مورال پولیسنگ
ملک میں اسلامی نظام اور اسلامی شعائر ڈنڈے اور پولیس کے ذریعے رائج نہیں ہو سکتے۔
اسلام آباد کی پولیس نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عثمان مرزا اور اس کے دوستوں کو گرفتار کیا ہے۔ ویڈیو میں عثمان مرزا نے ایک نوجوان جوڑے کو کسی گیسٹ ہاؤس میں پکڑ کر ان کو مارا ہے اور ان کی ننگی ویڈیوز بنائی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عثمان مرزا کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
اور قانون کو بھی اسے سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مبینہ ملزم نے ایسا کیوں کیا۔ اس کی نظر میں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کا ملنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس نے خود قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے انھیں عبرت ناک سزا دینے کی کوشش کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عثمان مرزا نے جو بھی کیا ہے، وہ پاکستان میں پولیس ہر روز کرتی ہے۔ مورال پولیسنگ کے نام پر پولیس گیسٹ ہاؤ سز اور ہوٹلوں میں اکثر اوقات چھاپے مارتی ہے۔آپ یقین کریں جب گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں میں چھاپوں کے دوران لڑکے لڑکیوں کو پکڑا جاتا ہے تو پولیس بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو عثمان مرزا اس جوڑے کے ساتھ کر رہا تھا۔ ان کومارا جاتا ہے۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کردی جاتی ہیں۔ آپ یقین کریں پاکستان کے ہر تھانے میں ایک عثمان مرزا بیٹھا ہے اور وہ خود کواخلاقی ٹھیکیدار ہی سمجھتا ہے۔
اسی طرح پارکوں اور تفریح گاہوں میں بھی نوجوان جوڑوں کو چیک کیا جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے ایک یونیورسٹی میں امتحان دینے کے لیے ایک لڑکی لاہور آئی اور اس نے رات رہنے کے لیے یونیورسٹی کے قریب ہی ایک گیسٹ ہاؤس میں کمرہ لے لیا۔مقامی تھانے کا تھانیدار اس اکیلی لڑکی کو کمرے میں ٹھہرنے پر پکڑ کر لے گیا۔ اس کے گھر والوں کو فون کرتا رہا۔ اس کی تذلیل کرتا رہا۔ اور اس کو گندے کردار کی لڑکی ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ لڑکی نے بعد میں پولیس کے اعلیٰ افسران کو شکایت کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری پولیس کی ٹریننگ ایسی ہو گئی ہے کہ رات ڈھلتے ہی ہماری پولیس مورال پولیسنگ شروع کر دیتی ہے ہر پولیس افسرکا خیال ہے کہ وہ اخلاقیات کا بھی ٹھیکیدار ہے۔
ویسے تو ملک میں ٹوراز م کے فروغ کی بہت بات کی جاتی ہے۔ لیکن حالت یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے تفریحی مقام مری میں سیاحوں کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔ لوگ زبردستی اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل مالم جبہ پر ایک یونیورسٹی کا تفریحی ٹور گیا تھا۔ وہاں طلبہ نے ہوٹل کے گراؤنڈ میں میو زک پارٹی کا اہتمام کیا تو مقامی پولیس نے طلبہ اور ہوٹل مالک کے خلاف پرچہ درج کر لیا۔ بہت مشکل سے بچے بچیاں جان بچا کر وہاں سے نکلے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ طلباء تفریحی ٹور پر میوزک نہیں سنیں گے، ڈانس نہیں کریں گے تو کیا وہ تفریحی ٹور میں بھی نصابی کتابیں پڑھیں گے۔
میوزک پارٹی کرنا کونسا جرم ہے جس پر پولیس نے پرچہ درج کر کے ہوٹل کے عملے اور دیگر کو گرفتار کر لیا۔ یہ کونسی ٹورازم پالیسی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے ہر تھانے میں ایک عثمان مرزا موجود ہے اور ہر تھانے میں روزانہ کسی نہ کسی کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو عثمان مرزا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس ویڈیو میں کر رہا ہے۔ اسلام آباد ،کراچی، لاہور سے لے کر پورے پاکستان کے ایک ہی جیسے حالات ہیں۔ ہماری پولیس نے خود کو جرائم، مجرمان اور دہشت گردوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے مورال پولیسنگ میں اس قدر مصروف کر لیا ہے کہ ان کے پاس مجرموں اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔
رات کو سڑکوں اور چوکوں میں پولیس ناکوں پر راہگیروں کے منہ سونگھنا اور گاڑیوں کی ڈگیاں چیک کرنا کونسی پولیسنگ ہے۔ یہ کونسی کارکردگی ہے۔ اس کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں شراب نوشی کے حق میں نہیں ہوں۔ لیکن اس کو روکنا پولیس کا کام نہیں ہے۔ لوگوں کے منہ سونگھنا پولیس کا کام نہیں ہے۔ راتوں کو لوگوں کے میڈیکل کرا کر ان کی کردار کشی کرنا پولیس کا کام نہیں ہے۔ جب تک پولیس کو اس کام سے نہیں روکا جائے گا، معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ معاشرے میں عثمان مرزا پیدا ہوتے رہیں گے اور ایسے واقعات بھی ہوتے رہیں گے۔
ملک میں اسلامی نظام اور اسلامی شعائر ڈنڈے اور پولیس کے ذریعے رائج نہیں ہو سکتے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فحاشی کو پولیس اور سرکار کے ڈنڈے سے روکا جا سکتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طالبان سے دنیا کو کیا اختلاف ہے۔ وہ بھی ڈنڈے کے زور پر اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہاں بھی جوڑوں کومارا پیٹا جاتا تھا ۔ لوگوں کو داڑھی رکھنے پر ایسے ہی مجبور کیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے آزادانہ گھومنے پر ایسی پابندیاں لگائی جاتی ہیں جیسی یہاں لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواتین کو کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ کیا ہم بھی معاشرے کو اسی طرف نہیں لے کر جا رہے۔
کریمنل جیوڈیشل سسٹم میں سے ایسی تمام دفعات ختم ہونی چاہیے۔جو کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہوں۔ کوئی بند کمرے میں کیا کر رہا ہے، اس کا پولیس اور حکومت سے کیا تعلق۔ کون کس سے مل رہاہے، اس سے پولیس کا کیا تعلق۔ پولیس اخلاقیات کی کیوں ٹھیکیدار بنی ہوئی ہے۔ یہ کونسا جرم ہے کہ ایک خاتون اور مرد ایک دوسرے سے مل رہے ہیں یا باتیں کررہے ہیں، یہ کونسا جرم ہے؟ فحاشی کی دفعات اور تیاری زنا جیسی دفعات ہمارے معاشرے اور ہمارے کرمنل جیوڈشل سسٹم کا مکروہ چہرہ ہیں، ان کو ختم کرنے میں ہی معاشرے کی بہتری ہے۔
جب کوئی خاتون شکایت کرے توقانون کو مکمل قوت کے ساتھ حرکت میں آنا چاہیے۔ جب کوئی کسی سے زبردستی کرے تو اس کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے۔ کسی کو بھی کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی زبردستی کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا۔ اس میں سرکار اور پولیس بھی شامل ہیں۔ والدین بچوں کی زبردستی شادی نہیں کر سکتے ۔ لڑکی اور لڑکے کو پسند کی شادی کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ والدین کی مشاورت ہو سکتی ہے۔ لیکن اسلام نے قبول ہے قبول کہنے کا حق لڑکے اور لڑکی کو دیا ہے، لڑکی کے والدیں قبول ہے نہیں کہہ سکتے۔
اسی طرح چادر اور چادر دیواری کا تحفظ اسلام میں موجود ہے۔ یہ گیسٹ ہاوئسز اور ہوٹلوں میں چھاپے گھروں میں چھاپے چادر اور چار دیواروں کے تحفظ کی پامالی ہے۔ یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں ہے۔ یہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے حوصلہ افزئی کے بجائے حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ یہی اسلام ہے۔ جب تک ہم پولیس کو مورال پولیسنگ سے نہیں روکیں گے معاشرہ میں عثمان مرزا جیسے واقعات ہوتے رہیں گے، اس لیے پولیس کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
اور قانون کو بھی اسے سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مبینہ ملزم نے ایسا کیوں کیا۔ اس کی نظر میں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کا ملنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس نے خود قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے انھیں عبرت ناک سزا دینے کی کوشش کی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عثمان مرزا نے جو بھی کیا ہے، وہ پاکستان میں پولیس ہر روز کرتی ہے۔ مورال پولیسنگ کے نام پر پولیس گیسٹ ہاؤ سز اور ہوٹلوں میں اکثر اوقات چھاپے مارتی ہے۔آپ یقین کریں جب گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں میں چھاپوں کے دوران لڑکے لڑکیوں کو پکڑا جاتا ہے تو پولیس بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو عثمان مرزا اس جوڑے کے ساتھ کر رہا تھا۔ ان کومارا جاتا ہے۔ ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کردی جاتی ہیں۔ آپ یقین کریں پاکستان کے ہر تھانے میں ایک عثمان مرزا بیٹھا ہے اور وہ خود کواخلاقی ٹھیکیدار ہی سمجھتا ہے۔
اسی طرح پارکوں اور تفریح گاہوں میں بھی نوجوان جوڑوں کو چیک کیا جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے ایک یونیورسٹی میں امتحان دینے کے لیے ایک لڑکی لاہور آئی اور اس نے رات رہنے کے لیے یونیورسٹی کے قریب ہی ایک گیسٹ ہاؤس میں کمرہ لے لیا۔مقامی تھانے کا تھانیدار اس اکیلی لڑکی کو کمرے میں ٹھہرنے پر پکڑ کر لے گیا۔ اس کے گھر والوں کو فون کرتا رہا۔ اس کی تذلیل کرتا رہا۔ اور اس کو گندے کردار کی لڑکی ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ لڑکی نے بعد میں پولیس کے اعلیٰ افسران کو شکایت کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری پولیس کی ٹریننگ ایسی ہو گئی ہے کہ رات ڈھلتے ہی ہماری پولیس مورال پولیسنگ شروع کر دیتی ہے ہر پولیس افسرکا خیال ہے کہ وہ اخلاقیات کا بھی ٹھیکیدار ہے۔
ویسے تو ملک میں ٹوراز م کے فروغ کی بہت بات کی جاتی ہے۔ لیکن حالت یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے تفریحی مقام مری میں سیاحوں کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔ لوگ زبردستی اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ چند ماہ قبل مالم جبہ پر ایک یونیورسٹی کا تفریحی ٹور گیا تھا۔ وہاں طلبہ نے ہوٹل کے گراؤنڈ میں میو زک پارٹی کا اہتمام کیا تو مقامی پولیس نے طلبہ اور ہوٹل مالک کے خلاف پرچہ درج کر لیا۔ بہت مشکل سے بچے بچیاں جان بچا کر وہاں سے نکلے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ طلباء تفریحی ٹور پر میوزک نہیں سنیں گے، ڈانس نہیں کریں گے تو کیا وہ تفریحی ٹور میں بھی نصابی کتابیں پڑھیں گے۔
میوزک پارٹی کرنا کونسا جرم ہے جس پر پولیس نے پرچہ درج کر کے ہوٹل کے عملے اور دیگر کو گرفتار کر لیا۔ یہ کونسی ٹورازم پالیسی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے ہر تھانے میں ایک عثمان مرزا موجود ہے اور ہر تھانے میں روزانہ کسی نہ کسی کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو عثمان مرزا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس ویڈیو میں کر رہا ہے۔ اسلام آباد ،کراچی، لاہور سے لے کر پورے پاکستان کے ایک ہی جیسے حالات ہیں۔ ہماری پولیس نے خود کو جرائم، مجرمان اور دہشت گردوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے مورال پولیسنگ میں اس قدر مصروف کر لیا ہے کہ ان کے پاس مجرموں اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔
رات کو سڑکوں اور چوکوں میں پولیس ناکوں پر راہگیروں کے منہ سونگھنا اور گاڑیوں کی ڈگیاں چیک کرنا کونسی پولیسنگ ہے۔ یہ کونسی کارکردگی ہے۔ اس کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ میں شراب نوشی کے حق میں نہیں ہوں۔ لیکن اس کو روکنا پولیس کا کام نہیں ہے۔ لوگوں کے منہ سونگھنا پولیس کا کام نہیں ہے۔ راتوں کو لوگوں کے میڈیکل کرا کر ان کی کردار کشی کرنا پولیس کا کام نہیں ہے۔ جب تک پولیس کو اس کام سے نہیں روکا جائے گا، معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ معاشرے میں عثمان مرزا پیدا ہوتے رہیں گے اور ایسے واقعات بھی ہوتے رہیں گے۔
ملک میں اسلامی نظام اور اسلامی شعائر ڈنڈے اور پولیس کے ذریعے رائج نہیں ہو سکتے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فحاشی کو پولیس اور سرکار کے ڈنڈے سے روکا جا سکتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ طالبان سے دنیا کو کیا اختلاف ہے۔ وہ بھی ڈنڈے کے زور پر اسلام کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہاں بھی جوڑوں کومارا پیٹا جاتا تھا ۔ لوگوں کو داڑھی رکھنے پر ایسے ہی مجبور کیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کے آزادانہ گھومنے پر ایسی پابندیاں لگائی جاتی ہیں جیسی یہاں لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواتین کو کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ کیا ہم بھی معاشرے کو اسی طرف نہیں لے کر جا رہے۔
کریمنل جیوڈیشل سسٹم میں سے ایسی تمام دفعات ختم ہونی چاہیے۔جو کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہوں۔ کوئی بند کمرے میں کیا کر رہا ہے، اس کا پولیس اور حکومت سے کیا تعلق۔ کون کس سے مل رہاہے، اس سے پولیس کا کیا تعلق۔ پولیس اخلاقیات کی کیوں ٹھیکیدار بنی ہوئی ہے۔ یہ کونسا جرم ہے کہ ایک خاتون اور مرد ایک دوسرے سے مل رہے ہیں یا باتیں کررہے ہیں، یہ کونسا جرم ہے؟ فحاشی کی دفعات اور تیاری زنا جیسی دفعات ہمارے معاشرے اور ہمارے کرمنل جیوڈشل سسٹم کا مکروہ چہرہ ہیں، ان کو ختم کرنے میں ہی معاشرے کی بہتری ہے۔
جب کوئی خاتون شکایت کرے توقانون کو مکمل قوت کے ساتھ حرکت میں آنا چاہیے۔ جب کوئی کسی سے زبردستی کرے تو اس کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے۔ کسی کو بھی کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی زبردستی کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا۔ اس میں سرکار اور پولیس بھی شامل ہیں۔ والدین بچوں کی زبردستی شادی نہیں کر سکتے ۔ لڑکی اور لڑکے کو پسند کی شادی کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ والدین کی مشاورت ہو سکتی ہے۔ لیکن اسلام نے قبول ہے قبول کہنے کا حق لڑکے اور لڑکی کو دیا ہے، لڑکی کے والدیں قبول ہے نہیں کہہ سکتے۔
اسی طرح چادر اور چادر دیواری کا تحفظ اسلام میں موجود ہے۔ یہ گیسٹ ہاوئسز اور ہوٹلوں میں چھاپے گھروں میں چھاپے چادر اور چار دیواروں کے تحفظ کی پامالی ہے۔ یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں ہے۔ یہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے حوصلہ افزئی کے بجائے حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ یہی اسلام ہے۔ جب تک ہم پولیس کو مورال پولیسنگ سے نہیں روکیں گے معاشرہ میں عثمان مرزا جیسے واقعات ہوتے رہیں گے، اس لیے پولیس کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔