افغانستان کی بگڑتی صورتحال مدبرانہ فیصلوں کی متقاضی

یقینی طور پر کل کے افغانستان کے مقابلے میں آج کے افغانستان میں طالبان ایک قوت کے طور پر موجود ہیں۔

یقینی طور پر کل کے افغانستان کے مقابلے میں آج کے افغانستان میں طالبان ایک قوت کے طور پر موجود ہیں۔

افغانستان،امریکہ کی جارحیت کے بیس سال پورے ہونے اور امریکہ و نیٹو افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی واپس اسی جگہ جا کھڑا ہوا ہے کہ جہاں وہ سوویت یونین کے انخلاء کے بعد کھڑا تھا۔

اس وقت بھی شکست خوردہ سوویت یونین کے ساتھ امریکہ نے بھی اس خطہ سے نکلتے وقت افغانستان میں استحکام اور معاملات کو درست کیے بغیر ہی انخلاء کیا تھا جس کی وجہ سے افغانستان ایک دہائی تک اندرونی طور پر خانہ جنگی کا شکار رہا اور ان حالات کا اختتام وہاں طالبان کے ظہور پر ہوا جبکہ آج بھی صورت حال ویسی ہی ہے کہ امریکہ بیس سال گزارنے کے بعد افغانستان میں اندرونی طور پر مستحکم نظام قائم کیے بغیر ہی یہاں سے انخلاء کر رہا ہے اور ماہ ستمبر تک اس کا انخلاء مکمل ہو جائے گا۔

تاہم افغانستان میں صورت حال یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج، طالبان کی حکومت ختم کرتے ہوئے یہاں داخل ہوئے تھے اور اب ان کے انخلاء کے بعد طالبان واپس اپنی جگہ پکڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان ایک مرتبہ پھر تباہی اور بربادی سے دوچار ہونے جا رہا ہے تاہم عالمی طاقتیں صرف تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔

افغانستان میں طالبان جس طریقہ سے ایک کے بعد دوسرا ضلع پکڑتے جا رہے ہیں اس کی وجہ سے افغانستان میں بے چینی انتہاء کو پہنچ چکی ہے اور ایک مرتبہ پھر وہاں سے مہاجرین کے انخلاء کے امکانات ہیںجس کا سب سے زیادہ بوجھ کسی اور پر نہیں بلکہ پاکستان پر ہی پڑنا ہے ، وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کی نگرانی کے لیے امریکہ کو اڈے دینے سے تو انکار کر دیا ہے اور اب امریکہ یہ کام قطر میں بیٹھ کرکرے گا۔ تاہم جہاں تک مہاجرین کی بات ہے تو پاکستان شاید ہی اس سے انکار کر سکے اور یہ بوجھ ایک مرتبہ پھر پاکستان پر ہی آنا ہے ۔

کل کے مقابلے میں آج چین بھی ایک عالمی قوت کے طور پر عالمی منظر نامے میں موجود ہے اور یقینی طور پر افغانستان کی وجہ سے اس خطے میں بننے والی صورت حال میں اس کا بھی حصہ ہوگا اور وہ بھی اس صورت میں کہ سی پیک کی صورت میں چین اس خطے میں بہت بڑی سرمایہ کاری کر رہاہے اور وہ کبھی بھی اپنی اتنی بڑی سرمایہ کاری داؤ پر نہیں لگائے گا ، تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے کہ افغانستان میں معاملات بگاڑ کی انتہاء کو پہنچ جائیں، عالمی قوتوں کو مل بیٹھنا اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

یقینی طور پر کل کے افغانستان کے مقابلے میں آج کے افغانستان میں طالبان ایک قوت کے طور پر موجود ہیں اورانھیں نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا اس لیے طالبان کو ساتھ بٹھاتے ہوئے معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔


عالمی طور پر تو صورت حال یہ ہے جبکہ اندرونی طور پر حالات یہ ہیں کہ حکومت مخالف اپوزیشن تحریک پی ڈی ایم نے بکھر کر دوبارہ سنبھلنے کے بعدایک مرتبہ پھر عمران خان حکومت کے خلاف اپنی تحریک شروع کردی ہے جس کا آغاز سوات میں جلسہ کا انعقاد کرتے ہوئے کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب کراچی اور اسلام آباد میں بھی اسی طرح جلسوں کا انعقاد کیاجائے گا، سوات جلسہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے اجازت کے بغیر بھی منعقد کر لیا گیا ہے جبکہ کراچی کا جلسہ بھی شاید ایسے ہی حالات میں ہو کیونکہ پیپلز پارٹی جو اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہی ہے وہ پی ڈی ایم کو کراچی میں جلسہ کی اجازت تو دے گی تاہم ساتھ ہی قانونی امور کو بھی مد نظر رکھے گی لیکن اصل میدان تو اسلام آباد میں سجے گا۔

وفاقی حکومت ، پی ڈی ایم کو اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخلے یا جلسہ کرنے کی اجازت تو بہرکیف نہیں دے گی تاہم ریڈ زون سے باہر شاید جلسہ کی اجازت دے دی جائے تاکہ پی ڈی ایم جو اسلام آباد جلسہ کا ہوا کھڑا کیے وفاقی حکومت کو ڈرا دھمکا رہی ہے وہ خوف ختم کیا جا سکے۔

البتہ سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم اس جلسہ کے بعد کیا کرے گی؟کیونکہ اسلام آباد پہنچنے کے نام پر ہی وفاقی حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم اگر ایک مرتبہ پی ڈی ایم نے اسلام آباد میں بھی اپنا شو کر لیا تو اس کے بعد پی ڈی ایم والے کیا کریں گے ؟یہ سوال یقینی طور پر پی ڈی ایم کے سامنے بھی ہوگا کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ اس کے بعد ان کے سامنے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو وہ اسمبلیوں سے استعفے دیتے ہوئے باہر آجائیں اور اپنا بھرپور شو سڑکوں پر ہی کریں یا پھر وہ اسمبلیوں میں رہتے ہوئے بھی اپنی جنگ جاری رکھیں اور ساتھ ہی اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہوئے بیٹھ جائیں تاہم یہ دونوں فیصلے آسان نہیں ہیں کیونکہ اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم ایک مرتبہ پھر مشکلات کا شکار ہو جائے گی ۔

اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر سب سے زیادہ قربانی اگر کسی کو دینی ہوگی تو وہ مسلم لیگ ن ہوگی جس کی قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں اور پھر پنجاب اسمبلی میں بھی وہ دوسری سب سے بڑی پارٹی ہے اور اگر وہ استعفے دیتی ہے تو اس صورت میں وہ پاور پلے سے باہر ہو جائے گی اور مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف کبھی بھی ایسا نہیں چاہیں گے کیونکہ ان کی سیاست اور انداز سیاست ایسے نہیں کہ وہ پاور پلے سے باہر ہوتے ہوئے کھیل جاری رکھیں جبکہ اسلام آباد میں دھرنا دینا اور حکومت کے خاتمے تک دھرنا دیئے رکھنا بھی آسان نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے 126 روزہ دھرنے کا حال بھی سب کے سامنے ہے کہ وہ اس دھرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں کر پائی تھی نہ ہی اس وقت کی نواز شریف حکومت کی صحت پر کوئی فرق پڑا تھا اس لیے پی ڈی ایم کو اپنے پتے ترتیب دیتے ہوئے تمام تر معاملات اور صورت حال کو مد نظر رکھنا ہوگا کیونکہ موجودہ حکومتوں کا تیسرا سال ختم ہوا چاہتا ہے اور وہ اب اپنے چوتھے سال اور آخری فیز میں داخل ہو رہی ہیں ۔

چوتھے سال سے برسراقتدار پارٹیاں اگلے انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے تیاریاں شروع کر دیتی ہیں جس کا اندازہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بیانات اور دعوؤں سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو اگلی حکومت پر بھی نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔

ان حالات میں اپوزیشن کیا حکمت عملی اپناتی ہے یہ اب مولانا فضل الرحمن کی فہم وفراست اور شہباز شریف کی حکمت پر منحصر ہے ۔ اور چونکہ وفاقی حکومت صورت حال کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے کوشاں ہے اسی لیے نئے مالی سال کے پہلے ہی دن وفاقی حکومت نے بجلی کے خالص منافع بقایاجات کی مد میں خیبرپختونخوا کو 36 میں سے25 ارب روپے جاری کر دیئے جبکہ بقایا11 ارب بھی جلد ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، یقینی طور پر یکمشت25 ارب کی ادائیگی کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا اور ماضی میں تصفیہ شدہ 110 ارب کی جو پچیس، پچیس ارب کی چار اقساط صوبہ کو ادا کی گئیں وہ بھی یکمشت نہیں تھیں بلکہ ان کی ادائیگی بتدریج کی گئی تاہم اب پی ٹی آئی حکومت نے اپنی ہی پارٹی کی صوبائی حکومت کو بڑی سپورٹ فراہم کی ہے۔

جہاں ایک جانب وفاقی حکومت نے ایک ہی دن میں پچیس ارب روپے صوبہ کو جاری کرتے ہوئے نئی مثال قائم کی ہے وہیں صوبائی حکومت نے مالی سال کے پہلے ہی دن سو فیصد ترقیاتی فنڈز جاری کرتے ہوئے بھی نئی اور انوکھی مثال قائم کی ہے کیونکہ ایسا پہلے کبھی بھی نہیں ہوا کہ کسی بھی صوبائی حکومت نے سو فیصد ترقیاتی فنڈز مالی سال کے پہلے ہی دن جاری کیے ہوئے ہوں بلکہ یہ فنڈز جس رفتار اور طریقہ سے جاری ہوتے آئے ہیں ان کی وجہ سے جون کا مہینہ فنڈز کی بربادی کے مہینہ طور پر جانا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر جون ازم جیسے الفاظ وجود میں آئے لیکن اب صوبائی حکومت اور وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے مالی سال کے پہلے ہی دن سو فیصد فنڈز جاری کرتے ہوئے بال سرکاری محکموں اور اداروں کے کورٹ میں پھینک دیا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی تامل کے ترقیاتی کام کرتے چلے جائیں خصوصی طور پر ان علاقوں میں کہ جہاں ستمبر، اکتوبر سے موسم شدید سے شدید تر ہوتا چلا جاتا ہے اور برفباری اور دیگر موسمی دشواریوں کی وجہ سے ترقیاتی کام کرنے مشکل ہو جاتے ہیں، اگر سرکاری محکمے حکومتی ویژن کے مطابق فنڈز کا تواتر کے ساتھ استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقینی طور پر اس سے صوبہ میں نئی روایات قائم ہوں گی جس سے آنے والی حکومتیں بھی مستفید ہوتی رہیں گی ۔
Load Next Story