کوئٹہ گیس پریشر میں کمی

شہریوں کا دیرینہ مسئلہ، جو حل نہ ہوسکا

شہریوں کا دیرینہ مسئلہ، جو حل نہ ہوسکا۔ فوٹو: فائل

کوئٹہ میں موسم سرما کی بارشوں اور برف باری کا آ غاز ہو چکا ہے۔ اس موسم میں رات کے ساتھ دن میں بھی سردی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔

آج کل کوئٹہ میں درجہ حرارت منفی ہے، ایسے میں کھا نے پینے کی چیزیں تیار کر نے کے ساتھ سردی سے بچنے کے لیے گیس ہیٹرز جلانے پڑتے ہیں۔ اکتوبر کا مہینہ شروع ہو تے ہی کو ئٹہ میں گیس کے کم پریشر کا مسئلہ سر اٹھا نا شروع کر دیتا ہے، اور شہر کے مختلف علاقوں سے شکایتیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ نومبر کے مہینے میں یہ مسئلہ شدت اختیار کرجاتا ہے۔ دسمبر سے مارچ تک مزید بڑھ جاتا ہے۔ خاص کر بارشوں اور برف باری کے دنوں میں تو شہر کے بعض علاقوں میں گیس پریشر ختم ہو کر رہ جا تا ہے۔ ان دنوں بھی صورت حال ایسی ہی ہے نہ صرف کوئٹہ بلکہ بلوچستان کے دوسرے سرد ترین علاقوں زیارت اور قلات میں بھی گیس پریشر ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ کوئٹہ سمیت صوبے کے ان سرد علاقوں میں بارشوں اور پہا ڑوں پر برف با ری کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے، جس نے سردی کی شدت مزید بڑھا دی ہے۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی گنجان آباد یوں پشتون آباد، سریاب، سیٹلائٹ ٹاؤن، کاسی روڈ، ہدہ، کیچی بیگ، سرکی روڈ، نواں کلی اور دیگرعلاقوں میں صبح اور شام کے اوقات میںگیس پریشر انتہائی کم ہوجاتا ہے۔ سریاب، کاسی روڈ اور حاجی غیبی روڈ کے بعض علا قوں میں گزشتہ کئی روز سے گیس پریشر سرے ہی غائب ہے اور چولہا جلانے کے قابل بھی نہیں، جس کی وجہ سے ایک جانب لوگوں کو سردی سے بچنے میں مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب شہریوں اور گھریلو صارفین کو کھانا تیار کرنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ لوگوں نے کم گیس پریشر کے وجہ سے متبادل ایندھن کا انتظام کر نا شروع کر دیا ہے۔ اگرچہ سوئی سدرن گیس کمپنی کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اس سال سردیوں کے دوران کم گیس پریشر کا مسئلہ کسی حد تک حل کرلیا جائے گا لیکن سردیوں کے آغاز پر ہی اگر گیس پریشر کم ہو نا شروع ہو جائے تو شدید سردی والے مہینوں کے دوران اس میں بہتری کے دعوے کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔


گیس حکام کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کوئٹہ میں کم گیس پریشر کا مسئلہ سالہا سال سے چلا آرہا ہے۔ گیس پریشر کوئٹہ کے شہریوں کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور چند برسوں کے دوران اس میں مزید شدت آئی ہے۔ کوئٹہ کا شمار بلوچستان کے سردترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ جہاں نومبر سے مارچ تک شدید سردی پڑتی اور جنوری، فروری کے مہینوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گرجاتا ہے، ایسے میں شہریوں کو شدید مشکلات کاسامنا کر نا پڑتاہے۔ گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ ایس ایس جی سی کے کمرشل صارفین، ہو ٹل اور تندور مالکان بھی اس مسئلہ سے بری طرح متا ثر ہورہے ہیں جب کہ اسپتال بھی کم گیس پریشر کی زد میں آجاتے ہیں، جہاں مریض بھی کم گیس پریشر کی وجہ سے شدید سردی میں رل جاتے ہیں۔

شہری حلقوں کے مطابق گزشتہ سال شہر کے جن علاقوں میں گیس کے پائپ تبدیل کیے گئے اس سے بھی گیس پریشر میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آ ئی، اس کے علاوہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جب بھی قدرتی گیس کا پریشر کم ہوجاتا ہے اور شہریوں کو متبادل ایندھن کی ضرورت پڑ تی ہے تو مائع گیس سمیت جلانے والی لکڑی اور کوئلے کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں جو شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن جاتی ہیں۔ شہر میں گیس پریشر کا مسئلہ حل نہ کر نے خلاف شہر یوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے اور شہر کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے جن شہروں میں سردیوں کے دوران شہریوں کو کم گیس پریشر یا گیس کی بندش کا سامنا ہے، ان میں زیارت، قلات اورپشین شامل ہیں۔ زیارت میں تو لوگ صنوبر کے تاریخی جنگلات کاٹ کر سردیوں کا ایندھن بنا رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیارت میں صنوبر کے جنگلات کے تحفظ کو مد نظر رکھ کر ہی زیارت کو گیس فراہم کی گئی تھی، مگر صنوبر کے تاریخی جنگلات کے مکمل تحفظ کا خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ شہری حلقوں نے سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ کوئٹہ سمیت صوبے کے سرد علاقوں میں کم گیس پریشرکا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل کیاجائے تاکہ گیس صارفین کو مشکلات سے نجات حا صل ہو سکے۔
Load Next Story