دلیپ کمار
یہ دنیا کے واحد اداکارہیں کہ انھیں وہ نسل بھی پسند کرتی ہے جب وہ دنیا میں آئی تھی تووہ سلور اسکرین سے ناتا توڑچکے تھے۔
دنیا کی وسعتوں میں کھو گئے ہو تم
مٹی کے نرم بستر پر سو گئے ہو تم
وہ حسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں
ڈھونڈیں کہاں پردیس جو گئے ہو تم
خوب صورتی، ذہانت، صلاحیتوں سے مالا مال، احترام، سلیقہ، نیکی، رعب انڈو پاک کی پسندیدہ شخصیت اور دلوں کے ہیرو نیک سیرت ان سب خوبیوں کو یکجا کیا جائے تو ذہن کے نہاں خانوں میں ایک نام سورج اور چاند کی طرح چمکتا ہے، یوسف خان (دلیپ کمار)۔
یہ دنیا کے واحد اداکار ہیں کہ انھیں وہ نسل بھی پسند کرتی ہے جب وہ دنیا میں آئی تھی تو وہ سلور اسکرین سے ناتا توڑ چکے تھے۔ ان کے والد کا فروٹ کا کاروبار تھا جنھیں آغا جی کہتے تھے جو بہت خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ دلیپ نے ہمیشہ انڈسٹری میں اپنے کام کے پرچم کو بلند رکھا، تقسیم سے قبل پشاور میں ہندو آبادی کی اکثریت تھی انھوں نے جوانی اور گزرے دنوں کے حوالے سے آٹو بائیوگرافی لکھی تاکہ ان کے پرستاروں کو پتا چلے کہ وہ کن کن مراحل سے زندگی میں گزرے۔
یہ آٹو بائیوگرافی The Substance And the Shadow ۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے حوالے سے اورکچھ ذاتی باتیں لکھیں بچپن میں بہت زیادہ پڑھنے والا بچہ نہیں تھا ، میری دادی بہت نیک خاتون تھیں وہ پشاور کے شہر قصہ خوانی میں غریبوں کو پھل تقسیم کیا کرتی تھیں۔ میرے والد اور میرے دادا کے بال بہت خوبصورت تھے جو مجھے ورثے میں ملے میرے والد آغا جی اماں سے بہت محبت کرتے تھے جب بھی اماں کے لیے کوئی چیز لاتے اکثر اماں کے لیے نیا ڈوپٹہ ٹالکم پاؤڈر لاتے تو دادی کے ڈر کی وجہ سے اماں الماری میں چھپا دیتیں اور نکل جاتیں۔
ابا کے گہرے دوستوں میں راج کپور کے والد پرتھوی راج تھے ہماری سب سے بڑی بہن سکینہ آپا تھیں کبھی بھی آپا کی اور اماں کی نہیں بنی وہ ضدی طبیعت کی تھیں مجھ سے دو بڑے بھائی نور اور ایوب تھے ایوب بھائی ابا آغا جی اور اماں کے بہت لاڈلے تھے سیاسی حالات کی وجہ سے اور جنگ عظیم کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے 1930 میں دادی کے منع کرنے کے باوجود آغا جی ہمیں فرنٹیئر میل کے ذریعے بمبئی لائے۔ راستے میں جب گاڑی اسٹیشن پر رکتی تو چائے والے یہ آوازیں لگا رہے تھے۔ ہندو چائے ، ہندو پانی ، مسلم چائے ، مسلم پانی یعنی کھانا پینا بھی مذہب کے حساب سے فروخت ہو رہا تھا۔
بمبئی میں آغا جی نے ناگ دیوی اسٹریٹ چار منزلہ بلڈنگ کا آخری فلور کرایہ پر لیا چونکہ آغا جی کا فروٹ کا کاروبار قریب تھا اس لیے اس بلڈنگ میں رہنا پسند کیا گرمیوں کی ان دوپہروں کو کیسے نظراندازکرسکتا ہوں اس زمانے میں بجلی نہیں تھی ہاتھ سے ملازم پنکھا ٹاٹ کا چلاتے جو چھت سے لٹکایا جاتا تھا۔
اماں کو یہاں بہت مشکل پیش آئی کہ انھیں اردو ہندی نہیں آتی تھی وہ پشتو بولتی تھیں کچھ دنوں بعد انجمن اسلام ہائی اسکول میں مجھے داخل کرا دیا گیا پرائمری کی تعلیم کے بعد بمبئی سے 180 کلو میٹر دور '' دیولائی '' کے ایک بڑے انسٹی ٹیوشن بزنس اسکول میں داخل کروا دیا گیا وہاں تعلیم مکمل کرنے کا ایک فائدہ ہوا کہ میری انگریزی بہترین ہوگئی جو مستقبل میں میرے لیے لائق تحسین ثابت ہوئی اسکول کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا گھر سے کالج ٹرام میں جاتا تھا 31 مارچ 1964 میں بمبئی میں ٹرام بند ہوگئی اس وقت میرا شمار سپر اسٹار ہیروز میں ہوتا تھا۔
1948 میں میلہ ریلیز ہوئی یہ ابا آغا جی اور عمر چچا نے سینما ہاؤس میں دیکھی گھر آ کر مجھے بلایا اور کہا'' وہ لڑکی کون تھی ، جس نے تمہارے ساتھ کام کیا، لڑکی مجھے پسند آئی تم بھی اسے پسند کرتے ہو پتا بتاؤ میں تمہارا رشتہ لے کر جاتا ہوں'' فلم کی ہیروئن نرگس تھیں مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور آغا جی کو سمجھایا کہ وہ سب بناوٹی ماحول تھا۔ آغا جی نے پہلی مرتبہ فلم دیکھی تھی بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا کہ یہ معاملہ صرف فلم کی حد تک ہے تب جان چھوٹی نرگس کی ماں جدن بائی سے اماں کی بہت گہری دوستی ہوگئی میں ٹریجڈی رول کرکے واقعی زندگی میں اداس رہنے لگا۔
زندگی کے تمام عیش و آرام میری زندگی میں تھے میں طبیعت کی اداسی کے علاج کے لیے ڈاکٹر نکولس کے پاس گیا ، انھوں نے کہا کہ تم اب ٹریجڈی رولز کے بجائے کامیڈی کردار کرو تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ، غالباً انھوں نے میری نفسیاتی کیفیت کو سمجھ لیا تھا۔ دلیپ کمار بتاتے ہیں کہ میں نے ایس مکھرجی سے بات کی کہ میں کامیڈی رول کرنا چاہتا ہوں، وہ حیرت سے میری شکل دیکھ رہے تھے پھر میرے اصرار پر انھوں نے کہا کہ پرستار تمہیں کامیڈی میں قبول کرلیں گے اور یوں مجھے فلم ''آزاد'' میں کامیڈی رول میں کاسٹ کرلیا گیا۔
میں نے بہت محنت سے اس کیریکٹر کو کیا، فلم ریلیز ہوئی، آدھی رات کو وی وی پوری نے فون دہلی سے کیا کہ تمہاری فلم ''آزاد'' اسپرٹ ہوئی ہے، اس فلم میں میرے ساتھ مینا کماری تھیں پھر 1949 میں فلم ''شبنم'' نے مجھے کامیڈی ہیرو بھی تسلیم کروا دیا۔ فلم ''آزاد'' سپرہٹ ہوئی تو ذاتی گھر خریدا ، فلم ''شبنم'' ہٹ ہوئی تو کار خرید لی۔ اماں کی صحت گر رہی تھی اس لیے گھر کی دیکھ بھال سکینہ آپا کے سپرد ہوگئی ، آپا غصے کے حوالے سے دادی پر گئی تھیں۔ سکینہ آپا چاہتی تھیں کہ شادی دھوم دھام سے ہو مگر میں ایک اداکار تھا میرے بہت فین تھے 12 اکتوبر ہماری منگنی کا دن تھا اور 11 اکتوبر 1966 سارہ سے شادی مکمل ہوئی۔
شادی سے پہلے مہندی اور ہلدی کی رسمیں ہوئیں سارہ کی والدہ پری چہرہ نسیم ایک اچھی خاتون تھیں جو میری ساس تھیں سکینہ آپا غصے کی تیز اور ضدی تھیں انھوں نے تمام رسمیں شادی میں مکمل کیں۔ اخبارات کے مطابق انھیں دکھ صرف عاصمہ سے دوسری شادی کا تھا وہ بھی اولاد کی خاطر کی تھی۔ اب دلیپ کمار کہتے ہیں اس شادی سے سارہ کو بہت دکھ ہوا اور دکھ کی بات بھی تھی اور اس کے لیے میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کرسکا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دکھ موت کے ساتھ ختم ہوگا خیر میں نے عجلت کے اس فیصلے کو طلاق پر ختم کردیا۔
راقم الحروف کراچی کے اس وقت کے ایک بڑے اخبار سے ابو ظہبی کا نمایندہ تھا 1990 کی بات ہے۔ دبئی میں ایک بھارتی مسلمان رفیق بھائی بہت بڑے بزنس مین تھے انھوں نے مجھے رسالے ''شمع'' کی ایک خوبصورت تحریر پڑھنے کو دی ، جو دلیپ کمار کے حوالے سے تھی ، اسے لکھ رہا ہوں وہ دلیپ کمارکے ذاتی دوستوں میں تھے۔
مصر میں ایک فلم فیسٹیول تھا وہاں رچرڈ برٹن ، انتھونی کوئن ، گیلری پیک موجود تھے جب ہال میں دلیپ داخل ہوئے تو انتھونی کوئن نے انھیں اشارے سے بلایا اور طنز کرتے ہوئے کہا Are you Dilip Kumar کیا تم دلیپ کمار ہو؟ دلیپ کمار نے یہ الفاظ سنے اور پلٹ کر تین قدم چلے اور واپس پلٹے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور کہا Yes I am Dilip Kumar (جی میں دلیپ کمار ہوں) تو ان تینوں نے کھڑے ہوکر دلیپ کے ہاتھ چوم لیے۔
مٹی کے نرم بستر پر سو گئے ہو تم
وہ حسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں
ڈھونڈیں کہاں پردیس جو گئے ہو تم
خوب صورتی، ذہانت، صلاحیتوں سے مالا مال، احترام، سلیقہ، نیکی، رعب انڈو پاک کی پسندیدہ شخصیت اور دلوں کے ہیرو نیک سیرت ان سب خوبیوں کو یکجا کیا جائے تو ذہن کے نہاں خانوں میں ایک نام سورج اور چاند کی طرح چمکتا ہے، یوسف خان (دلیپ کمار)۔
یہ دنیا کے واحد اداکار ہیں کہ انھیں وہ نسل بھی پسند کرتی ہے جب وہ دنیا میں آئی تھی تو وہ سلور اسکرین سے ناتا توڑ چکے تھے۔ ان کے والد کا فروٹ کا کاروبار تھا جنھیں آغا جی کہتے تھے جو بہت خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ دلیپ نے ہمیشہ انڈسٹری میں اپنے کام کے پرچم کو بلند رکھا، تقسیم سے قبل پشاور میں ہندو آبادی کی اکثریت تھی انھوں نے جوانی اور گزرے دنوں کے حوالے سے آٹو بائیوگرافی لکھی تاکہ ان کے پرستاروں کو پتا چلے کہ وہ کن کن مراحل سے زندگی میں گزرے۔
یہ آٹو بائیوگرافی The Substance And the Shadow ۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے حوالے سے اورکچھ ذاتی باتیں لکھیں بچپن میں بہت زیادہ پڑھنے والا بچہ نہیں تھا ، میری دادی بہت نیک خاتون تھیں وہ پشاور کے شہر قصہ خوانی میں غریبوں کو پھل تقسیم کیا کرتی تھیں۔ میرے والد اور میرے دادا کے بال بہت خوبصورت تھے جو مجھے ورثے میں ملے میرے والد آغا جی اماں سے بہت محبت کرتے تھے جب بھی اماں کے لیے کوئی چیز لاتے اکثر اماں کے لیے نیا ڈوپٹہ ٹالکم پاؤڈر لاتے تو دادی کے ڈر کی وجہ سے اماں الماری میں چھپا دیتیں اور نکل جاتیں۔
ابا کے گہرے دوستوں میں راج کپور کے والد پرتھوی راج تھے ہماری سب سے بڑی بہن سکینہ آپا تھیں کبھی بھی آپا کی اور اماں کی نہیں بنی وہ ضدی طبیعت کی تھیں مجھ سے دو بڑے بھائی نور اور ایوب تھے ایوب بھائی ابا آغا جی اور اماں کے بہت لاڈلے تھے سیاسی حالات کی وجہ سے اور جنگ عظیم کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے 1930 میں دادی کے منع کرنے کے باوجود آغا جی ہمیں فرنٹیئر میل کے ذریعے بمبئی لائے۔ راستے میں جب گاڑی اسٹیشن پر رکتی تو چائے والے یہ آوازیں لگا رہے تھے۔ ہندو چائے ، ہندو پانی ، مسلم چائے ، مسلم پانی یعنی کھانا پینا بھی مذہب کے حساب سے فروخت ہو رہا تھا۔
بمبئی میں آغا جی نے ناگ دیوی اسٹریٹ چار منزلہ بلڈنگ کا آخری فلور کرایہ پر لیا چونکہ آغا جی کا فروٹ کا کاروبار قریب تھا اس لیے اس بلڈنگ میں رہنا پسند کیا گرمیوں کی ان دوپہروں کو کیسے نظراندازکرسکتا ہوں اس زمانے میں بجلی نہیں تھی ہاتھ سے ملازم پنکھا ٹاٹ کا چلاتے جو چھت سے لٹکایا جاتا تھا۔
اماں کو یہاں بہت مشکل پیش آئی کہ انھیں اردو ہندی نہیں آتی تھی وہ پشتو بولتی تھیں کچھ دنوں بعد انجمن اسلام ہائی اسکول میں مجھے داخل کرا دیا گیا پرائمری کی تعلیم کے بعد بمبئی سے 180 کلو میٹر دور '' دیولائی '' کے ایک بڑے انسٹی ٹیوشن بزنس اسکول میں داخل کروا دیا گیا وہاں تعلیم مکمل کرنے کا ایک فائدہ ہوا کہ میری انگریزی بہترین ہوگئی جو مستقبل میں میرے لیے لائق تحسین ثابت ہوئی اسکول کے بعد کالج میں داخلہ لے لیا گھر سے کالج ٹرام میں جاتا تھا 31 مارچ 1964 میں بمبئی میں ٹرام بند ہوگئی اس وقت میرا شمار سپر اسٹار ہیروز میں ہوتا تھا۔
1948 میں میلہ ریلیز ہوئی یہ ابا آغا جی اور عمر چچا نے سینما ہاؤس میں دیکھی گھر آ کر مجھے بلایا اور کہا'' وہ لڑکی کون تھی ، جس نے تمہارے ساتھ کام کیا، لڑکی مجھے پسند آئی تم بھی اسے پسند کرتے ہو پتا بتاؤ میں تمہارا رشتہ لے کر جاتا ہوں'' فلم کی ہیروئن نرگس تھیں مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور آغا جی کو سمجھایا کہ وہ سب بناوٹی ماحول تھا۔ آغا جی نے پہلی مرتبہ فلم دیکھی تھی بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا کہ یہ معاملہ صرف فلم کی حد تک ہے تب جان چھوٹی نرگس کی ماں جدن بائی سے اماں کی بہت گہری دوستی ہوگئی میں ٹریجڈی رول کرکے واقعی زندگی میں اداس رہنے لگا۔
زندگی کے تمام عیش و آرام میری زندگی میں تھے میں طبیعت کی اداسی کے علاج کے لیے ڈاکٹر نکولس کے پاس گیا ، انھوں نے کہا کہ تم اب ٹریجڈی رولز کے بجائے کامیڈی کردار کرو تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ، غالباً انھوں نے میری نفسیاتی کیفیت کو سمجھ لیا تھا۔ دلیپ کمار بتاتے ہیں کہ میں نے ایس مکھرجی سے بات کی کہ میں کامیڈی رول کرنا چاہتا ہوں، وہ حیرت سے میری شکل دیکھ رہے تھے پھر میرے اصرار پر انھوں نے کہا کہ پرستار تمہیں کامیڈی میں قبول کرلیں گے اور یوں مجھے فلم ''آزاد'' میں کامیڈی رول میں کاسٹ کرلیا گیا۔
میں نے بہت محنت سے اس کیریکٹر کو کیا، فلم ریلیز ہوئی، آدھی رات کو وی وی پوری نے فون دہلی سے کیا کہ تمہاری فلم ''آزاد'' اسپرٹ ہوئی ہے، اس فلم میں میرے ساتھ مینا کماری تھیں پھر 1949 میں فلم ''شبنم'' نے مجھے کامیڈی ہیرو بھی تسلیم کروا دیا۔ فلم ''آزاد'' سپرہٹ ہوئی تو ذاتی گھر خریدا ، فلم ''شبنم'' ہٹ ہوئی تو کار خرید لی۔ اماں کی صحت گر رہی تھی اس لیے گھر کی دیکھ بھال سکینہ آپا کے سپرد ہوگئی ، آپا غصے کے حوالے سے دادی پر گئی تھیں۔ سکینہ آپا چاہتی تھیں کہ شادی دھوم دھام سے ہو مگر میں ایک اداکار تھا میرے بہت فین تھے 12 اکتوبر ہماری منگنی کا دن تھا اور 11 اکتوبر 1966 سارہ سے شادی مکمل ہوئی۔
شادی سے پہلے مہندی اور ہلدی کی رسمیں ہوئیں سارہ کی والدہ پری چہرہ نسیم ایک اچھی خاتون تھیں جو میری ساس تھیں سکینہ آپا غصے کی تیز اور ضدی تھیں انھوں نے تمام رسمیں شادی میں مکمل کیں۔ اخبارات کے مطابق انھیں دکھ صرف عاصمہ سے دوسری شادی کا تھا وہ بھی اولاد کی خاطر کی تھی۔ اب دلیپ کمار کہتے ہیں اس شادی سے سارہ کو بہت دکھ ہوا اور دکھ کی بات بھی تھی اور اس کے لیے میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کرسکا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دکھ موت کے ساتھ ختم ہوگا خیر میں نے عجلت کے اس فیصلے کو طلاق پر ختم کردیا۔
راقم الحروف کراچی کے اس وقت کے ایک بڑے اخبار سے ابو ظہبی کا نمایندہ تھا 1990 کی بات ہے۔ دبئی میں ایک بھارتی مسلمان رفیق بھائی بہت بڑے بزنس مین تھے انھوں نے مجھے رسالے ''شمع'' کی ایک خوبصورت تحریر پڑھنے کو دی ، جو دلیپ کمار کے حوالے سے تھی ، اسے لکھ رہا ہوں وہ دلیپ کمارکے ذاتی دوستوں میں تھے۔
مصر میں ایک فلم فیسٹیول تھا وہاں رچرڈ برٹن ، انتھونی کوئن ، گیلری پیک موجود تھے جب ہال میں دلیپ داخل ہوئے تو انتھونی کوئن نے انھیں اشارے سے بلایا اور طنز کرتے ہوئے کہا Are you Dilip Kumar کیا تم دلیپ کمار ہو؟ دلیپ کمار نے یہ الفاظ سنے اور پلٹ کر تین قدم چلے اور واپس پلٹے تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور کہا Yes I am Dilip Kumar (جی میں دلیپ کمار ہوں) تو ان تینوں نے کھڑے ہوکر دلیپ کے ہاتھ چوم لیے۔