پنشنرز کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک
گستاخی معاف پنشن ہر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا حق ہے، یہ کوئی صدقہ، خیرات یا زکوٰۃ نہیں ہے۔
جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ، تب سے سرکاری ملازمین معاشی مشکلات سے دوچار ہیں۔ روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بے چاروں کا جینا حرام کر دیا ہے ، ہر چیزکو جیسے پَر لگ گئے ہوں ہر چیز مہنگی ہوگئی اور قوت خرید جواب دے گئی۔ پہلا بجٹ آیا اس کے بعد دوسرا اور یہی سلسلہ جاری رہا۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہوئی کہ دواؤں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔
تنگ آمد بجنگ آمد چار و ناچار احتجاج اور مظاہروں کا سہارا لینا پڑا۔ حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔ دوسری جانب سرکاری ملازمین متحد تھے ان کے اتحاد کو توڑنے کی کوششیں ناکام ہونے کے باعث حکومت کو مجبوراً ان کے آگے جھکنا پڑا اور عافیت یہ ہوئی کہ مذاکرات پر آمادگی ہوگئی۔ آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے Disparity الاؤنس دینے پر رضا مندی ظاہر کردی اس الاؤنس کے ذریعے قیمتوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی شرح دس پندرہ رکھی گئی طے یہ پایا کہ وفاقی بجٹ برائے سال 2022-2020 تک اسی الاؤنس پر گزارا کیا جائے۔
چنانچہ بجٹ پیش ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہا اور بجٹ میں دس فیصد اضافے کے بعد مجموعی اضافہ پچیس فیصد تک پہنچ گیا جس سے سرکاری ملازمین کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہوگئی حالانکہ اشیائے ضرورت کی قیمتوںمیں اضافہ اس سے کئی گنا زیادہ تھا، بہرحال سرکاری ملازمین نے اسے غنیمت جان کر قبول کرلیا کیونکہ کچھ بھی نہ ملنے سے کچھ مل جانا بہتر تھا، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ صرف اضافے کو حاضر سروس ملازمین تک ہی محدود رکھا گیا اور بے چارے ریٹائرڈ ملازمین کو اس رعایت سے قطعی محروم رکھا گیا جوکہ امتیازی ہے سراسر ناانصافی کے مترادف ہے۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ پنشن پر گزارا کرنے والے سرکاری ملازمین کوئی نچلے درجے کی مخلوق ہیں، اس امتیازی سلوک کا کوئی جواز نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پنشنرز اس ہوش ربا مہنگائی سے بچے ہوئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے بے چارے ضعیفی کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ بڑھاپا سو بیماریوں کی جڑ ہے اس لیے ان کی پنشن کا کافی بڑا حصہ دواؤں کی خریداری کی نذر ہو جاتا ہے۔ انسان کھانا چھوڑ سکتا ہے لیکن علاج کے لیے دوا خریدنا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ جان ہے تو جہان ہے چنانچہ پنشن میں اضافہ ان کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے پنشن پر گزارا کرنے والے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اس پنشن میں اضافہ لازمی تھا۔
سچ پوچھیں تو یہ اضافہ حاضر سروس ملازمین کو دیے جانے والے اضافے سے کم سے کم دگنا ہونا چاہیے تھا۔ انصاف کا یہی تقاضا ہے لیکن ستم بالائے ستم پنشنرز کو Disparity الاؤنس سے سراسر محروم کردیا گیا۔ گویا جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات پنشنرز کے ساتھ یہ امتیازی سلوک نہ صرف قطعی غیر انسانی ہے بلکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25کی خلاف ورزی کے مترادف بھی ہے جو برابر کی ضمانت دیتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو حاضر سروس ملازمین کو دی جانے والی یہ سہولت واپس لے لی جائے یا پھر پنشنرز کو بھی یہ سہولت برابری کی بنیاد پر بلاتاخیر اور بلا امتیاز دی جائے۔ ہماری گزارش ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا ازخود نوٹس لے اور بے کس و لاچار پنشنرز کو بھی انصاف دیا جائے۔
گستاخی معاف پنشن ہر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا حق ہے، یہ کوئی صدقہ، خیرات یا زکوٰۃ نہیں ہے اور پنشنرز کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک سراسر زیادتی اور کھلی ناانصافی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ ناانصافی اس سیاسی جماعت کی حکومت کر رہی ہے جس کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے یہ تو وہی ہوا کہ گھی کی دکان پر سائن بورڈ تو لکھا ہوا ہے کہ یہاں خالص دیسی گھی فروخت کیا جاتا ہے اور عملاً بناسپتی گھی فروخت کیا جا رہا ہو، قول اور فعل کا یہ کھلا تضاد پارٹی کے ہرگز شایان شان نہیں ہے۔
ہو یہ رہا ہے کہ بین الاقوامی ساہوکار کے ہاتھوں میں کھیلا جا رہا ہے اور ڈکٹیشن دیا جا رہا ہے اس پر یاد آیا کہ:
فقرو تد فروختاً چہ ارضاں فروختاً
ماضی کے حکمرانوں نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو چلے ہوئے کارتوس سمجھ کر انھیں کوئی اہمیت نہیں دی لیکن حاضر سروس ملازمین کا بھی اس میں کچھ کم دوش نہیں انھوں نے اپنے سابقین کے مفاد کو بھی مد نظر نہیں رکھا اور محض اپنے مطالبات منظور کروا کر مطمئن ہو گئے۔
انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب ریٹائرڈ ہو کر یہ بھی اسی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ پنشنرز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی نہ کوئی یونین ہے اور نہ اتحاد اس لیے ان کی کوئی آواز نہیں، اب ان کے پاس اس کے دو ہی راستے باقی رہ گئے ہیں، ایک راستہ یہ ہے کہ یہ اپنے حق کے لیے اتحاد قائم کریں اور اس ناانصافی اور امتیازی سلوک کے خلاف پرزور احتجاج کریں یا پھر قانونی چارہ جوئی کرے کیونکہ کہاوت یہ ہے کہ جب تک بچہ روتا نہیں اس وقت تک ماں بھی اسے دودھ نہیں پلاتی۔
اس کے علاوہ اس سلسلے میں میڈیا کا تعاون بھی حاصل کرسکتے ہیں جو ان کی آواز کو ارباب اختیار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ تاہم جب تک یہ منظم ہوکر اپنی آواز بلند نہیں کریں گے تب تک کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگے گی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض حلقے عرصہ دراز سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح پنشن کا نظام ہی ختم کردیا جائے ، لیکن یہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو ان کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں جو انھیں ایسا کبھی نہیں کرنے دیں گے۔ لہٰذا اب یہ کوئی اور راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس کوشش کے پس پشت وہ قوتیں شامل ہیں جن میں (آئی ایم ایف) پیش پیش اور سرفہرست ہے۔ سچ پوچھیے تو عملاً یہی ہے جو ہم جیسے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا ان داتا ہے اور اپنا ہر مطالبہ منواتا ہے حکومت چاہے کوئی بھی اس کے بجٹ کے پس پشت یہی کارفرما ہوتا ہے۔ ارباب اختیار بظاہر حکمران نظر آتے ہیں لیکن عملاً ان کی چلتی کچھ نہیں۔ اسے ہماری جانبداری ہرگز تصور نہ کیا جائے کہ سرکاری ملازمین کی داد رسی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی بھی کی گئی اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی سرکاری ملازمین کو جتنی مراعات اس دور میں حاصل ہوئیں وہ شاید آیندہ کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکیں گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ:
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
حکومت سے ہماری گز ارش ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس امتیازی سلوک کو فوراً ختم کردے۔ اس کے علاوہ انسانی ہمدردی اور صلہ رحمی کا تقاضا بھی یہی ہے۔
تنگ آمد بجنگ آمد چار و ناچار احتجاج اور مظاہروں کا سہارا لینا پڑا۔ حکومت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔ دوسری جانب سرکاری ملازمین متحد تھے ان کے اتحاد کو توڑنے کی کوششیں ناکام ہونے کے باعث حکومت کو مجبوراً ان کے آگے جھکنا پڑا اور عافیت یہ ہوئی کہ مذاکرات پر آمادگی ہوگئی۔ آخر کار نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے Disparity الاؤنس دینے پر رضا مندی ظاہر کردی اس الاؤنس کے ذریعے قیمتوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی شرح دس پندرہ رکھی گئی طے یہ پایا کہ وفاقی بجٹ برائے سال 2022-2020 تک اسی الاؤنس پر گزارا کیا جائے۔
چنانچہ بجٹ پیش ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہا اور بجٹ میں دس فیصد اضافے کے بعد مجموعی اضافہ پچیس فیصد تک پہنچ گیا جس سے سرکاری ملازمین کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہوگئی حالانکہ اشیائے ضرورت کی قیمتوںمیں اضافہ اس سے کئی گنا زیادہ تھا، بہرحال سرکاری ملازمین نے اسے غنیمت جان کر قبول کرلیا کیونکہ کچھ بھی نہ ملنے سے کچھ مل جانا بہتر تھا، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ صرف اضافے کو حاضر سروس ملازمین تک ہی محدود رکھا گیا اور بے چارے ریٹائرڈ ملازمین کو اس رعایت سے قطعی محروم رکھا گیا جوکہ امتیازی ہے سراسر ناانصافی کے مترادف ہے۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ پنشن پر گزارا کرنے والے سرکاری ملازمین کوئی نچلے درجے کی مخلوق ہیں، اس امتیازی سلوک کا کوئی جواز نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پنشنرز اس ہوش ربا مہنگائی سے بچے ہوئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے بے چارے ضعیفی کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ بڑھاپا سو بیماریوں کی جڑ ہے اس لیے ان کی پنشن کا کافی بڑا حصہ دواؤں کی خریداری کی نذر ہو جاتا ہے۔ انسان کھانا چھوڑ سکتا ہے لیکن علاج کے لیے دوا خریدنا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ جان ہے تو جہان ہے چنانچہ پنشن میں اضافہ ان کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے پنشن پر گزارا کرنے والے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اس پنشن میں اضافہ لازمی تھا۔
سچ پوچھیں تو یہ اضافہ حاضر سروس ملازمین کو دیے جانے والے اضافے سے کم سے کم دگنا ہونا چاہیے تھا۔ انصاف کا یہی تقاضا ہے لیکن ستم بالائے ستم پنشنرز کو Disparity الاؤنس سے سراسر محروم کردیا گیا۔ گویا جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات پنشنرز کے ساتھ یہ امتیازی سلوک نہ صرف قطعی غیر انسانی ہے بلکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25کی خلاف ورزی کے مترادف بھی ہے جو برابر کی ضمانت دیتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو حاضر سروس ملازمین کو دی جانے والی یہ سہولت واپس لے لی جائے یا پھر پنشنرز کو بھی یہ سہولت برابری کی بنیاد پر بلاتاخیر اور بلا امتیاز دی جائے۔ ہماری گزارش ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا ازخود نوٹس لے اور بے کس و لاچار پنشنرز کو بھی انصاف دیا جائے۔
گستاخی معاف پنشن ہر ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا حق ہے، یہ کوئی صدقہ، خیرات یا زکوٰۃ نہیں ہے اور پنشنرز کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک سراسر زیادتی اور کھلی ناانصافی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ ناانصافی اس سیاسی جماعت کی حکومت کر رہی ہے جس کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے یہ تو وہی ہوا کہ گھی کی دکان پر سائن بورڈ تو لکھا ہوا ہے کہ یہاں خالص دیسی گھی فروخت کیا جاتا ہے اور عملاً بناسپتی گھی فروخت کیا جا رہا ہو، قول اور فعل کا یہ کھلا تضاد پارٹی کے ہرگز شایان شان نہیں ہے۔
ہو یہ رہا ہے کہ بین الاقوامی ساہوکار کے ہاتھوں میں کھیلا جا رہا ہے اور ڈکٹیشن دیا جا رہا ہے اس پر یاد آیا کہ:
فقرو تد فروختاً چہ ارضاں فروختاً
ماضی کے حکمرانوں نے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو چلے ہوئے کارتوس سمجھ کر انھیں کوئی اہمیت نہیں دی لیکن حاضر سروس ملازمین کا بھی اس میں کچھ کم دوش نہیں انھوں نے اپنے سابقین کے مفاد کو بھی مد نظر نہیں رکھا اور محض اپنے مطالبات منظور کروا کر مطمئن ہو گئے۔
انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب ریٹائرڈ ہو کر یہ بھی اسی فہرست میں شامل ہو جائیں گے۔ پنشنرز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی نہ کوئی یونین ہے اور نہ اتحاد اس لیے ان کی کوئی آواز نہیں، اب ان کے پاس اس کے دو ہی راستے باقی رہ گئے ہیں، ایک راستہ یہ ہے کہ یہ اپنے حق کے لیے اتحاد قائم کریں اور اس ناانصافی اور امتیازی سلوک کے خلاف پرزور احتجاج کریں یا پھر قانونی چارہ جوئی کرے کیونکہ کہاوت یہ ہے کہ جب تک بچہ روتا نہیں اس وقت تک ماں بھی اسے دودھ نہیں پلاتی۔
اس کے علاوہ اس سلسلے میں میڈیا کا تعاون بھی حاصل کرسکتے ہیں جو ان کی آواز کو ارباب اختیار تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ تاہم جب تک یہ منظم ہوکر اپنی آواز بلند نہیں کریں گے تب تک کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگے گی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض حلقے عرصہ دراز سے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح پنشن کا نظام ہی ختم کردیا جائے ، لیکن یہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو ان کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں جو انھیں ایسا کبھی نہیں کرنے دیں گے۔ لہٰذا اب یہ کوئی اور راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس کوشش کے پس پشت وہ قوتیں شامل ہیں جن میں (آئی ایم ایف) پیش پیش اور سرفہرست ہے۔ سچ پوچھیے تو عملاً یہی ہے جو ہم جیسے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا ان داتا ہے اور اپنا ہر مطالبہ منواتا ہے حکومت چاہے کوئی بھی اس کے بجٹ کے پس پشت یہی کارفرما ہوتا ہے۔ ارباب اختیار بظاہر حکمران نظر آتے ہیں لیکن عملاً ان کی چلتی کچھ نہیں۔ اسے ہماری جانبداری ہرگز تصور نہ کیا جائے کہ سرکاری ملازمین کی داد رسی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی بھی کی گئی اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی سرکاری ملازمین کو جتنی مراعات اس دور میں حاصل ہوئیں وہ شاید آیندہ کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکیں گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ:
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں
حکومت سے ہماری گز ارش ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس امتیازی سلوک کو فوراً ختم کردے۔ اس کے علاوہ انسانی ہمدردی اور صلہ رحمی کا تقاضا بھی یہی ہے۔