپنی سرحدوں کی حفاظت اور نگرانی کے فول پروف میکنزم پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، یہ ملکی سالمیت اور پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے، پاکستان کو دہشتگردی کے ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسنے کا خدشہ حقیقت نہ بن پائے۔

افغان مہاجرین کے بہت سے پیدا کردہ مسائل انسانی صورتحال سے متعلق ہیں، صحت اور نارکوٹس اور انتہا پسندی اس پر مستزاد ہے۔ ملکی سیاست کے اپنے داخلی مسائل بھی حل طلب ہیں، لہٰذا دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ خطے کو معاملات کو باریک بینی سے دیکھتے ہوئے اور اس کا پائیدار حل نکالنے پر اسٹیک ہولڈر اور معتبر سیاست د ان کوئی نتیجہ خیز اقدام کریں۔
Load Next Story