میموری کا عظیم خزانہ
ہمارے جسم کو ہمارے آباؤ اجداد کی بات اور جسمانی حصوں کی ہر بناوٹ یاد ہے۔یہ میموری کوئی ایک یا دو نسلوں پر محیط نہیں۔
WUHAN:
انگریزی زبان نے پچھلی چند صدیوں میں محیرالعقول ترقی کی ہے۔اگر آپ چاسر کی کنٹربری ٹیلز کو دیکھیں تو جب تک کوئی ماہر استاد پڑھانے والا نہ ہو، چند الفاظ بھی سمجھنے مشکل ہوں گے لیکن اب یہ زبان ترقی کرتے کرتے بلاشبہ دنیا کی ایک بہت بڑی زبان بن گئی ہے۔
اس کی ایک وجہ انگریزوں کا چار دانگِ عالم اقتدار تھا جس کی وجہ سے یہ زبان آقاؤں کی زبان ہونے کی بنا پر دنیا کے بیشتر حصوں میں سمجھی،لکھی اور بولی جانے لگی۔ اس کی ایک اور وجہ انگریزی زبان کا اپنے دامن کو وسیع رکھنا ہے۔اس زبان نے ہر دوسری زبان سے الفاظ کو اپنے اندر سمویا اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی ڈکشنری ضخامت میں بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
یہ انتہائی Rich زبان انسانی بدن کے اعضاء اور مادی دنیا کو بیان کرنے میں بہت کامیاب ہے لیکن اتنی بڑی اور وسیع زبان انسان کے اندر کی دنیا اور انسانی جذبات،احساسات و محسوسات،اس کے نفسانی،نفسیاتی اور روحانی پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے اپنے دامن کو کہیں کہیں تنگ محسوس کرتی ہے۔انگریزی زبان میں مائنڈMind کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے لیکن ایک تو اس کو define کرنا پڑتا ہے دوسرا غور کریں تو یہ لفظ کچھ بھی کنوے نہیں کرتا۔آپ جسم کے کسی حصے،کسی بھی مقام کو ہاتھ لگا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مائنڈ ہے۔
گو اسے عرفِ عام میں دماغ یا ذہن کا ہم پلہ خیال کیا جاتا ہے لیکن ذرا گہرائی میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ذہن ہی صرف مائنڈ نہیں ہے بلکہ مائنڈ ذہن کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہے۔ آپ کو اسے سمجھانے کے لیے بہت سی توجیہات کرنی پڑتی ہیں یا سہارا لینا پڑتا ہے اور پھر بھی ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ مائنڈ سے مراد Intellectاور میموری کا حاصل ہے ۔
چند ہفتے پہلے ڈاکٹر براؤن Weiz جو کہ ایک معتبر امریکی سائیکالوجسٹ اورپروفیسر ہیں اور اس فیلڈ میں بڑا نام ہیں، ان کے ایک مریضہ کیتھرین کے علاج کے دوران مشاہدات پر مبنی فرمودات کا بڑا چرچا رہا۔ ان کی یہ مریضہ ٹرانس کی حالت میں کبھی قبل مسیح کے مصر میں جنم لے کر ایک بازار میں کھڑی ہوتی ہے اور کبھی سولہویں صدی عیسوی میں ہالینڈ میں پیدا ہوئی ہوتی ہے۔
غر ضیکہ وہ بیشمار جنم لے چکی ہوتی ہے۔کبھی مرد ہوتی ہے اور کبھی عورت اور اب کی بار وہ ایک امریکی خاتون کے طور پر جنم لے کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہے۔ڈاکٹر براؤں نے کیتھرین کے علاج کے دوران اپنے ان مشاہدات کی بنیاد پر اس بات کا اقرار کر لیا کہ انسان صرف ایک مرتبہ اس دنیا میں جنم نہیں لیتا بلکہ اس کا جنم ہوتا رہتا ہے،بار بار ہوتا ہے۔یہ سلسلہ شاید لامتناہی رہتا ہے۔
روح کے ایک سے زیادہ بار دنیا میں جنم لینے کا نظریہ کوئی نیا نہیں۔ویدک نظریہ حیات)ہندو(فلاسفی میں آواگان کے فلسفے کو بڑی اہمیت ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ کیتھرین ہر جنم میں انسان ہی پیدا ہوتی رہی ہے جب کہ آواگان کے نظریئے میں روح کاجنم لینے کے بعد کوئی بھی جسم ہو سکتا ہے۔
یہ جنم کبھی کسی جانور کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی انسان کے روپ میں،یعنی روح کسی بھی جسم کا پیراہن اوڑھ سکتی ہے۔جب تک روح دنیاوی آلائشوں سے آلودہ رہتی ہے،ایک کے بعد دوسرا جنم ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ یہ ایک مکمل پوتر یعنی گناہوں اور آلائشون سے پاک زندگی گزار نہیں لیتی۔یونانی تہذیب بھی جنموںپر یقین رکھتی تھی۔ فیثا غورث Pythagorus کے نام سے تو ہم میں سے اکثر بچپن سے ہی واقف چلے آتے ہیں۔الجبرا کا ایک مشکل مسئلہ اس کے نام سے مسئلہ فیثا غورث ہمارے نصاب کا بھی حصہ رہ چکا ہے۔
آواگان کے حوالے سے اس کا ایک فلسفہ یونانی فلسفے کا اہم موڑ ہے جسے Pythgorian principle of transmigration of soulsکے طور پر جانا جاتا ہے۔اس کے مطابق اس دنیا میں جنم لینے سے پہلے ارواح،عالمِ ارواح میں اپنے پرفیکٹ پارٹنر Perfect Partnerکے ساتھ جوڑے کی شکل میں رہ رہی ہوتی ہیں۔اس دنیا میں ان کو الگ کر کے بھیجاجاتاہے۔جب تک یہاں وہ اپنے پرفیکٹ پارٹنر سے جڑ نہیں جاتیں،جنموں کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ اپنے ساتھی سے جڑنے پر ہی ابدی چین نصیب ہوتا ہے۔مغربی عیسائی دنیا نے یونانی فلسفے،تہذیب و تمدن پر ہی اپنی عمارت تعمیر کی ہے اس لیے مغربی دنیا میں ایسے عقیدے کی بازگشت اور کسی بھی پرانے عقیدے پر مطمئن ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہی کچھ ڈاکٹر براؤن کے ساتھ ہوا۔
سیدنا آدمؑ سے لے کر اب تک ساری دنیا چونکہ آپ کی ہی اولاد ہے اس لیے پچھلی نسلوں میں ہمارے آباؤ اجداد کے علم اور تجربات کے اوپر ہی آج کی دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ہم عام طور پر سمجھتے ہیں کہ میموری سے مراد بچپن سے لے کر موجودہ لمحے تک ہماری پرائیویٹ یا ذاتی میموری ہی ہماری کل میموری ہے۔ہماری میموری صرف اتنی نہیں۔ہمارا یہ جسم ایک محیرالعقول مشین ہے۔ اس کے بے شمار پہلو ابھی تک نظروں کے سامنے نہیں آئے یا پورے طور پر سمجھ نہیں آئے۔ہمارا یہ جسم میموری ہی میموری ہے۔صرف دماغ ہی نہیں بلکہ جسم کا ہر سیل میموری رکھتا ہے۔
ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کے دادا دادی، نانا نانی ان کی پیدائش سے بہت پہلے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہوں گے لیکن دادا کی ناک ہمارے چہرے پر سجی ہو گی۔ہماری پیشانی کو دیکھ کر بڑوں کو ہماری دادی کی پیشانی یاد آ جاتی ہو گی۔ہمارے ہاتھ پاؤں ہمارے کسی اور بڑے کے اوپر ہوں گے۔
غرضیکہ ہمارے جسم کو ہمارے آباؤ اجداد کی بات اور جسمانی حصوں کی ہر بناوٹ یاد ہے۔یہ میموری کوئی ایک یا دو نسلوں پر محیط نہین۔یہ نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے اور ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔اسی میموری خزانے کی بنیاد پر ہمارے خیالات جنم لیتے ہیں۔کوئی ایک خیال بھی نیا نہیں ہوتا بلکہ وہ میموری بینک سے ابھر کر ہمارے ذہن کے پردے پر نمودار ہو جاتا ہے۔ ٹرانس کے اندر کسی بھی پرانی فائل کا کھُل جانا اسی تاریخی اور Evolutionaryمیموری کی وجہ سے ممکن ہے۔
ہم ایک مسلمان معاشرے کے افراد ہیں۔یہ ایک عظیم نعمت اور انتہائی فخر کی بات بھی ہے اور ساتھ ہی بے پناہ شکر گزاری کی۔وہ معاشرے جن میں خدا کا پیغام اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں رہا ان معاشروں میں آواگان جیسے فلسفے سطحِ آب پر آ کر تھوڑی دیر بلبلے کی مانند ابھرتے رہتے ہیں لیکن ہم ایک ایسے ابدالآباد پیغام کے حامل ہیں جو اﷲ نے خاتم النبیین ﷺ کے ذریعے ہمیں دیا۔
قرآن یہ بات بالصراحت بتاتا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب تمام ارواح کو پیدا کر کے رب العزت نے انھیں اپنے سامنے حاضر کیا اور اپنے بے مثال وجود سے آگہی دی جس پر تمام ارواح نے یک زبان ہو کر حق تعالیٰ کو اپنا رب مانا۔ قرآن کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ روح ایک بہت ہی لمبے عرصے تک،اس عرصے کا علم صرف خدا کے پاس ہے وہاں قیام کے بعد جہاں اس کے رب نے اسے رکھا ہوتا ہے،اﷲ کے حکم سے ماں کے پیٹ میں تقریباً بارہ ہفتے کے Zygot میں داخل ہوتی ہے یعنی روح کو پہلی بار ایک جسم عطا ہوتا ہے۔
موت صرف اس بات کا نام ہے کہ جب روح سے یہ دنیاوی جسم واپس لے لیا جاتا ہے۔دنیاوی موت کے بعد روح کو ایک بار پھر محفوظ مقام پر حشر تک ٹھہرنا ہے۔روزِ محشر رب العزت بالقسط جو بھی اس کے بارے میں فیصلہ فرمائیں گے اس کے عین مطابق ایک ایسی زندگی کا آغاز ہو گا جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔تمام فلسفے ایک طرف لیکن ہمیں تو اس عظیم ذات نے جس نے ہماری ارواح کو خلق کیا اور پھر یہ زندگی و جسم عطا کیا اس نے تمام جزیات کے ساتھ پوراCycle بتا دیا کہ پہلے کیا ہو چکا ہے اور اس دنیا کی زندگی اور موت کے بعد کیا ہو گا۔
قرآنِ کریم توحید کے بعد جس چیز کا سب سے زیادہ بیان کرتا ہے وہ آخرت ہے۔ اس میں کسی آواگان جیسی چیز کا کوئی تذکرہ نہیں۔ خاتم النبیین ہر جمعے کے خطبے کے آخر میں فرمایا کرتے تھے کہ فاِنَ خیر الحدیثِ کتاب اﷲ،کہ سب سے بہترین بات اﷲ کی کتاب میں ہے۔ خاتم النبیین کی زبان اور کتاب اﷲ کے بیان پر یقین کریں۔یہی سچ ہے اور صرف یہ ہی سچ ہے۔
انگریزی زبان نے پچھلی چند صدیوں میں محیرالعقول ترقی کی ہے۔اگر آپ چاسر کی کنٹربری ٹیلز کو دیکھیں تو جب تک کوئی ماہر استاد پڑھانے والا نہ ہو، چند الفاظ بھی سمجھنے مشکل ہوں گے لیکن اب یہ زبان ترقی کرتے کرتے بلاشبہ دنیا کی ایک بہت بڑی زبان بن گئی ہے۔
اس کی ایک وجہ انگریزوں کا چار دانگِ عالم اقتدار تھا جس کی وجہ سے یہ زبان آقاؤں کی زبان ہونے کی بنا پر دنیا کے بیشتر حصوں میں سمجھی،لکھی اور بولی جانے لگی۔ اس کی ایک اور وجہ انگریزی زبان کا اپنے دامن کو وسیع رکھنا ہے۔اس زبان نے ہر دوسری زبان سے الفاظ کو اپنے اندر سمویا اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی ڈکشنری ضخامت میں بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
یہ انتہائی Rich زبان انسانی بدن کے اعضاء اور مادی دنیا کو بیان کرنے میں بہت کامیاب ہے لیکن اتنی بڑی اور وسیع زبان انسان کے اندر کی دنیا اور انسانی جذبات،احساسات و محسوسات،اس کے نفسانی،نفسیاتی اور روحانی پہلوؤں کو بیان کرتے ہوئے اپنے دامن کو کہیں کہیں تنگ محسوس کرتی ہے۔انگریزی زبان میں مائنڈMind کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے لیکن ایک تو اس کو define کرنا پڑتا ہے دوسرا غور کریں تو یہ لفظ کچھ بھی کنوے نہیں کرتا۔آپ جسم کے کسی حصے،کسی بھی مقام کو ہاتھ لگا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مائنڈ ہے۔
گو اسے عرفِ عام میں دماغ یا ذہن کا ہم پلہ خیال کیا جاتا ہے لیکن ذرا گہرائی میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ذہن ہی صرف مائنڈ نہیں ہے بلکہ مائنڈ ذہن کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ہے۔ آپ کو اسے سمجھانے کے لیے بہت سی توجیہات کرنی پڑتی ہیں یا سہارا لینا پڑتا ہے اور پھر بھی ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ مائنڈ سے مراد Intellectاور میموری کا حاصل ہے ۔
چند ہفتے پہلے ڈاکٹر براؤن Weiz جو کہ ایک معتبر امریکی سائیکالوجسٹ اورپروفیسر ہیں اور اس فیلڈ میں بڑا نام ہیں، ان کے ایک مریضہ کیتھرین کے علاج کے دوران مشاہدات پر مبنی فرمودات کا بڑا چرچا رہا۔ ان کی یہ مریضہ ٹرانس کی حالت میں کبھی قبل مسیح کے مصر میں جنم لے کر ایک بازار میں کھڑی ہوتی ہے اور کبھی سولہویں صدی عیسوی میں ہالینڈ میں پیدا ہوئی ہوتی ہے۔
غر ضیکہ وہ بیشمار جنم لے چکی ہوتی ہے۔کبھی مرد ہوتی ہے اور کبھی عورت اور اب کی بار وہ ایک امریکی خاتون کے طور پر جنم لے کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہے۔ڈاکٹر براؤں نے کیتھرین کے علاج کے دوران اپنے ان مشاہدات کی بنیاد پر اس بات کا اقرار کر لیا کہ انسان صرف ایک مرتبہ اس دنیا میں جنم نہیں لیتا بلکہ اس کا جنم ہوتا رہتا ہے،بار بار ہوتا ہے۔یہ سلسلہ شاید لامتناہی رہتا ہے۔
روح کے ایک سے زیادہ بار دنیا میں جنم لینے کا نظریہ کوئی نیا نہیں۔ویدک نظریہ حیات)ہندو(فلاسفی میں آواگان کے فلسفے کو بڑی اہمیت ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ کیتھرین ہر جنم میں انسان ہی پیدا ہوتی رہی ہے جب کہ آواگان کے نظریئے میں روح کاجنم لینے کے بعد کوئی بھی جسم ہو سکتا ہے۔
یہ جنم کبھی کسی جانور کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی انسان کے روپ میں،یعنی روح کسی بھی جسم کا پیراہن اوڑھ سکتی ہے۔جب تک روح دنیاوی آلائشوں سے آلودہ رہتی ہے،ایک کے بعد دوسرا جنم ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ یہ ایک مکمل پوتر یعنی گناہوں اور آلائشون سے پاک زندگی گزار نہیں لیتی۔یونانی تہذیب بھی جنموںپر یقین رکھتی تھی۔ فیثا غورث Pythagorus کے نام سے تو ہم میں سے اکثر بچپن سے ہی واقف چلے آتے ہیں۔الجبرا کا ایک مشکل مسئلہ اس کے نام سے مسئلہ فیثا غورث ہمارے نصاب کا بھی حصہ رہ چکا ہے۔
آواگان کے حوالے سے اس کا ایک فلسفہ یونانی فلسفے کا اہم موڑ ہے جسے Pythgorian principle of transmigration of soulsکے طور پر جانا جاتا ہے۔اس کے مطابق اس دنیا میں جنم لینے سے پہلے ارواح،عالمِ ارواح میں اپنے پرفیکٹ پارٹنر Perfect Partnerکے ساتھ جوڑے کی شکل میں رہ رہی ہوتی ہیں۔اس دنیا میں ان کو الگ کر کے بھیجاجاتاہے۔جب تک یہاں وہ اپنے پرفیکٹ پارٹنر سے جڑ نہیں جاتیں،جنموں کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ اپنے ساتھی سے جڑنے پر ہی ابدی چین نصیب ہوتا ہے۔مغربی عیسائی دنیا نے یونانی فلسفے،تہذیب و تمدن پر ہی اپنی عمارت تعمیر کی ہے اس لیے مغربی دنیا میں ایسے عقیدے کی بازگشت اور کسی بھی پرانے عقیدے پر مطمئن ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہی کچھ ڈاکٹر براؤن کے ساتھ ہوا۔
سیدنا آدمؑ سے لے کر اب تک ساری دنیا چونکہ آپ کی ہی اولاد ہے اس لیے پچھلی نسلوں میں ہمارے آباؤ اجداد کے علم اور تجربات کے اوپر ہی آج کی دنیا آگے بڑھ رہی ہے۔ہم عام طور پر سمجھتے ہیں کہ میموری سے مراد بچپن سے لے کر موجودہ لمحے تک ہماری پرائیویٹ یا ذاتی میموری ہی ہماری کل میموری ہے۔ہماری میموری صرف اتنی نہیں۔ہمارا یہ جسم ایک محیرالعقول مشین ہے۔ اس کے بے شمار پہلو ابھی تک نظروں کے سامنے نہیں آئے یا پورے طور پر سمجھ نہیں آئے۔ہمارا یہ جسم میموری ہی میموری ہے۔صرف دماغ ہی نہیں بلکہ جسم کا ہر سیل میموری رکھتا ہے۔
ہم میں سے کئی ایسے ہوں گے جن کے دادا دادی، نانا نانی ان کی پیدائش سے بہت پہلے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہوں گے لیکن دادا کی ناک ہمارے چہرے پر سجی ہو گی۔ہماری پیشانی کو دیکھ کر بڑوں کو ہماری دادی کی پیشانی یاد آ جاتی ہو گی۔ہمارے ہاتھ پاؤں ہمارے کسی اور بڑے کے اوپر ہوں گے۔
غرضیکہ ہمارے جسم کو ہمارے آباؤ اجداد کی بات اور جسمانی حصوں کی ہر بناوٹ یاد ہے۔یہ میموری کوئی ایک یا دو نسلوں پر محیط نہین۔یہ نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے اور ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔اسی میموری خزانے کی بنیاد پر ہمارے خیالات جنم لیتے ہیں۔کوئی ایک خیال بھی نیا نہیں ہوتا بلکہ وہ میموری بینک سے ابھر کر ہمارے ذہن کے پردے پر نمودار ہو جاتا ہے۔ ٹرانس کے اندر کسی بھی پرانی فائل کا کھُل جانا اسی تاریخی اور Evolutionaryمیموری کی وجہ سے ممکن ہے۔
ہم ایک مسلمان معاشرے کے افراد ہیں۔یہ ایک عظیم نعمت اور انتہائی فخر کی بات بھی ہے اور ساتھ ہی بے پناہ شکر گزاری کی۔وہ معاشرے جن میں خدا کا پیغام اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں رہا ان معاشروں میں آواگان جیسے فلسفے سطحِ آب پر آ کر تھوڑی دیر بلبلے کی مانند ابھرتے رہتے ہیں لیکن ہم ایک ایسے ابدالآباد پیغام کے حامل ہیں جو اﷲ نے خاتم النبیین ﷺ کے ذریعے ہمیں دیا۔
قرآن یہ بات بالصراحت بتاتا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب تمام ارواح کو پیدا کر کے رب العزت نے انھیں اپنے سامنے حاضر کیا اور اپنے بے مثال وجود سے آگہی دی جس پر تمام ارواح نے یک زبان ہو کر حق تعالیٰ کو اپنا رب مانا۔ قرآن کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ روح ایک بہت ہی لمبے عرصے تک،اس عرصے کا علم صرف خدا کے پاس ہے وہاں قیام کے بعد جہاں اس کے رب نے اسے رکھا ہوتا ہے،اﷲ کے حکم سے ماں کے پیٹ میں تقریباً بارہ ہفتے کے Zygot میں داخل ہوتی ہے یعنی روح کو پہلی بار ایک جسم عطا ہوتا ہے۔
موت صرف اس بات کا نام ہے کہ جب روح سے یہ دنیاوی جسم واپس لے لیا جاتا ہے۔دنیاوی موت کے بعد روح کو ایک بار پھر محفوظ مقام پر حشر تک ٹھہرنا ہے۔روزِ محشر رب العزت بالقسط جو بھی اس کے بارے میں فیصلہ فرمائیں گے اس کے عین مطابق ایک ایسی زندگی کا آغاز ہو گا جو کبھی ختم نہیں ہو گی۔تمام فلسفے ایک طرف لیکن ہمیں تو اس عظیم ذات نے جس نے ہماری ارواح کو خلق کیا اور پھر یہ زندگی و جسم عطا کیا اس نے تمام جزیات کے ساتھ پوراCycle بتا دیا کہ پہلے کیا ہو چکا ہے اور اس دنیا کی زندگی اور موت کے بعد کیا ہو گا۔
قرآنِ کریم توحید کے بعد جس چیز کا سب سے زیادہ بیان کرتا ہے وہ آخرت ہے۔ اس میں کسی آواگان جیسی چیز کا کوئی تذکرہ نہیں۔ خاتم النبیین ہر جمعے کے خطبے کے آخر میں فرمایا کرتے تھے کہ فاِنَ خیر الحدیثِ کتاب اﷲ،کہ سب سے بہترین بات اﷲ کی کتاب میں ہے۔ خاتم النبیین کی زبان اور کتاب اﷲ کے بیان پر یقین کریں۔یہی سچ ہے اور صرف یہ ہی سچ ہے۔