لکھنے کا عمل بچوں میں سیکھنے اور سبق یاد کرنے میں مددگار ہوتا ہے
بچوں کو سبق لکھوانے سے ان کی سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اور یاد کرنے میں آسانی ہوتی ہے
آج کے اس کمپیوٹرزدہ عہد میں لکھنے کا عمل بہت کمزور ہوگیا ہے، لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ قلم اور کاغذ کی اہمیت اب بھی باقی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ بچوں کو مسلسل لکھنے اور یاد کرنے کے بعد سبق کو کاغذ پر منتقل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
جان ہاپکنزیونیورسٹی سے وابستہ دماغی اکتساب کی ماہرڈاکٹر برینڈا رائپ کہتی ہیں کہ والدین اور اساتذہ پوچھتے ہیں کہ بچوں کو دستی تحریر (ہینڈ رائٹنگ) کرنے کی آخرکیا ضرورت ہے؟َ ڈاکٹر برینڈا کا جواب ہے کہ بچہ جب لکھتا ہے تو ایک جانب اس کے دماغی حصے سرگرم ہوتے ہیں تو دوسری جانب اسے سبق یاد کرنے اور سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
ڈاکٹر برینڈا نے یہ تحقیق سائیکولوجی نامی تحقیقی جرنل میں شائع کرائی ہے۔ انہوں نے ایک دلچسپ سروے کیا جس میں 42 افراد کو شامل کیا گیا۔ انہیں عربی حروفِ تہجی سکھائے گئے اور پھر انہیں تین گروہوں میں بانٹا گیا، ایک گروہ لکھنے والوں کا تھا، دوسرا گروپ ٹائپ کرنے والے اور تیسرا گروہ ویڈیو دیکھنے والوں کا تھا۔
ہر ایک نے ویڈیو دیکھ کر حروف سیکھے اور پھر آوازیں سن کر انہیں لکھا۔ پھر ہر رضاکار کو حرف سے واقف کرانے کے بعد تینوں گروہوں کو صرف دیکھنے اور سننے کے بعد الفاظ یاد کرنے اور دوہرانے کو کہا گیا۔
ویڈیو والے گروپ کو اسکرین پر کسی جھماکے کی صورت میں حروف دکھائے گئے اور پوچھا گیا کہ کیا یہ وہی حرف یا حروف ہیں جو اس سے قبل انہوں نے دیکھے ہیں۔ ٹائپ کرنے والوں کو مطلوبہ حرف کی بورڈ پر تلاش کرنا تھا جبکہ لکھنے والے افراد کو قلم سے کاغذ پر وہ حرف لکھنا تھا۔
اس طرح مسلسل چھ سیشن کرائے گئے۔ آخر میں ہر گروپ کے لوگ دیکھے گئے الفاظ پہچاننے لگے لیکن ہاتھ سے تحریرکرنے والے گروہ ان سب پر بازی لے گئے۔ نہ صرف انہوں نے حروف کو جلدی پہچانا بلکہ ان میں یاد کرنے کا عمل بھی تیز رہا۔ اس کے بعد مزید ٹیسٹ کئے گئے تب بھی ہاتھوں سے لکھنے والے افراد اجنبی حروف سمجھنے اور یادکرنے میں سب سے آگے رہے۔
اس طرح ثابت ہوا کہ لکھ کر سمجھنے اور یاد کرنے کا عمل سب سے مؤثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے لکھی تحریر دماغی نیورون کو متحرک کرتی ہے اور ساتھ ہی بصری اور لفظی ڈیٹا بھی حاصل ہوکر سیکھنے کے عمل کو کئی طرح سے مضبوط کرتا ہے۔
جان ہاپکنزیونیورسٹی سے وابستہ دماغی اکتساب کی ماہرڈاکٹر برینڈا رائپ کہتی ہیں کہ والدین اور اساتذہ پوچھتے ہیں کہ بچوں کو دستی تحریر (ہینڈ رائٹنگ) کرنے کی آخرکیا ضرورت ہے؟َ ڈاکٹر برینڈا کا جواب ہے کہ بچہ جب لکھتا ہے تو ایک جانب اس کے دماغی حصے سرگرم ہوتے ہیں تو دوسری جانب اسے سبق یاد کرنے اور سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
ڈاکٹر برینڈا نے یہ تحقیق سائیکولوجی نامی تحقیقی جرنل میں شائع کرائی ہے۔ انہوں نے ایک دلچسپ سروے کیا جس میں 42 افراد کو شامل کیا گیا۔ انہیں عربی حروفِ تہجی سکھائے گئے اور پھر انہیں تین گروہوں میں بانٹا گیا، ایک گروہ لکھنے والوں کا تھا، دوسرا گروپ ٹائپ کرنے والے اور تیسرا گروہ ویڈیو دیکھنے والوں کا تھا۔
ہر ایک نے ویڈیو دیکھ کر حروف سیکھے اور پھر آوازیں سن کر انہیں لکھا۔ پھر ہر رضاکار کو حرف سے واقف کرانے کے بعد تینوں گروہوں کو صرف دیکھنے اور سننے کے بعد الفاظ یاد کرنے اور دوہرانے کو کہا گیا۔
ویڈیو والے گروپ کو اسکرین پر کسی جھماکے کی صورت میں حروف دکھائے گئے اور پوچھا گیا کہ کیا یہ وہی حرف یا حروف ہیں جو اس سے قبل انہوں نے دیکھے ہیں۔ ٹائپ کرنے والوں کو مطلوبہ حرف کی بورڈ پر تلاش کرنا تھا جبکہ لکھنے والے افراد کو قلم سے کاغذ پر وہ حرف لکھنا تھا۔
اس طرح مسلسل چھ سیشن کرائے گئے۔ آخر میں ہر گروپ کے لوگ دیکھے گئے الفاظ پہچاننے لگے لیکن ہاتھ سے تحریرکرنے والے گروہ ان سب پر بازی لے گئے۔ نہ صرف انہوں نے حروف کو جلدی پہچانا بلکہ ان میں یاد کرنے کا عمل بھی تیز رہا۔ اس کے بعد مزید ٹیسٹ کئے گئے تب بھی ہاتھوں سے لکھنے والے افراد اجنبی حروف سمجھنے اور یادکرنے میں سب سے آگے رہے۔
اس طرح ثابت ہوا کہ لکھ کر سمجھنے اور یاد کرنے کا عمل سب سے مؤثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے لکھی تحریر دماغی نیورون کو متحرک کرتی ہے اور ساتھ ہی بصری اور لفظی ڈیٹا بھی حاصل ہوکر سیکھنے کے عمل کو کئی طرح سے مضبوط کرتا ہے۔