موبائل فون سیکٹرمیںبے چینی…

کم آمدنی والے ملکوں میں موبائل ٹیلی کام سیکٹرمیں 10فیصدفروغ کے نتیجے میں ان کی جی ڈی پی میں 1.4فیصدترقی ہوتی ہے

موبائل ٹیلی کام سیکٹرنے عالمی معیشت پرمثبت اثرات مرتب کرنے کے علاوہ انفرادی طورپرمختلف ملکوں کی معیشت کے فروغ میں بھی اہم کردارادا کیا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کاموبائل ٹیلی کام سیکٹر پچھلے کچھ عرصہ سے بے یقینی اورتذبذب کی کیفیت کا شکار ہے جس سے صارفین کے ذہنوں میں یہ خدشہ سرابھاررہا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں وہ اپنے ہینڈسیٹس کومحض کیمرہ یاریڈیوکے طور پر استعمال کرسکیں گے، اس خدشے کی معقول وجہ ہے اس لیے کہ پچھلے 2ماہ کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنھوں نے کمیونٹی میں اس طرح کی بحث اورسوچ کوفروغ دیا۔

عالمی ادارے جی ایس ایم ایسوسی ایشن کے مطابق موبائل کمیونی کیشن انڈسٹری نے نیٹ ورک انویسٹمنٹ، ملازمتوں کی فراہمی اورپبلک فنڈنگ کے ذریعے عالمی سطح پر ایک ''مربوط معیشت'' کوجنم دیا ہے۔ موبائل ٹیلی کام سیکٹرنے عالمی معیشت پرمثبت اثرات مرتب کرنے کے علاوہ انفرادی طورپرمختلف ملکوں کی معیشت کے فروغ میں بھی اہم کردارادا کیا ہے۔ ورلڈبینک کے مطابق موبائل ٹیلی کام سیکٹرمیں 10فیصداضافے کے نتیجے میں ترقی یافتہ ملکوں کی جی ڈی پی میں 0.6فیصداورترقی پذیر ملکوں کی جی ڈی پی میں 0.81فیصداضافہ ہوتا ہے.

جبکہ اوسط اورکم آمدنی والے ملکوں میں موبائل ٹیلی کام سیکٹرمیں 10فیصدفروغ کے نتیجے میں ان کی جی ڈی پی میں 1.4فیصدترقی ہوتی ہے۔ 2012سے 2015کے دوران یعنی 4برسوں میں موبائل ٹیلی کام انڈسٹری عالمی پیمانہ پر793ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کرے گی اوراس طرح پبلک فنڈنگ میں اس کا حصہ 2.7ٹریلین ڈالر ہوگا۔ پاکستان کے موبائل ٹیلی کام سیکٹرمیں جب ہم گزشتہ چند ماہ کا جائزہ لیتے ہیں تو سامنے آتا ہے کہ جولائی میں اس وقت ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب نیب نے ٹیکس بچانے کے ایک کیس میں ایف بی آر کے چیف اور 5 موبائل فون آپریٹرزکے نمائندوں کو طلب کیا۔

منظر عام پر آنے والی تفصیلات کے مطابق ایف بی آر کے ایک انٹرنل آڈٹ کے دوران 2007کے بعد سے موبائل فون کمپنیوں سے انٹرکنکشن چارجزپر47 ارب روپے کا سیلز ٹیکس وصول نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔ پھربھی ایف بی آر کے ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار کے مطابق موبائل ٹیلی کمیونی کیشن اس وقت ملک میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والا سیکٹر ہے اور2011-12میں ٹیلی کام سیکٹرنے قومی خزانہ میں 120 ارب روپے کا اضافہ کیا.

یہ رقم اربوں روپے کی اس رقم کے علاوہ ہے جو اس سیکٹر نے فیسوں اور لیویزکی شکل میں وفاقی وصوبائی حکومتوں اور دیگر اتھارٹیز کو ادا کیں، مزیدبرآں پچھلے 10برس کے دوران سیلولر کمپنیوں نے پاکستان میں 9 ارب ڈالرکی براہ راست سرمایہ کاری کی اور ٹیلی کام انڈسٹری میں تقریباً 1.4ملین براہ راست اوربالواسطہ ملازمتیں مہیا کیں، اگست کے شروع میں ایف بی آر کے سابق ممبر(ان لینڈریونیو) شاہد حسین نے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو دوٹوک الفاط میں بتایا کہ موبائل آپریٹرز47 ارب روپے کی ٹیکس چوری کے کسی معاملے میں ملوث نہیں اوریہی موقف قانونی طورپرنیب کے سامنے بھی پیش کیاگیا۔ موبائل فون آپریٹرز کو شدیدجھٹکا اس وقت لگا.

جب اس عیدالفطرپرحکومت کی جانب سے ملک کے چاربڑے شہروں کراچی، لاہور، ملتان اورکوئٹہ میں موبائل فون سروس معطل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، یہ تعطل کم وبیش 10گھنٹے جاری رہا۔ پاکستان میں جہاں اوسط ریونیوفی صارف 2 ڈالرسے کم ہے، اس تعطل کے نتیجے میں آپریٹرز کو 2.6 ارب روپے اورحکومت کوٹیکس کی مد میں 50 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ وزیرداخلہ نے اس سلسلے میں وضاحت کی کہ 4بڑے شہروں میں موبائل فون سروس پرپابندی دہشتگردی کے خدشات کے پیش نظرعائدکی گئی تھی۔


ان کی بات میں وزن ہے۔ شہری علاقوں کے موبائل فون صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمزمثلاً فیس بک اور ٹوئیٹرپراس کارروائی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔وزیرداخلہ نے یہ بیان بھی دیا کہ اگرعید کے موقع پریہ پابندی نہ لگائی جاتی تونہ جانے کتنے دھماکے ہوتے۔ اس کے ساتھ ہی وزیرداخلہ کے اس بیان نے موبائل فون انڈسٹری اوراس کے صارفین میں کھلبلی مچادی کہ دہشت گردی کیخلاف سیکیورٹی تدبیرکے طورپرپری پیڈ موبائل سمیں بند کر دی جائیں گی۔وزیراعلیٰ سندھ نے بھی اس تجویزکی حمایت کی اورکہا کہ حالیہ واقعات کی روشنی میں موبائل فون سروسزپرنظررکھنا ضروری ہوگیا ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں زیر استعمال موبائل فون سمزمیں 80فیصد سے زائدپری پیڈاکائونٹ پرہیں تاہم واضح رہے کہ ان پری پیڈ سموں کوبلاک کرنے کی بات کی جارہی ہے جوغیرتصدیق شدہ یا جھوٹے ڈاکومنٹس پرجاری ہوئی ہیں،ایسی سموں کی تعداد2سے 3ملین ہے جبکہ بعض ذرائع یہ تعداد7سے 8 ملین کے درمیان بتاتے ہیں،بیک جنبش قلم اتنی بڑی تعدادمیں سموں کی تنسیخ صارفین کیلیے خاصی بڑی پریشانی کا باعث بنے گی اورگیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا،ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غیرقانونی سموں کی بندش کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ اس حوالے سے پچھلے کئی برسوں سے کارروائی ہورہی ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے غلط کوائف پرجاری موبائل سموں کوریگوائزکرنے کی غرض سے موبائل فون صارفین کیلیے 789اور668سمیت کئی شارٹ کوڈسروسز شروع کیں اورپی ٹی اے اب تک غیرحقیقی دستاویزات پرجاری ہونے والی 4ملین کے قریب سمیں بلاک بھی کرچکی ہے۔پی ٹی اے کی ان کوششوں سے صارفین کو کچھ سہولت ملی ہوگی لیکن خرابی کی اصل وجہ یعنی سموں کی غیرقانونی فروخت کا سدباب کرنے کیلیے موثر اقدامات کی ہنوز ضرورت ہے۔ 2005سے 2007 کے دوران ملک میں موبائل فون کے صارفین کی تعداد میں ہرماہ لاکھوں کے حساب سے ہوتا رہا لیکن سموں کی فروخت کے میکنزم میں کسی چیک اوربیلنس کا وجود نہیں تھا۔

موبائل فون کی سمیں چائے خانوں، پرچوں، فوٹو اسٹیٹ اورپان سگریٹ کی دکانوں، خوانچہ والوں اورچھپرہوٹلوں میں باآسانی دستیاب تھیں۔ آج کل وہ صورت حال تو نہیں ہے لیکن بجائے اس کے کہ موبائل فون کے لاکھوں کنکشن ایک حکم کے ذریعے بند کر دیے جائیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ موبائل فون آپریٹرزکے منظورشدہ فرنچائزکے ذریعے ہی سموں کی فروخت کے ایک قابل عمل اورمنظم طریقہ کار کے نفاذ اوراس پرسختی سے عملدرآمد کویقینی بنایاجائے۔ ایک ایسا سیکٹر جس کے ریونیو365 ارب روپے کی حد کوچھورہے ہوں جس نے 2011کے مالی سال میں قومی خزانہ میں 117 ارب روپے جمع کیے ہوں اورجس کے صارفین کی تعداد 11 کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہو،اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے یقیناً بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوگا۔

ایسے لمحات میں جب صارفین ملک میں 3G سروسز کے باضابطہ آغازکے بے چینی سے منتظرہوں اوراسپیکٹرم فیس اور مزید سرمایہ کاری سے اربوں روپے کی آمدنی کے پیش نظرحکومت بھی اس میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہو، حال ہی میں رونما ہونے والے واقعات موبائل سیکٹرکویہ احساس دلانے کیلیے کافی ہیں کہ وہ ''خطرے کے زون'' میں ہے۔ پاکستان میں کام کرنیوالے تمام موبائل فون آپریٹرزملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو براہ راست اپنے فارن انویسٹرز یااپنی سرپرست کمپنیوں کے زیرکنٹرول کام کر رہی ہیں۔

پاکستان میں موبائل سروسزکی مزیدترقی اور استحکام کی خاطران آپریٹرزکی سرمایہ کاری اورمفادات کے تحفظ کیلیے سنجیدہ اقدامات بہت ضروری ہیں، جلدبازی میں وقتی اورغیرموثراقدامات کے بجائے واضح، شفاف اور مستقبل نوعیت کے دیرپاطریقہ کار اور ضابطے وضع کیے جانے چاہئیں تاکہ عوام الناس میں خدشات بڑھنے کے بجائے یہ یقین پیدا ہوسکے کہ ان کے موبائل فون پرنیٹ ورک سگنل آتے رہیںگے۔
Load Next Story