ملک کے سب سے بڑے صوبے کی آبادی 27 سال بعد کتنی ہوگی
پنجاب کی موجودہ آبادی 2.13 فیصد کے تناسب سے آگے بڑھ رہی ہے، ماہرین
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگرملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی آبادی موجودہ شرح سے بڑھتی رہی تو 2046 میں یہ دو گنا ہو جائے گی جس سے بے روزگاری میں مزید اضافے، رہائشی سہولیات کے فقدان سمیت خوراک کی قلت اورتعلیم و صحت جیسے مسائل بھی گھمبیر ہو جائیں گے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی موجودہ آبادی گیارہ کروڑ ہے اور یہاں آبادی 2.13 فیصد کے تناسب سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کی آبادی 1951 میں 2 کروڑ تھی جوسال 2017 کی مردم شماری کے مطابق 11 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ سال 1998 سے 2017 کے دوران پنجاب کی آبادی میں 49 فیصداضافہ ہوا ہے،ماہرین کے مطابق اگرآبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2046 میں صرف پنجاب کی آبادی پاکستان کی موجودہ آبادی کے برابر ہوجائے گی۔
آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ پاپولیشن ویلفیئرپنجاب کے ایڈوائزر ڈاکٹرشعیب احمد کہتے ہیں پنجاب کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 53 فیصد ہے، قیام پاکستان سے لیکرابتک پنجاب کی آبادی 5 گنابڑھ چکی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس ہسپتالوں میں سہولیات کافقدان ہے،سکولوں کی کمی ہے اگرہم آج سے ہی روزانہ 6 سکول بناناشروع کریں تو آئندہ 27 سال تک بھی ہم مجموعی ہدف پورانہیں کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹرشعیب احمد نے کہا آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ مانع حمل سے متعلق آگاہی کافقدان ہے، خاص طور پر نوجوانوں کو اس بارے آگاہی نہیں دی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علمائے کرام خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔ ایران، ملائشیا، انڈونیشیا اوربنگلہ دیش میں حکومتوں نے علماکرام کی مدد سے خاندانی منصوبہ بندی پراہم خدمات لی ہیں۔ پنجاب حکومت نے صوبے کے 10 اضلاع میں مختلف مکتبہ فکرکے 200 علما کرام کی خدمات لی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی بارے قرآن وحدیث کے مطابق بیانات دے رہے ہیں ان علماکرام کو محکمہ بہبودآبادی کی طرف سے ماہانہ 5 ہزارروپے معاوضہ دیا جاتا ہے.
صحت اور آبادی کے مسائل پر تحقیق اور حکومت کو ان مسائل کے حل کے لیے پالیسی تجویز کرنے والے ادارے پاپولیشن کونسل پاکستان کے مطابق اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو دو ہزار چالیس تک بارہ کروڑ مزید نوکریوں کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو پہلے ہی مکانات کی کمی کا سامنا ہے ایسے میں شہریوں کے لیے رہائشی ضروریات پوری کرنا بھی بڑا چیلنج ہو گا۔
اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے ہر تیسرا بچہ اسکول سے باہر ہے۔ آبادی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات میں کمی عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہر سال بارہ ہزار خواتین حمل و زچگی کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک خاتون سے پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط شرح 3.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ مانع حمل کے طریقوں سے آگاہی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں ہر شادی شدہ جوڑا غیر ارادی طور پر ایک بچہ پیدا کرتا ہے جبکہ 17.3 فیصد جوڑے خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس پر عمل نہیں کر پاتے ہیں۔
پنجاب کے محکمہ بہبودآبادی کے ایڈیشنل سیکرٹری ٹیکنیکل شاہد نصرت کہتے ہیں پنجاب میں آبادی میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں۔ پنجاب میں 30 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 16 سے 22 سال کی عمر میں کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے بچے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیٹے کی خواہش بھی بچوں کی تعداد میں اجافے کا سبب بن رہی ہے، لوگ آج بھی بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں، اس سوچ کوبدلنے کی ضرورت ہے۔ مانع حمل کے بارے میں آگاہی کی کمی ، مانع حمل حمل کے ضمنی اثرات کے بارے میں غلط فہمیاں اور مانع حمل حمل کی مذہبی قبولیت کے بارے میں ابہام بھی غیر ضروری حمل کی بڑی وجوہات ہیں اور آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
شاہد نصرت نے بتایا کہ پاپولیشن ویلفیئرڈیپارٹمنٹ پنجاب اہل جوڑے کو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مانع حمل کے حوالے سے مستقل اور عارضی دونوں طریقے فراہم کررہا ہے۔مانع حمل بارے جوغلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان بارے آگاہی پیداکی جارہی ہے، انہوں نے مزیدکہا کہ آبادی میں اضافہ بنیادی ڈھانچے،صحت، تعلیم اورخوراک کی موجودہ سہولیات پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ پنجاب کی اکثریت آبادی 30 سال سے کم عمر ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ان سب کو ترقی اور خوشحالی کے لئے معیاری تعلیم اور روزگار کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی موجودہ آبادی گیارہ کروڑ ہے اور یہاں آبادی 2.13 فیصد کے تناسب سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کی آبادی 1951 میں 2 کروڑ تھی جوسال 2017 کی مردم شماری کے مطابق 11 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ سال 1998 سے 2017 کے دوران پنجاب کی آبادی میں 49 فیصداضافہ ہوا ہے،ماہرین کے مطابق اگرآبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2046 میں صرف پنجاب کی آبادی پاکستان کی موجودہ آبادی کے برابر ہوجائے گی۔
آبادی میں تیزی سے اضافے کا مطلب خوراک، تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر جیسی ضروریات میں مسلسل اضافہ ہے، جس کی وجہ سے وسائل اور ضروریات کے درمیان عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ پاپولیشن ویلفیئرپنجاب کے ایڈوائزر ڈاکٹرشعیب احمد کہتے ہیں پنجاب کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 53 فیصد ہے، قیام پاکستان سے لیکرابتک پنجاب کی آبادی 5 گنابڑھ چکی ہے۔ جس کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس ہسپتالوں میں سہولیات کافقدان ہے،سکولوں کی کمی ہے اگرہم آج سے ہی روزانہ 6 سکول بناناشروع کریں تو آئندہ 27 سال تک بھی ہم مجموعی ہدف پورانہیں کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹرشعیب احمد نے کہا آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ مانع حمل سے متعلق آگاہی کافقدان ہے، خاص طور پر نوجوانوں کو اس بارے آگاہی نہیں دی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علمائے کرام خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔ ایران، ملائشیا، انڈونیشیا اوربنگلہ دیش میں حکومتوں نے علماکرام کی مدد سے خاندانی منصوبہ بندی پراہم خدمات لی ہیں۔ پنجاب حکومت نے صوبے کے 10 اضلاع میں مختلف مکتبہ فکرکے 200 علما کرام کی خدمات لی ہیں جو خاندانی منصوبہ بندی بارے قرآن وحدیث کے مطابق بیانات دے رہے ہیں ان علماکرام کو محکمہ بہبودآبادی کی طرف سے ماہانہ 5 ہزارروپے معاوضہ دیا جاتا ہے.
صحت اور آبادی کے مسائل پر تحقیق اور حکومت کو ان مسائل کے حل کے لیے پالیسی تجویز کرنے والے ادارے پاپولیشن کونسل پاکستان کے مطابق اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو دو ہزار چالیس تک بارہ کروڑ مزید نوکریوں کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو پہلے ہی مکانات کی کمی کا سامنا ہے ایسے میں شہریوں کے لیے رہائشی ضروریات پوری کرنا بھی بڑا چیلنج ہو گا۔
اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے ہر تیسرا بچہ اسکول سے باہر ہے۔ آبادی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات میں کمی عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہر سال بارہ ہزار خواتین حمل و زچگی کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک خاتون سے پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط شرح 3.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ مانع حمل کے طریقوں سے آگاہی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں ہر شادی شدہ جوڑا غیر ارادی طور پر ایک بچہ پیدا کرتا ہے جبکہ 17.3 فیصد جوڑے خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس پر عمل نہیں کر پاتے ہیں۔
پنجاب کے محکمہ بہبودآبادی کے ایڈیشنل سیکرٹری ٹیکنیکل شاہد نصرت کہتے ہیں پنجاب میں آبادی میں اضافے کی ایک بنیادی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں۔ پنجاب میں 30 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 16 سے 22 سال کی عمر میں کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے بچے زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیٹے کی خواہش بھی بچوں کی تعداد میں اجافے کا سبب بن رہی ہے، لوگ آج بھی بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں، اس سوچ کوبدلنے کی ضرورت ہے۔ مانع حمل کے بارے میں آگاہی کی کمی ، مانع حمل حمل کے ضمنی اثرات کے بارے میں غلط فہمیاں اور مانع حمل حمل کی مذہبی قبولیت کے بارے میں ابہام بھی غیر ضروری حمل کی بڑی وجوہات ہیں اور آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
شاہد نصرت نے بتایا کہ پاپولیشن ویلفیئرڈیپارٹمنٹ پنجاب اہل جوڑے کو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مانع حمل کے حوالے سے مستقل اور عارضی دونوں طریقے فراہم کررہا ہے۔مانع حمل بارے جوغلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان بارے آگاہی پیداکی جارہی ہے، انہوں نے مزیدکہا کہ آبادی میں اضافہ بنیادی ڈھانچے،صحت، تعلیم اورخوراک کی موجودہ سہولیات پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ پنجاب کی اکثریت آبادی 30 سال سے کم عمر ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ان سب کو ترقی اور خوشحالی کے لئے معیاری تعلیم اور روزگار کی ضرورت ہے۔