حکومت اور عوام کی قربانی
حکومت نے عوامی قربانی کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت میں تقریباً دس روپے فی لٹر اضافہ کردیا ہے
جب انسان اپنے ہی حق کےلیے بھی آواز اٹھانا چھوڑ دے تو وہ انسان کے مرتبے سے گر جاتا ہے۔ وہ انسانوں کا اجتماع نہیں بلکہ شطرنج کے ان مہروں جیسا ہوجاتا ہے جس کو کوئی بھی طاقتور جہاں چاہے اٹھا کر رکھ دے۔
پاکستان جو کہ ایک زندہ دل قوم نے بسایا تھا، آج یہاں پیٹ کے پجاریوں کا ڈیرہ ہے اور ناانصافی و ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں کہ موت کا خوف ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپتی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کےلیے عوام کو استعمال کرتی ہیں۔ مطلب نکلتے ہی کیچڑ سمجھ کر اپنے پائنچے اونچے کرلیتے ہیں اور عوام کو ان کے مخالف استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اتنے بے حس عوام کہ ہر ظلم کو ایک خبر سے زیادہ کی اہمیت ہی نہیں دیتے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ انہیں اسی کی امید تھی جو کہ بر آئی۔
بجٹ میں دی گئی عوامی خوشخبریاں میں پہلے ہی آپ کے گوش گزار کرچکا ہوں اور ابھی سے ہی اس کے آفٹرشاکس آنا شروع ہوگئے کہ آٹا، چینی، آئل اور بجلی مہنگی ہونے کے بعد جیسا کہ عید قرباں نزدیک ہے تو حکومت نے عوامی قربانی کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کے دوران تقریباً دس روپے فی لٹر پٹرول میں اضافہ کردیا اور پھر بھی حکومت کا احسان ہے کہ عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر دفعہ پیش کی گئی سمری سے آدھی قیمت ہی بڑھائی۔ ویسے بھی پٹرول کی قیمت بڑھنے سے وزیراعظم کو فرق نہیں پڑتا کیوں کہ حسب وعدہ وہ تو سائیکل پر سوار ہوکر دفتر جاتے ہیں۔ لیکن مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد عوام ضرور سائیکل پر آجائے گی۔ یہ تو ہم جیسے کچھ قدامت پسند لوگ ہیں جو کہ بول پڑتے ہیں، ورنہ اکثر لوگوں کا پیٹ تو وزیراعظم کے جلوؤں کے ساتھ ان کی تقریر کے الفاظ سے ہی بھر جاتا ہے اور انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
جب کوئی فریاد ہی نہیں کرتا تو پھر حکمران یہی کہتے ہوئے ہی نظر آئیں گے ناں کہ ہمارے ملک میں کوئی غریب ہے ہی نہیں، اگر ہے تو دکھائیں؟ کوئی کچا گھر ہے ہی نہیں؟ عوام کے پاس پیسہ ہی بہت ہے، اسی لیے تو گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ باقی مہنگائی تو اپوزیشن کا بنایا ہوا ڈرامہ ہے، ورنہ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔
مگر مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں موجود ناسور ملک کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کیے جارہا ہے اور اپوزیشن مظلوم بیوہ کی طرح اپنی دہائیاں دینے پر لگی ہے کہ ہائے ہم مر گئے۔ عوام نشے کی سی حالت میں ہیں جنہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اپنا اور اپنے بچوں کےلیے روزی روٹی کہاں سے کمائیں۔ بھوک ایک ایسی بیماری ہے جو کسی معاشرے میں پیدا ہوجائے تو وہ معاشرہ کھنڈر بن جاتا ہے، جو انسان کو درندہ بننے پر مجبور کردیتی ہے اور جتنی تیزی سے یہ بیماری ہمارے ملک میں بڑھتی جارہی ہے وہ مستقبل کےلیے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔
بہرحال عوام کو عید پر قربانی مبارک ہو اور آگے سے عالمی مالیاتی ادارے کے ایما پر ہونے والے جھٹکوں کے لیے بھی تیار رہیے کہ ان سے عید پر کھائے جانے والے گوشت کے ہاضمے میں مدد ملے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان جو کہ ایک زندہ دل قوم نے بسایا تھا، آج یہاں پیٹ کے پجاریوں کا ڈیرہ ہے اور ناانصافی و ظلم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں کہ موت کا خوف ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپتی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کےلیے عوام کو استعمال کرتی ہیں۔ مطلب نکلتے ہی کیچڑ سمجھ کر اپنے پائنچے اونچے کرلیتے ہیں اور عوام کو ان کے مخالف استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اتنے بے حس عوام کہ ہر ظلم کو ایک خبر سے زیادہ کی اہمیت ہی نہیں دیتے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں بلکہ انہیں اسی کی امید تھی جو کہ بر آئی۔
بجٹ میں دی گئی عوامی خوشخبریاں میں پہلے ہی آپ کے گوش گزار کرچکا ہوں اور ابھی سے ہی اس کے آفٹرشاکس آنا شروع ہوگئے کہ آٹا، چینی، آئل اور بجلی مہنگی ہونے کے بعد جیسا کہ عید قرباں نزدیک ہے تو حکومت نے عوامی قربانی کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کے دوران تقریباً دس روپے فی لٹر پٹرول میں اضافہ کردیا اور پھر بھی حکومت کا احسان ہے کہ عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر دفعہ پیش کی گئی سمری سے آدھی قیمت ہی بڑھائی۔ ویسے بھی پٹرول کی قیمت بڑھنے سے وزیراعظم کو فرق نہیں پڑتا کیوں کہ حسب وعدہ وہ تو سائیکل پر سوار ہوکر دفتر جاتے ہیں۔ لیکن مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد عوام ضرور سائیکل پر آجائے گی۔ یہ تو ہم جیسے کچھ قدامت پسند لوگ ہیں جو کہ بول پڑتے ہیں، ورنہ اکثر لوگوں کا پیٹ تو وزیراعظم کے جلوؤں کے ساتھ ان کی تقریر کے الفاظ سے ہی بھر جاتا ہے اور انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
جب کوئی فریاد ہی نہیں کرتا تو پھر حکمران یہی کہتے ہوئے ہی نظر آئیں گے ناں کہ ہمارے ملک میں کوئی غریب ہے ہی نہیں، اگر ہے تو دکھائیں؟ کوئی کچا گھر ہے ہی نہیں؟ عوام کے پاس پیسہ ہی بہت ہے، اسی لیے تو گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ باقی مہنگائی تو اپوزیشن کا بنایا ہوا ڈرامہ ہے، ورنہ ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔
مگر مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ حکومت میں موجود ناسور ملک کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کیے جارہا ہے اور اپوزیشن مظلوم بیوہ کی طرح اپنی دہائیاں دینے پر لگی ہے کہ ہائے ہم مر گئے۔ عوام نشے کی سی حالت میں ہیں جنہیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اپنا اور اپنے بچوں کےلیے روزی روٹی کہاں سے کمائیں۔ بھوک ایک ایسی بیماری ہے جو کسی معاشرے میں پیدا ہوجائے تو وہ معاشرہ کھنڈر بن جاتا ہے، جو انسان کو درندہ بننے پر مجبور کردیتی ہے اور جتنی تیزی سے یہ بیماری ہمارے ملک میں بڑھتی جارہی ہے وہ مستقبل کےلیے ایک خطرہ بن سکتی ہے۔
بہرحال عوام کو عید پر قربانی مبارک ہو اور آگے سے عالمی مالیاتی ادارے کے ایما پر ہونے والے جھٹکوں کے لیے بھی تیار رہیے کہ ان سے عید پر کھائے جانے والے گوشت کے ہاضمے میں مدد ملے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔