خطرات میں گھری زندگی
مستقبل کے خدشات کے حوالے سے ہمارا انفرادی رویہ بھی یہی ہے، جس کی عکاسی ہمارے طرز زندگی سے ہوتی ہے
جنوری کی وہ سرد رات اپنے آخری حصے میں داخل ہوچکی تھی۔ اندھیرا سمٹنے اور صبح کا اجالا اترنے کو تھا کہ اس گھر میں روشنی پھیلنے لگی۔ مگر یہ سورج کی حیات بخش روشنی نہیں، موت کے اندھیروں کی طرف بلاتے شعلوں کی روشنی تھی۔ شارٹ سرکٹ نے بجلی کو آگ میں بدل دیا تھا۔
اس ماہ کی سترہ اور اٹھارہ کی درمیانی شب کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا کے بلاک 15 میں واقع اس مکان کے مکین آنے والی قیامت سے بے خبر سورہے تھے۔ اس دو منزلہ مکان کی اوپر والی منزل پر عاصم اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا اور نیچے کی منزل پر اس کا بھائی ماں اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم تھا۔ اوپر کی منزل کا سکوت اس وقت ٹوٹ گیا جب پانچ سالہ شارق نے ''دادی دادی'' کہہ کر چلانا شروع کردیا۔ گھر کے تمام افراد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ نیند بھری آنکھوں سے دیکھا تو ہر طرف شعلے بھڑک رہے تھے۔
ان کے شور مچانے سے اہل محلہ بھی جاگ اٹھے اور آگ سے متاثرہ گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ مکان میں لگی آگ بجھانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہوگئے، مگر ہر ممکن کوشش کے باوجود آگ پر قابو نہ پایا جاسکا اور شعلے مکان کو چاٹتے رہے۔ آخرکار فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی موقع پر پہنچ گئیں۔ فائر فائٹرز بھی اہل محلہ کے ساتھ جانوں کو جلنے سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ آخرکار ساڑھے تین بجے کے قریب لگنے والی آگ پر صبح ساڑھے چھے بجے قابو پایا جاسکا۔ اس دوران مکان کی بالائی منزل مکمل طور پر جل چکی تھی۔ اندر جاکر دیکھا گیا تو میاں بیوی اور دو بچوں سمیت پورا کنبہ دم گھٹنے کے باعث بے ہوش ہوچکا تھا۔ انھیں طبی امداد کے لیے اسپتال لے جایا جارہا تھا کہ منزل سے پہلے موت نے آکر انھیں ابدی نیند سلادیا۔
یہ سوچ کر ہی ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے کہ آج میں جس خاندان کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہی ہوں، رات سوتی ہوں اور صبح تک میرا وجود اور میرا خاندان مٹ چکے ہوتے ہیں۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے، مگر یوں اچانک پورے خاندان کا جان سے گزر جانا، روح کانپ جاتی ہے، دل ہول کے رہ جاتا ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔۔ ہم جن سانحات کا اتفاقیہ اور ''اچانک'' کے الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، ان کی پرورش ایک مدت سے ہورہی ہوتی ہے، اور اس کا سامان اکثر ہم خود کرتے ہیں۔ دل کا خون کرتا یہ المیہ اسی پہلو کی طرف ہماری توجہ دلاتا ہے۔ اہل محلہ کے مطابق فائر بریگیڈ کا عملہ واقعے کی اطلاع دینے کے آدھا گھنٹے بعد پہنچا۔ جان بچانے کے لیے آنے والے ان سرکاری اہلکاروں پر نیند کا غلبہ تھا۔ ان کی اہلیت کا یہ عالم ہے کہ وہ صحیح طریقے سے پائپ لگانے سے بھی قاصر تھے، چنانچہ پائپ اہل محلہ کی مدد سے لگایا گیا۔ پھر کہیں جاکر آگ پر قابو پانے کی کارروائی شروع ہوئی۔ جس کمرے میں متاثرہ خاندان موجود تھا، وہاں ہنگامی حالات میں نکلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ایسے میں کمرے کی کھڑکی کھلی ہوتی تو شاید زندگی راستہ پالیتی، مگر اس کھڑکی کے سامنے ڈیوائڈر رکھ کر اسے بند کیا جاچکا تھا۔ لوگوں نے اسے ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ یوں حکومتی اداروں کی کارکردگی اور طرز زندگی سے متعلق ہمارا رویہ ایک الم ناک حادثے کا سبب بن گیا۔
وہ فائر فائٹرز جنھیں ہر دم چوکس رہنا چاہیے اس وقت ان پر نیند کیوں طاری تھی؟ اس کی وجہ عملے کی کمی اور کام کا دباؤ تھا یا ان اہلکاروں کی اپنے فرض سے غفلت؟ پھر یہ امر حیرت انگیز ہے کہ فائربریگیڈ کے یہ اہلکار پائپ لگانے جیسا آگ بجھانے کا بنیادی عمل بھی ٹھیک طرح انجام نہیں دے پائے، جو ان کی تربیت اور اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ ہنگامی حالت میں جب ہر ہر لمحہ قیمتی ہوتا ہے نیند میں ڈوبے سست رو اور اپنے کام کے حوالے سے پوری اہلیت نہ رکھنے والے مددگار واقعے کے آناً فاناً سانحہ بننے کا سبب ہی ثابت ہوسکتے ہیں۔ تربیت اور اہلیت کا یہ فقدان وہ ''برسوں'' کی ''پرورش'' ہے جس کی وجہ سے زلزلہ آئے یا سیلاب، آگ بھڑک اٹھے یا کوئی عمارت زمین بوس ہوجائے۔۔۔۔ متاثرین کو بچانے کی کارروائی بدنظمی اور نااہلیت کی مثال بن کر سامنے آتی ہے۔
افراد سے ریاست تک ہماری زندگی گزارنے کی سوچ ''بس آج'' تک محدود ہے، ہم کل کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اگر کوئی ہنگامی صورت حال پیش آئے تو کیا ہوگا؟ بار بار آنے والی مصیبتوں کے باوجود گھروں سے حکومتی ایوانوں تک اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں پائی جاتی۔ اس رویے کی عکاس کراچی کی بلندوبالا عمارتیں بھی ہیں۔ اس شہر کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ فلیٹس میں آباد ہے۔ ان فلیٹس میں سے نوے فیصد میں آگ لگنے یا کسی اور ہنگامی صورت حال کے دوران باہر نکلنے کا راستہ موجود نہیں۔
کراچی کی آبادی روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ اس صورت حال میں بلڈرز کی چاندی ہوگئی ہے۔ اونچے اونچے اپارٹمنٹس بنتے جارہے ہیں، ان کی تعمیر میں ناقص میٹریل کے استعمال کا معاملہ تو اپنی جگہ مگر زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی ہوس میں کوشش ہوتی ہے کہ پلاٹ کا ایک انچ بھی ''ضایع'' نہ جائے، چاہے فلیٹوں کی تعداد بڑھاتے ہوئے ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنے کا راستہ ہی کیوں نہ ختم کرنا پڑے۔ بس ایک چھوٹی سی راہداری بنائی، آگے دکانیں تعمیر کیں اور عمارت مکمل۔ اب ہوتا یہ ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں متاثرہ افراد کو جان بچانے کی کوئی راہ نہیں ملتی اور ان کی زندگی سمیت سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ عمارتوں اور ان کے ڈیزائن سے متعلق ادارے یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ تعمیر ڈیزائن کے مطابق ہوئی ہے یا نہیں اور ان عمارتوں میں ہنگامی حالت میں جانیں بچانے کی سہولت مہیا کی گئی ہے یا یہ سہولت صرف نقشے پر موجود ہے۔
مستقبل کے خدشات کے حوالے سے ہمارا انفرادی رویہ بھی یہی ہے، جس کی عکاسی ہمارے طرز زندگی سے ہوتی ہے۔ ہم ڈرائنگ روم سجانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں، لیکن بتائیے! ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں آگ بجھانے کے سلنڈر رکھے ہوئے ہیں؟ سردیوں میں ہم گیزر چلاکر بے فکر ہوکر سوتے ہیں اور احتیاطی تدابیر نہیں کرتے کہ کم از کم رات سونے سے پہلے کم از کم اس بات کا اطمینان کرلیں کہ گیزر کے آس پاس موجود ایسی چیز ہٹا دی جائے جو آگ لگنے کا باعث بن سکتی ہو۔ ہم مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اپنے گھروں کی تعمیر اور تزئین کراتے ہیں اور اس ضمن میں اپنے ماحول اور مسائل کو پیش نظر نہیں رکھتے۔
ہم امریکن اور آسٹریلین کچن بنواتے ہیں، جن میں ہر طرف لکڑی کی کیبنٹس ہوتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ مغرب میں عموماً ہماری طرح کھانے تیز آنچ پر نہیں پکائے جاتے۔ ہمارا یہ چلن خطرے کو دعوت دینے کا عمل نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ہم یہ نہیں سوچتے کہ ترقی یافتہ مغرب میں کسی حادثے کی صوت میں امدادی عملہ منٹوں میں پہنچ جاتا ہے، وہاں عمارات میں حفاظتی ذرایع اور وسائل لازماً ہوتے ہیں، جب کہ ہم امداد کی اس سرعت اور حفاظتی ذرایع، سب سے محروم ہیں۔ اس بدنصیب کنبے پر گزرنے والے المیے کا سوچیے اور پھر اپنے طرز زندگی اور حالات پر نظر ڈالیے، آپ کو اپنے اردگرد کتنے ہی خطرات نظر آئیں گے۔ سو اپنے بچاؤ کے لیے جتنا ہوسکتا ہے اتنا تو کیجیے۔
اس ماہ کی سترہ اور اٹھارہ کی درمیانی شب کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا کے بلاک 15 میں واقع اس مکان کے مکین آنے والی قیامت سے بے خبر سورہے تھے۔ اس دو منزلہ مکان کی اوپر والی منزل پر عاصم اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا اور نیچے کی منزل پر اس کا بھائی ماں اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مقیم تھا۔ اوپر کی منزل کا سکوت اس وقت ٹوٹ گیا جب پانچ سالہ شارق نے ''دادی دادی'' کہہ کر چلانا شروع کردیا۔ گھر کے تمام افراد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ نیند بھری آنکھوں سے دیکھا تو ہر طرف شعلے بھڑک رہے تھے۔
ان کے شور مچانے سے اہل محلہ بھی جاگ اٹھے اور آگ سے متاثرہ گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ وہ مکان میں لگی آگ بجھانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہوگئے، مگر ہر ممکن کوشش کے باوجود آگ پر قابو نہ پایا جاسکا اور شعلے مکان کو چاٹتے رہے۔ آخرکار فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی موقع پر پہنچ گئیں۔ فائر فائٹرز بھی اہل محلہ کے ساتھ جانوں کو جلنے سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ آخرکار ساڑھے تین بجے کے قریب لگنے والی آگ پر صبح ساڑھے چھے بجے قابو پایا جاسکا۔ اس دوران مکان کی بالائی منزل مکمل طور پر جل چکی تھی۔ اندر جاکر دیکھا گیا تو میاں بیوی اور دو بچوں سمیت پورا کنبہ دم گھٹنے کے باعث بے ہوش ہوچکا تھا۔ انھیں طبی امداد کے لیے اسپتال لے جایا جارہا تھا کہ منزل سے پہلے موت نے آکر انھیں ابدی نیند سلادیا۔
یہ سوچ کر ہی ذہن ماؤف ہونے لگتا ہے کہ آج میں جس خاندان کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہی ہوں، رات سوتی ہوں اور صبح تک میرا وجود اور میرا خاندان مٹ چکے ہوتے ہیں۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے، مگر یوں اچانک پورے خاندان کا جان سے گزر جانا، روح کانپ جاتی ہے، دل ہول کے رہ جاتا ہے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔۔۔۔ ہم جن سانحات کا اتفاقیہ اور ''اچانک'' کے الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، ان کی پرورش ایک مدت سے ہورہی ہوتی ہے، اور اس کا سامان اکثر ہم خود کرتے ہیں۔ دل کا خون کرتا یہ المیہ اسی پہلو کی طرف ہماری توجہ دلاتا ہے۔ اہل محلہ کے مطابق فائر بریگیڈ کا عملہ واقعے کی اطلاع دینے کے آدھا گھنٹے بعد پہنچا۔ جان بچانے کے لیے آنے والے ان سرکاری اہلکاروں پر نیند کا غلبہ تھا۔ ان کی اہلیت کا یہ عالم ہے کہ وہ صحیح طریقے سے پائپ لگانے سے بھی قاصر تھے، چنانچہ پائپ اہل محلہ کی مدد سے لگایا گیا۔ پھر کہیں جاکر آگ پر قابو پانے کی کارروائی شروع ہوئی۔ جس کمرے میں متاثرہ خاندان موجود تھا، وہاں ہنگامی حالات میں نکلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ایسے میں کمرے کی کھڑکی کھلی ہوتی تو شاید زندگی راستہ پالیتی، مگر اس کھڑکی کے سامنے ڈیوائڈر رکھ کر اسے بند کیا جاچکا تھا۔ لوگوں نے اسے ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ یوں حکومتی اداروں کی کارکردگی اور طرز زندگی سے متعلق ہمارا رویہ ایک الم ناک حادثے کا سبب بن گیا۔
وہ فائر فائٹرز جنھیں ہر دم چوکس رہنا چاہیے اس وقت ان پر نیند کیوں طاری تھی؟ اس کی وجہ عملے کی کمی اور کام کا دباؤ تھا یا ان اہلکاروں کی اپنے فرض سے غفلت؟ پھر یہ امر حیرت انگیز ہے کہ فائربریگیڈ کے یہ اہلکار پائپ لگانے جیسا آگ بجھانے کا بنیادی عمل بھی ٹھیک طرح انجام نہیں دے پائے، جو ان کی تربیت اور اہلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ ہنگامی حالت میں جب ہر ہر لمحہ قیمتی ہوتا ہے نیند میں ڈوبے سست رو اور اپنے کام کے حوالے سے پوری اہلیت نہ رکھنے والے مددگار واقعے کے آناً فاناً سانحہ بننے کا سبب ہی ثابت ہوسکتے ہیں۔ تربیت اور اہلیت کا یہ فقدان وہ ''برسوں'' کی ''پرورش'' ہے جس کی وجہ سے زلزلہ آئے یا سیلاب، آگ بھڑک اٹھے یا کوئی عمارت زمین بوس ہوجائے۔۔۔۔ متاثرین کو بچانے کی کارروائی بدنظمی اور نااہلیت کی مثال بن کر سامنے آتی ہے۔
افراد سے ریاست تک ہماری زندگی گزارنے کی سوچ ''بس آج'' تک محدود ہے، ہم کل کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اگر کوئی ہنگامی صورت حال پیش آئے تو کیا ہوگا؟ بار بار آنے والی مصیبتوں کے باوجود گھروں سے حکومتی ایوانوں تک اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں پائی جاتی۔ اس رویے کی عکاس کراچی کی بلندوبالا عمارتیں بھی ہیں۔ اس شہر کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ فلیٹس میں آباد ہے۔ ان فلیٹس میں سے نوے فیصد میں آگ لگنے یا کسی اور ہنگامی صورت حال کے دوران باہر نکلنے کا راستہ موجود نہیں۔
کراچی کی آبادی روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ اس صورت حال میں بلڈرز کی چاندی ہوگئی ہے۔ اونچے اونچے اپارٹمنٹس بنتے جارہے ہیں، ان کی تعمیر میں ناقص میٹریل کے استعمال کا معاملہ تو اپنی جگہ مگر زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی ہوس میں کوشش ہوتی ہے کہ پلاٹ کا ایک انچ بھی ''ضایع'' نہ جائے، چاہے فلیٹوں کی تعداد بڑھاتے ہوئے ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنے کا راستہ ہی کیوں نہ ختم کرنا پڑے۔ بس ایک چھوٹی سی راہداری بنائی، آگے دکانیں تعمیر کیں اور عمارت مکمل۔ اب ہوتا یہ ہے کہ آگ لگنے کی صورت میں متاثرہ افراد کو جان بچانے کی کوئی راہ نہیں ملتی اور ان کی زندگی سمیت سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ عمارتوں اور ان کے ڈیزائن سے متعلق ادارے یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ تعمیر ڈیزائن کے مطابق ہوئی ہے یا نہیں اور ان عمارتوں میں ہنگامی حالت میں جانیں بچانے کی سہولت مہیا کی گئی ہے یا یہ سہولت صرف نقشے پر موجود ہے۔
مستقبل کے خدشات کے حوالے سے ہمارا انفرادی رویہ بھی یہی ہے، جس کی عکاسی ہمارے طرز زندگی سے ہوتی ہے۔ ہم ڈرائنگ روم سجانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں، لیکن بتائیے! ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں آگ بجھانے کے سلنڈر رکھے ہوئے ہیں؟ سردیوں میں ہم گیزر چلاکر بے فکر ہوکر سوتے ہیں اور احتیاطی تدابیر نہیں کرتے کہ کم از کم رات سونے سے پہلے کم از کم اس بات کا اطمینان کرلیں کہ گیزر کے آس پاس موجود ایسی چیز ہٹا دی جائے جو آگ لگنے کا باعث بن سکتی ہو۔ ہم مغرب کی نقالی کرتے ہوئے اپنے گھروں کی تعمیر اور تزئین کراتے ہیں اور اس ضمن میں اپنے ماحول اور مسائل کو پیش نظر نہیں رکھتے۔
ہم امریکن اور آسٹریلین کچن بنواتے ہیں، جن میں ہر طرف لکڑی کی کیبنٹس ہوتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ مغرب میں عموماً ہماری طرح کھانے تیز آنچ پر نہیں پکائے جاتے۔ ہمارا یہ چلن خطرے کو دعوت دینے کا عمل نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ہم یہ نہیں سوچتے کہ ترقی یافتہ مغرب میں کسی حادثے کی صوت میں امدادی عملہ منٹوں میں پہنچ جاتا ہے، وہاں عمارات میں حفاظتی ذرایع اور وسائل لازماً ہوتے ہیں، جب کہ ہم امداد کی اس سرعت اور حفاظتی ذرایع، سب سے محروم ہیں۔ اس بدنصیب کنبے پر گزرنے والے المیے کا سوچیے اور پھر اپنے طرز زندگی اور حالات پر نظر ڈالیے، آپ کو اپنے اردگرد کتنے ہی خطرات نظر آئیں گے۔ سو اپنے بچاؤ کے لیے جتنا ہوسکتا ہے اتنا تو کیجیے۔