کیچ مکران

مکران کاشمارقدیمی تاریخوں میں ہوتاہے، مکران کے دوالفاظ فارسی میں ماسی خوریعنی مچھلی کھانے والے کی جدیدشکل سمجھاجاتاہے۔

کھجور کے درختوں کے ساتھ یہ قلعہ تربت شہر سے 65 کلو میٹر کے فاصلے پر سامی میں واقع ہے،یہ ان قلعوں میں سے ہے جو حکمرانوں نے اپنے ادوار میں تعمیر کروائے تھے۔

آبادی کے لحاظ سے کیچ کوئٹہ کے جنوب مغرب میں 778میل پر واقع ہے مجھے یہاں تک پہنچنے میں تقریباً 12 گھنٹے صرف ہوئے۔ 2017کی مردم شماری کے مطابق نو لاکھ نو ہزار افراد پر مشتمل ہے یہ شہر بلوچی ادب لوک داستانوں میں خاص مقام رکھتا ہے۔ تربت کا پرانا نام کیچ ہے اس کا شمار بلوچستان کے خوبصورت علاقوں میں کیا جاتا ہے۔ شہر کے اندر چوڑی، خوبصورت ایسی صاف ستھری سڑکیں کسی دوسرے صوبے میں نظر نہیں آتیں۔

مکران کا شمار قدیمی تاریخوں میں ہوتا ہے، مکران کے دو الفاظ فارسی میں ماسی خور یعنی مچھلی کھانے والے کی جدید شکل سمجھا جاتا ہے۔ قدیم مورخین اور جغرافیہ نویسوں نے کیچ کے نام سے اس کا ذکر کیا ہے۔ کیچ دوحصوں کو کہا جاتا ہے ، جوکہ کیچ کے دونوں طرف آباد ہے۔ اس علاقے کی تاریخ حضرت داؤدؑ سے ملتی ہے۔ جب یہاں کے لوگوں نے قحط سے بچنے کے لیے خود کو مدفون کرلیا تھا۔

325 قبل از مسیح میں جب سکندر کی فوج کا ایک دستہ دریا کے راستے سے گزرا تو اس وقت اس کو ''ترومشا'' کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جو بانی مورخ آریائی زمین اور مالیاتی اعتبار سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں کی آب و ہوا گرم، مٹی ریتلی گرم اور انسانی آبادی کم۔ 646 میں عبداللہ جیسی سربراہی میں اسلامی فوج نے مکران پر فتح حاصل کرنے کے بعد کئی برسوں تک اس سرزمین پر حکمرانی کی۔

محمد بن قاسم سندھ جاتے ہوئے ادھر سے گزرا تھا، اگرچہ حملہ آوروں نے اس سرزمین کو فتح کیا لیکن حکمران مسلمان رہے جس میں ہوت، رند، ملک، بلیدی اورکچکی شامل تھے۔ دریائے کیچ کے دہانے پر تمام حکمرانوں کی رہائش گاہیں ہوا کرتی تھیں ، روایت کے مطابق اسے ٹیوٹ قلعہ کے سردار نے ہزاروں برس قبل مٹی سے بنایا، اسی وجہ سے اس کو پنو کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔

تقسیم ہند کے بعد 1949میں مکران میں لسبیلہ اور خاران ساتھ ملا دیے، یکم جولائی 1970 میں جب بلوچستان کو صوبے کا درج ملا۔ اس کے بعد مکران کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1994 میں ضلع تربت کا نام تبدیل کرکے اس کا پرانا نام ''کیچ'' رکھ دیا۔ اب تربت مکران ڈویژن کا صدر مقام بھی رہا۔ تربت کے معنی قبر یا قبر کی جگہ کے ہیں۔


روٹ کی وجہ سے اس شہر کو گوادر اور پاکستان کے اہم شہروں سے ملایا گیا ، یہاں کی پسماندگی کو نظر میں رکھ کے ترقیاتی منصوبوں کو شروع کیا گیا۔ جن کی تکمیل سے علاقے میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا، میریانی ڈیم تربت سے 35 اور گوادر سے 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ڈیم تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگے۔ سطح سمندر سے 244 میٹر بلند۔ اس کا شمار بلوچستان کے بڑے ڈیموں میں کیا جاتا ہے۔ 15 کلو میٹر کے اس ڈیم میں 3 لاکھ ایکڑ پانی جمع کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ 33 ہزار ایکڑ زمین آباد ہوگی۔ اس اہم منصوبے پر کام کا آغاز جولائی 2002 میں کیا گیا جو اکتوبر 2006 میں مکمل ہوا اس ڈیم میں 117 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔

اس ڈیم کی تعمیر کے دو مقاصد ہیں۔ گوادر اور تربت شہر میں پانی کی فراہمی اور اس کے قریبی علاقوں میں پانی کی دستیابی زرعی مقاصد کے لیے ڈیم سے چینل نکالے گئے ہیں جن میں رائٹ بینک کینال اور لیفٹ بینک کینال کا نام دیا گیا ہے۔ رائٹ بینک کینال ساڑھے تیرہ میٹر طویل بند ہے جس سے 21 ہزار ایکڑ زمین زیر کاشت آسکتی ہے۔ دشت کے علاقے میں ایک ہزار ایکڑ زمین کو برابر کیا گیا ہے تاکہ اسے قابل کاشت بنایا جاسکے۔ یہاں کے زمیندار پہلی دفعہ نہری پانی سے زمینوں کو سیراب کر رہے ہیں۔

مکران میں تعلیمی شعبہ کے لیے کئی اقدام کیے گئے ہیں جس سے یہاں فلاح و ترقی ہو رہی ہیں۔ تربت یونیورسٹی کی بنیاد مئی 2013 میں رکھی گئی یونیورسٹی آف تربت مکران ڈویژن پہلی اور دوسری جنرل یونیورسٹی کے قیام کا مقصد صوبہ خاص طرز پر مکران ڈویژن کے دور افتادہ پسماندہ علاقوں کے طلبا کو تعلیم کے بہترین مواقع کی فراہمی ہے۔ اکتوبر 2017 کو یونیورسٹی کو دوسری عمارت میں منتقل کردیا گیا۔

اس نئی عمارت میں طلبا کے لیے لکھنے پڑھنے کی تمام سہولیات شامل ہیں ، جس میں اکیڈمک پلانٹ، لیکچر، ویڈیوز، کانفرنس حال، کمپیوٹر لیب، لائبریری، مسجد، ماڈل اسکول۔ اس وقت 144 طلبا زیر تعلیم ہیں جس میں 40 فیصد طالبات ۔ طلبا کی رہائش کے لیے کالج میں چار ہوسٹل ہیں۔ چالیس طلبا رہائش کرسکتے ہیں۔ یونیورسٹی میں 11 شعبے ہیں جن میں 23 پروگرام پڑھائے جا رہے ہیں۔ جن میں بلوچی میں ایم ایس سی اور ایم فل بھی شامل ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی میں تقریباً تین ہزار طلبا اور دو سو ملازمین کے ساتھ معیاری تعلیم کے ساتھ کاروباری صلاحیتوں کو بڑھا رہی ہے۔

سی پیک مرکزی روٹ ایم۔8 پر واقع مکران میڈیکل کالج، مکران ڈویژن کا پہلا میڈیکل کالج ہے۔ انٹرنیشنل آرکٹیکٹ کی مدد سے ڈیزائن کی گئی بلڈنگ پاکستان کے خوبصورت کالج اور آرمی اسکول کی تعمیرکر رہی ہے جوکہ 2021 میں مکمل ہو جائے گا۔ کالج میں چار سو اور اسکول میں ایک ہزار طلبا تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ طلبا کے کھیلوں کے لیے خاصی سہولیات موجود ہیں۔ مسجد ، اسپتال اور دیگر ضروری عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔

یہاں کے لوگ کھجور بہت شوق سے کھاتے اور مہمانوں کو پیش کرتے ہیں۔ لسی کے ساتھ اور لیمو پانی کے ساتھ کھجور بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ کیچ میں ''کوہ مراد '' بہت مشہور ہے۔ یہاں زیادہ تفریح و طبع کے لیے خاص مقامات نہیں ایک سینما ہال ہے جہاں ہر تیسرے روز نئی فلم لگتی ہے۔ لوگ سادہ ، مخلص، ہمدرد ہیں۔ شدید گرمی کی وجہ سے مکانات زیادہ تر مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری دفاتر بھی مٹی کے بنے ہوئے تھے۔
Load Next Story