اقتدار کی مجبوریاں
یہ کتاب اس خطے میں امریکا کے جارحانہ عزائم اور ان کو حاصل کرنے کی حکمت عملی کو بھی آشکار کرتی ہے۔
چند ہفتے پہلے کتابوں کی دنیا میں ایک تہلکہ خیز کتاب ''اقتدار کی مجبوریاں'' کے عنوان سے مارکیٹ میں آئی ہے۔کرنل اشفاق حسین کی تحریر کردہ یہ کتاب دراصل پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات ہے۔
اس کتاب نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کے کئی پوشیدہ رازوں کا پردہ اٹھایا ہے۔ بقول مصنف ،''یہ کتاب جنرل بیگ کی مخصوص سوچ و فکر اور ان کے ایمان و ایقان کی دلچسپ داستان ہے''۔ جنرل اسلم بیگ ایک صوبیدار میجر کے بیٹے ہیں۔ ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے پہلے آرمی چیف ہیں جن کی تربیت پی ایم اے میں ہوئی، ان سے پہلے تمام آرمی سربراہ برطانیہ کی رائل اکیڈمی سینڈہرسٹ کے تربیت یافتہ تھے۔
جنرل اسلم بیگ نے اس کتاب میں خود تحریر کیا ہے کہ اس کتاب کے عنوان ''اقتدار کی مجبوریاں''میں ایک پوشیدہ پیغام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو اقتدار اس حد تک بے بس کر دیتا ہے کہ وہ قومی غیرت کو بھی دا پر لگا دیتے ہیں۔جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ جب اس کتاب کے عنوان کو تلاش کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں سابق صدر جنرل محمد ضیا الحق کے یہ الفاظ بارہا گونجتے کہ ''اقتدار کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں''۔
جنرل بیگ نے اس کتاب میں ان مجبوریوں کا ذکر اس طرح کیا ہے۔ جنرل ایوب خان کی مجبوری تھی کہ انھوں نے اقتدار جنرل یحییٰ کے حوالے کر دیا۔ جنرل یحییٰ کی مجبوری تھی کہ وہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کر کے اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے۔ جنرل ضیاالحق کی مجبوری تھی کہ انھوں نے اپنے وعدے کے خلاف بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط کر دیے۔ جنرل پرویز مشرف کی مجبوری تھی کہ وہ غیروں کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے۔
جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ اقتدار کی ہوس میں ہمارے ارباب فکر ونظر اندیشہ سود و زیاں کے تحت اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ حکمرانوں کوٹوکتے نہیں۔یہ ہمارا المیہ ہے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ میرے علم ( یعنی اسلم بیگ) کی حد تک سچ اور صرف سچ پر مبنی ہے اور سچائی کی وجہ سے میں نے کئی بار نقصان بھی اٹھایا۔بھٹو کی پھانسی کے پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے جنرل بیگ کہتے ہیں، پھانسی کی سزا دینے سے پہلے جنرل ضیا الحق نے آفیسرز اور جوانوں کا ردعمل معلوم کرنے کے لیے تمام کور کمانڈرز کو جائزہ لینے کا کہا۔
کور کمانڈروں کے اجلاس میں، میں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو پھانسی دینا نہایت ہی غلط فیصلہ ہوگا۔ اس کے نتائج سنگین ہوں گے، ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو گی جنھیں سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اس سے پنجاب اور سندھ کے لوگوں کے درمیان نفرتیں بڑھیں گی۔ بہتر ہوگا کہ بھٹو کو جلاوطن کر دیا جائے۔ان کے مطابق فلسطین کے یاسر عرفات، سعودی عرب کے شاہ فیصل ، لیبیا کے کرنل قذافی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران یہ ذمے داری لینے کے لیے تیار تھے۔ میری اس بات سے کورکمانڈر ناراض ہوگئے۔ کانفرنس ختم کردی گئی۔ میری رائے چیف تک پہنچا دی گئی۔ میں انتظار میں تھا کہ میرے ساتھ اب کیا ہوگا۔ لیکن کوئی رد عمل سامنے نہ آیا۔ مجھے اس وقت بڑی حیرانی ہوئی جب چند روز بعد مجھے چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کر دیا گیا۔
جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ '' جنرل ضیا الحق نپولین جیسی فہم و فراست کے مالک تھے جو تنقید کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے، وہ بے لاگ ، مخلصانہ اور حقیقت پسندانہ رائے سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔''
اسلم بیگ صدر جنرل محمد ضیا الحق کے سیاسی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضیا الحق نے ملک کے لیے نیا سیاسی نظام تشکیل دینے کا ارادہ کیا، ان کی حکومت کو نو سال ہو چکے تھے۔ مجھے اور جنرل حمید گل کو یہ ذمے داری دی گئی کہ ہم تفصیلی جائزہ لینے کے بعد رپورٹ پیش کریں۔ہماری سفارشات پڑھنے کے بعد ضیا الحق نے بحث کے لیے ہمیں بلایا۔ ہماری رائے تھی کہ ''اب وقت آگیا ہے کہ صاف ستھرے الیکشن کرا کے اقتدار عوامی نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے، اس سے قوم آپ کواچھے الفاظ سے یاد رکھے گی''۔ ضیا الحق کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے،''چاہتے ہو کہ پھانسی کا پھندا میرے گلے میں ہو''۔
میں نے کچھ معروضات پیش کرنا چاہیں لیکن اجازت نہ ملی۔ ہم خاموش ہوگئے۔جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرا دیے اور محمد خان جونیجو کی حکومت قائم ہوگئی۔
افغان مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے جنرل اسلم بیگ اس کتاب میں کہتے ہیں۔ سوویت یونین کی دائمی خواہش تھی کہ وہ افغانستان کے ذریعے ، پاکستان کے راستے گوادر کے گرم پانیوں تک پہنچے۔دوسری طرف امریکی گیم پلان تھا کہ وہ یوریشیا پر کنٹرول حاصل کرے تاکہ پوری دنیا اس کی دسترس میں ہو۔ امریکا کو اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے افغانستان کی ضرورت تھی۔
افغانستان میں امریکا اور سوویت یونین کی اس متصادم پالیسی میں پاکستان نے امریکی جارحیت کا ساتھ دیا۔اس جنگ کی اصل قوت افغانستان اور پاکستان کے پختونوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ستر ممالک سے آئے ہوئے سرفروش جہادی تھے جنھوں نے سوویت یونین کو شکست دی ۔دس سال کی طویل جنگ کے بعد روس کو احساس ہوا کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا، بالآخر روس بے بس ہو گیا اور اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور ہوا۔افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد امریکا نے بھارت کے ساتھ مل کر چین کا گھراؤ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عمل میں پاکستان کو بھی دباؤ کا شکار کیاَ۔
دوسری طرف افغان قوم اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔امریکا نے افغانستان پر کنٹرول کرنے کے لیے طالبان پر تمام حربے استعمال کیے لیکن وہ اپنے موقف سے نہ ہٹے۔ طالبان کا موقف تھا کہ امریکا افغانستان سے نکل جائے اور افغانی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔امریکا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود افغان نوجوان قیادت کو زیر نہ کرسکا ۔امریکا نے یوٹرن لیا اور طالبان کو دہشت گرد قرار دینا شروع کر دیا۔ جنرل اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان کی اجتماعی مدافعتی قو ت کا نام ہے جس کے سامنے دنیا کی دو سپر پاور شکست کھا چکی ہیں۔
کرنل اشفاق حسین کی کتاب''اقتدار کی مجبوریاں ''ایک ایسی کتاب ہے جو افغانستان میں روس اور امریکا کی شکست اور افغانستان کی اصل صورت حال کو سمجھنے کے لیے ایک اھم تاریخی دستاویز ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں جنرل محمد ضیاالحق کے C-130 جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہونے کے حوالے سے اسلم بیگ کا نقطہ نظر واضح طور پر بیان کیا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف الزامات کی نوعیت کا تذکرہ بھی ہے۔کتاب میں پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں کی نوعیت کا بھی کھل کر اظہار کیا گیا ہے۔یہ کتاب پاکستان کو درپیش مسلوں سے نکلنے کے لیے پاکستان کے ممکنہ راستے بھی تجویز کرتی ہے۔ انشااﷲ اگلے کالم میں اس کا ذکر ہوگا۔
یہ کتاب اس خطے میں امریکا کے جارحانہ عزائم اور ان کو حاصل کرنے کی حکمت عملی کو بھی آشکار کرتی ہے، بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے اسکالرز اور خصوصا جنوبی ایشیا اور یوریشیا پر تحقیق کرنے والوں کو نئی جہتیں فراہم کرتی ہے، پاکستان کی سیاسی اور عسکری قوتوں کی سوچ اور فکر کا جائزہ لینے والے طالب علموں اور تجزیہ نگاروں کے لیے سوچ کے کئی نئے زاویہ کھولتی ہے۔
اس کتاب نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کے کئی پوشیدہ رازوں کا پردہ اٹھایا ہے۔ بقول مصنف ،''یہ کتاب جنرل بیگ کی مخصوص سوچ و فکر اور ان کے ایمان و ایقان کی دلچسپ داستان ہے''۔ جنرل اسلم بیگ ایک صوبیدار میجر کے بیٹے ہیں۔ ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے پہلے آرمی چیف ہیں جن کی تربیت پی ایم اے میں ہوئی، ان سے پہلے تمام آرمی سربراہ برطانیہ کی رائل اکیڈمی سینڈہرسٹ کے تربیت یافتہ تھے۔
جنرل اسلم بیگ نے اس کتاب میں خود تحریر کیا ہے کہ اس کتاب کے عنوان ''اقتدار کی مجبوریاں''میں ایک پوشیدہ پیغام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمرانوں کو اقتدار اس حد تک بے بس کر دیتا ہے کہ وہ قومی غیرت کو بھی دا پر لگا دیتے ہیں۔جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ جب اس کتاب کے عنوان کو تلاش کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں سابق صدر جنرل محمد ضیا الحق کے یہ الفاظ بارہا گونجتے کہ ''اقتدار کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں''۔
جنرل بیگ نے اس کتاب میں ان مجبوریوں کا ذکر اس طرح کیا ہے۔ جنرل ایوب خان کی مجبوری تھی کہ انھوں نے اقتدار جنرل یحییٰ کے حوالے کر دیا۔ جنرل یحییٰ کی مجبوری تھی کہ وہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کر کے اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے۔ جنرل ضیاالحق کی مجبوری تھی کہ انھوں نے اپنے وعدے کے خلاف بھٹو کی موت کے پروانے پر دستخط کر دیے۔ جنرل پرویز مشرف کی مجبوری تھی کہ وہ غیروں کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے۔
جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ اقتدار کی ہوس میں ہمارے ارباب فکر ونظر اندیشہ سود و زیاں کے تحت اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ حکمرانوں کوٹوکتے نہیں۔یہ ہمارا المیہ ہے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ میرے علم ( یعنی اسلم بیگ) کی حد تک سچ اور صرف سچ پر مبنی ہے اور سچائی کی وجہ سے میں نے کئی بار نقصان بھی اٹھایا۔بھٹو کی پھانسی کے پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے جنرل بیگ کہتے ہیں، پھانسی کی سزا دینے سے پہلے جنرل ضیا الحق نے آفیسرز اور جوانوں کا ردعمل معلوم کرنے کے لیے تمام کور کمانڈرز کو جائزہ لینے کا کہا۔
کور کمانڈروں کے اجلاس میں، میں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو پھانسی دینا نہایت ہی غلط فیصلہ ہوگا۔ اس کے نتائج سنگین ہوں گے، ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو گی جنھیں سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اس سے پنجاب اور سندھ کے لوگوں کے درمیان نفرتیں بڑھیں گی۔ بہتر ہوگا کہ بھٹو کو جلاوطن کر دیا جائے۔ان کے مطابق فلسطین کے یاسر عرفات، سعودی عرب کے شاہ فیصل ، لیبیا کے کرنل قذافی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران یہ ذمے داری لینے کے لیے تیار تھے۔ میری اس بات سے کورکمانڈر ناراض ہوگئے۔ کانفرنس ختم کردی گئی۔ میری رائے چیف تک پہنچا دی گئی۔ میں انتظار میں تھا کہ میرے ساتھ اب کیا ہوگا۔ لیکن کوئی رد عمل سامنے نہ آیا۔ مجھے اس وقت بڑی حیرانی ہوئی جب چند روز بعد مجھے چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کر دیا گیا۔
جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ '' جنرل ضیا الحق نپولین جیسی فہم و فراست کے مالک تھے جو تنقید کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھتے تھے، وہ بے لاگ ، مخلصانہ اور حقیقت پسندانہ رائے سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔''
اسلم بیگ صدر جنرل محمد ضیا الحق کے سیاسی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضیا الحق نے ملک کے لیے نیا سیاسی نظام تشکیل دینے کا ارادہ کیا، ان کی حکومت کو نو سال ہو چکے تھے۔ مجھے اور جنرل حمید گل کو یہ ذمے داری دی گئی کہ ہم تفصیلی جائزہ لینے کے بعد رپورٹ پیش کریں۔ہماری سفارشات پڑھنے کے بعد ضیا الحق نے بحث کے لیے ہمیں بلایا۔ ہماری رائے تھی کہ ''اب وقت آگیا ہے کہ صاف ستھرے الیکشن کرا کے اقتدار عوامی نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے، اس سے قوم آپ کواچھے الفاظ سے یاد رکھے گی''۔ ضیا الحق کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے،''چاہتے ہو کہ پھانسی کا پھندا میرے گلے میں ہو''۔
میں نے کچھ معروضات پیش کرنا چاہیں لیکن اجازت نہ ملی۔ ہم خاموش ہوگئے۔جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرا دیے اور محمد خان جونیجو کی حکومت قائم ہوگئی۔
افغان مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے جنرل اسلم بیگ اس کتاب میں کہتے ہیں۔ سوویت یونین کی دائمی خواہش تھی کہ وہ افغانستان کے ذریعے ، پاکستان کے راستے گوادر کے گرم پانیوں تک پہنچے۔دوسری طرف امریکی گیم پلان تھا کہ وہ یوریشیا پر کنٹرول حاصل کرے تاکہ پوری دنیا اس کی دسترس میں ہو۔ امریکا کو اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے افغانستان کی ضرورت تھی۔
افغانستان میں امریکا اور سوویت یونین کی اس متصادم پالیسی میں پاکستان نے امریکی جارحیت کا ساتھ دیا۔اس جنگ کی اصل قوت افغانستان اور پاکستان کے پختونوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ستر ممالک سے آئے ہوئے سرفروش جہادی تھے جنھوں نے سوویت یونین کو شکست دی ۔دس سال کی طویل جنگ کے بعد روس کو احساس ہوا کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا، بالآخر روس بے بس ہو گیا اور اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور ہوا۔افغانستان سے روس کے نکلنے کے بعد امریکا نے بھارت کے ساتھ مل کر چین کا گھراؤ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس عمل میں پاکستان کو بھی دباؤ کا شکار کیاَ۔
دوسری طرف افغان قوم اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔امریکا نے افغانستان پر کنٹرول کرنے کے لیے طالبان پر تمام حربے استعمال کیے لیکن وہ اپنے موقف سے نہ ہٹے۔ طالبان کا موقف تھا کہ امریکا افغانستان سے نکل جائے اور افغانی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔امریکا اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود افغان نوجوان قیادت کو زیر نہ کرسکا ۔امریکا نے یوٹرن لیا اور طالبان کو دہشت گرد قرار دینا شروع کر دیا۔ جنرل اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان کی اجتماعی مدافعتی قو ت کا نام ہے جس کے سامنے دنیا کی دو سپر پاور شکست کھا چکی ہیں۔
کرنل اشفاق حسین کی کتاب''اقتدار کی مجبوریاں ''ایک ایسی کتاب ہے جو افغانستان میں روس اور امریکا کی شکست اور افغانستان کی اصل صورت حال کو سمجھنے کے لیے ایک اھم تاریخی دستاویز ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں جنرل محمد ضیاالحق کے C-130 جہاز کے حادثے میں جاں بحق ہونے کے حوالے سے اسلم بیگ کا نقطہ نظر واضح طور پر بیان کیا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف الزامات کی نوعیت کا تذکرہ بھی ہے۔کتاب میں پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں کی نوعیت کا بھی کھل کر اظہار کیا گیا ہے۔یہ کتاب پاکستان کو درپیش مسلوں سے نکلنے کے لیے پاکستان کے ممکنہ راستے بھی تجویز کرتی ہے۔ انشااﷲ اگلے کالم میں اس کا ذکر ہوگا۔
یہ کتاب اس خطے میں امریکا کے جارحانہ عزائم اور ان کو حاصل کرنے کی حکمت عملی کو بھی آشکار کرتی ہے، بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے اسکالرز اور خصوصا جنوبی ایشیا اور یوریشیا پر تحقیق کرنے والوں کو نئی جہتیں فراہم کرتی ہے، پاکستان کی سیاسی اور عسکری قوتوں کی سوچ اور فکر کا جائزہ لینے والے طالب علموں اور تجزیہ نگاروں کے لیے سوچ کے کئی نئے زاویہ کھولتی ہے۔