نوجوانوں کو مایوس نہ کریں

انڈیا میں ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا تو پوری سول سوسائٹی اور بولی وڈ کے لیجنڈ تک سڑکوں پر آ گئے۔۔۔

advo786@yahoo.com

ISLAMABAD:
وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ دنوں ایک یونیورسٹی کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ علم خاص طبقے تک محدود ہوتا جا رہا ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کے لیے ہر دروازہ کھل جاتا ہے جب کہ غریب آدمی ہر جگہ محتاج نظر آتا ہے، جو غیر فطری ہے۔ ہم قوم اور نوجوانوں کو مایوس نہیں کریں گے۔ پاکستان میں ہمیشہ مراعات یافتہ طبقات کے بچوں نے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ تعلیم سب کے لیے برابر ہو اور ہم ملک کے تمام بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ ہمارے ملک اور عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں اعلیٰ تعلیم مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہے تو جہالت و تاریکی عوام کا مقدر، صحت و انصاف مراعات یافتہ اور بااثر طبقے کا حق ہے تو کسمپرسی، محرومی اور ناانصافی عوام کا مقدر ہیں، اختیار و اقتدار صرف مراعات یافتہ طبقے کا استحقاق ہے تو اطاعت و برداشت عوام کا نصیب۔ غریب و بے علم و بے عمل قوم کا کام صرف جھنڈے لہرانا، نعرے لگا کر اپنی جانیں اور مستقبل قربان کرنا، سہانے مستقبل کی نوید سن کر خوابیدہ رہنا اور ایک کے بعد دوسرے کی پشت در پشت تابعداری و وفاداری کرنا ہے نہ ان کی یہ روش بدلے گی، نہ ان میں سیاسی و سماجی شعور بیدار ہو گا اور ان کی زندگیاں دن بہ دن دگرگوں ہوتی جائیں گی۔

وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں نوجوانوں کے ساتھ تعلیمی ناانصافیوں کا بہت اچھا نقشہ کھینچا ہے اور ان کے تدارک کا عزم بھی ظاہر کیا ہے لیکن بات عزم سے بڑھ کر عمل تک آنی چاہیے۔ اس کے لیے وزیر اعظم کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں جن سے ان کے اخلاص کا اندازہ ہو سکے۔ تعلیم کے شعبے کو گوناگوں مسائل درپیش ہیں جن کے لیے بڑے بجٹ، موثر اور دور رس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن کچھ ایسے معاملات و مسائل بھی ہیں جن پر فوری اقدامات کر کے اہل طلبا کے ساتھ ہونے والی حق تلفی و زیادتیوں کا ازالہ کیا جا سکتا ہے مثلاً تعلیمی اداروں میں مختص مختلف قسم کے کوٹے کو ختم کر کے اہل طلبا کے ساتھ روا زیادتی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر صحت، تعلیم اور قانون کی تعلیم میں کسی قسم کا کوٹہ ہونا ہی نہیں چاہیے، اسی طرح سیلف فنانس اسکیم کو ختم کر کے اہل طلبا کے مستقبل کو برباد ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

اگر یونیورسٹیز کے لیے آمدنی انتہائی ضروری ہو تو اس رقم کی ادائیگی حکومت خود کرے یا قرض حسنہ کے طور پر یہ رقم طلبا کو مہیا کی جائے، کم تعلیمی استعداد کے حامل مختلف کوٹوں اور سیلف فنانس کے ذریعے تعلیم حاصل کرنیوالے افراد عام طور پر سرکاری اداروں میں ہی کھپت ہے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی خراب ہوتی ہے، آج کل خطیر فیسوں کے حامل ٹیوشن سینٹر اور مختلف ٹیسٹوں اور مقابلے کے امتحانات کی شرطیہ تیاری کرانیوالے اداروں کی بہتات ہو گئی ہے، جن میں سے بعض غیر قانونی ذرایع سے اپنے طلبا کو اچھے نمبر اور پوزیشنز بھی دلواتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے سینٹروں کی فیسیں برداشت نہ کرنیوالے طلبا کا استحصال ہوتا ہے، ان کا تدارک کر کے تمام طلبا کو یکساں مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ اس قسم کے اقدامات کے لیے نہ کسی اضافی بجٹ کی ضرورت ہے نہ ہی کسی طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔گھوسٹ اسکول اور اساتذہ کے خاتمے اور نئے اساتذہ کے تقرر میں سخت میرٹ کے اصول پر کسی اضافی بجٹ کی ضرورت نہیں ہو گی۔


اس قسم کے اقدامات کے خوشگوار اثرات و ثمرات فوری طور پر سامنے آنا شروع ہو جائیں گے اور حکومت کا تعلیم کے سلسلے میں اخلاص بھی ظاہر ہو جائے گا۔ حکومت کو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو سختی سے مانیٹرنگ کرنے کے لیے ان کے کنٹرولنگ اداروں کو متحرک، فعال اور جوابدہ بنانا ہو گا جن کی نا اہلی، بدعنوانی اور سرپرستی کرنیوالے بعض عناصر کسی اصول و ضابطے کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں، جس کا خمیازہ طلبا اور ان کے والدین کو بھگتنا پڑتا ہے، خاص طور پر اسکولوں کی فیسیں مقرر کردہ معیارات اور سہولیات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسکولوں میں لوٹ کھسوٹ، یونیفارم، کتابوں، لیب، ٹرانسپورٹ وغیرہ میں کمیشن اور میعاد کو نظرانداز کیے جانے سے نہ صرف تعلیمی نقصان ہوتا ہے بلکہ طلبا کی زندگیاں بھی خطرات سے دوچار رہتی ہیں، اسکولوں کی ناکارہ عمارات اور غیر معیاری ٹرانسپورٹ کی وجہ سے حادثات ہوتے رہتے ہیں خاص طور پر غیر معیاری ٹرانسپورٹ اور غیر تربیت یافتہ اور نااہل ڈرائیوروں کی وجہ سے کبھی آگ لگ جانے سے، کبھی بس کے ٹرین سے کٹ جانے سے، کبھی بس نہر میں گر جانے کی وجہ سے اندوہناک حادثات واقع ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں نوابشاہ کے واقعے میں بھی بہت سے ہونہار طلبا اور اساتذہ کی زندگیاں لقمہ اجل بنی ہیں۔

آبادی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، شاید اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر تحریک انصاف اور (ن) لیگ نوجوانوں کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں، خوش قسمتی سے دونوں جماعتیں اقتدار میں بھی ہیں اور اختیارات کی منتقلی کے بعد پی ٹی آئی کو بھی یہ موقع میسر ہے کہ وہ اپنے دعووں کو حقیقت کر کے دکھائیں۔ آج کل کم سن بچوں پر تشدد اور قتل تک کے روح فرسا واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، خاص طور پر گھریلو ملازمین پر بہیمانہ قسم کے تشدد اور قتل کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ کراچی میں ایک ڈاکٹر نے اپنے ملازم کو تشدد کا نشانہ بنا کر چھٹی منزل سے نیچے پھینک دیا۔ لاہور میں ایک پروفیسر اور اس کے اہل خانہ نے اپنی ملازم بچی پر تشدد کر کے اس کے سر کی ہڈیاں توڑ ڈالیں، اس سے قبل لاہور کے ایک وکیل نے بھی اپنی کم سن ملازمہ کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا، کراچی میں ایک بزنس مین کے بیٹے نے بھی اپنی ملازمہ سے درندگی کرنے کے بعد تیزاب پھینک کر ہلاک کر دیا تھا، مگر آج تک ایسی بہیمانہ وارداتوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں ملی۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل اور صنعت کار قسم کے افراد ایسے واقعات میں ملوث ہیں جنھیں معاشرے کا معزز طبقہ سمجھا جاتا ہے تو پھر دوسروں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار خود بچوں سے زیادتی، بدفعلی، ان کے اغوا اور قتل میں ملوث ہیں، بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا پہلو یہ ہے کہ انھیں شناخت کے خوف سے قتل کر کے دفنا دیا جاتا ہے یا کچرا کنڈیوں اور گٹروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے جرائم کی بڑی تعداد سامنے ہی نہیں آتی ہے۔ اس وقت کراچی لاوارث بچوں (Street Child) کا سب سے بڑا شہر ہے، جن کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر اور پولیس اہلکار ہر قسم کی زیادتیاں کرتے ہیں اور انھیں جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں۔ بھٹوں، ورکشاپوں، ہوٹلوں اور گھروں میں کام کرنیوالے بچے یا ان کے خاندان محض چند سو روپوں کے عوض اپنی جان، عزت و آبرو اور مستقبل اپنے مالکوں کے حوالے کر دیتے ہیں، اس کے صلے میں کہیں دودھ گرا دینے کی سزا میں کم سن ملازمہ کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا جاتا ہے تو کہیں چوری کا الزام لگا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔

انڈیا میں ایک طالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا تو پوری سول سوسائٹی اور بولی وڈ کے لیجنڈ تک سڑکوں پر آ گئے لیکن ہمارے یہاں اس سلسلے میں سرد مہری اور لاتعلقی دیکھنے میں آتی ہے۔ محض مذمتی بیانات حکومتی دعوے یا وقتی نمائشی قسم کی قانون سازی کے علاوہ کچھ دیکھنے میں نہیں آتا۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی، مذہبی تنظیموں، وکلا اور خواتین تنظیموں کو قانون کے موثر اطلاق خصوصی اور موثر قانون سازی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے اور حکومت سے مشاورت اور رہنمائی کرنی چاہیے تا کہ اس قسم کے واقعات پر قابو پایا جا سکے۔ وقت آ گیا ہے کہ نوجوانوں کے لیے بلند بانگ دعوے کرنیوالی تحریک انصاف اور خود نواز شریف نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کے ازالے کے لیے قانون و انصاف کا اطلاق بھی کریں اور موثر قانون سازی اور پالیسی وضع کریں۔ دونوں جماعتیں اقتدار میں ہیں اور اس سلسلے میں ان کے اختیارات پر کسی قسم کی کوئی قدغن بھی نہیں ہے۔
Load Next Story