مرتضیٰ وہاب صاحب ہم غلام ہیں نہ قیدی
آپ سب بند کردیں، لیکن نہیں بند کریں گے تو وہ ہے جھوٹ بولنا، استحصال کرنا، لوٹ مار کرنا
میں آپ کو ذہین اور معزز کیوں لکھوں؟ آپ بھی ہوائی باتوں کی پیروکاری میں حد پار کر رہے ہیں۔ میں مجبوراً آپ کی یادداشت کو جھنجھوڑ رہا ہوں۔ یاد کیجئے وہ کون تھا جو کسی کے کہنے پر اپنا وقار داؤ پر لگا کر سب کچھ ہار گیا تھا؟ جو قانونی کتب کے ساتھ قاتل ریمنڈ ڈیوس کو قتل کرنے کے اختیارات کی وکالت قومی ٹی وی پر زور و شور سے کررہا تھا اور پھر تاریخ نے کیا آشکار کیا؟ لکھی جانے والی کتابوں، مضامین اور عدالتی تصفیہ نے کسے جھوٹا ثابت کیا؟
جی! اس بدقسمت ڈھٹائی پر نہ آپ کبھی شرمسار نظر آئے اور نہ آپ کی مرحومہ والدہ صاحبہ، جن کی پوری زندگی جہد سے عبارت تھی۔ یہ تو آپ کو معلوم ہوگا ورنہ قیادت سے پوچھ لیجئے کہ جھوٹ کی دوستی میں عزت ملتی ہے اور نہ توقیر سلامت رہتی ہے۔
خیر آئیے، دیکھیے آپ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
آج جولائی 2021 کا کووڈ وائرس گزشتہ سال اپریل 2020 سے زیادہ مہلک ہے۔ وہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ ویکسین لگوانے والے بھی ماسک لگائیں۔
میں آپ سے سائنسی بحث میں الجھ کر سائنس کے وقار کو نیچا نہیں کرنا چاہتا۔ جناب پچھلے وائرس کے دور میں سب کچھ کے ساتھ مساجد بھی بند کردی گئی تھیں۔ اور جب کھلی تھیں تو تین سے چار فٹ کے فاصلے کی تاکید تھی۔ اگر آج کا ڈیلٹا ویریئنٹ زیادہ خطرناک ہے تو آج آپ لوگ مساجد میں، پریس کانفرنسز میں ساتھ ساتھ کیوں کھڑے ہیں؟ دیکھیے غور سے۔ چاہے عید کی نماز ہو، جلسہ ہو، جنازہ ہو یا ہجوم اداکاری ہو۔ یعنی اگر تین یا چار فٹ فاصلے والی بات غلط تھی تو یقیناً مساجد میں اس کا زبردستی اطلاق بھی جہالت تھی۔
عالی جاہ! دونوں باتیں درست نہیں ہوسکتیں۔ کسی ایک عمل پر معافی مانگ لیجیے۔ ایسا کرنے کے قابل بھروسہ اسباب تلاش کیجیے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا یقین دلا دیجیے۔ تاریخ ہمیشہ سیدھی رکھیے۔ کل پر کوئی کام نہ چھوڑیے۔
معاف کیجیے میں ناراض ہوں، کیونکہ قابل رشک ہے آپ کی خوشامدی ذہنی صلاحیت۔ کیا جرأت ہے، کیا زبان ہے، کیا خیالات ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ویکسین نہ لگوائے تو اس شہری کا موبائل فون بند کردیں۔ جناب آپ شہری کا سانس بند کردیں۔ نہ بند کریں تو وہ ہے جھوٹ بولنا، استحصال کرنا، لوٹ مار کرنا۔ کیوں اس کا موبائل بند نہ کریں جو رشوت لے۔ جو شہر کو صاف رکھنے کی ذمے داری پوری نہ کرے۔ جو پانی سے شہریوں کو محروم رکھے۔ وہ سرکاری یا عوامی عہدیدار جو اپنا اور اپنے رشتے داروں کا علاج سرکاری خرچ پر نجی اسپتالوں سے کروائے۔ جو سرکاری یا عوامی عہدیدار نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھوائے۔ جو بھوک سے لوگوں کو مارے۔ جو عوام کو سڑکوں پر رسوا کروائے۔ جو ملک کو مشکل میں چھوڑ کر باہر بھاگ جائے۔
جب آپ کے علاج سے کسی کی بیماری میں اضافہ ہو، تو پھر علاج چھوڑ دیں۔ جس کا علاج نہیں ہوگا، اور اپنی کہانی ایسے شخص کو سنائے گا جو سچائی کی تلاش میں ہے۔ (ماخوذ: رومی)
سائنس کے موضوع پر گفتگو کےلیے امتحانات دیں اور کامیاب ہوں۔ یہ مذاق نہیں کہ جو چاہیں کہیں۔ آئیے! حوصلہ کیجئے۔ جن سے سنتے ہیں انھیں براہ راست مذاکرے میں بھیجیے، ہم سیکھنے کےلیے حاضر ہیں۔ مجھے رہنی ڈسکارٹسں کے کہے کو لکھنے دیجیے کہ اگر آپ سچائی کےلیے حقیقی تجسس رکھتے ہوں تو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار، جہاں تک ممکن ہو، تمام چیزوں پر شک کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جی! اس بدقسمت ڈھٹائی پر نہ آپ کبھی شرمسار نظر آئے اور نہ آپ کی مرحومہ والدہ صاحبہ، جن کی پوری زندگی جہد سے عبارت تھی۔ یہ تو آپ کو معلوم ہوگا ورنہ قیادت سے پوچھ لیجئے کہ جھوٹ کی دوستی میں عزت ملتی ہے اور نہ توقیر سلامت رہتی ہے۔
خیر آئیے، دیکھیے آپ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
آج جولائی 2021 کا کووڈ وائرس گزشتہ سال اپریل 2020 سے زیادہ مہلک ہے۔ وہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ ویکسین لگوانے والے بھی ماسک لگائیں۔
میں آپ سے سائنسی بحث میں الجھ کر سائنس کے وقار کو نیچا نہیں کرنا چاہتا۔ جناب پچھلے وائرس کے دور میں سب کچھ کے ساتھ مساجد بھی بند کردی گئی تھیں۔ اور جب کھلی تھیں تو تین سے چار فٹ کے فاصلے کی تاکید تھی۔ اگر آج کا ڈیلٹا ویریئنٹ زیادہ خطرناک ہے تو آج آپ لوگ مساجد میں، پریس کانفرنسز میں ساتھ ساتھ کیوں کھڑے ہیں؟ دیکھیے غور سے۔ چاہے عید کی نماز ہو، جلسہ ہو، جنازہ ہو یا ہجوم اداکاری ہو۔ یعنی اگر تین یا چار فٹ فاصلے والی بات غلط تھی تو یقیناً مساجد میں اس کا زبردستی اطلاق بھی جہالت تھی۔
عالی جاہ! دونوں باتیں درست نہیں ہوسکتیں۔ کسی ایک عمل پر معافی مانگ لیجیے۔ ایسا کرنے کے قابل بھروسہ اسباب تلاش کیجیے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا یقین دلا دیجیے۔ تاریخ ہمیشہ سیدھی رکھیے۔ کل پر کوئی کام نہ چھوڑیے۔
معاف کیجیے میں ناراض ہوں، کیونکہ قابل رشک ہے آپ کی خوشامدی ذہنی صلاحیت۔ کیا جرأت ہے، کیا زبان ہے، کیا خیالات ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ویکسین نہ لگوائے تو اس شہری کا موبائل فون بند کردیں۔ جناب آپ شہری کا سانس بند کردیں۔ نہ بند کریں تو وہ ہے جھوٹ بولنا، استحصال کرنا، لوٹ مار کرنا۔ کیوں اس کا موبائل بند نہ کریں جو رشوت لے۔ جو شہر کو صاف رکھنے کی ذمے داری پوری نہ کرے۔ جو پانی سے شہریوں کو محروم رکھے۔ وہ سرکاری یا عوامی عہدیدار جو اپنا اور اپنے رشتے داروں کا علاج سرکاری خرچ پر نجی اسپتالوں سے کروائے۔ جو سرکاری یا عوامی عہدیدار نجی تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو پڑھوائے۔ جو بھوک سے لوگوں کو مارے۔ جو عوام کو سڑکوں پر رسوا کروائے۔ جو ملک کو مشکل میں چھوڑ کر باہر بھاگ جائے۔
جب آپ کے علاج سے کسی کی بیماری میں اضافہ ہو، تو پھر علاج چھوڑ دیں۔ جس کا علاج نہیں ہوگا، اور اپنی کہانی ایسے شخص کو سنائے گا جو سچائی کی تلاش میں ہے۔ (ماخوذ: رومی)
سائنس کے موضوع پر گفتگو کےلیے امتحانات دیں اور کامیاب ہوں۔ یہ مذاق نہیں کہ جو چاہیں کہیں۔ آئیے! حوصلہ کیجئے۔ جن سے سنتے ہیں انھیں براہ راست مذاکرے میں بھیجیے، ہم سیکھنے کےلیے حاضر ہیں۔ مجھے رہنی ڈسکارٹسں کے کہے کو لکھنے دیجیے کہ اگر آپ سچائی کےلیے حقیقی تجسس رکھتے ہوں تو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار، جہاں تک ممکن ہو، تمام چیزوں پر شک کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔