دیو مالائی اداکار دلیپ کمار
فلم ’داغ میں انھوں نے بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا۔
ایک صدی پر محیط برصغیر کی فلم انڈسٹری کے دیو مالائی اداکار دلیپ کمار اٹھانوے سال کی عمر میں اس زندگی سے جدا ہوئے۔ اس دنیا میں بے پناہ شہرت پائی، عزت پائی، اداکاری کے ریکارڈ توڑے اور زندگی بھی طویل پائی۔ بڑے پردے کے اعتبار سے دلیپ کمار کا نام اس دنیا سے جانے والوں میں سب سے بڑا ہے،وہ پشاور میں ہندکو پنجابی بولنے والے اعوان خاندان میں پیدا ہوئے، والد فروٹ کا کاروبار کرتے تھے ۔ بارہ بہن بھائی تھے، قصہ خوانی بازار کے اس پڑوس میں پیدا ہوئے جہاں ہندوستان کے دوسرے بڑے اداکار راج کمار بھی پیدا ہوئے تھے ۔
دلیپ غالبا 1940 میں ممبئی گئے ۔ ان کی پہلی فلم 1944 ''جوار بھاٹا'' کے نام سے ریلیز ہوئی جو فلمی دنیا میں زیادہ پذیرائی نہ پاسکی ۔ 1950 کی دہائی میں دلیپ کمار ابھر کر سامنے آئے ، وہ حساس کردار کیا کرتے تھے جو دل کو چھو جاتے تھے، ان کی فلم دیکھنے کے بعد مہینوں تک اس کا اثر رہتا تھا۔ وہ اداکاری میںکردار کی روح تک جاتے تھے۔ یوں پھر وہ ڈپریشن کے شدید شکار ہوئے۔ ڈاکٹروں نے انھیں ہلکے پھلکے کردارلینے کی تلقین کی ۔ جوگن' ہلچل' ،دیدار،داغ،آنند،دیوار۔
فلم 'داغ میں انھوں نے بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ ماں کا آوارہ بیٹا ، شراب میں غلطاں بیٹا، دنیا سے روٹھا ہوا بیٹا ، محبت میں ناکام اور پھر ماں بھی چل بسی۔ اب بھی مجھے اس فلم کا وہ گانا یاد ہے ''اے میرے دل کہیں اور چل غم کی دنیا سے دل بھر گیا، ڈھونڈلے اب کوئی گھر نیا''یہ ان کی پہلی فلم تھی جس پر ان کو فن فیئر ایوارڈ ملا ، اس کے بعد دلیپ کمار ایوارڈز کے محتاج نہ رہے، پھر اتنے ایوارڈ ملے کہ فلمی دنیا میں شاید ہی کسی کو ملے ہوں۔ دلیپ صاحب کو پاکستان میں نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
''داغ''فلم نے میرے دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ احساسات کا عکس، روانی، ڈائیلاگ کی ڈلیوری ، چہرے پر گہرائی، آنکھوں میں کردار کی جنبش، یہ تھے دلیپ کمار۔ پھر پچاس کی دہائی کے بعد ساٹھ کی دہائی بھی ٹھیک تھی ۔ مگرستر کی دہائی کے پانچ سال وہ فلمی دنیا سے غائب رہے۔ ''مغل اعظم'' میری نظر میں ان کی شاہکار فلم ہے ۔ اس میں شہزادہ سلیم کا کردار دلیپ کمار نے نبھایا اور انار کلی کا کردار مدھوبالا نے ۔ اکبر بادشاہ یعنی ان کے والد کا کردار پرتھوی راج نے۔ مغلِ اعظم ہندوستانی تاریخ کی مہنگی ترین فلم تھی۔ 2004 میں اس فلم کو دوبارہ جدید انداز پیش کیا گیا۔
میرا فلمی شعور 1980کی دہائی کا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب دلیپ کمار نئے انداز میں کیریکٹر رول کیا کرتے تھے ۔ اب ان کی ہیروئنز و جنتی مالا، مدھو بالا، نرگس ان کے ساتھ نہ تھیں۔ اس دہائی میں دلیپ کمار ہیرو نہ تھے،وہ انیل کپور اور جیکی شروف جیسے نوجوان اداکاروں کے ساتھ اپنے کردار نبھا رہے تھے۔
ان فلموں میںان کے کردار گاڈ فادر ٹائپ تھے ۔ ''کرانتی'' فلم انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے متوالوں کے پس منظر میں بنی ہوئی فلم تھی۔ پھر شکتی ،مشعل،کرم اور 'سوداگر' جیسی فلمز میں بھی انھوں نے اپنے کردارخوب منوائے۔
اپنی زندگی کے آخری دس سال انھوں نے شدید بیماری میں گذارے، حافظہ کام چھوڑ گیا۔ ان کی اہلیہ سائرہ بانو ہر پل ، ہر سمے سائے کی طرح ان کے ساتھ رہیں۔ سائرہ بانو کی زندگی کے محور تھے یوسف ،جن کو دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی تھی۔ سائرہ بانو بائیس سال کی تھیں اور دلیپ 44 سال کے، 1966 میں یہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔انھوں نے دوسری شادی ستر کی دہائی میں کی مگر وہ دو سال بھی نہ چل سکی۔ ان کی اولاد نہ تھی اور نہ انھوں نے کبھی اس بات کا گلہ کیا۔
دلیپ کمار کا دنیا سے رخصت ہونا تو دستور ہے، دکھ کی بات تو نہیں ، ہاں مگر ایک پس منظر ، غبار خاطر کے باب کی طرح ورق در ورق مجموعہ ہے جو کھل کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ اکثر پاکستان آتے رہتے تھے ۔ میڈم نور جہاں سے ان کو خاص انسیت تھی۔ عمران خان کے اسپتال کی فنڈ ریزنگ میں بھی دلیپ کمار صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔
باچا خان سے ملے تو کے پاؤں چھو کر ملے۔ امن کے سفیر تھے۔ وہ ہندوستان میںہی پیدا ہوئے ،کیونکہ 1922 میں پشاور پاکستان کا شہر نہیں بلکہ برِصغیر کا حصہ تھا۔ان کا انتقال بھی ہندوستان میں ہوا۔وہ ہندوستان جو اب بدل چکا ہے،اب وہ نہیں رہا جو گاندھی ، نہرو یا پھر اندرا گاندھی کے دور تک تھا۔ اب خزاں کے موسم ہیں، زرد پتوں کا بن ہے ہندوستان اور ہمارے تعلقات۔ اس درد کے موسم میں دلیپ کمار دنیا سے رخصت ہوئے۔
ہمیں یاد آگئے وہ سارے قصے ، کہانیاں سینما کے نام سے فلموں اور گانوں کے پس منظر میں ''ہاتھوں کی چند لکیروں کا یہ کھیل ہے، سب تقدیروں کا '' پھر اس گانے میں ششی کپور کو جواب دیتے ہوئے دلیپ کمار اپنے کردار کا عکس بن کر کہتے ہیں ''تقدیر ہے کیا، میں کیا جانوں، میں عاشق ہوں تدبیروں کا''
میرے نوابشاہ کے گھر کے گلی کے نکڑ پہ ریگل سینما ہوا کرتا تھا۔ ایک بازارسا تھا، امان بھائی کا ہوٹل تھا۔ ٹھیلے والے کھڑے رہتے تھے۔ رات کو فلم کی آواز ہمارے آنگن تک سنائی دیتی تھی اور آخری شو سے واپس لوٹنے والے ہلا گلا کرتے گلی سے گذرتے تھے۔ ہمارے گھر کا ایک چھوٹا سا پچھلے کمرے کا دروازہ اس گلی میں کھلتا تھا جہاں سینما تھا۔ اماں نے میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی، وہ دروازہ ختم کر کے اس پر اینٹیں چڑھوا دیں ۔ مجھے یاد ہے بڑی آپا کے ساتھ میں فلم دیکھنے جاتا تھا ، شاید ان کی گود میں میں بیٹھ کے فلم دیکھتا تھا۔ آپا رونے لگ جاتی تھیں فلم میں جب سین جذباتی ہو جاتے تھے اور پھر آپا کو دیکھ کر میں بھی رونے لگ جاتا تھا۔
میں نے اپنے والد کے ساتھ کبھی فلم نہ دیکھی شاید ان کو اتنا شوق بھی نہ تھا، مگر چچا فلموں کے مداح تھے ۔ ہم کراچی ان کے ساتھ آتے، سب کزن چچا کے ساتھ ڈرائیوان سینما جاتے فلم دیکھنے۔ پٹارو کے زمانے میں ہر ویک اینڈ سینما میں گذرتا۔ ہمارے کالج کا اپنا ایک سینما ہوا کرتا تھا۔ ایک اردو فلم ہفتہ کو اور انگریزی فلم اتوار کی صبح کو دکھائی جاتی تھی۔
پٹارو کی سینما کو پراجیکٹر حاکم علی زرداری نے بطور تحفہ دیا تھا، ان زمانوں میں آصف علی زرداری وہاں پڑھا کرتے تھے، ہم ہر ہفتے حیدرآباد پٹارو سے بینک مارکے نکل پڑتے، ہل ٹاپ ، چاندنی، وینس، فردوس ، کوہ نور ، نیو میجسٹک حیدرآباد ۔ یہاں سے نکلتے نکلتے فلم دیکھنے کی آوارگی یہاں تک چلی کہ کراچی نکل پڑتے، کبھی کیپری، کبھی نشاط، پرنس تو کبھی بمبینو ۔
ہمارا سینما کلچر تاریخ ہوا، پرہندووستان کا نہیں وہاں اب بھی عروج پر ہے۔ پوری دنیا میں عروج پر ہے۔ کورونا نے سینما کلچر کو کمزور کردیا۔ دنیا بھر میں سیاحت اور سینما کو شدید دھچکا لگا مگر نیٹ فیلکس اور اسی طرح کے ایسے کئی نئے طریقے ایجاد ہوئے ہیں کہ اب لوگوں نے گھروں میں سینما سسٹم بنا لیے ہیں۔ میں نے یہ سسٹم اپنے گھر کے بیسمنٹ میں بنالیا ہے۔ میری ہررات ایک نئی فلم سے شروع ہوتی ہے پھر کہیں آنکھ لگتی ہے۔
پوری کتاب ہے ایک فلم ۔ پوری داستان جیسے کوئی ناول ہو اور کتنی فلمیں انھیںناولوں سے ماخوذ ہیں۔ میں نے کتابوں میں سب سے زیادہ کتابیں ناولوں پر مبنی پڑھی ہیں، مگر اب وکالت کی ذمے داریوں نے بہت سی چیزوں سے دور کردیا ہے۔ اس مشکل دور میں نیٹ فلکس نعمت کی طرح ہے کہ چند ہی گھنٹوں میں جیسے پورا ناول آنکھوں سے گذر جاتا ہے۔
فلمیںدیکھنا، حساسیت اور آرٹ سے محبت کرنا ہمیں دلیپ کمار نے سکھایا۔ دلیپ کمار اب ہم میں نہیں رہے۔ ایک پردہ ہے زندگی، سینما کے پردے پہ جس طرح منظر بدل جاتا ہے ، زندگی سے آدمی بھی اس طرح پردے پہ منظر کی طرح بدل جاتا ہے۔ زندگی ہو یا انسانی تاریخ سب سینما ہاؤس ہے۔
جہاں ہر دن، ہر بار کوئی نہ کوئی پردے سے گزر جاتا ہے، مگر دلیپ کمار خود اپنی ذات میں باکس آفس پر ایک ہٹ فلم تھے۔ ایک ایسی فلم جو بہت زمانے تک سینما ہاؤس پہ لگی رہتی ہے جسے مالک چلاتا رہتا ہے کہ اس کے مداح بہت ہیں اسے لوگ بازار میں دیکھنے آتے ہیں، دلیپ کمارہم سے ظاہری طور تو پرخصت ہوسکتے ہیں مگر ان کے کردار امر ہیں، وہ موجود ہیں اوروہ سینما کی وہ فلم ہیں جو ابھی لگی ہوئی ہے اور کئی زمانوں تک لگی رہے گی۔
دلیپ غالبا 1940 میں ممبئی گئے ۔ ان کی پہلی فلم 1944 ''جوار بھاٹا'' کے نام سے ریلیز ہوئی جو فلمی دنیا میں زیادہ پذیرائی نہ پاسکی ۔ 1950 کی دہائی میں دلیپ کمار ابھر کر سامنے آئے ، وہ حساس کردار کیا کرتے تھے جو دل کو چھو جاتے تھے، ان کی فلم دیکھنے کے بعد مہینوں تک اس کا اثر رہتا تھا۔ وہ اداکاری میںکردار کی روح تک جاتے تھے۔ یوں پھر وہ ڈپریشن کے شدید شکار ہوئے۔ ڈاکٹروں نے انھیں ہلکے پھلکے کردارلینے کی تلقین کی ۔ جوگن' ہلچل' ،دیدار،داغ،آنند،دیوار۔
فلم 'داغ میں انھوں نے بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ ماں کا آوارہ بیٹا ، شراب میں غلطاں بیٹا، دنیا سے روٹھا ہوا بیٹا ، محبت میں ناکام اور پھر ماں بھی چل بسی۔ اب بھی مجھے اس فلم کا وہ گانا یاد ہے ''اے میرے دل کہیں اور چل غم کی دنیا سے دل بھر گیا، ڈھونڈلے اب کوئی گھر نیا''یہ ان کی پہلی فلم تھی جس پر ان کو فن فیئر ایوارڈ ملا ، اس کے بعد دلیپ کمار ایوارڈز کے محتاج نہ رہے، پھر اتنے ایوارڈ ملے کہ فلمی دنیا میں شاید ہی کسی کو ملے ہوں۔ دلیپ صاحب کو پاکستان میں نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
''داغ''فلم نے میرے دماغ پر گہرا اثر چھوڑا۔ احساسات کا عکس، روانی، ڈائیلاگ کی ڈلیوری ، چہرے پر گہرائی، آنکھوں میں کردار کی جنبش، یہ تھے دلیپ کمار۔ پھر پچاس کی دہائی کے بعد ساٹھ کی دہائی بھی ٹھیک تھی ۔ مگرستر کی دہائی کے پانچ سال وہ فلمی دنیا سے غائب رہے۔ ''مغل اعظم'' میری نظر میں ان کی شاہکار فلم ہے ۔ اس میں شہزادہ سلیم کا کردار دلیپ کمار نے نبھایا اور انار کلی کا کردار مدھوبالا نے ۔ اکبر بادشاہ یعنی ان کے والد کا کردار پرتھوی راج نے۔ مغلِ اعظم ہندوستانی تاریخ کی مہنگی ترین فلم تھی۔ 2004 میں اس فلم کو دوبارہ جدید انداز پیش کیا گیا۔
میرا فلمی شعور 1980کی دہائی کا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب دلیپ کمار نئے انداز میں کیریکٹر رول کیا کرتے تھے ۔ اب ان کی ہیروئنز و جنتی مالا، مدھو بالا، نرگس ان کے ساتھ نہ تھیں۔ اس دہائی میں دلیپ کمار ہیرو نہ تھے،وہ انیل کپور اور جیکی شروف جیسے نوجوان اداکاروں کے ساتھ اپنے کردار نبھا رہے تھے۔
ان فلموں میںان کے کردار گاڈ فادر ٹائپ تھے ۔ ''کرانتی'' فلم انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے متوالوں کے پس منظر میں بنی ہوئی فلم تھی۔ پھر شکتی ،مشعل،کرم اور 'سوداگر' جیسی فلمز میں بھی انھوں نے اپنے کردارخوب منوائے۔
اپنی زندگی کے آخری دس سال انھوں نے شدید بیماری میں گذارے، حافظہ کام چھوڑ گیا۔ ان کی اہلیہ سائرہ بانو ہر پل ، ہر سمے سائے کی طرح ان کے ساتھ رہیں۔ سائرہ بانو کی زندگی کے محور تھے یوسف ،جن کو دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی تھی۔ سائرہ بانو بائیس سال کی تھیں اور دلیپ 44 سال کے، 1966 میں یہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ۔انھوں نے دوسری شادی ستر کی دہائی میں کی مگر وہ دو سال بھی نہ چل سکی۔ ان کی اولاد نہ تھی اور نہ انھوں نے کبھی اس بات کا گلہ کیا۔
دلیپ کمار کا دنیا سے رخصت ہونا تو دستور ہے، دکھ کی بات تو نہیں ، ہاں مگر ایک پس منظر ، غبار خاطر کے باب کی طرح ورق در ورق مجموعہ ہے جو کھل کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ اکثر پاکستان آتے رہتے تھے ۔ میڈم نور جہاں سے ان کو خاص انسیت تھی۔ عمران خان کے اسپتال کی فنڈ ریزنگ میں بھی دلیپ کمار صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔
باچا خان سے ملے تو کے پاؤں چھو کر ملے۔ امن کے سفیر تھے۔ وہ ہندوستان میںہی پیدا ہوئے ،کیونکہ 1922 میں پشاور پاکستان کا شہر نہیں بلکہ برِصغیر کا حصہ تھا۔ان کا انتقال بھی ہندوستان میں ہوا۔وہ ہندوستان جو اب بدل چکا ہے،اب وہ نہیں رہا جو گاندھی ، نہرو یا پھر اندرا گاندھی کے دور تک تھا۔ اب خزاں کے موسم ہیں، زرد پتوں کا بن ہے ہندوستان اور ہمارے تعلقات۔ اس درد کے موسم میں دلیپ کمار دنیا سے رخصت ہوئے۔
ہمیں یاد آگئے وہ سارے قصے ، کہانیاں سینما کے نام سے فلموں اور گانوں کے پس منظر میں ''ہاتھوں کی چند لکیروں کا یہ کھیل ہے، سب تقدیروں کا '' پھر اس گانے میں ششی کپور کو جواب دیتے ہوئے دلیپ کمار اپنے کردار کا عکس بن کر کہتے ہیں ''تقدیر ہے کیا، میں کیا جانوں، میں عاشق ہوں تدبیروں کا''
میرے نوابشاہ کے گھر کے گلی کے نکڑ پہ ریگل سینما ہوا کرتا تھا۔ ایک بازارسا تھا، امان بھائی کا ہوٹل تھا۔ ٹھیلے والے کھڑے رہتے تھے۔ رات کو فلم کی آواز ہمارے آنگن تک سنائی دیتی تھی اور آخری شو سے واپس لوٹنے والے ہلا گلا کرتے گلی سے گذرتے تھے۔ ہمارے گھر کا ایک چھوٹا سا پچھلے کمرے کا دروازہ اس گلی میں کھلتا تھا جہاں سینما تھا۔ اماں نے میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی، وہ دروازہ ختم کر کے اس پر اینٹیں چڑھوا دیں ۔ مجھے یاد ہے بڑی آپا کے ساتھ میں فلم دیکھنے جاتا تھا ، شاید ان کی گود میں میں بیٹھ کے فلم دیکھتا تھا۔ آپا رونے لگ جاتی تھیں فلم میں جب سین جذباتی ہو جاتے تھے اور پھر آپا کو دیکھ کر میں بھی رونے لگ جاتا تھا۔
میں نے اپنے والد کے ساتھ کبھی فلم نہ دیکھی شاید ان کو اتنا شوق بھی نہ تھا، مگر چچا فلموں کے مداح تھے ۔ ہم کراچی ان کے ساتھ آتے، سب کزن چچا کے ساتھ ڈرائیوان سینما جاتے فلم دیکھنے۔ پٹارو کے زمانے میں ہر ویک اینڈ سینما میں گذرتا۔ ہمارے کالج کا اپنا ایک سینما ہوا کرتا تھا۔ ایک اردو فلم ہفتہ کو اور انگریزی فلم اتوار کی صبح کو دکھائی جاتی تھی۔
پٹارو کی سینما کو پراجیکٹر حاکم علی زرداری نے بطور تحفہ دیا تھا، ان زمانوں میں آصف علی زرداری وہاں پڑھا کرتے تھے، ہم ہر ہفتے حیدرآباد پٹارو سے بینک مارکے نکل پڑتے، ہل ٹاپ ، چاندنی، وینس، فردوس ، کوہ نور ، نیو میجسٹک حیدرآباد ۔ یہاں سے نکلتے نکلتے فلم دیکھنے کی آوارگی یہاں تک چلی کہ کراچی نکل پڑتے، کبھی کیپری، کبھی نشاط، پرنس تو کبھی بمبینو ۔
ہمارا سینما کلچر تاریخ ہوا، پرہندووستان کا نہیں وہاں اب بھی عروج پر ہے۔ پوری دنیا میں عروج پر ہے۔ کورونا نے سینما کلچر کو کمزور کردیا۔ دنیا بھر میں سیاحت اور سینما کو شدید دھچکا لگا مگر نیٹ فیلکس اور اسی طرح کے ایسے کئی نئے طریقے ایجاد ہوئے ہیں کہ اب لوگوں نے گھروں میں سینما سسٹم بنا لیے ہیں۔ میں نے یہ سسٹم اپنے گھر کے بیسمنٹ میں بنالیا ہے۔ میری ہررات ایک نئی فلم سے شروع ہوتی ہے پھر کہیں آنکھ لگتی ہے۔
پوری کتاب ہے ایک فلم ۔ پوری داستان جیسے کوئی ناول ہو اور کتنی فلمیں انھیںناولوں سے ماخوذ ہیں۔ میں نے کتابوں میں سب سے زیادہ کتابیں ناولوں پر مبنی پڑھی ہیں، مگر اب وکالت کی ذمے داریوں نے بہت سی چیزوں سے دور کردیا ہے۔ اس مشکل دور میں نیٹ فلکس نعمت کی طرح ہے کہ چند ہی گھنٹوں میں جیسے پورا ناول آنکھوں سے گذر جاتا ہے۔
فلمیںدیکھنا، حساسیت اور آرٹ سے محبت کرنا ہمیں دلیپ کمار نے سکھایا۔ دلیپ کمار اب ہم میں نہیں رہے۔ ایک پردہ ہے زندگی، سینما کے پردے پہ جس طرح منظر بدل جاتا ہے ، زندگی سے آدمی بھی اس طرح پردے پہ منظر کی طرح بدل جاتا ہے۔ زندگی ہو یا انسانی تاریخ سب سینما ہاؤس ہے۔
جہاں ہر دن، ہر بار کوئی نہ کوئی پردے سے گزر جاتا ہے، مگر دلیپ کمار خود اپنی ذات میں باکس آفس پر ایک ہٹ فلم تھے۔ ایک ایسی فلم جو بہت زمانے تک سینما ہاؤس پہ لگی رہتی ہے جسے مالک چلاتا رہتا ہے کہ اس کے مداح بہت ہیں اسے لوگ بازار میں دیکھنے آتے ہیں، دلیپ کمارہم سے ظاہری طور تو پرخصت ہوسکتے ہیں مگر ان کے کردار امر ہیں، وہ موجود ہیں اوروہ سینما کی وہ فلم ہیں جو ابھی لگی ہوئی ہے اور کئی زمانوں تک لگی رہے گی۔