لاہورکا خفیہ شیش محل
حویلی میاں سلطان میں موجود چھوٹاسا شیش محل حویلی کی تیسری منزل پر ہے
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ لاہور میں ایک نہیں دو شیش محل ہیں، ایک لاہور کے شاہی قلعہ میں واقع ہے جبکہ دوسراشیش محل اندرون دہلی گیٹ میں حویلی میاں سلطان میں موجود ہے۔
حویلی میاں سلطان میں موجود چھوٹاسا شیش محل حویلی کی تیسری منزل پر بنایا گیا ہے ۔ اگرچہ نظر انداز ہونے کی وجہ سے اِس وقت شیش محل کی حالت کافی خستہ ہوچکی ہے تاہم ایک زمانے میں اِس کی چکا چوند یقیناً آنکھوں کو خیرہ کرتی ہوگی۔
اس حویلی کے مکین محمد نعمان نے ایکسپریس کو بتایا کہ میاں سلطان ، سکھ اور برطانوی ادوار میں عمارتوں کی تعمیر کا کام کیا کرتے تھے ۔ حویلی میاں سلطان کے علاوہ اُنہوں نے لاہور میں مزید دو شاندار حویلیاں تعمیر کرائی تھیں جبکہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا سہرا بھی اُن ہی کے سر ہے ۔ حویلی میاں سلطان کو شیش محل کی وجہ سے دیگر تعمیرات کی نسبت زیادہ ممتاز گردانا جاتاہے۔
محمد نعمان کہتے ہیں یہ شیش محل ثقافتی ورثے کے حوالے سے ایک قیمتی سرمایہ ہے ،یہ حویلی 1867 میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی چھتیں لکڑی کی ہیں ہیں جبکہ شیش محل کا ڈیزائن شاہی قلعہ کے ڈیزائن سے مشابہت رکھتا ہے ، یہاں جو شیشہ استعمال ہوا ہے وہ اس دورمیں بیرون ملک سے منگوایا گیا تھا، سترہ مرلے رقبہ پر بنائی گئی اس چارمنزلہ حویلی کی تیسری اورآخری منزلیں انتہائی خستہ حال ہیں، لکڑی کی چھتیں ،دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں جب کہ یہاں جنگلی کبوتروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ نجی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے یہ سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے اورانہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔
محمد نعمان کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق یہاں مرمت کے کچھ کام کروائے ہیں جب کہ صفائی بھی کروائی گئی ہے لیکن جس قدر یہاں کام ہونے والاہے وہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں جولکڑی استعمال ہوئی وہ عام دستیاب نہیں ہے اور بہت مہنگی ہے۔ والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی نے جولائی 2019میں اس عمارت کو ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا جس کی وجہ سے ہم اس عمارت کو گراسکتے ہیں نہ ہی اس کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ ان کی والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی سے اپیل ہے کہ اس ثقافتی ورثے کی بحالی پرتوجہ دیں تاکہ یہاں سیاح آسکیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ حویلی آج بھی اندرون لاہور کی بلندترین عمارتوں میں سے ایک ہے اور اس کی چھت پربسنت میلہ سجتا تھا لیکن جب حکومت نے بسنت پرپابندی لگائی تو یہ رونقین بھی ختم ہوگئیں۔
محمد نعمان کے مطابق یہ محل نماحویلی ان کے دادا نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کرمیاں سلطان کی بیٹی سے خریدی تھی آج ہم یہاں تیسری نسل آبادہیں،ہمیں اس بات پر فخر تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی عمارت میں رہتے ہیں جواپنے وقت کاایک شاہکاراورثقافتی ورثہ ہے لیکن اس بات کا دکھ بھی ہے کہ ہم تنہا اس شاندارشیش محل کی بحالی کا کام نہیں کرسکتے۔
والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اندرون شہر میں جن عمارتوں کو ثقافتی ورثہ قراردیا ہے ان کی بحالی کا کام بتدریج جاری ہے، دہلی دروازے سے مسجد وزیر خان تک ناصرف شاہی گزرگاہ بلکہ اس سے منسلک کئی گلیوں کی آرائش وتزئین اوربحالی کی گئی ہے بہت جلدقدیم حویلیوں کی بحالی کا کام بھی شروع ہوجائے گا۔
حویلی میاں سلطان میں موجود چھوٹاسا شیش محل حویلی کی تیسری منزل پر بنایا گیا ہے ۔ اگرچہ نظر انداز ہونے کی وجہ سے اِس وقت شیش محل کی حالت کافی خستہ ہوچکی ہے تاہم ایک زمانے میں اِس کی چکا چوند یقیناً آنکھوں کو خیرہ کرتی ہوگی۔
اس حویلی کے مکین محمد نعمان نے ایکسپریس کو بتایا کہ میاں سلطان ، سکھ اور برطانوی ادوار میں عمارتوں کی تعمیر کا کام کیا کرتے تھے ۔ حویلی میاں سلطان کے علاوہ اُنہوں نے لاہور میں مزید دو شاندار حویلیاں تعمیر کرائی تھیں جبکہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا سہرا بھی اُن ہی کے سر ہے ۔ حویلی میاں سلطان کو شیش محل کی وجہ سے دیگر تعمیرات کی نسبت زیادہ ممتاز گردانا جاتاہے۔
محمد نعمان کہتے ہیں یہ شیش محل ثقافتی ورثے کے حوالے سے ایک قیمتی سرمایہ ہے ،یہ حویلی 1867 میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی چھتیں لکڑی کی ہیں ہیں جبکہ شیش محل کا ڈیزائن شاہی قلعہ کے ڈیزائن سے مشابہت رکھتا ہے ، یہاں جو شیشہ استعمال ہوا ہے وہ اس دورمیں بیرون ملک سے منگوایا گیا تھا، سترہ مرلے رقبہ پر بنائی گئی اس چارمنزلہ حویلی کی تیسری اورآخری منزلیں انتہائی خستہ حال ہیں، لکڑی کی چھتیں ،دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں جب کہ یہاں جنگلی کبوتروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ نجی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے یہ سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے اورانہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔
محمد نعمان کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق یہاں مرمت کے کچھ کام کروائے ہیں جب کہ صفائی بھی کروائی گئی ہے لیکن جس قدر یہاں کام ہونے والاہے وہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں جولکڑی استعمال ہوئی وہ عام دستیاب نہیں ہے اور بہت مہنگی ہے۔ والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی نے جولائی 2019میں اس عمارت کو ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا جس کی وجہ سے ہم اس عمارت کو گراسکتے ہیں نہ ہی اس کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ ان کی والڈسٹی آف لاہوراتھارٹی سے اپیل ہے کہ اس ثقافتی ورثے کی بحالی پرتوجہ دیں تاکہ یہاں سیاح آسکیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ حویلی آج بھی اندرون لاہور کی بلندترین عمارتوں میں سے ایک ہے اور اس کی چھت پربسنت میلہ سجتا تھا لیکن جب حکومت نے بسنت پرپابندی لگائی تو یہ رونقین بھی ختم ہوگئیں۔
محمد نعمان کے مطابق یہ محل نماحویلی ان کے دادا نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کرمیاں سلطان کی بیٹی سے خریدی تھی آج ہم یہاں تیسری نسل آبادہیں،ہمیں اس بات پر فخر تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی عمارت میں رہتے ہیں جواپنے وقت کاایک شاہکاراورثقافتی ورثہ ہے لیکن اس بات کا دکھ بھی ہے کہ ہم تنہا اس شاندارشیش محل کی بحالی کا کام نہیں کرسکتے۔
والڈ سٹی آف لاہوراتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اندرون شہر میں جن عمارتوں کو ثقافتی ورثہ قراردیا ہے ان کی بحالی کا کام بتدریج جاری ہے، دہلی دروازے سے مسجد وزیر خان تک ناصرف شاہی گزرگاہ بلکہ اس سے منسلک کئی گلیوں کی آرائش وتزئین اوربحالی کی گئی ہے بہت جلدقدیم حویلیوں کی بحالی کا کام بھی شروع ہوجائے گا۔