یہ لوگ نواز شریف کے معاون ثابت ہوسکتے ہیں
دہشتگردی کے عذاب سے نجات دلانے کیلئے حکمران اور موجودہ حکومت جس دباؤ اورکنفیوژن کا شکار ہے، وہ ہم سب پرعیاں ہورہا ہے
مستونگ، بنوں کینٹ اور راولپنڈی کے آر اے بازار میں صرف تین دنوں میں تقریباً ساٹھ بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلانے اور ملک میں قیام امن کے لیے ہمارے حکمران اور موجودہ حکومت جس دباؤ اور کنفیوژن کا شکار ہے، وہ ہم سب پر عیاں ہو رہا ہے۔ میڈیا بھی عوام کی رہنمائی اور ملک کے استحکام کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہا ہے۔ تازہ مثال ''ایکسپریس نیوز'' کے تین کارکنوں کی شہادت کی شکل میں سامنے آچکی ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے ایک انٹرویو میں ارشاد فرمایا ہے کہ ملک میں قیامِ امن کی خاطر مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، عمران خان اور منور حسن صاحب وغیرہ طالبان سے مذاکرات میں ان کی مدد کریں۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مذکورہ بالا شخصیات جناب وزیراعظم کی درخواست پر کان دھرنے کو تیار ہیں؟ کیا وہ اپنے سیاسی و جماعتی مفادات کو پس پشت ڈال کر نوازشریف کی اعانت کرسکتے ہیں؟
عمران خان کو لے لیجیے۔ ''پاکستان تحریک انصاف'' کے قائد اور نواز شریف کے درمیان جو کشیدگی جاری ہے، اس پیش منظر میں کپتان صاحب حکومت کے بمشکل ہی اعانت کار ثابت ہوسکتے ہیں۔ نوازشریف گذشتہ دنوں سوات کے دورے پر گئے۔ یہ علاقہ خیبرپختون خواہ سے تعلق رکھتا ہے جہاں کپتان کی پارٹی حکومت میں ہے۔ حیرت خیز بات ہے کہ ملک کا وزیراعظم سوات میں تھا لیکن خیبر پختون خواہ حکومت کا وزیراعلیٰ وہاں موجود تھا نہ اس کی صوبائی کابینہ کے کسی رکن نے وہاں منہ دکھایا۔ سارے ملک میں اس عدم تعاونی منظر کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے اہم وابستگان کی طرف سے کہا گیا کہ اگر نواز شریف (پنجاب کی وزارت علیا کے وقت) وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورہ پنجاب کے دوران لاہور سے دانستہ غائب ہوجایا کرتے تھے اور اگر شہباز شریف وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا لاہور میں استقبال کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے سوات میں وزیراعظم نوازشریف کا خیر مقدم نہ کرکے کونسا گناہ کیا ہے؟ ہم بوجوہ اس منطق سے اتفاق نہیں کرسکتے۔ ایسے میں کیا نوازشریف پی ٹی آئی کے رہبر سے کوئی توقع وابستہ کرسکتے ہیں؟
جناب وزیراعظم نوازشریف چاہتے ہیں کہ ملک میں پائیدار قیام امن اور دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کے لیے مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن طالبان سے مذاکرات کریں۔ یہ اچھی اور نیک خواہش ہے لیکن کیا جناب وزیراعظم جانتے نہیں کہ مذکورہ دونوں مولاناؤں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے؟ ایسے میں وہ کیونکر آگے بڑھ کر نوازشریف کے ہاتھ مضبوط کریں گے کہ طالبان سے ایک مولانا صاحب کے کامیاب مذاکرات دراصل دوسرے مولانا صاحب کی شکست کا عنوان بن جائے گی۔ ایک واقعہ نے بھی مولانا سمیع الحق کا دل توڑ ڈالا ہے اور وہ بد دل سے ہوئے لگتے ہیں۔ سترہ جنوری 2014ء کو مولانا سمیع الحق کے دست راست اور جے یو آئی (س) کے مرکزی رہنما مفتی عثمان یار خان کو کراچی میں نہ معلوم افراد نے قتل کرڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ مفتی عثمان صاحب (مرحوم و مغفور) طالبان سے قریبی تعلقات رکھتے تھے اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ درپردہ مذاکرات کا جو مبینہ سلسلہ جاری تھا، اس میں بھی اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے مفتی عثمان کے قتل پر اعلان کیا کہ ہم ان کا بدلہ لیں گے۔ مفتی صاحب کی نماز جنازہ میں مولانا سمیع الحق صاحب بھی شریک تھے۔ یہ بہیمانہ قتل مولانا سمیع الحق کے لیے ایک بڑے نقصان کا باعث بنا ہے۔ باخبروں کا کہنا ہے کہ مفتی عثمان یار خان کو قتل کرکے پیغام دیا گیا ہے کہ مولانا سمیع الحق طالبان سے مذاکرات کے لیے قدم آگے بڑھانے سے گریز ہی کریں تو ان کے لیے اچھا ہے۔
مولانا سمیع الحق صاحب کی خواہش ہے کہ وہ ملک میں قیام امن کے لیے نوازشریف کی حکومت اور طالبان کے درمیان اگر پُل کا کردار اداکرسکیں تو یہ ان کے لیے بڑا اعزاز ہوگا۔ وہ یہ خواہش ہمیشہ سے رکھتے رہے ہیں، اس ادعا کے ساتھ کہ طالبان سے ان کے گہرے تعلقات ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے آخر نوازشریف نے انھیں31دسمبر 2013کو وزیراعظم ہاؤس میں بلاہی لیا۔ ''فادر آف دی طالبان'' (جیسا کہ مولانا سمیع الحق صاحب کو کہا جاتا ہے) نے اس اہم ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم صاحب نے انھیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فریضہ سونپا ہے۔ ممکن ہے ان کا ارشاد درست ہی ہو لیکن اس بیان کے بعد وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے فوراً بیان دیا کہ حکومت نے کسی فرد یا جماعت کو طالبان سے مذاکرات کی گزارش نہیں کی ہے۔ وزیرداخلہ نے غالباً یہ بیان اس لیے دیا کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ مولانا سمیع الحق کے اس بیان کی وجہ سے ان کے حلیف مولانا فضل الرحمن حکومت سے ناراض ہوسکتے ہیں۔تو کیا وزیراعظم نے مولانا سمیع الحق کو دعوت دے کر طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا؟ جناب نوازشریف نے مولانا سمیع الحق سے ملاقات تو کرلی لیکن ساتھ ہی ایک حیرت انگیز خبر بھی آگئی۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں مولانا طاہر اشرفی نے انکشاف کیا؛ ''اس ملاقات کے بعد مولانا سمیع الحق صاحب نے مجھے بتایا کہ طالبان سے میں نے مذاکرات خاک کرنے ہیں کیونکہ نوازشریف صاحب میرا فون اٹینڈ ہی نہیں کر رہے۔''
مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک میں واقع قدیم دینی مدرسہ 'دارالعلوم حقانیہ'' کے سربراہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان قیادت کے بہت سے اور بہت اہم لوگوں نے اسی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی، سوائے جناب ملا محمد عمر کے۔ آر پار کے طالبان میں وہ اہم لوگ جو اپنے نام کے ساتھ ''حقانی'' کا لاحقہ لگاتے ہیں، اس امر کی نشانی ہے کہ وہ دارالعلوم حقانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ مثال کے طور پر حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی۔ مولانا شیر علی شاہ بھی کسی زمانے میں اسی مدرسہ کے اساتذہ میں سے ایک محترم شخصیت تھے۔ ماضی قریب میں، مبینہ طورپر، پاکستانی حکام نے مولانا شیر علی صاحب کے توسط سے بھی طالبان قیادت سے مذاکرات کی کوششیں کیں۔ ملا فضل اللہ نے ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالتے ہی جس شخص کو اپنا نائب مقرر کیا، یہ صاحب بھی دارالعلوم حقانیہ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کا نام مولانا خالد حقانی ہے۔
ایک سینئر اخبار نویس کا دعویٰ ہے کہ مولانا سمیع الحق نے انھی خالد حقانی کے توسط سے ملا فضل اللہ سے مذاکرات کے کئی پیغام بھیجے لیکن کسی پیغام کا بھی کوئی مثبت یا منفی جواب نہ آسکا۔ رہ گئے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب۔ وہ بھلا وزیراعظم نوازشریف کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے آگے کیوں بڑھیں گے؟ جو شخص افواج پاکستان کے شہید جوانوں کی شہادت تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، اس سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرکے نوازشریف کی اعانت کرے گا۔ یہاں یہ بھی گزارش ہے کہ ''آر پار '' کی طالبان قیادت جماعت اسلامی والوں سے بات کرنے کے لیے سرے سے تیار ہی نہیں۔ یہ طالبان کی مرکزی پالیسی رہی ہے جو اب تک جاری ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو وہ ذرا یہ کھوج لگانے کی کوشش کرے کہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت کو ملا محمد عمر صاحب نے ایک بار بھی دعوت کیوں نہ دی تھی؟ سارے حقائق الم نشرح ہوجائیں گے۔
عمران خان کو لے لیجیے۔ ''پاکستان تحریک انصاف'' کے قائد اور نواز شریف کے درمیان جو کشیدگی جاری ہے، اس پیش منظر میں کپتان صاحب حکومت کے بمشکل ہی اعانت کار ثابت ہوسکتے ہیں۔ نوازشریف گذشتہ دنوں سوات کے دورے پر گئے۔ یہ علاقہ خیبرپختون خواہ سے تعلق رکھتا ہے جہاں کپتان کی پارٹی حکومت میں ہے۔ حیرت خیز بات ہے کہ ملک کا وزیراعظم سوات میں تھا لیکن خیبر پختون خواہ حکومت کا وزیراعلیٰ وہاں موجود تھا نہ اس کی صوبائی کابینہ کے کسی رکن نے وہاں منہ دکھایا۔ سارے ملک میں اس عدم تعاونی منظر کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے اہم وابستگان کی طرف سے کہا گیا کہ اگر نواز شریف (پنجاب کی وزارت علیا کے وقت) وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورہ پنجاب کے دوران لاہور سے دانستہ غائب ہوجایا کرتے تھے اور اگر شہباز شریف وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا لاہور میں استقبال کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے تو وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے سوات میں وزیراعظم نوازشریف کا خیر مقدم نہ کرکے کونسا گناہ کیا ہے؟ ہم بوجوہ اس منطق سے اتفاق نہیں کرسکتے۔ ایسے میں کیا نوازشریف پی ٹی آئی کے رہبر سے کوئی توقع وابستہ کرسکتے ہیں؟
جناب وزیراعظم نوازشریف چاہتے ہیں کہ ملک میں پائیدار قیام امن اور دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کے لیے مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن طالبان سے مذاکرات کریں۔ یہ اچھی اور نیک خواہش ہے لیکن کیا جناب وزیراعظم جانتے نہیں کہ مذکورہ دونوں مولاناؤں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے؟ ایسے میں وہ کیونکر آگے بڑھ کر نوازشریف کے ہاتھ مضبوط کریں گے کہ طالبان سے ایک مولانا صاحب کے کامیاب مذاکرات دراصل دوسرے مولانا صاحب کی شکست کا عنوان بن جائے گی۔ ایک واقعہ نے بھی مولانا سمیع الحق کا دل توڑ ڈالا ہے اور وہ بد دل سے ہوئے لگتے ہیں۔ سترہ جنوری 2014ء کو مولانا سمیع الحق کے دست راست اور جے یو آئی (س) کے مرکزی رہنما مفتی عثمان یار خان کو کراچی میں نہ معلوم افراد نے قتل کرڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ مفتی عثمان صاحب (مرحوم و مغفور) طالبان سے قریبی تعلقات رکھتے تھے اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ درپردہ مذاکرات کا جو مبینہ سلسلہ جاری تھا، اس میں بھی اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے مفتی عثمان کے قتل پر اعلان کیا کہ ہم ان کا بدلہ لیں گے۔ مفتی صاحب کی نماز جنازہ میں مولانا سمیع الحق صاحب بھی شریک تھے۔ یہ بہیمانہ قتل مولانا سمیع الحق کے لیے ایک بڑے نقصان کا باعث بنا ہے۔ باخبروں کا کہنا ہے کہ مفتی عثمان یار خان کو قتل کرکے پیغام دیا گیا ہے کہ مولانا سمیع الحق طالبان سے مذاکرات کے لیے قدم آگے بڑھانے سے گریز ہی کریں تو ان کے لیے اچھا ہے۔
مولانا سمیع الحق صاحب کی خواہش ہے کہ وہ ملک میں قیام امن کے لیے نوازشریف کی حکومت اور طالبان کے درمیان اگر پُل کا کردار اداکرسکیں تو یہ ان کے لیے بڑا اعزاز ہوگا۔ وہ یہ خواہش ہمیشہ سے رکھتے رہے ہیں، اس ادعا کے ساتھ کہ طالبان سے ان کے گہرے تعلقات ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے آخر نوازشریف نے انھیں31دسمبر 2013کو وزیراعظم ہاؤس میں بلاہی لیا۔ ''فادر آف دی طالبان'' (جیسا کہ مولانا سمیع الحق صاحب کو کہا جاتا ہے) نے اس اہم ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم صاحب نے انھیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فریضہ سونپا ہے۔ ممکن ہے ان کا ارشاد درست ہی ہو لیکن اس بیان کے بعد وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے فوراً بیان دیا کہ حکومت نے کسی فرد یا جماعت کو طالبان سے مذاکرات کی گزارش نہیں کی ہے۔ وزیرداخلہ نے غالباً یہ بیان اس لیے دیا کہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ مولانا سمیع الحق کے اس بیان کی وجہ سے ان کے حلیف مولانا فضل الرحمن حکومت سے ناراض ہوسکتے ہیں۔تو کیا وزیراعظم نے مولانا سمیع الحق کو دعوت دے کر طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا؟ جناب نوازشریف نے مولانا سمیع الحق سے ملاقات تو کرلی لیکن ساتھ ہی ایک حیرت انگیز خبر بھی آگئی۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں مولانا طاہر اشرفی نے انکشاف کیا؛ ''اس ملاقات کے بعد مولانا سمیع الحق صاحب نے مجھے بتایا کہ طالبان سے میں نے مذاکرات خاک کرنے ہیں کیونکہ نوازشریف صاحب میرا فون اٹینڈ ہی نہیں کر رہے۔''
مولانا سمیع الحق اکوڑہ خٹک میں واقع قدیم دینی مدرسہ 'دارالعلوم حقانیہ'' کے سربراہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان قیادت کے بہت سے اور بہت اہم لوگوں نے اسی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی، سوائے جناب ملا محمد عمر کے۔ آر پار کے طالبان میں وہ اہم لوگ جو اپنے نام کے ساتھ ''حقانی'' کا لاحقہ لگاتے ہیں، اس امر کی نشانی ہے کہ وہ دارالعلوم حقانیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ مثال کے طور پر حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی۔ مولانا شیر علی شاہ بھی کسی زمانے میں اسی مدرسہ کے اساتذہ میں سے ایک محترم شخصیت تھے۔ ماضی قریب میں، مبینہ طورپر، پاکستانی حکام نے مولانا شیر علی صاحب کے توسط سے بھی طالبان قیادت سے مذاکرات کی کوششیں کیں۔ ملا فضل اللہ نے ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالتے ہی جس شخص کو اپنا نائب مقرر کیا، یہ صاحب بھی دارالعلوم حقانیہ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کا نام مولانا خالد حقانی ہے۔
ایک سینئر اخبار نویس کا دعویٰ ہے کہ مولانا سمیع الحق نے انھی خالد حقانی کے توسط سے ملا فضل اللہ سے مذاکرات کے کئی پیغام بھیجے لیکن کسی پیغام کا بھی کوئی مثبت یا منفی جواب نہ آسکا۔ رہ گئے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب۔ وہ بھلا وزیراعظم نوازشریف کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے آگے کیوں بڑھیں گے؟ جو شخص افواج پاکستان کے شہید جوانوں کی شہادت تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، اس سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کرکے نوازشریف کی اعانت کرے گا۔ یہاں یہ بھی گزارش ہے کہ ''آر پار '' کی طالبان قیادت جماعت اسلامی والوں سے بات کرنے کے لیے سرے سے تیار ہی نہیں۔ یہ طالبان کی مرکزی پالیسی رہی ہے جو اب تک جاری ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو وہ ذرا یہ کھوج لگانے کی کوشش کرے کہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت کو ملا محمد عمر صاحب نے ایک بار بھی دعوت کیوں نہ دی تھی؟ سارے حقائق الم نشرح ہوجائیں گے۔