پورے ملک کیلئے مثالی شہر کہلانے والا کوئٹہ مسائل تلے دب گیا
ماضی کا صاف ستھرا چمکتا دمکتا کوئٹہ کہاں کھو گیا۔
کوئٹہ وہ حوالہ ہے جس سے میری شناخت جڑی ہوئی ہے۔ آنکھ کھولنے سے چیزوں کو دیکھنے ، سیکھنے اور پرکھنے تک کے تمام مراحل کی بنیاد اسی شہر کے دروبام سے وابستہ ہے۔ایک مثالی شہر جہاں کبھی معاشرتی زندگی ایک اعلیٰ نظم و ضبط کی حامل تھی۔
ہر ادارہ اپنی بساط سے بڑھ کر عوامی خدمت میں مصروف رہتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے کسی نا کسی حوالے سے تعلق کی مالا میں پروئے ہوئے تھے۔ دید، لحاظ اور مروت اس شہر کا خاصا تھا۔ لسانی تنوع ہونے کے باوجود کوئی تعصب نا تھا۔امن وامان کا پیکر یہ شہر جہاں ناجائز کام کرانا جتنا مشکل اور ناممکن تھا اُتنا ہی آسان اور سہل جائز کام کی انجام دہی تھی۔کسی سرکاری اہلکار کے تنگ کرنے یا اُ سکی جانب سے کسی قسم کے نذرانے کی طلبی کوئٹہ کے شہری ماضی میں ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے آشنا نہ تھے۔
کیونکہ ایک تو اُس وقت معاشرتی اقدار بہت مضبوط تھیں دوسری جانب وسائل کی کمی کے باوجودگڈ گورننس کی ایک عملی صورت ہوا کرتا تھا یہ شہر۔ پورے پاکستان سے لوگ خوشگوار موسم، بازار، قدرتی نظاروں، ملنسار اور مہمان نواز لوگوں کی کشش میں یہاں کھچے چلے آتے تھے۔ لیکن نا جانے کس کی نظر اِس ارض ِ بے نظیر کو لگی کہ جن معاشرتی اقدار اور گڈ گورننس کے کوئٹہ کے باسی گُن گاتے تھے، آج اُنھی کے فقدان کا شکار ہیں۔
پانی، گیس، بجلی،صحت کی سہولیات، تعلیمی سہولیات، صفائی ستھرائی، ماحول، مہنگائی اورچوری وغیرہ ۔خدانخواستہ ان تمام امور سے متعلقہ کسی ایک محکمہ سے آپ کا واسطہ پڑ جائے۔ آپ کو اتنا مجبور کردیا جاتا ہے کہ سائل اپنی اس غلطی پر پچھتانے لگتا ہے کہ اُس نے شارٹ کٹ کا سہارا کیوں نہیں لیا کیوں وہ اپنا کا م جائز طریقے سے کرانا چاہتا ہے۔اس طرح کے تمام پچھتاوں کی سب سے بڑی وجہ بلوچستان میں عوامی خدمات مہیا کرنے والے تمام محکموں کا اپنے طورپر عوام سے دوطرفہ ابلاغی نظام کے قیام کا فقدان ہے۔
آج کے جدید دور میں صوبائی حکومت،صوبائی ادارے اور خصوصاً کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کوئی ایسا ایپ یا آن لائن سسٹم وضع نہیں کر پائی جوعوام کواُن تمام پچھتاوں کا شکار ہونے سے بچا سکے جو کرپشن کا موجب بنتے ہیں۔ جہاں فریاد کی جاسکے ۔جہاں داد رسی ہو۔ جہاں سہولت کو زحمت بننے سے روکا جاسکے۔جہاں ایک ڈیجیٹل نظام کے تحت شکایت کے انداراج سے حل تک کا کوئی نظام موجود ہو۔ جہاں مسئلہ حل ہونے کی تصدیق اور سائل کا فیڈ بیک حاصل کیا جائے۔ جہاں مسئلہ حل ہونے کے لیے ٹائم فریم مقرر ہو۔ جہاں بے جا تقاضے کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔
جہاں ایک دوسرے کی کارکردگی کا چانچنے کاطریقہ کار موجود ہو۔ پورے پاکستان میں کئی ایک منسٹریز، ادارے ، صوبائی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر اپنی خدمات کو زیادہ وسیع اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کی روک تھام اور احتساب کے عمل پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کا سٹیزن پورٹل ،پنجاب حکومت کے ای گورننس کے لیے متعارف کرائے گئے ایپس، لیسکو کا آن لائن اور 8118 کا نظام وغیرہ گڈ گورننس کو قائم کرنے اور اس پر عملدرآمد کی بہترین مثالیں ہیں۔ بلوچستان میں جس عوامی خدمت کے محکمے نے اپنے نظام میں شفافیت اور سہولت لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے میں پہل کی ہے وہ شایدٹریفک پولیس کوئٹہ ہے۔ باقی محکمے اور ضلعی انتظامیہ ابھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
پینے کے پانی کو ہی لے لیں۔ کوئٹہ شہر کا درینہ مسئلہ ،شہر کی روزانہ ضرورت کا اندازہ 150ملین گیلن ہے جس میں سے بی واساصرف 40 ملین گیلن یومیہ شہر کو سپلائی کر رہا ہے۔ باقی ضرورت کہاں سے پوری ہورہی ہے؟ اس میں سے کچھ 1200 سے1700 روپے فی ٹینکرتک پانی مہیا کرنے والی پرائیویٹ واٹر سپلائی کا حصہ ہے اور کچھ وہ ٹیوب ویلز ہیں جو غیر قانونی طور پر شہر میں لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اب شہر میں کئی ایک ایسے پلازہ بن رہے ہیں جن کے لئے پانی کا بور کیا گیا ہے۔ کئی ایک بور سرکاری ہیں لیکن انُھیں کافی عرصہ گذرنے کے باوجود فعال نہیں کیا جاسکا۔
مشرف دور میں کوئٹہ کے لیے گریٹر کوئٹہ واٹر سپلائی پراجیکٹ شروع ہوا۔ جس میں پہاڑوں میں پانی کے حصول کے لیے ٹیوب ویل لگائے گئے۔ پانی کی ترسیل کی پرانی پائپ لائن تبدیل کی گئی ۔لیکن سب سے اہم برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے شہر کے قرب وجوار میں ڈیمز کی تعمیر تھی جو تقریباً ڈیڑھ عشرہ گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل نہیں ہو پائے۔
اگرچہ شہر کی 71 فیصد آبادی کو Water Piped کی سہولت حاصل ہے۔لیکن اس وقت شہر میں ایک دن چھوڑ کر ایک دن پانی مہیا کیا جاتا ہے وہ بھی ایک گھنٹہ اور ٹیوب ویل کی خرابی ، بجلی کی بندش یا وولٹیج کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات ہفتہ ہفتہ پانی نہیں آتا۔ جب آتا ہے توشہر کے وسطی علاقوں میںاس کا پریشر اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ وہ موٹر سے کھینچنے کہ باوجود نہیں آتا۔ جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بی واسا نے ہفتہ اور اتوار کے روز شہر میںپانی کا ناغہ شروع کردیا ہے۔
کیونکہ محکمہ فنانس نے واسا کے اہلکاروں کا آور ٹائم بند کردیا ہے لہذا اہلکاروں نے ہفتہ اور اتورا کے روز چھٹی کرنا شروع کردی ہے۔ محکمہ فنانس کا کہنا ہے کہ اوور ٹائم حاصل کرنے والے واسا کہ اہلکاروں میں بہت سے ایسے اہلکار بھی شامل ہیں جو اس کے اہل ہی نہیں ہیں۔لہذا اب صورتحال یہ ہے کہ شہر میں پینے کے پانی کا شدید ترین بحران پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن بی واسا کی جانب سے جو ایک چیز بلا ناغہ موصول ہو رہی ہے وہ ہے پانی کا بل چاہے پانی آئے نا آئے۔
پانی نہ آنے کے حوالے سے اگر آپ کے کنکشن میں کوئی مسئلہ ہے تو پھر آپ کو ایک اور ادارے کے چکر لگانا پڑتے ہیں اور وہ ہے کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن جو آپ کو روڈکٹنگ یعنی گڑھا کھودنے کی اجازت دے گا تو آپ اپنے واٹر سپلائی کا کنکشن یا اُس کی پائپ لائن تبدیل یا مرمت کراسکتے ہیں۔ روڈ کٹنگ کی سرکاری فیس ہے جو بینک میں جمع کرائی جاتی ہے۔ یہاں موجود عملہ قواعد کا اتنا پابند ہے کہ وہ کسی ایسی درخواست پر بھی ذرا برابربھی سرکتا نہیں جس پر اُن کے مجاز افسران کی جانب سے سائیٹ وزٹ کرنے اور رپورٹ کرنے کاہی کیوں نہ لکھا جائے۔
مہینوں بعد اگر آپ کی درجنوں حاضریوں کے بعد انھیں آپ پر ترس آجائے تو پھر کہیں جاکر آپ کو 2 x 2 کا ایک چھوٹا ساگڑھا کھودنے کی اجازت ملتی ہے۔ جبکہ دوسرا حل وہ طریقہ کار ہے جو ہر وہ سائل دوسرے سائل کو برملا بتاتا ہے جو اُس نے مہینوں کی زلت اور خواری کے بعد بلا آخر اپنایا۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کے سرکاری فلٹریشن پلانٹ کافی جگہوں پر نصب ہیں۔ لیکن کوئی پلانٹ جب کسی وجہ سے بند ہوتا ہے تو اُسے دوبارہ کھلنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے گھر کے احاطوں میں لوگوں کو فی السبیل اللہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگائے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی اتنا نمایاں نہیں ہورہا۔
کیسکو بلوچستان بھر میں بجلی سپلائی کرتا ہے۔ جس کے2017-18 تک صارفین کی تعداد چھ لاکھ 9 ہزار سے زائد تھی۔ جس کا 74 فیصد گھریلو صارفین پر مشتمل ہے۔طویل لوڈ شیڈنگ اپنی جگہ لیکن صوبے کے اکثر علاقوں میں وولٹیج کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
کوئٹہ شہر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ صوبہ کے 45 فیصد بجلی صارفین کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن شہر کے اکثر علاقوں میںخصوصاً وسطی شہرمیں وولٹیج اسقدر گر جاتی ہے کہ الیکٹرانکس کی اشیا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بجلی کے بلوں کی ادئیگی سو فیصد ہے۔ لیکن شکایت پر علاقے کا لوڈ زیادہ ہونے کا عذر پیش کر دیا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں تو مسلہء اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے۔
سوئی سدرن گیس کمپنی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ اورپریشر میں کمی اپنی جگہ پر لیکن کمپنی نے حال ہی میں ایک انوکھا اصول متعارف کرایا ہے وہ یہ کہ اگر آپ نے سردیوں میں 50 سی ایم سے کم گیس استعمال کی تو آپ کو سلو میٹر ریٹس اور پی یو جی کی مد میں31 سو روپے اور اگر گرمیوں میں 50سی ایم سے کم گیس استعمال کی ہے تو 700روپے بل ادا کرنا پڑے گا۔
کمپنی کی ویب سائیٹ پر موجود معلومات کے مطابق ''سلو میٹر چارجز پی یو جی میٹر کی ایک قسم ہے ۔ کیونکہ میٹر ایک میکانی ڈیوائس ہے۔استعمال ہونے اور عمر بڑھنے کی وجہ سے اس کے فنکشنز متاثر ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ ایس ایس جی سی اپنے شیڈول میٹر تبدیلی پروگرام میں اس طرح کے میٹرتبدیل کرتا ہے۔
اس کے بعد تمام میٹروں کو میٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری میں جانچا جاتا ہے اور جہاں بھی سست روی کا تعین ہو تو اس حجم کا صارف کو بل بھیجاجاتا ہے''۔ یعنی میٹر ٹیسٹ ہونے کے بعد اگرکسی میٹر میں کو ئی فالٹ یعنی سست روی پائی جائے تو صارف کو چارج کیا جائے گا۔ لیکن یہاں تو ملزم کو مجرم ثابت ہونے سے پہلے ہی سزا دی جا رہی ہے۔یعنی میٹر کو ن ٹیسٹ کرے آسان حل چارجز ڈال دیں سب پر۔ کوئٹہ ایک ایسا شہر ہے جہاں آبادی کی بڑی تعداد سردیوں میں بچوں کے اسکولوں میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں، اپنے رشتہ داروں سے ملنے اندرونِ صوبہ یا ملک کے دیگر علاقوں میں جاتی ہے۔
تو جب گھر والے گھرپر موجود نہ ہوں اور گھر بند ہو۔ یاگھر میں صرف ایک یا دوافراد موجود ہوں جو اگر ملازم ہیں تو اپنا زیادہ وقت آفس میں گزارتے ہیں اور اگر کاروباری ہیں تو اپنے کام کاج پر۔کھانا پینا بازار سے ۔یا آپ کا گھر ، اپارٹمنٹ یا فلیٹ مرمت یا کسی اور وجہ سے بند ہے اور گیس کا استعمال نا ہو توبھی آپ سردیوں میں 31 سو روپے اور گرمیوں میں 700 روپے تک کا بل ادا کرنے کو تیار رہیں۔
لٹل پیرس کہلانے والا شہر کوئٹہ یوں ہی لٹل پیرس نہیں کہلاتا تھا۔ اس کی صفائی ستھرائی نے اسے یہ مقام دیا تھا۔ لیکن اب وہ بات کہاں۔ وادی کوئٹہ مشرق سے مغرب کی طرف ڈھلان پر واقع ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کا تقریباً تمام نظام کھلی نالیوں پر مشتمل ہے جو ڈھلوان کے اصول کے تحت گنجائش کے اعتبار سے ایک محدودآبادی کے لیے بنائی گئی تھیں۔
جن علاقوں میں ان کی صفائی نہیں ہوتی وہاں یہ اکثر اُبلی پڑ رہی ہوتی ہیں، معمولی سی بارش شہر کی حالت بگاڑ کر دیتی ہے۔ اور بارش کا سارا پانی سیلاب کی صورت بیکار میں بہہ جاتا ہے جو کبھی وادی کے زیر زمین پانی کی سطح بلند کیاکرتا تھا۔ کسی زمانہ میں شہر کے اطراف میں کاریزیں بہتی تھیں اور بارش کا پانی کوئٹہ کے قرب و جوار کے پہاڑوں اور میدانوں پر برسنے کے بعد ان کاریزوں کا حصہ بن کر زیر زمین بہتا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا۔
لیکن پھر جب کوئٹہ نے پھیلنا شروع کیا اور مشرق تا مغرب آبادی پہاڑوں تک پہنچ گئی اوراندرون شہر اور شہر کے اردگرد موجود کاریزوں ،باغات ، کھیت اور کچی زمین جو بارش کے پانی کو جذب کر کے زمین پر بہاؤ کو ریگولیٹ کرتی تھی اب اْسے پکی تعمیرات ڈھانپ لیا ہے جس کے باعث کوئٹہ اور قرب وجوار میں بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شہر کی چند نمایاں سڑکوں کی ایک جانب نالہ بنا کر سوراخ والے کنکریٹ کی سلیب سے ڈھک دیا گیا تاکہ بارش کے پانی کا نکاس ان نالوں کے ذریعے ہو اور سیلابی صورتحال سے بچا جاسکے۔
لیکن نکاسی آب کا پورے نظام تب ہی بہتر طور پر کام کرسکتا ہے جب اس کی تواتر کے ساتھ صفائی ہو۔ گندے پانی کی نکاسی کی نالیوں کی صفائی کسی زمانے میں روزانہ صبح سویرے کی جاتی تھی اور بازاروں اور شہرکے وسطی علاقے کی گلی اورمحلوں میں جھاڑو وغیرہ دن چڑھنے سے قبل ہی لگا دیا جاتا تھا۔گھروں سے جمعدار کچرہ اکٹھا کرتے اور اپنی ہتھ گاڑی پر لاد کر اُسے کوڑا دان میں پھینکتے جہاں سے ہر روز کچرہ اٹھالیا جاتا تھا۔لیکن اب نالیوں کی صفائی کئی کئی دنوں تک نہیں ہوتی۔
سڑکیں بھی منتظر رہتی ہیں کہ اِن کے وجود پر جھاڑو پھیرا جائے۔روزانہ گھروں سے اور شہر سے کچرہ اُٹھانا بھی اب ذمہ داران کے لیے محال ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ سروے 2018-19 اس صورتحال کی یوں منظر کشی کرتا ہے کہ ''بلوچستان کہ شہری علاقوں میں 78 فیصد گھروں سے کچرہ اٹھانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ جبکہ صوبے کے شہری علاقوں کے 23 فیصد گھروں کو گندے پانی کے نکاس کی کوئی سہولت حاصل نہیں۔'' ان میں سے زیادہ تر گھروں کا تعلق کوئٹہ سے ہے چونکہ یہ صوبے کا واحد میٹروپولیٹن شہر ہے اور صوبے کی شہری آبادی کے وسیع حصہ کا ٹھکانہ بھی۔بات چل رہی ہے صفائی ستھرائی کی توایک حوالہ اور بھی ملاحظہ ہو۔
اقوام متحدہ کی دی اسٹیٹ آف پاکستانی سٹیز 2018 کے مطابق'' کوئٹہ میں ہر روز 247 ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے''۔ جس کا صرف50 فیصد حصہ صوبائی حکومت کی ایک دستاویز کے مطابق اکٹھا کیا جاتا ہے۔ یعنی شہر میں روزانہ ایک سو 20 ٹن کے قریب کچرہ اکٹھا نہیں ہوپاتا۔ تو پھر صفائی کیسے رہے ؟گندے پانی کے نکاس کی نالیاں کیسے رواں رہیں؟اس کے علاوہ ایک اور بنیادی ضرورت جسکی شہر کو شدید قلت کا سامنا ہے وہ عوامی بیت الخلاء کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ذرا ایک لمحے کو سوچیئے آپ گھر سے باہر ہیں یا آپ بازار میں ہیں اور یکلخت آپ کو حاجت آجائے لیکن آپ کے آس پاس عوامی بیت الخلاء کی کوئی سہولت میسرنہیں ہے تو ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ اور اگر آپ خاتون ہیں تو پھر تو پریشانی دو چند ہوجاتی ہے۔
شہر میں کسی زمانے میں 42 عوامی بیت الخلاء موجود تھے۔ اب بلدیہ کے زیر انتظام 16 پبلک ٹوائیلٹس ہیں جن میں سے بیشتر ناقابل استعمال حالت میں ہونے کی وجہ سے بند رہتی ہیں اور جو کھلی ہیں اُن کی صفائی ستھرائی کی حالت بھی ابتر ہے۔اگرچہ شہر میں نئے اور پرانے عوامی بیت الخلاء کی تعمیر کا کام جاری ہے ۔جس کی ایک مثال وہ عوامی بیت الخلاء ہے جو پرنس روڈ سے آرٹ اسکول روڈ پر جب آپ مڑیں تو آپ کے سیدھے ہاتھ پر ہے۔ یہاں کبھی کچرہ دان اور عوامی بیت الخلاء موجود تھے کچرہ دان کو ختم کرکے اور پرانے بیت الخلاء کی عمارت کو مسمار کرکے نئے بیت الخلاء کی تعمیر جاری ہے۔ عمارت کا ڈھانچہ کچھ عرصہ سے تعمیر ہوچکا ہے لیکن یہ ابھی تک ڈھانچہ ہی ہے مکمل کب ہوگا کچھ پتا نہیں۔
کوئٹہ کی ایک وجہ تسمیہ اس کی پرفضاء آب وہوا بھی ہے۔کوئٹہ پائن کے درختوں میں گھری ٹھنڈی سڑک آج بھی اہل کوئٹہ کے دلوں میں اپنی حسین یادوں کے ساتھ موجود ہے۔وہ شہر جہاں ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ جون کے مہینہ میں بھی لحاف لینا پڑتا تھا۔
وہ شہر جہاں ہم نے ائیر کنڈیشنر اور ائیر کولر استعمال ہوتے کبھی نہ دیکھے تھے آج آب وہوا میں تبدیلی کے نشانہ پر ہے۔ اس تبدیلی کے بہت سے عوامل بین الاقوامی نوعیت کے ہیں لیکن شہری سطح پر بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ شہر کا موسم ماضی کے مقابلے میں بہت گرم اور فضا ء آلودہ ہوچکی ہے۔ پینے کا زیر زمین پانی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ خشک سالی ، گرد کے طوفان تواتر سے رونما ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ شہر میں تعمیرات نے درختوں کا خاتمہ کیا ہے۔ شہر میں موٹر ویکلز کی بڑھتی تعداد نے شور اور دھویں کو بڑھا دیا ہے جبکہ شہر کے اردگرد موجود اینٹوں کے بھٹوں اور کرشنگ پلانٹس نے رہتی سہتی کسر پوری کردی۔ نتیجتاً کوئٹہ کی فضاء کا معیارعالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ محفوظ حد سے 9 گنا تجاوز کرچکا ہے۔
یہ اعداد وشمار سوئٹزرلینڈ میں قائم آئی کیو ائیر نامی بین الاقوامی ادارے نے دئیے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی حکام کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے شہر کی فضاء کے معیارکو مانیٹر کرنے والاواحد یونٹ کب سے خراب پڑا ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ شہر میں فضائی آلودگی کا ایک اہم محرک موٹر وہیکلز بھی ہیں۔ ڈیولپمنٹ اسٹیسٹکس آف بلوچستان کے مطابق 2018 کے اختتام تک کوئٹہ شہر سے رجسٹرڈ تمام طرح کی موٹر ویکلز کی تعداد 397336 تھی جو پورے صوبے کا 77 فیصد تعداد تھی۔ صوبے میں موجود تمام کاروں کا 81 فیصد، موٹر سائیکلوں کا 95 فیصد اور رکشوں کا 99 فیصد کوئٹہ سے رجسٹرڈ ہے۔ یوں اگردیکھا جائے تو کوئٹہ شہر کے اوسطً ہر تیسرے فرد کے پاس کوئی نا کوئی موٹر ویکل ہے اور اوسطً ہر چوتھے گھر میں یہ سہولت موجود ہے۔
موٹر سائیکل تو ہر چوتھے فرد اور دوسرے گھر میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کراچی رجسٹریشن کی حامل موٹر ویکلز خصوصاً کاروںکی بھی ایک بہت بڑی تعداد شہر میں موجود ہے۔جب صوبے کی 77 فیصد رجسٹرڈ موٹر ویکلز ایک اکیلے شہر میں ہوں گی تو وہاں کی فضاء کتنی پر فضاء رہے گی؟ اس کا تصور کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ جب یہ 77 فیصد موٹر ویکلز شہر کی سڑکوں پر رواں دواں ہوگی تو وہ گزرگاہیںجنہیں انگریز تعمیرکے بعدکشادہ ہی نہیں کیا جاسکا ہو وہاں ٹریفک کا کیا عالم ہوگا؟ ذرا لیاقت بازار، آرٹ اسکول روڈ،آرچرروڈ، یٹ روڈ،مسجد روڈ، فاطمہ جناح روڈ، جناح روڈ، قندہاری بازار، سورجگنج بازار، کواری روڈ، پٹیل روڈ، میکانگی روڈ، کاسی روڈ، طوغی روڈ، مشن روڈ، پرنس روڈ، بروری روڈ، سریاب روڈ، سرکی روڈ، ڈبل روڈ، زرغون روڈ وغیرہ کا شام کے اوقات میںچکر لگا کر دیکھیں ہوش ٹھکانے آجاتا ہے۔
شہر میںٹریفک کے اس ازدھام کی صورت جنگلی ہاتھی کی سی ہوتی ہے جسے بیچارے ٹریفک پولیس والے سڑکوں اور چوراہوں پر قابو میں کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک ستم ظریفی اور ہے کہ دارلخلافہ کی سڑکوں پر ٹریفک سگنلز کی تعداد 6 سے زیادہ نہیں اور بد بختی یہ کہ ان میں سے تو زیادہ تر بالکل ہی کام نہیں کرتے اور جو ایک دوچلتے ہیں وہ بھی اکثر پیلی بتی سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔شہر کی صرف دو سڑکوں جناح روڈ اور زرغون روڈ پر یہ تمام سگنلز موجود ہیں۔
شہر میں موجود سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور موجود سہولیات کے حوالے سے ذاتی تجربات بڑے بھائی کے اسپتال میں داخلہ سے لیکر موت تک کے حوالے سے کافی تلخ ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں مہنگائی کی صورت حال پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے روزمرہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کا تعین اور اس پر عملدرآمد صرف شاید کاغذوں تک ہی محدود ہے اور وہ کاغذ بھی اُن کے اپنے دفاتر سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ آپ کو کسی دوکان، خونچہ فروش ، اسٹال پر کوئی روزمرہ اشیاء ضروریہ کی سرکاری ریٹ لسٹ آویزاں نہیں ملے گی۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا جو علاج ڈھونڈا گیا ہے وہ یہ کہ جو چیز مہنگی ہو اُس کا ہفتہ وار ناغہ کردو۔
اس تما م تر انحطاط کا آغاز اگرچہ کافی پہلے کوئٹہ کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ سے ہوگیا تھا۔ لیکن بلوچستان خصوصاً کوئٹہ کے حالات میں امن و امان کے حوالے سے آنے والی ڈیڑھ عشرہ قبل منفی تبدیلی نے کوئٹہ کی معاشرتی حسن اور اُس کے نظم و ضبط کوزیادہ گہنا دیا ۔کیونکہ اس دوران صوبائی حکومتوں کی توجہ کا زیادہ محور صوبہ کی امن وامان کی صورتحال کو بہتربنانے پر مرکوز رہی۔ لیکن اب تمام حکومتوں اور سیکورٹی اداروں کی شبانہ روز کاوشوں سے صوبے اور خصوصاً کوئٹہ میںامن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ تو یہ وقت ہے اُس گڈ گورننس کے دوبارہ احیاء کیا جائے جو کوئٹہ کا طرہء امتیاز تھا۔ صوبہ کی کل آبادی کا آٹھ فیصد کوئٹہ میں آباد ہے جبکہ صوبے کی شہری آبادی کا 29.4 فیصد یہاں رہائش پذیر ہے۔
صوبائی دارلخلافہ میں 2017 کی مردم شماری کے مطابق دس لاکھ سے زائد آبادی ایک لاکھ اٹھائیس ہزارسے زائد مکانات میں سکونت رکھتی ہے۔ یوں کوئٹہ شہر میں فی گھر اوسطً 7.78 افراد موجود ہیں۔ بلوچستان کے محکمہ منصوبہ بندی کی ویب سائٹ پر ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان 2017-18 کے مختلف ٹیبلز موجود ہیں۔ اس میں ایریا اینڈ پاپولیشن کے ٹیبلز میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کا رقبہ 2653 مربع کلومیٹر لکھا ہوا ہے۔ جبکہ وفاقی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر فائنل رزلٹ سینسیز2017 نامی ویب پیج پر موجود ڈسٹرکٹ ٹیبلز، تحصیل ٹیبلز میں بلوچستان کے بارے میں جو اعداد و شمار موجود ہیں۔
ان میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کا رقبہ 3447 مربع کلومیٹر درج ہے۔ ایک ہی سال (2017 )ہونے کے باوجود ڈسٹرکٹ کوئٹہ کے رقبہ کی دو مختلف پیمائشیں ایک بڑا سوال ہے۔ چونکہ سر دست بات آبادی کی ہو رہی ہے اس لئے یہاں ہم چھٹی خانہ و مردم شماری کے اعداد وشمار ہی کا سہارا لیں گے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع کوئٹہ دو تحصیلوں اور ایک سب تحصیل پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ سٹی تحصیل، کوئٹہ صدر تحصیل اور پنجپائی سب تحصیل۔ کوئٹہ سٹی تحصیل کی مجموعی آبادی 17 لاکھ 22 ہزار7 سو سے زائد ہے۔ جس کا 42 فیصد دیہی آبادی اور 58 فیصد شہری آبادی پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ سٹی تحصیل کا رقبہ 779 مربع کلومیٹر ہے یوںفی مربع کلومیٹر اوسطً2211.4 افرادبستے ہیںاور فی گھر 8.09 افراد موجود ہیں۔
اسی طرح کوئٹہ صدر تحصیل کی مجموعی آبادی5 لاکھ 27 ہزار7 سو سے زائد ہے جو مکمل طور پر دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ مذکورہ تحصیل کا رقبہ 1463 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں فی مربع کلومیٹر 360.7 افراد اور فی گھر7.59 نفوس رہتے ہیں۔ سب تحصیل پنجپائی کی آبادی چھٹی خانہ و مردم شماری کے مطابق 19 ہزار سے زائد ہے جو صد فیصد دیہی آبادی پر مبنی ہے۔ اس سب تحصیل کا رقبہ1205 مربع کلومیٹر ہے۔ علاقہ میں فی مربع کلومیٹر افراد کی اوسط تعداد15.77 ہے اور فی گھر اوسطً 8.17 لوگ آباد ہیں۔یوں مجموعی طور پرکوئٹہ ڈسٹرکٹ کی آبادی 22 لاکھ69 ہزار4 سو سے زائد ہے ۔ جہاں فی مربع کلومیٹر اوسط آبادی کی تعداد658.39 ہے اور فی گھر 7.79 افراد موجود ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ کی 44 فیصد آبادی شہری حیثیت کی حامل ہے۔
1998 تا2017 کے دوران کوئٹہ ڈسٹرکٹ کی دونوں تحصیلوں اور ایک سب تحصیل میں سب سے زیادہ آبادی میں سالانہ اضافہ کی رفتار کوئٹہ سٹی تحصیل کے دیہی حیثیت کے حامل علاقوں میں رہی۔ جہاں اس عرصہ کے دوران 12.74 فیصد سالانہ کے حساب سے آبادی بڑھی۔ جبکہ مذکورہ تحصیل کی شہری درجہ کی حامل آبادی میں 3.04 فیصد سالانہ اضافہ ہوا اور تحصیل کی سطح پر اضافہ 5.35 فیصد رہا۔اگر اس کو ہم لم سم اضافہ کی صورت میں دیکھیں تو کوئٹہ سٹی تحصیل کے دیہی علاقوں کی آبادی میں پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران 880.7 فیصد، شہری علاقوں میں76.8 اور مجموعی طور پر169.6 فیصد اضافہ ہوا۔کوئٹہ سٹی تحصیل کی آبادی خصوصاً دیہی آبادی میںیہ ہوش ربا اضافہ اس نقل مکانی کی وجہ سے ہے جو اندرونِ صوبہ سے ہورہی ہے ۔
اس کے علاوہ افغان مہاجرین بھی اس کے ایک نمایاں محرک ہیں۔یہ تمام آبادی وسائل میں کمی کی وجہ سے رہائش تو ایسے علاقوں میں اختیار کررہی ہے جو علاقائی منصوبہ بندی میں کوئٹہ شہرکے ساتھ مربوط تو نہیں لیکن اس علاقہ کا حصہ ہیں اور کوئٹہ شہر پر مکمل طور پر انحصار کرتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ شہری علاقے میں کچی آبادیوں کے قیام کا محرک بھی ہیں۔ یونیسیف کی ٹیکنیکل سپورٹ کے ساتھ صوبائی اور وفاقی ای پی آئی پروگرامز کی لیڈرشپ کے تحت '' رپورٹ آف پروفائلز آف سلمز/ انڈرسرووڈ ایریاز آف کوئٹہ سٹی آف بلوچستان '' نامی رپورٹ جو کہ جولائی2020 میں جاری کی گئی۔
اس کے مطابق ''کوئٹہ کی 50 یونین کونسلز میں سے 22 یونین کونسلز میں کچی آبادیاں/ پسماندہ علاقے(slums / underserved) ہیں۔جن کی مجموعی تعداد 315 ہے ۔281 کچی آبادیاں اور 34 پسماندہ علاقے اس میں شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق 57 فیصد کچی آبادیاں غیر رجسٹرڈ ہیں اور کسی سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں جس کی وجہ سے وہ صحت، تعلیم، پانی اور صفائی و نکاسی آب کی سرکاری عوامی خدمات کے حصول کی اہل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کی 7 لاکھ 12 ہزار سے زائد آبادی ان315 کچی آبادیوں/ پسماندہ علاقوں میں رہتی ہے''۔ اگر ہم کوئٹہ شہر کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری والی لیں تو پھرشہر کی تقریباً 71 فیصد آبادی ان پسماندہ علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔
کوئٹہ پر آبادی کے دباؤ کو ایک اور رخ سے بھی دیکھتے ہیں۔ کوئٹہ ڈسٹرکٹ جوکہ صوبہ کے رقبہ کا صرف ایک فیصد ہے لیکن یہاں اس وقت صوبے کی مجموعی آبادی کا 18.4 فیصد آباد ہے۔ صوبے کہ شہری آبادی کا29.3فیصد اور دیہی آبادی کا14.2 فیصداس ڈسٹرکٹ میںمقیم ہے۔ اسی طرح اگر ہم تحصیل کی سطح پر دیکھیں تو کوئٹہ سٹی تحصیل جو صوبہ کے رقبہ کا صرف صفر عشاریہ بائیس فیصد(0.22 %) ہے۔ یہاں صوبے کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد آباد ہے۔ صوبہ کی دیہی آبادی کا 8 فیصد اور شہری آبادی کا تقریباً ایک تہائی کے لگ بھگ یعنی 29.3 فیصد اس ایک تحصیل میں موجود ہے۔جب آبادی کا دباؤ کسی ایک جگہ زیادہ ہو تو وہاں عوامی سہولیات کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اس حوالے سے اگر صحت کی سرکاری سہولیات پر نظر ڈالیں تو صوبہ کے 18 فیصد سرکاری اسپتال کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہیں۔1 فیصد ڈسپنسریز، 15.7 فیصد ماں بچہ کی صحت کے مراکز، 5.7 فیصد بنیادی مراکز صحت،4.3 فیصد ٹی بی کلینکس اور 3.8 فیصد دیہی مراکز صحت ضلع میںموجود ہیں۔۔ '' رپورٹ آف پروفائلز آف سلمز/ انڈرسرووڈ ایریاز آف کوئٹہ سٹی آف بلوچستان '' کا کہنا ہے کہ کوئٹہ شہر کی 20 فیصد یونین کونسلز میں صحت عامہ کی کوئی سرکاری سہولت دستیاب نہیں۔18 فیصد کو ای پی آئی کی سہولیات حاصل نہیں''۔ اسی طرح اگر تعلیم کی سرکاری سہولیات کا جائزہ لیں تو بلوچستان کے صرف 3.8 فیصد پرائمری اسکول کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہیں۔ مڈل کی سطح کے 7 فیصد، ہائی اسکولوں کا 9.4 فیصد اور انٹر میڈیٹ سطح کے کالجز کا 10 فیصدضلع کوئٹہ میں ہیں۔
کوئٹہ میں تمام عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ بے روزگاری کابھی ہے۔ شہرمیں صنعتی یونٹس کا فقدان اور زرعی سرگرمیوں کی کمی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کو محدود کیے ہوئے ہے۔ ورلڈ بینک کے Ease of Doing Businessکے مطابق ''ملک کے 13 مختلف علاقوں کی مرتب کردہ رینکنگ میںکوئٹہ 12 ویں نمبر پر ہے''۔ شہر میں روزگار کی شرح 31 فیصد ہے جو پاکستان کے بڑے شہروں میں دوسری کم ترین شرح ہے۔ شہر میںزیادہ تر ملازمتیںخدمات کے شعبے سے متعلق ہیںجو کل باروزگار افراد کا 74 فیصد ہیں۔
شہر میں روزگارکا 22 فیصد انڈسٹریل سیکٹر سے جُڑا ہوا ہے جو دس بڑے شہروں میں تیسری سب سے کم شرح ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ کا لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں حصہ صفر عشاریہ چھ فیصد (0.6 %)ہے۔ان وجوہات کی بنا پر کوئٹہ سے اکٹھے ہونے والے ریوینیو کی مالیت 24 ارب روپے ہے۔ یعنی فیڈرل ٹیکس ریوینیو کا صفر عشاریہ نو فیصد(0.9 %) حصہ کوئٹہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ شہر 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کا آبادی کے حوالے سے دسواں بڑا شہر ہے۔
اس تمام تر صورتحال میںکوئٹہ میں فی کس آمدنی بھی ملک کے تمام بڑے شہروں میں سب سے کم ہے جو 37 ہزار روپے ہے۔اس معاشی منظر نامہ سے آپ شہر میں موجود غربت کا اندازہ باخوبی لگا سکتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ نے غربت ماپنے کا ایک جدید پیمانہ متعارف کیا ہے جسے کثیر الجہت غربت (Multidimensional Poverty ) کہا جاتا ہے۔یہ پیمانہ لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کیا جاتا ہے۔
اس پیمانے کی مدد سے جون 2016 میں پاکستان کی پہلی multidimensional poverty رپورٹ منسٹری آف پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز نے جاری کی جس کے مطابق ''کوئٹہ میں غربت کی شرح 46 فیصد ہے''۔ جو ملک کے دس بڑے شہروں میں سب سے زیادہ شرح ہے۔
کہیں پر گڈ گورننس کا جب یکساں طور اطلاق ہوتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا ترقیاتی نفع مہیاکرتی ہے۔ کیونکہ اس سے طویل المدتی طور پر ملک کی فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔لہذا گڈ گورننس اور انسانی ترقی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ انسانی ترقی کے حوالے سے بھی ملک کے کئی دیگر شہروں سے پیچھے ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی پاکستان ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس رپورٹ 2017 کے مطابق'' ملک کے 114 اضلاع میں ضلع کوئٹہ انسانی ترقی کے اعتبار سے 38 ویں نمبر پر ہے''۔جبکہ یہ ضلعی سطح کی آبادی کے حوالے سے ملک کا 29 واںبڑا ضلع ہے۔
یہ تمام حقائق یقینا تلخ ہیں لیکن ہیں سچ۔ شہر میں وسائل کی کمی کی ایک بڑی وجہ بھی گڈ گورننس کی کمی ہے۔ عوامی سہولیات کے تمام محکموں کو عوام دوست پالیسیوں اور طریقہ کار کی مدد سے نظم و نسق کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ آج جب جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر ملک کے مختلف حصوں میں خدمت عوام کی دہلیز تک پہنچانے کی عملی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔لیکن کوئٹہ کے باسی آج بھی کاغذ کی درخواستیں ہاتھ میں تھامے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور گڈ گورننس کی اُمید پر اپنے دل کو تسلی دیکر اگلی صبح پھر کسی لائن میں لگنے یا کسی دفتر کے چکر کاٹنے یا کسی اہلکار کی منتیں کرنے یا غیر معیاری اور مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ہر ادارہ اپنی بساط سے بڑھ کر عوامی خدمت میں مصروف رہتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے کسی نا کسی حوالے سے تعلق کی مالا میں پروئے ہوئے تھے۔ دید، لحاظ اور مروت اس شہر کا خاصا تھا۔ لسانی تنوع ہونے کے باوجود کوئی تعصب نا تھا۔امن وامان کا پیکر یہ شہر جہاں ناجائز کام کرانا جتنا مشکل اور ناممکن تھا اُتنا ہی آسان اور سہل جائز کام کی انجام دہی تھی۔کسی سرکاری اہلکار کے تنگ کرنے یا اُ سکی جانب سے کسی قسم کے نذرانے کی طلبی کوئٹہ کے شہری ماضی میں ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے آشنا نہ تھے۔
کیونکہ ایک تو اُس وقت معاشرتی اقدار بہت مضبوط تھیں دوسری جانب وسائل کی کمی کے باوجودگڈ گورننس کی ایک عملی صورت ہوا کرتا تھا یہ شہر۔ پورے پاکستان سے لوگ خوشگوار موسم، بازار، قدرتی نظاروں، ملنسار اور مہمان نواز لوگوں کی کشش میں یہاں کھچے چلے آتے تھے۔ لیکن نا جانے کس کی نظر اِس ارض ِ بے نظیر کو لگی کہ جن معاشرتی اقدار اور گڈ گورننس کے کوئٹہ کے باسی گُن گاتے تھے، آج اُنھی کے فقدان کا شکار ہیں۔
پانی، گیس، بجلی،صحت کی سہولیات، تعلیمی سہولیات، صفائی ستھرائی، ماحول، مہنگائی اورچوری وغیرہ ۔خدانخواستہ ان تمام امور سے متعلقہ کسی ایک محکمہ سے آپ کا واسطہ پڑ جائے۔ آپ کو اتنا مجبور کردیا جاتا ہے کہ سائل اپنی اس غلطی پر پچھتانے لگتا ہے کہ اُس نے شارٹ کٹ کا سہارا کیوں نہیں لیا کیوں وہ اپنا کا م جائز طریقے سے کرانا چاہتا ہے۔اس طرح کے تمام پچھتاوں کی سب سے بڑی وجہ بلوچستان میں عوامی خدمات مہیا کرنے والے تمام محکموں کا اپنے طورپر عوام سے دوطرفہ ابلاغی نظام کے قیام کا فقدان ہے۔
آج کے جدید دور میں صوبائی حکومت،صوبائی ادارے اور خصوصاً کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ کوئی ایسا ایپ یا آن لائن سسٹم وضع نہیں کر پائی جوعوام کواُن تمام پچھتاوں کا شکار ہونے سے بچا سکے جو کرپشن کا موجب بنتے ہیں۔ جہاں فریاد کی جاسکے ۔جہاں داد رسی ہو۔ جہاں سہولت کو زحمت بننے سے روکا جاسکے۔جہاں ایک ڈیجیٹل نظام کے تحت شکایت کے انداراج سے حل تک کا کوئی نظام موجود ہو۔ جہاں مسئلہ حل ہونے کی تصدیق اور سائل کا فیڈ بیک حاصل کیا جائے۔ جہاں مسئلہ حل ہونے کے لیے ٹائم فریم مقرر ہو۔ جہاں بے جا تقاضے کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔
جہاں ایک دوسرے کی کارکردگی کا چانچنے کاطریقہ کار موجود ہو۔ پورے پاکستان میں کئی ایک منسٹریز، ادارے ، صوبائی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر اپنی خدمات کو زیادہ وسیع اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کی روک تھام اور احتساب کے عمل پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کا سٹیزن پورٹل ،پنجاب حکومت کے ای گورننس کے لیے متعارف کرائے گئے ایپس، لیسکو کا آن لائن اور 8118 کا نظام وغیرہ گڈ گورننس کو قائم کرنے اور اس پر عملدرآمد کی بہترین مثالیں ہیں۔ بلوچستان میں جس عوامی خدمت کے محکمے نے اپنے نظام میں شفافیت اور سہولت لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے میں پہل کی ہے وہ شایدٹریفک پولیس کوئٹہ ہے۔ باقی محکمے اور ضلعی انتظامیہ ابھی خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
پینے کے پانی کو ہی لے لیں۔ کوئٹہ شہر کا درینہ مسئلہ ،شہر کی روزانہ ضرورت کا اندازہ 150ملین گیلن ہے جس میں سے بی واساصرف 40 ملین گیلن یومیہ شہر کو سپلائی کر رہا ہے۔ باقی ضرورت کہاں سے پوری ہورہی ہے؟ اس میں سے کچھ 1200 سے1700 روپے فی ٹینکرتک پانی مہیا کرنے والی پرائیویٹ واٹر سپلائی کا حصہ ہے اور کچھ وہ ٹیوب ویلز ہیں جو غیر قانونی طور پر شہر میں لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اب شہر میں کئی ایک ایسے پلازہ بن رہے ہیں جن کے لئے پانی کا بور کیا گیا ہے۔ کئی ایک بور سرکاری ہیں لیکن انُھیں کافی عرصہ گذرنے کے باوجود فعال نہیں کیا جاسکا۔
مشرف دور میں کوئٹہ کے لیے گریٹر کوئٹہ واٹر سپلائی پراجیکٹ شروع ہوا۔ جس میں پہاڑوں میں پانی کے حصول کے لیے ٹیوب ویل لگائے گئے۔ پانی کی ترسیل کی پرانی پائپ لائن تبدیل کی گئی ۔لیکن سب سے اہم برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے شہر کے قرب وجوار میں ڈیمز کی تعمیر تھی جو تقریباً ڈیڑھ عشرہ گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل نہیں ہو پائے۔
اگرچہ شہر کی 71 فیصد آبادی کو Water Piped کی سہولت حاصل ہے۔لیکن اس وقت شہر میں ایک دن چھوڑ کر ایک دن پانی مہیا کیا جاتا ہے وہ بھی ایک گھنٹہ اور ٹیوب ویل کی خرابی ، بجلی کی بندش یا وولٹیج کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات ہفتہ ہفتہ پانی نہیں آتا۔ جب آتا ہے توشہر کے وسطی علاقوں میںاس کا پریشر اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ وہ موٹر سے کھینچنے کہ باوجود نہیں آتا۔ جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بی واسا نے ہفتہ اور اتوار کے روز شہر میںپانی کا ناغہ شروع کردیا ہے۔
کیونکہ محکمہ فنانس نے واسا کے اہلکاروں کا آور ٹائم بند کردیا ہے لہذا اہلکاروں نے ہفتہ اور اتورا کے روز چھٹی کرنا شروع کردی ہے۔ محکمہ فنانس کا کہنا ہے کہ اوور ٹائم حاصل کرنے والے واسا کہ اہلکاروں میں بہت سے ایسے اہلکار بھی شامل ہیں جو اس کے اہل ہی نہیں ہیں۔لہذا اب صورتحال یہ ہے کہ شہر میں پینے کے پانی کا شدید ترین بحران پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن بی واسا کی جانب سے جو ایک چیز بلا ناغہ موصول ہو رہی ہے وہ ہے پانی کا بل چاہے پانی آئے نا آئے۔
پانی نہ آنے کے حوالے سے اگر آپ کے کنکشن میں کوئی مسئلہ ہے تو پھر آپ کو ایک اور ادارے کے چکر لگانا پڑتے ہیں اور وہ ہے کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن جو آپ کو روڈکٹنگ یعنی گڑھا کھودنے کی اجازت دے گا تو آپ اپنے واٹر سپلائی کا کنکشن یا اُس کی پائپ لائن تبدیل یا مرمت کراسکتے ہیں۔ روڈ کٹنگ کی سرکاری فیس ہے جو بینک میں جمع کرائی جاتی ہے۔ یہاں موجود عملہ قواعد کا اتنا پابند ہے کہ وہ کسی ایسی درخواست پر بھی ذرا برابربھی سرکتا نہیں جس پر اُن کے مجاز افسران کی جانب سے سائیٹ وزٹ کرنے اور رپورٹ کرنے کاہی کیوں نہ لکھا جائے۔
مہینوں بعد اگر آپ کی درجنوں حاضریوں کے بعد انھیں آپ پر ترس آجائے تو پھر کہیں جاکر آپ کو 2 x 2 کا ایک چھوٹا ساگڑھا کھودنے کی اجازت ملتی ہے۔ جبکہ دوسرا حل وہ طریقہ کار ہے جو ہر وہ سائل دوسرے سائل کو برملا بتاتا ہے جو اُس نے مہینوں کی زلت اور خواری کے بعد بلا آخر اپنایا۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کے سرکاری فلٹریشن پلانٹ کافی جگہوں پر نصب ہیں۔ لیکن کوئی پلانٹ جب کسی وجہ سے بند ہوتا ہے تو اُسے دوبارہ کھلنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے گھر کے احاطوں میں لوگوں کو فی السبیل اللہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے فلٹریشن پلانٹ لگائے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ ابھی اتنا نمایاں نہیں ہورہا۔
کیسکو بلوچستان بھر میں بجلی سپلائی کرتا ہے۔ جس کے2017-18 تک صارفین کی تعداد چھ لاکھ 9 ہزار سے زائد تھی۔ جس کا 74 فیصد گھریلو صارفین پر مشتمل ہے۔طویل لوڈ شیڈنگ اپنی جگہ لیکن صوبے کے اکثر علاقوں میں وولٹیج کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
کوئٹہ شہر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ صوبہ کے 45 فیصد بجلی صارفین کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔لیکن شہر کے اکثر علاقوں میںخصوصاً وسطی شہرمیں وولٹیج اسقدر گر جاتی ہے کہ الیکٹرانکس کی اشیا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں بجلی کے بلوں کی ادئیگی سو فیصد ہے۔ لیکن شکایت پر علاقے کا لوڈ زیادہ ہونے کا عذر پیش کر دیا جاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں تو مسلہء اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے۔
سوئی سدرن گیس کمپنی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ اورپریشر میں کمی اپنی جگہ پر لیکن کمپنی نے حال ہی میں ایک انوکھا اصول متعارف کرایا ہے وہ یہ کہ اگر آپ نے سردیوں میں 50 سی ایم سے کم گیس استعمال کی تو آپ کو سلو میٹر ریٹس اور پی یو جی کی مد میں31 سو روپے اور اگر گرمیوں میں 50سی ایم سے کم گیس استعمال کی ہے تو 700روپے بل ادا کرنا پڑے گا۔
کمپنی کی ویب سائیٹ پر موجود معلومات کے مطابق ''سلو میٹر چارجز پی یو جی میٹر کی ایک قسم ہے ۔ کیونکہ میٹر ایک میکانی ڈیوائس ہے۔استعمال ہونے اور عمر بڑھنے کی وجہ سے اس کے فنکشنز متاثر ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ ایس ایس جی سی اپنے شیڈول میٹر تبدیلی پروگرام میں اس طرح کے میٹرتبدیل کرتا ہے۔
اس کے بعد تمام میٹروں کو میٹر ٹیسٹنگ لیبارٹری میں جانچا جاتا ہے اور جہاں بھی سست روی کا تعین ہو تو اس حجم کا صارف کو بل بھیجاجاتا ہے''۔ یعنی میٹر ٹیسٹ ہونے کے بعد اگرکسی میٹر میں کو ئی فالٹ یعنی سست روی پائی جائے تو صارف کو چارج کیا جائے گا۔ لیکن یہاں تو ملزم کو مجرم ثابت ہونے سے پہلے ہی سزا دی جا رہی ہے۔یعنی میٹر کو ن ٹیسٹ کرے آسان حل چارجز ڈال دیں سب پر۔ کوئٹہ ایک ایسا شہر ہے جہاں آبادی کی بڑی تعداد سردیوں میں بچوں کے اسکولوں میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں، اپنے رشتہ داروں سے ملنے اندرونِ صوبہ یا ملک کے دیگر علاقوں میں جاتی ہے۔
تو جب گھر والے گھرپر موجود نہ ہوں اور گھر بند ہو۔ یاگھر میں صرف ایک یا دوافراد موجود ہوں جو اگر ملازم ہیں تو اپنا زیادہ وقت آفس میں گزارتے ہیں اور اگر کاروباری ہیں تو اپنے کام کاج پر۔کھانا پینا بازار سے ۔یا آپ کا گھر ، اپارٹمنٹ یا فلیٹ مرمت یا کسی اور وجہ سے بند ہے اور گیس کا استعمال نا ہو توبھی آپ سردیوں میں 31 سو روپے اور گرمیوں میں 700 روپے تک کا بل ادا کرنے کو تیار رہیں۔
لٹل پیرس کہلانے والا شہر کوئٹہ یوں ہی لٹل پیرس نہیں کہلاتا تھا۔ اس کی صفائی ستھرائی نے اسے یہ مقام دیا تھا۔ لیکن اب وہ بات کہاں۔ وادی کوئٹہ مشرق سے مغرب کی طرف ڈھلان پر واقع ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کا تقریباً تمام نظام کھلی نالیوں پر مشتمل ہے جو ڈھلوان کے اصول کے تحت گنجائش کے اعتبار سے ایک محدودآبادی کے لیے بنائی گئی تھیں۔
جن علاقوں میں ان کی صفائی نہیں ہوتی وہاں یہ اکثر اُبلی پڑ رہی ہوتی ہیں، معمولی سی بارش شہر کی حالت بگاڑ کر دیتی ہے۔ اور بارش کا سارا پانی سیلاب کی صورت بیکار میں بہہ جاتا ہے جو کبھی وادی کے زیر زمین پانی کی سطح بلند کیاکرتا تھا۔ کسی زمانہ میں شہر کے اطراف میں کاریزیں بہتی تھیں اور بارش کا پانی کوئٹہ کے قرب و جوار کے پہاڑوں اور میدانوں پر برسنے کے بعد ان کاریزوں کا حصہ بن کر زیر زمین بہتا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا۔
لیکن پھر جب کوئٹہ نے پھیلنا شروع کیا اور مشرق تا مغرب آبادی پہاڑوں تک پہنچ گئی اوراندرون شہر اور شہر کے اردگرد موجود کاریزوں ،باغات ، کھیت اور کچی زمین جو بارش کے پانی کو جذب کر کے زمین پر بہاؤ کو ریگولیٹ کرتی تھی اب اْسے پکی تعمیرات ڈھانپ لیا ہے جس کے باعث کوئٹہ اور قرب وجوار میں بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شہر کی چند نمایاں سڑکوں کی ایک جانب نالہ بنا کر سوراخ والے کنکریٹ کی سلیب سے ڈھک دیا گیا تاکہ بارش کے پانی کا نکاس ان نالوں کے ذریعے ہو اور سیلابی صورتحال سے بچا جاسکے۔
لیکن نکاسی آب کا پورے نظام تب ہی بہتر طور پر کام کرسکتا ہے جب اس کی تواتر کے ساتھ صفائی ہو۔ گندے پانی کی نکاسی کی نالیوں کی صفائی کسی زمانے میں روزانہ صبح سویرے کی جاتی تھی اور بازاروں اور شہرکے وسطی علاقے کی گلی اورمحلوں میں جھاڑو وغیرہ دن چڑھنے سے قبل ہی لگا دیا جاتا تھا۔گھروں سے جمعدار کچرہ اکٹھا کرتے اور اپنی ہتھ گاڑی پر لاد کر اُسے کوڑا دان میں پھینکتے جہاں سے ہر روز کچرہ اٹھالیا جاتا تھا۔لیکن اب نالیوں کی صفائی کئی کئی دنوں تک نہیں ہوتی۔
سڑکیں بھی منتظر رہتی ہیں کہ اِن کے وجود پر جھاڑو پھیرا جائے۔روزانہ گھروں سے اور شہر سے کچرہ اُٹھانا بھی اب ذمہ داران کے لیے محال ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ سروے 2018-19 اس صورتحال کی یوں منظر کشی کرتا ہے کہ ''بلوچستان کہ شہری علاقوں میں 78 فیصد گھروں سے کچرہ اٹھانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ جبکہ صوبے کے شہری علاقوں کے 23 فیصد گھروں کو گندے پانی کے نکاس کی کوئی سہولت حاصل نہیں۔'' ان میں سے زیادہ تر گھروں کا تعلق کوئٹہ سے ہے چونکہ یہ صوبے کا واحد میٹروپولیٹن شہر ہے اور صوبے کی شہری آبادی کے وسیع حصہ کا ٹھکانہ بھی۔بات چل رہی ہے صفائی ستھرائی کی توایک حوالہ اور بھی ملاحظہ ہو۔
اقوام متحدہ کی دی اسٹیٹ آف پاکستانی سٹیز 2018 کے مطابق'' کوئٹہ میں ہر روز 247 ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے''۔ جس کا صرف50 فیصد حصہ صوبائی حکومت کی ایک دستاویز کے مطابق اکٹھا کیا جاتا ہے۔ یعنی شہر میں روزانہ ایک سو 20 ٹن کے قریب کچرہ اکٹھا نہیں ہوپاتا۔ تو پھر صفائی کیسے رہے ؟گندے پانی کے نکاس کی نالیاں کیسے رواں رہیں؟اس کے علاوہ ایک اور بنیادی ضرورت جسکی شہر کو شدید قلت کا سامنا ہے وہ عوامی بیت الخلاء کی سہولیات کا فقدان ہے۔ ذرا ایک لمحے کو سوچیئے آپ گھر سے باہر ہیں یا آپ بازار میں ہیں اور یکلخت آپ کو حاجت آجائے لیکن آپ کے آس پاس عوامی بیت الخلاء کی کوئی سہولت میسرنہیں ہے تو ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ اور اگر آپ خاتون ہیں تو پھر تو پریشانی دو چند ہوجاتی ہے۔
شہر میں کسی زمانے میں 42 عوامی بیت الخلاء موجود تھے۔ اب بلدیہ کے زیر انتظام 16 پبلک ٹوائیلٹس ہیں جن میں سے بیشتر ناقابل استعمال حالت میں ہونے کی وجہ سے بند رہتی ہیں اور جو کھلی ہیں اُن کی صفائی ستھرائی کی حالت بھی ابتر ہے۔اگرچہ شہر میں نئے اور پرانے عوامی بیت الخلاء کی تعمیر کا کام جاری ہے ۔جس کی ایک مثال وہ عوامی بیت الخلاء ہے جو پرنس روڈ سے آرٹ اسکول روڈ پر جب آپ مڑیں تو آپ کے سیدھے ہاتھ پر ہے۔ یہاں کبھی کچرہ دان اور عوامی بیت الخلاء موجود تھے کچرہ دان کو ختم کرکے اور پرانے بیت الخلاء کی عمارت کو مسمار کرکے نئے بیت الخلاء کی تعمیر جاری ہے۔ عمارت کا ڈھانچہ کچھ عرصہ سے تعمیر ہوچکا ہے لیکن یہ ابھی تک ڈھانچہ ہی ہے مکمل کب ہوگا کچھ پتا نہیں۔
کوئٹہ کی ایک وجہ تسمیہ اس کی پرفضاء آب وہوا بھی ہے۔کوئٹہ پائن کے درختوں میں گھری ٹھنڈی سڑک آج بھی اہل کوئٹہ کے دلوں میں اپنی حسین یادوں کے ساتھ موجود ہے۔وہ شہر جہاں ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ جون کے مہینہ میں بھی لحاف لینا پڑتا تھا۔
وہ شہر جہاں ہم نے ائیر کنڈیشنر اور ائیر کولر استعمال ہوتے کبھی نہ دیکھے تھے آج آب وہوا میں تبدیلی کے نشانہ پر ہے۔ اس تبدیلی کے بہت سے عوامل بین الاقوامی نوعیت کے ہیں لیکن شہری سطح پر بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں۔ شہر کا موسم ماضی کے مقابلے میں بہت گرم اور فضا ء آلودہ ہوچکی ہے۔ پینے کا زیر زمین پانی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ خشک سالی ، گرد کے طوفان تواتر سے رونما ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ شہر میں تعمیرات نے درختوں کا خاتمہ کیا ہے۔ شہر میں موٹر ویکلز کی بڑھتی تعداد نے شور اور دھویں کو بڑھا دیا ہے جبکہ شہر کے اردگرد موجود اینٹوں کے بھٹوں اور کرشنگ پلانٹس نے رہتی سہتی کسر پوری کردی۔ نتیجتاً کوئٹہ کی فضاء کا معیارعالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ محفوظ حد سے 9 گنا تجاوز کرچکا ہے۔
یہ اعداد وشمار سوئٹزرلینڈ میں قائم آئی کیو ائیر نامی بین الاقوامی ادارے نے دئیے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی حکام کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے شہر کی فضاء کے معیارکو مانیٹر کرنے والاواحد یونٹ کب سے خراب پڑا ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ شہر میں فضائی آلودگی کا ایک اہم محرک موٹر وہیکلز بھی ہیں۔ ڈیولپمنٹ اسٹیسٹکس آف بلوچستان کے مطابق 2018 کے اختتام تک کوئٹہ شہر سے رجسٹرڈ تمام طرح کی موٹر ویکلز کی تعداد 397336 تھی جو پورے صوبے کا 77 فیصد تعداد تھی۔ صوبے میں موجود تمام کاروں کا 81 فیصد، موٹر سائیکلوں کا 95 فیصد اور رکشوں کا 99 فیصد کوئٹہ سے رجسٹرڈ ہے۔ یوں اگردیکھا جائے تو کوئٹہ شہر کے اوسطً ہر تیسرے فرد کے پاس کوئی نا کوئی موٹر ویکل ہے اور اوسطً ہر چوتھے گھر میں یہ سہولت موجود ہے۔
موٹر سائیکل تو ہر چوتھے فرد اور دوسرے گھر میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کراچی رجسٹریشن کی حامل موٹر ویکلز خصوصاً کاروںکی بھی ایک بہت بڑی تعداد شہر میں موجود ہے۔جب صوبے کی 77 فیصد رجسٹرڈ موٹر ویکلز ایک اکیلے شہر میں ہوں گی تو وہاں کی فضاء کتنی پر فضاء رہے گی؟ اس کا تصور کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ جب یہ 77 فیصد موٹر ویکلز شہر کی سڑکوں پر رواں دواں ہوگی تو وہ گزرگاہیںجنہیں انگریز تعمیرکے بعدکشادہ ہی نہیں کیا جاسکا ہو وہاں ٹریفک کا کیا عالم ہوگا؟ ذرا لیاقت بازار، آرٹ اسکول روڈ،آرچرروڈ، یٹ روڈ،مسجد روڈ، فاطمہ جناح روڈ، جناح روڈ، قندہاری بازار، سورجگنج بازار، کواری روڈ، پٹیل روڈ، میکانگی روڈ، کاسی روڈ، طوغی روڈ، مشن روڈ، پرنس روڈ، بروری روڈ، سریاب روڈ، سرکی روڈ، ڈبل روڈ، زرغون روڈ وغیرہ کا شام کے اوقات میںچکر لگا کر دیکھیں ہوش ٹھکانے آجاتا ہے۔
شہر میںٹریفک کے اس ازدھام کی صورت جنگلی ہاتھی کی سی ہوتی ہے جسے بیچارے ٹریفک پولیس والے سڑکوں اور چوراہوں پر قابو میں کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ایک ستم ظریفی اور ہے کہ دارلخلافہ کی سڑکوں پر ٹریفک سگنلز کی تعداد 6 سے زیادہ نہیں اور بد بختی یہ کہ ان میں سے تو زیادہ تر بالکل ہی کام نہیں کرتے اور جو ایک دوچلتے ہیں وہ بھی اکثر پیلی بتی سے آگے ہی نہیں بڑھتے۔شہر کی صرف دو سڑکوں جناح روڈ اور زرغون روڈ پر یہ تمام سگنلز موجود ہیں۔
شہر میں موجود سرکاری اسپتالوں کی حالت زار اور موجود سہولیات کے حوالے سے ذاتی تجربات بڑے بھائی کے اسپتال میں داخلہ سے لیکر موت تک کے حوالے سے کافی تلخ ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں مہنگائی کی صورت حال پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے روزمرہ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کا تعین اور اس پر عملدرآمد صرف شاید کاغذوں تک ہی محدود ہے اور وہ کاغذ بھی اُن کے اپنے دفاتر سے باہر نہیں نکلتے کیونکہ آپ کو کسی دوکان، خونچہ فروش ، اسٹال پر کوئی روزمرہ اشیاء ضروریہ کی سرکاری ریٹ لسٹ آویزاں نہیں ملے گی۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا جو علاج ڈھونڈا گیا ہے وہ یہ کہ جو چیز مہنگی ہو اُس کا ہفتہ وار ناغہ کردو۔
اس تما م تر انحطاط کا آغاز اگرچہ کافی پہلے کوئٹہ کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ سے ہوگیا تھا۔ لیکن بلوچستان خصوصاً کوئٹہ کے حالات میں امن و امان کے حوالے سے آنے والی ڈیڑھ عشرہ قبل منفی تبدیلی نے کوئٹہ کی معاشرتی حسن اور اُس کے نظم و ضبط کوزیادہ گہنا دیا ۔کیونکہ اس دوران صوبائی حکومتوں کی توجہ کا زیادہ محور صوبہ کی امن وامان کی صورتحال کو بہتربنانے پر مرکوز رہی۔ لیکن اب تمام حکومتوں اور سیکورٹی اداروں کی شبانہ روز کاوشوں سے صوبے اور خصوصاً کوئٹہ میںامن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ تو یہ وقت ہے اُس گڈ گورننس کے دوبارہ احیاء کیا جائے جو کوئٹہ کا طرہء امتیاز تھا۔ صوبہ کی کل آبادی کا آٹھ فیصد کوئٹہ میں آباد ہے جبکہ صوبے کی شہری آبادی کا 29.4 فیصد یہاں رہائش پذیر ہے۔
صوبائی دارلخلافہ میں 2017 کی مردم شماری کے مطابق دس لاکھ سے زائد آبادی ایک لاکھ اٹھائیس ہزارسے زائد مکانات میں سکونت رکھتی ہے۔ یوں کوئٹہ شہر میں فی گھر اوسطً 7.78 افراد موجود ہیں۔ بلوچستان کے محکمہ منصوبہ بندی کی ویب سائٹ پر ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان 2017-18 کے مختلف ٹیبلز موجود ہیں۔ اس میں ایریا اینڈ پاپولیشن کے ٹیبلز میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کا رقبہ 2653 مربع کلومیٹر لکھا ہوا ہے۔ جبکہ وفاقی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ پر فائنل رزلٹ سینسیز2017 نامی ویب پیج پر موجود ڈسٹرکٹ ٹیبلز، تحصیل ٹیبلز میں بلوچستان کے بارے میں جو اعداد و شمار موجود ہیں۔
ان میں کوئٹہ ڈسٹرکٹ کا رقبہ 3447 مربع کلومیٹر درج ہے۔ ایک ہی سال (2017 )ہونے کے باوجود ڈسٹرکٹ کوئٹہ کے رقبہ کی دو مختلف پیمائشیں ایک بڑا سوال ہے۔ چونکہ سر دست بات آبادی کی ہو رہی ہے اس لئے یہاں ہم چھٹی خانہ و مردم شماری کے اعداد وشمار ہی کا سہارا لیں گے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع کوئٹہ دو تحصیلوں اور ایک سب تحصیل پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ سٹی تحصیل، کوئٹہ صدر تحصیل اور پنجپائی سب تحصیل۔ کوئٹہ سٹی تحصیل کی مجموعی آبادی 17 لاکھ 22 ہزار7 سو سے زائد ہے۔ جس کا 42 فیصد دیہی آبادی اور 58 فیصد شہری آبادی پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ سٹی تحصیل کا رقبہ 779 مربع کلومیٹر ہے یوںفی مربع کلومیٹر اوسطً2211.4 افرادبستے ہیںاور فی گھر 8.09 افراد موجود ہیں۔
اسی طرح کوئٹہ صدر تحصیل کی مجموعی آبادی5 لاکھ 27 ہزار7 سو سے زائد ہے جو مکمل طور پر دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔ مذکورہ تحصیل کا رقبہ 1463 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں فی مربع کلومیٹر 360.7 افراد اور فی گھر7.59 نفوس رہتے ہیں۔ سب تحصیل پنجپائی کی آبادی چھٹی خانہ و مردم شماری کے مطابق 19 ہزار سے زائد ہے جو صد فیصد دیہی آبادی پر مبنی ہے۔ اس سب تحصیل کا رقبہ1205 مربع کلومیٹر ہے۔ علاقہ میں فی مربع کلومیٹر افراد کی اوسط تعداد15.77 ہے اور فی گھر اوسطً 8.17 لوگ آباد ہیں۔یوں مجموعی طور پرکوئٹہ ڈسٹرکٹ کی آبادی 22 لاکھ69 ہزار4 سو سے زائد ہے ۔ جہاں فی مربع کلومیٹر اوسط آبادی کی تعداد658.39 ہے اور فی گھر 7.79 افراد موجود ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ کی 44 فیصد آبادی شہری حیثیت کی حامل ہے۔
1998 تا2017 کے دوران کوئٹہ ڈسٹرکٹ کی دونوں تحصیلوں اور ایک سب تحصیل میں سب سے زیادہ آبادی میں سالانہ اضافہ کی رفتار کوئٹہ سٹی تحصیل کے دیہی حیثیت کے حامل علاقوں میں رہی۔ جہاں اس عرصہ کے دوران 12.74 فیصد سالانہ کے حساب سے آبادی بڑھی۔ جبکہ مذکورہ تحصیل کی شہری درجہ کی حامل آبادی میں 3.04 فیصد سالانہ اضافہ ہوا اور تحصیل کی سطح پر اضافہ 5.35 فیصد رہا۔اگر اس کو ہم لم سم اضافہ کی صورت میں دیکھیں تو کوئٹہ سٹی تحصیل کے دیہی علاقوں کی آبادی میں پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران 880.7 فیصد، شہری علاقوں میں76.8 اور مجموعی طور پر169.6 فیصد اضافہ ہوا۔کوئٹہ سٹی تحصیل کی آبادی خصوصاً دیہی آبادی میںیہ ہوش ربا اضافہ اس نقل مکانی کی وجہ سے ہے جو اندرونِ صوبہ سے ہورہی ہے ۔
اس کے علاوہ افغان مہاجرین بھی اس کے ایک نمایاں محرک ہیں۔یہ تمام آبادی وسائل میں کمی کی وجہ سے رہائش تو ایسے علاقوں میں اختیار کررہی ہے جو علاقائی منصوبہ بندی میں کوئٹہ شہرکے ساتھ مربوط تو نہیں لیکن اس علاقہ کا حصہ ہیں اور کوئٹہ شہر پر مکمل طور پر انحصار کرتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ شہری علاقے میں کچی آبادیوں کے قیام کا محرک بھی ہیں۔ یونیسیف کی ٹیکنیکل سپورٹ کے ساتھ صوبائی اور وفاقی ای پی آئی پروگرامز کی لیڈرشپ کے تحت '' رپورٹ آف پروفائلز آف سلمز/ انڈرسرووڈ ایریاز آف کوئٹہ سٹی آف بلوچستان '' نامی رپورٹ جو کہ جولائی2020 میں جاری کی گئی۔
اس کے مطابق ''کوئٹہ کی 50 یونین کونسلز میں سے 22 یونین کونسلز میں کچی آبادیاں/ پسماندہ علاقے(slums / underserved) ہیں۔جن کی مجموعی تعداد 315 ہے ۔281 کچی آبادیاں اور 34 پسماندہ علاقے اس میں شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق 57 فیصد کچی آبادیاں غیر رجسٹرڈ ہیں اور کسی سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں جس کی وجہ سے وہ صحت، تعلیم، پانی اور صفائی و نکاسی آب کی سرکاری عوامی خدمات کے حصول کی اہل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کی 7 لاکھ 12 ہزار سے زائد آبادی ان315 کچی آبادیوں/ پسماندہ علاقوں میں رہتی ہے''۔ اگر ہم کوئٹہ شہر کی کل آبادی 2017 کی مردم شماری والی لیں تو پھرشہر کی تقریباً 71 فیصد آبادی ان پسماندہ علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔
کوئٹہ پر آبادی کے دباؤ کو ایک اور رخ سے بھی دیکھتے ہیں۔ کوئٹہ ڈسٹرکٹ جوکہ صوبہ کے رقبہ کا صرف ایک فیصد ہے لیکن یہاں اس وقت صوبے کی مجموعی آبادی کا 18.4 فیصد آباد ہے۔ صوبے کہ شہری آبادی کا29.3فیصد اور دیہی آبادی کا14.2 فیصداس ڈسٹرکٹ میںمقیم ہے۔ اسی طرح اگر ہم تحصیل کی سطح پر دیکھیں تو کوئٹہ سٹی تحصیل جو صوبہ کے رقبہ کا صرف صفر عشاریہ بائیس فیصد(0.22 %) ہے۔ یہاں صوبے کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد آباد ہے۔ صوبہ کی دیہی آبادی کا 8 فیصد اور شہری آبادی کا تقریباً ایک تہائی کے لگ بھگ یعنی 29.3 فیصد اس ایک تحصیل میں موجود ہے۔جب آبادی کا دباؤ کسی ایک جگہ زیادہ ہو تو وہاں عوامی سہولیات کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اس حوالے سے اگر صحت کی سرکاری سہولیات پر نظر ڈالیں تو صوبہ کے 18 فیصد سرکاری اسپتال کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہیں۔1 فیصد ڈسپنسریز، 15.7 فیصد ماں بچہ کی صحت کے مراکز، 5.7 فیصد بنیادی مراکز صحت،4.3 فیصد ٹی بی کلینکس اور 3.8 فیصد دیہی مراکز صحت ضلع میںموجود ہیں۔۔ '' رپورٹ آف پروفائلز آف سلمز/ انڈرسرووڈ ایریاز آف کوئٹہ سٹی آف بلوچستان '' کا کہنا ہے کہ کوئٹہ شہر کی 20 فیصد یونین کونسلز میں صحت عامہ کی کوئی سرکاری سہولت دستیاب نہیں۔18 فیصد کو ای پی آئی کی سہولیات حاصل نہیں''۔ اسی طرح اگر تعلیم کی سرکاری سہولیات کا جائزہ لیں تو بلوچستان کے صرف 3.8 فیصد پرائمری اسکول کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں ہیں۔ مڈل کی سطح کے 7 فیصد، ہائی اسکولوں کا 9.4 فیصد اور انٹر میڈیٹ سطح کے کالجز کا 10 فیصدضلع کوئٹہ میں ہیں۔
کوئٹہ میں تمام عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ بے روزگاری کابھی ہے۔ شہرمیں صنعتی یونٹس کا فقدان اور زرعی سرگرمیوں کی کمی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقعوں کو محدود کیے ہوئے ہے۔ ورلڈ بینک کے Ease of Doing Businessکے مطابق ''ملک کے 13 مختلف علاقوں کی مرتب کردہ رینکنگ میںکوئٹہ 12 ویں نمبر پر ہے''۔ شہر میں روزگار کی شرح 31 فیصد ہے جو پاکستان کے بڑے شہروں میں دوسری کم ترین شرح ہے۔ شہر میںزیادہ تر ملازمتیںخدمات کے شعبے سے متعلق ہیںجو کل باروزگار افراد کا 74 فیصد ہیں۔
شہر میں روزگارکا 22 فیصد انڈسٹریل سیکٹر سے جُڑا ہوا ہے جو دس بڑے شہروں میں تیسری سب سے کم شرح ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ کا لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں حصہ صفر عشاریہ چھ فیصد (0.6 %)ہے۔ان وجوہات کی بنا پر کوئٹہ سے اکٹھے ہونے والے ریوینیو کی مالیت 24 ارب روپے ہے۔ یعنی فیڈرل ٹیکس ریوینیو کا صفر عشاریہ نو فیصد(0.9 %) حصہ کوئٹہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ شہر 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کا آبادی کے حوالے سے دسواں بڑا شہر ہے۔
اس تمام تر صورتحال میںکوئٹہ میں فی کس آمدنی بھی ملک کے تمام بڑے شہروں میں سب سے کم ہے جو 37 ہزار روپے ہے۔اس معاشی منظر نامہ سے آپ شہر میں موجود غربت کا اندازہ باخوبی لگا سکتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ نے غربت ماپنے کا ایک جدید پیمانہ متعارف کیا ہے جسے کثیر الجہت غربت (Multidimensional Poverty ) کہا جاتا ہے۔یہ پیمانہ لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس اشاریوںکی بنیاد پر مرتب کیا جاتا ہے۔
اس پیمانے کی مدد سے جون 2016 میں پاکستان کی پہلی multidimensional poverty رپورٹ منسٹری آف پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز نے جاری کی جس کے مطابق ''کوئٹہ میں غربت کی شرح 46 فیصد ہے''۔ جو ملک کے دس بڑے شہروں میں سب سے زیادہ شرح ہے۔
کہیں پر گڈ گورننس کا جب یکساں طور اطلاق ہوتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا ترقیاتی نفع مہیاکرتی ہے۔ کیونکہ اس سے طویل المدتی طور پر ملک کی فی کس آمدنی میں تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔لہذا گڈ گورننس اور انسانی ترقی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ انسانی ترقی کے حوالے سے بھی ملک کے کئی دیگر شہروں سے پیچھے ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی پاکستان ہیومن ڈیولپمنٹ انڈکس رپورٹ 2017 کے مطابق'' ملک کے 114 اضلاع میں ضلع کوئٹہ انسانی ترقی کے اعتبار سے 38 ویں نمبر پر ہے''۔جبکہ یہ ضلعی سطح کی آبادی کے حوالے سے ملک کا 29 واںبڑا ضلع ہے۔
یہ تمام حقائق یقینا تلخ ہیں لیکن ہیں سچ۔ شہر میں وسائل کی کمی کی ایک بڑی وجہ بھی گڈ گورننس کی کمی ہے۔ عوامی سہولیات کے تمام محکموں کو عوام دوست پالیسیوں اور طریقہ کار کی مدد سے نظم و نسق کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ آج جب جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیکر ملک کے مختلف حصوں میں خدمت عوام کی دہلیز تک پہنچانے کی عملی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔لیکن کوئٹہ کے باسی آج بھی کاغذ کی درخواستیں ہاتھ میں تھامے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور گڈ گورننس کی اُمید پر اپنے دل کو تسلی دیکر اگلی صبح پھر کسی لائن میں لگنے یا کسی دفتر کے چکر کاٹنے یا کسی اہلکار کی منتیں کرنے یا غیر معیاری اور مہنگی اشیاء خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔