توقعاتزندگی بوجھل کرتی ہیں
ہم کیسے بے جا توقعات کے بوجھ سے آزاد رہ کر ایک صحت مند طرز زندگی اختیار کر سکتے ہیں۔
توقع کا مطلب ہے کسی چیز یا کام کو اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھالنا، اپنی پسند اور مرضی کے مطابق دیکھنے کی خواہش کرنا ۔ ہم میں سے ہر شخص ایک مختلف فطرت اور مزاج لے کر دنیا میں آیا ہے۔ ایک چیز جو کسی ایک شخص کی انتہائی پسندیدہ ہوتی ہے، دوسرا شخص اپنے مزاج کے تحت اسے بالکل نا پسند کر رہا ہوتا ہے۔
فطرت کا یہ تنوع اور رنگا رنگی دراصل کائنات کا حسن ہے اور اسے تسلیم کرنے میں ہی بھلائی ہے۔ جب ہم ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق دیکھنا اور حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ توقع ہوتی ہے کہ ہمارے ارد گرد کے تمام لوگ اس کوشش میں ہمارا ساتھ دیں، یہ احساس کیے بغیر کہ دوسرے لوگوں کے لیے اس چیز کی وہ اہمیت ہی نہیں ہے تو وہ کیوں ایک غیر اہم کام کے لیے ہمارے ساتھ وقت اور توانائی صرف کریں گے۔
یاد رکھیں ! اس دنیا میں کوئی بھی ہماری توقعات پوری کرنے کے لیے نہیں جی رہا ۔ دوسروں سے توقعات وابستہ کر لینے کا اصل مطلب ہوتا ہے کہ آپ اپنے جذبات پر دوسروں کو اختیار دے رہے ہیں کہ وہ جیسے مرضی چاہیں، آپ کے جذبات میں بدلاؤ لا سکیں ۔ یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ توقع رکھنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہمارے اہل خانہ ، دوست احباب سمیت قریبی رشتہ داروں سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں اور وہ بھی ہم سے جواب میں کچھ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں ۔
مسئلہ اْس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم دوسروں سے غیر حقیقی توقعات رکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق غیر حقیقی توقعات وہ ہوتی ہیں، جب ایک شخص خود کو بہت اہم سمجھنے لگے اور چاہے کہ دوسرے بھی اسے ہر معاملے میں فوقیت دیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ ''میں اس سلوک کا مستحق نہیں تھا''، ''میری مناسب عزت نہیں کی گئی''، ''مجھے میرا حقیقی مقام نہیں دیا گیا ''،''میں چاہتا ہوں ایسا ہو جائے۔''
جب آپ ہر معاملے میں، مجھے اور میں کو اولیت دینا شروع ہو جاتے ہیں تو آپ کی طرف سے غیر حقیقی توقعات کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے، جو انجامِ کار مایوسی پر منتج ہوتا ہے ۔ جتنی آپ غیر حقیقی توقعات رکھیں گے، اتنا ہی آپ کی زندگی بوجھل ہونا شروع ہو جائے گی،کیونکہ ہر توقع بے چینی پیدا کرتی ہے اور آخر کار مایوسی میں بدل کر آپ کی زندگی کے سفر کو مشکل بنا دیتی ہے ۔ اگر ایک بار آپ مایوسی کے اندھے کنویں میں گر جائیں تو پھر منفی ذہنیت اور زہریلی سوچوں کی دلدل میں نیچے اور نیچے دھنستے چلے جائیں گے اور باہر نکلنے کا راستہ آسانی سے تلاش نہیں کر پائیں گے ۔ اس بات کو پلو سے باندھ لیں کہ دوسرے ہمیشہ غلط نہیں ہوتے، وہ بس ہماری توقعات سے مختلف ہوتے ہیں ۔
امریکا کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق اگر ہم روزمرہ زندگی میں اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کریں تو نہ صرف خود کو بے جا توقعات کے بوجھ سے آزاد رکھ سکتے ہیں، بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں اور باہمی رشتوں کے حوالے سے بھی صحت مند طرزِ زندگی میں قدم رکھ سکتے ہیں ۔
لوگ نہیں بدل سکتے
ہر انسان کو جس فطرت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، جس گھرانے اور جس ماحول میں اس کی پرورش ہوئی ہے، یہی عناصر اس کا زندگی کے حوالے سے طرزِ عمل طے کرتے ہیں ۔ ہر انسان اپنی فطرت اور ماحول کے مطابق زندگی گزارنے میں سہولت محسوس کرتا ہے، ایسے میں اگر آپ یہ توقع رکھیں کہ کوئی اپنے مزاج کے خلاف جا کر آپ کو خوش کرنے کے لیے کچھ کرے گا تو یہ غلط ہے ۔ لوگ خود میں تبدیلی اس وقت لاتے ہیں اور لا سکتے ہیں، جب وہ خود چاہتے ہیں ۔ دوسروں کی خواہش پر کوئی تبدیل نہیں ہوتا ۔ اس لیے دوسروں کو بدلنے کی خواہش کرنے کی بجائے اپنی سوچ کو بدلیں اور لوگوں کو ان کے مزاج اور طبیعت کے مطابق قبول کرنے اور گزارا کرنے کی کوشش کریں ۔
ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں نہ رہیں
اگر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے اہل خانہ اور دوست احباب آپ کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں گے تو اپنی خوش فہمی کے پیمانے کو ذرا نیچے لے کر آئیں ۔ آپ کے گھر والوں اور دوستوں کی بھی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ اگر آپ کو کبھی ان کی ضرورت پڑے تو ان سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ اپنی طرف بھاگنے کی امید مت رکھیں ، زندگی میں کچھ میدان اور کچھ مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں آپ کو تنہا کھڑے ہونا ہوتا ہے، ضروری نہیں ہر وقت آپ کا ہاتھ تھامنے کو کوئی نہ کوئی موجود ہو ۔ اگر کوئی موجود ہو تو شکر کریں اور اس کی قدر کریں اور کوئی بھی ساتھ دینے کو نہ ہو تو گلہ مت کریں، بلکہ اس صورتحال سے سبق سیکھنے اور خود پر بھروسہ کرنے کی کوشش کریں ۔
ہر ایک سے پسندیدگی کی توقع چھوڑ دیں
دنیا رنگ برنگ لوگوں سے عبارت ہے اور ہر ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ سب لوگ آپ کو پسند کریں اور ٹھیک سمجھیں... بچگانہ رویہ ہے۔ ہر ایک سے پسندیدگی کی توقع کرنا آپ کو احساسِ کمتری کا شکار کر سکتا ہے۔ خود کو سمجھائیے کہ جیسے آپ کو کچھ لوگ، بعض عادات و اطوار کی وجہ سے ناپسند ہیں، بالکل اسی طرح دوسرے لوگ بھی آپ کو ناپسند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دوسروں کو خوش رکھنے اور ہر ایک کی نظروں میں پسندیدہ بننے کے لئے کوشش کرنا بذاتِ خود ایک جنگ ہے، جو آپ کی شخصیت کو توڑ پھوڑ سکتی ہے، اس لیے خود کو بہتر انسان بنانے پر توجہ مرکوز کریں نہ کہ دوسروں سے پسندیدگی کی سند لینے پر۔
اپنی توقعات کا بوجھ دوسروں پر مت لادیں
یاد رکھیے ہر انسان صرف اپنے خیالات اور جذبات کا ذمہ دار ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک ہی صورت حال میں دو مختلف انسانوں کا رد عمل مکمل مختلف ہوتا ہے۔ ایک شخص کسی صورت حال میں تکلیف محسوس کر رہا ہوگا تو دوسرا اسی صورت حال پر شکر گزاری محسوس کر سکتا ہے ۔ اس لیے دوسروں سے یہ توقع مت رکھیں کہ وہ آپ کی تکلیف میں تکلیف محسوس کریں اور آپ کی خوشی میں خوش ہوں۔ لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق ردعمل دینے کا حق دیں۔ اس طرح نہ آپ دوسروں سے غیر ضروری امید رکھ کر تکلیف محسوس کریں گے اور نہ دوسرے مجبوراً آپ کی مرضی کا ردعمل دینے کی اذیت سے گزریں گے ۔
ہر رشتہ مختلف ہوتا ہے
جس طرح ہر انسان دوسرے سے الگ ہے، اسی طرح ہر ایک کے رشتے بھی الگ ہیں۔ اپنے رشتوں کا نہ تو دوسروں کے ساتھ موازنہ کریں اور نہ ان سے دوسروں جیسی توقعات وابستہ کریں ۔ نیدو کیوبین جو ایک حوصلہ افزا مقرر ہیں، ان کا کہنا ہے '' فاتح اپنی کامیابیوں کا موازنہ اپنے مقاصد سے کرتے ہیں، جبکہ ہارنے والے اپنی کامیابیوں کا موازنہ دوسرے لوگوں سے کرتے ہیں۔''
دوسروں سے توقعات وہ لوگ رکھتے ہیں جو خود پر یقین نہیں رکھتے اور ہر وقت بیرونی امداد اور سہارے کے منتظر ہوتے ہیں۔ دوسروں سے سہارا ملنے کی امید رکھنے کی بجائے خود آگے بڑھ کر کسی کا سہارا بن جائیں، یہ امر آپ کے باہمی رشتوں کو زیادہ مضبوط اور خوبصورت بنا سکتا ہے۔ توقعات رکھیں، لیکن اتنی ہی جتنا رشتے ان کا بوجھ سہار سکیں۔
غیر صحت مند طرزِ عمل چھوڑ دیں
زندگی میں کسی چیز کا کوئی معنی نہیں ہے، جب تک کہ آپ اسے معنی نہ دیں۔ کسی بھی چیز یا عمل کو منفی، مثبت، درست یا غلط قرار دینا آپ کے بس میں ہے۔ کسی چیز کے بارے میں آپ جو طے کرتے ہیں، آپ کا ذہن اسی کے مطابق عمل کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ خود کو ذہنی طور پر مضبوط کریں اور یقین دلائیں کہ مجھے ہر وقت دوسروں کی ضرورت نہیں ہے، مجھے انہیں ان کی مرضی کے مطابق قبول کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ہر وقت دوسروں کی توجہ اور محبت میرے لیے نہیں ہو سکتی۔ ہر شخص کی اولین ترجیح اس کی اپنی ذات ہوتی ہے اور مجھے اپنے اردگرد کے لوگوں کی ترجیحات کا احترام کرنا چاہئے۔
خود کو حقیقی توقع والے رشتے کی جانب لے کر آئیں اور یہ رشتہ صرف خالق اور مخلوق کا ہے ۔ لوگوں سے توقعات رکھنے کی بجائے اس ایک ذات سے توقع ہونی چاہیے کہ تمام مخلوق جس کی محتاج ہے۔ اپنی نیت درست رکھیں اور بدلے اور اچھائی کی امید اپنے جیسی مخلوق کی بجائے اس واحد ذات سے رکھیں جو آپ کو اور تمام مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے۔ مستقبل کے بارے میں اچھی توقع رکھنا اور پرامید رہنا مومن کی خاص صفت ہے، جس سے انسان کے اندر خوشی و مسرت کا احساس موجزن رہتا ہے اور وہ اپنے مستقبل کو منفی نگاہ سے نہیں، بلکہ مثبت زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور مایوس ہونے کی بجائے پرامید رہتا ہے۔ انسان مایوس اور ناامید تب ہوتا ہے، جب وہ اپنے جیسے انسانوں سے توقعات وابستہ کر لیتا ہے، اس لیے خود کو اس قید سے آزاد کرانے کے بارے میں سوچیں۔
لوگوں سے توقعات رکھنا چھوڑ کر چیزوں کو جہاں اور جیسے کی بنیاد پر قبول کرنا شروع کر دیں ۔ اس سے نہ صرف آپ کا دل و دماغ پرسکون رہے گا ، بلکہ آپ کی جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ بے جا اور بے مقصد توقعات کا سفر آپ کو تھکاتا ہے، جب کہ قبولیت کا عمل آپ کی اندرونی شکست و ریخت میں پھول کھلاتا ہے اور آپ کو ایک مثبت اور بہتر انسان بننے میں مدد دیتا ہے ۔
فطرت کا یہ تنوع اور رنگا رنگی دراصل کائنات کا حسن ہے اور اسے تسلیم کرنے میں ہی بھلائی ہے۔ جب ہم ہر چیز اپنی مرضی کے مطابق دیکھنا اور حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ توقع ہوتی ہے کہ ہمارے ارد گرد کے تمام لوگ اس کوشش میں ہمارا ساتھ دیں، یہ احساس کیے بغیر کہ دوسرے لوگوں کے لیے اس چیز کی وہ اہمیت ہی نہیں ہے تو وہ کیوں ایک غیر اہم کام کے لیے ہمارے ساتھ وقت اور توانائی صرف کریں گے۔
یاد رکھیں ! اس دنیا میں کوئی بھی ہماری توقعات پوری کرنے کے لیے نہیں جی رہا ۔ دوسروں سے توقعات وابستہ کر لینے کا اصل مطلب ہوتا ہے کہ آپ اپنے جذبات پر دوسروں کو اختیار دے رہے ہیں کہ وہ جیسے مرضی چاہیں، آپ کے جذبات میں بدلاؤ لا سکیں ۔ یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ توقع رکھنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہمارے اہل خانہ ، دوست احباب سمیت قریبی رشتہ داروں سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں اور وہ بھی ہم سے جواب میں کچھ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں ۔
مسئلہ اْس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم دوسروں سے غیر حقیقی توقعات رکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق غیر حقیقی توقعات وہ ہوتی ہیں، جب ایک شخص خود کو بہت اہم سمجھنے لگے اور چاہے کہ دوسرے بھی اسے ہر معاملے میں فوقیت دیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ ''میں اس سلوک کا مستحق نہیں تھا''، ''میری مناسب عزت نہیں کی گئی''، ''مجھے میرا حقیقی مقام نہیں دیا گیا ''،''میں چاہتا ہوں ایسا ہو جائے۔''
جب آپ ہر معاملے میں، مجھے اور میں کو اولیت دینا شروع ہو جاتے ہیں تو آپ کی طرف سے غیر حقیقی توقعات کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے، جو انجامِ کار مایوسی پر منتج ہوتا ہے ۔ جتنی آپ غیر حقیقی توقعات رکھیں گے، اتنا ہی آپ کی زندگی بوجھل ہونا شروع ہو جائے گی،کیونکہ ہر توقع بے چینی پیدا کرتی ہے اور آخر کار مایوسی میں بدل کر آپ کی زندگی کے سفر کو مشکل بنا دیتی ہے ۔ اگر ایک بار آپ مایوسی کے اندھے کنویں میں گر جائیں تو پھر منفی ذہنیت اور زہریلی سوچوں کی دلدل میں نیچے اور نیچے دھنستے چلے جائیں گے اور باہر نکلنے کا راستہ آسانی سے تلاش نہیں کر پائیں گے ۔ اس بات کو پلو سے باندھ لیں کہ دوسرے ہمیشہ غلط نہیں ہوتے، وہ بس ہماری توقعات سے مختلف ہوتے ہیں ۔
امریکا کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق اگر ہم روزمرہ زندگی میں اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کریں تو نہ صرف خود کو بے جا توقعات کے بوجھ سے آزاد رکھ سکتے ہیں، بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں اور باہمی رشتوں کے حوالے سے بھی صحت مند طرزِ زندگی میں قدم رکھ سکتے ہیں ۔
لوگ نہیں بدل سکتے
ہر انسان کو جس فطرت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، جس گھرانے اور جس ماحول میں اس کی پرورش ہوئی ہے، یہی عناصر اس کا زندگی کے حوالے سے طرزِ عمل طے کرتے ہیں ۔ ہر انسان اپنی فطرت اور ماحول کے مطابق زندگی گزارنے میں سہولت محسوس کرتا ہے، ایسے میں اگر آپ یہ توقع رکھیں کہ کوئی اپنے مزاج کے خلاف جا کر آپ کو خوش کرنے کے لیے کچھ کرے گا تو یہ غلط ہے ۔ لوگ خود میں تبدیلی اس وقت لاتے ہیں اور لا سکتے ہیں، جب وہ خود چاہتے ہیں ۔ دوسروں کی خواہش پر کوئی تبدیل نہیں ہوتا ۔ اس لیے دوسروں کو بدلنے کی خواہش کرنے کی بجائے اپنی سوچ کو بدلیں اور لوگوں کو ان کے مزاج اور طبیعت کے مطابق قبول کرنے اور گزارا کرنے کی کوشش کریں ۔
ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں نہ رہیں
اگر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے اہل خانہ اور دوست احباب آپ کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں گے تو اپنی خوش فہمی کے پیمانے کو ذرا نیچے لے کر آئیں ۔ آپ کے گھر والوں اور دوستوں کی بھی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ اگر آپ کو کبھی ان کی ضرورت پڑے تو ان سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ اپنی طرف بھاگنے کی امید مت رکھیں ، زندگی میں کچھ میدان اور کچھ مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں آپ کو تنہا کھڑے ہونا ہوتا ہے، ضروری نہیں ہر وقت آپ کا ہاتھ تھامنے کو کوئی نہ کوئی موجود ہو ۔ اگر کوئی موجود ہو تو شکر کریں اور اس کی قدر کریں اور کوئی بھی ساتھ دینے کو نہ ہو تو گلہ مت کریں، بلکہ اس صورتحال سے سبق سیکھنے اور خود پر بھروسہ کرنے کی کوشش کریں ۔
ہر ایک سے پسندیدگی کی توقع چھوڑ دیں
دنیا رنگ برنگ لوگوں سے عبارت ہے اور ہر ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ سب لوگ آپ کو پسند کریں اور ٹھیک سمجھیں... بچگانہ رویہ ہے۔ ہر ایک سے پسندیدگی کی توقع کرنا آپ کو احساسِ کمتری کا شکار کر سکتا ہے۔ خود کو سمجھائیے کہ جیسے آپ کو کچھ لوگ، بعض عادات و اطوار کی وجہ سے ناپسند ہیں، بالکل اسی طرح دوسرے لوگ بھی آپ کو ناپسند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دوسروں کو خوش رکھنے اور ہر ایک کی نظروں میں پسندیدہ بننے کے لئے کوشش کرنا بذاتِ خود ایک جنگ ہے، جو آپ کی شخصیت کو توڑ پھوڑ سکتی ہے، اس لیے خود کو بہتر انسان بنانے پر توجہ مرکوز کریں نہ کہ دوسروں سے پسندیدگی کی سند لینے پر۔
اپنی توقعات کا بوجھ دوسروں پر مت لادیں
یاد رکھیے ہر انسان صرف اپنے خیالات اور جذبات کا ذمہ دار ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک ہی صورت حال میں دو مختلف انسانوں کا رد عمل مکمل مختلف ہوتا ہے۔ ایک شخص کسی صورت حال میں تکلیف محسوس کر رہا ہوگا تو دوسرا اسی صورت حال پر شکر گزاری محسوس کر سکتا ہے ۔ اس لیے دوسروں سے یہ توقع مت رکھیں کہ وہ آپ کی تکلیف میں تکلیف محسوس کریں اور آپ کی خوشی میں خوش ہوں۔ لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق ردعمل دینے کا حق دیں۔ اس طرح نہ آپ دوسروں سے غیر ضروری امید رکھ کر تکلیف محسوس کریں گے اور نہ دوسرے مجبوراً آپ کی مرضی کا ردعمل دینے کی اذیت سے گزریں گے ۔
ہر رشتہ مختلف ہوتا ہے
جس طرح ہر انسان دوسرے سے الگ ہے، اسی طرح ہر ایک کے رشتے بھی الگ ہیں۔ اپنے رشتوں کا نہ تو دوسروں کے ساتھ موازنہ کریں اور نہ ان سے دوسروں جیسی توقعات وابستہ کریں ۔ نیدو کیوبین جو ایک حوصلہ افزا مقرر ہیں، ان کا کہنا ہے '' فاتح اپنی کامیابیوں کا موازنہ اپنے مقاصد سے کرتے ہیں، جبکہ ہارنے والے اپنی کامیابیوں کا موازنہ دوسرے لوگوں سے کرتے ہیں۔''
دوسروں سے توقعات وہ لوگ رکھتے ہیں جو خود پر یقین نہیں رکھتے اور ہر وقت بیرونی امداد اور سہارے کے منتظر ہوتے ہیں۔ دوسروں سے سہارا ملنے کی امید رکھنے کی بجائے خود آگے بڑھ کر کسی کا سہارا بن جائیں، یہ امر آپ کے باہمی رشتوں کو زیادہ مضبوط اور خوبصورت بنا سکتا ہے۔ توقعات رکھیں، لیکن اتنی ہی جتنا رشتے ان کا بوجھ سہار سکیں۔
غیر صحت مند طرزِ عمل چھوڑ دیں
زندگی میں کسی چیز کا کوئی معنی نہیں ہے، جب تک کہ آپ اسے معنی نہ دیں۔ کسی بھی چیز یا عمل کو منفی، مثبت، درست یا غلط قرار دینا آپ کے بس میں ہے۔ کسی چیز کے بارے میں آپ جو طے کرتے ہیں، آپ کا ذہن اسی کے مطابق عمل کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ خود کو ذہنی طور پر مضبوط کریں اور یقین دلائیں کہ مجھے ہر وقت دوسروں کی ضرورت نہیں ہے، مجھے انہیں ان کی مرضی کے مطابق قبول کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ہر وقت دوسروں کی توجہ اور محبت میرے لیے نہیں ہو سکتی۔ ہر شخص کی اولین ترجیح اس کی اپنی ذات ہوتی ہے اور مجھے اپنے اردگرد کے لوگوں کی ترجیحات کا احترام کرنا چاہئے۔
خود کو حقیقی توقع والے رشتے کی جانب لے کر آئیں اور یہ رشتہ صرف خالق اور مخلوق کا ہے ۔ لوگوں سے توقعات رکھنے کی بجائے اس ایک ذات سے توقع ہونی چاہیے کہ تمام مخلوق جس کی محتاج ہے۔ اپنی نیت درست رکھیں اور بدلے اور اچھائی کی امید اپنے جیسی مخلوق کی بجائے اس واحد ذات سے رکھیں جو آپ کو اور تمام مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے۔ مستقبل کے بارے میں اچھی توقع رکھنا اور پرامید رہنا مومن کی خاص صفت ہے، جس سے انسان کے اندر خوشی و مسرت کا احساس موجزن رہتا ہے اور وہ اپنے مستقبل کو منفی نگاہ سے نہیں، بلکہ مثبت زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے اور مایوس ہونے کی بجائے پرامید رہتا ہے۔ انسان مایوس اور ناامید تب ہوتا ہے، جب وہ اپنے جیسے انسانوں سے توقعات وابستہ کر لیتا ہے، اس لیے خود کو اس قید سے آزاد کرانے کے بارے میں سوچیں۔
لوگوں سے توقعات رکھنا چھوڑ کر چیزوں کو جہاں اور جیسے کی بنیاد پر قبول کرنا شروع کر دیں ۔ اس سے نہ صرف آپ کا دل و دماغ پرسکون رہے گا ، بلکہ آپ کی جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ بے جا اور بے مقصد توقعات کا سفر آپ کو تھکاتا ہے، جب کہ قبولیت کا عمل آپ کی اندرونی شکست و ریخت میں پھول کھلاتا ہے اور آپ کو ایک مثبت اور بہتر انسان بننے میں مدد دیتا ہے ۔