نصرت ابڑو ایک عظیم ادیب
نصرت نے صحافتی دنیا میں اپنے آپ کو منوایا،انہوں نے سرکاری نوکری کے ساتھ مختلف اخبارات میں 400 سے زیادہ مضامین لکھے
سندھ کی سرزمین بڑی زرخیز ہے جس نے بڑی بڑی شخصیات کو جنم دیا ہے، سیاست ہو یا پھر ادب، علم یا صحافت ہو، اس سلسلے میں ایک شخصیت نصرت حسین ابڑو کی بھی ہے، جس نے ایک اچھا خاصا وقت سندھ اطلاعات محکمے میں گزارا۔ میرا اپنی 42 سالہ انفارمیشن میں نوکری کے دوران کئی افسران سے واسطہ پڑا جس میں سب سے زیادہ جو انڈراسٹینڈنگ نصرت حسین ابڑو سے رہی، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے ساتھ ملاقاتیں جاری رہیں۔ 23 جنوری کو صبح سویرے میں اپنے دفتر میں اخبار دیکھ رہا تھا جن سے مجھے سمری بنانی پڑتی تھی۔ اچانک میری نظر ایک سندھی اخبار پر پڑی جس میں نصرت ابڑو کی تصویر چھپی تھی اور اس کے نیچے یہ تحریر تھی کہ سندھ انفارمیشن کے سابق ڈائریکٹر نصرت حسین ابڑو کا کل رات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال ہوگیا ہے۔ اس خبر نے میرے دل و دماغ پر جیسے ایک بجلی سی گرادی تھی کہ رات کو تو ابڑو نے مجھ سے فون پر بات کی تھی اور اس کا انتقال، جس کی مجھے کوئی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ بہرحال میں نے ان کے بڑے بیٹے ضیا الدین کو فون کیا جس نے اس بات کی تصدیق کردی۔
نصرت ابڑو کی شخصیت بڑی ملنسار، ہنس مکھ، خوش لباس، خوش خوراک، یاروں کے یار اور مزاح طبع والے تھے۔وہ خوبرو انسان تھے۔ ان کی یہ عادت تھی کہ وہ اکیلے کبھی بھی کھانا نہیں کھاتے تھے اور ہوٹل پر مجھے اور اپنے اسٹاف کو لے جاتے تھے۔ وہ اکثر ہوٹل مہران یا سماران میں آکر ٹھہرتے تھے۔ اس موقع پر وہ کسی نہ کسی پریس کلب کا وزٹ کرتے تھے یا پھر کسی پروگرام میں مہمان خاص رہتے تھے۔ اس کے علاوہ سماجی اور ادبی شخصیات سے ملاقات ضرور کرتے تھے۔ رات کے وقت صوفی سنگت، میوزک کے پروگرام میں شرکت کرنے کے بڑے شوقین تھے۔ جب وی آئی پی واپس چلے جاتے تو پھر کچھ گھنٹے سگھڑ اور دوسرے شاعروں سے محفل منعقد کرتے تھے۔
نصرت نے اپنی سرکاری نوکری کے دوران کئی غریب لوگوں کے بچوں کو مختلف دفاتر میں نوکری دلوائی اور ان کے مالی مسائل کو حل کروانے میں سرکار سے کافی مدد دلوانے میں بڑا اہم رول ادا کیا، جن لوگوں کے بچے پڑھنا چاہتے تھے مگر ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ کتابیں خرید سکیں یا دوسرے پڑھائی کا خرچہ برداشت کرسکیں، ان کی ذاتی جیب سے امداد کرتے تھے۔ انھیں اپنے شہر سے بڑا پیار تھا جہاں پر وہ اکثر فارغ وقت گزارنے جاتے تھے اور وہاں پر عام لوگوں سے ملتے رہتے تھے اور انھیں بچوں کو پڑھانے اور اپنے شہر کو پرامن بنانے کا درس دیتے تھے۔ انھیں گاؤں کی زندگی اور وہاں بسنے والے سادہ اور بے لوث لوگوں سے بڑا پیار تھا۔ نصرت کو پڑھائی، ادب اور کتابوں سے بڑا لگاؤ تھا، اس لیے وہ ہر مہینے کچھ کتابیں ضرور خریدتے تھے اور جب وہ ریٹائرڈ ہوئے تو انھوں نے اپنے گھر پر ایک چھوٹی سی لائبریری سجائی تھی، جس میں ہر قسم کے مضامین کی کتابیں تھیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر اتوار کو ان کے پاس جانا میرا فرض ہوتا تھا اور دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھانا ضروری ہوتا تھا۔ ہماری ہر ہفتے کی اس ملاقات میں زیادہ تر گفتگو میں ادبی، تعلیمی اور سیاسی باتیں ہوتی تھیں جس میں ان کا یہ خیال ہوتا تھا کہ ہم لوگوں کو انسانیت کو سرفہرست رکھنا چاہیے۔ ابڑو صاحب کی لائبریری میں جو کتابیں پڑی ہیں، وہ خراب ہو رہی ہیں۔ جس کے لیے انھوں نے مجھے کہا تھا کہ جو تحریریں ہیں وہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کو دی جائیں، جہاں پر ان کے نام سے ایک کارنر بنایا جائے اور کتابیں ان کے بچوں میں تقسیم کی جائیں جو نہ ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی لکھی ہوئی چیزیں اخباروں، رسائل، ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرامز میں موجود ہیں جو انھیں لوگوں کے ذہن میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
نصرت نے صحافتی دنیا میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ انھوں نے سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات و رسائل میں 400 سے زیادہ مضامین، کہانیاں، مقالے، کالم، ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں کے اسکرپٹ لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے دو کتابیں لکھی تھیں جو چھپ چکی تھیں جس میں ایک کتاب ''روشنیوں کا شہر کراچی'' ہے جس میں اس نے اپنے تجربے اور مشاہدے لکھے ہیں کہ شروع میں کراچی کیسا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے مزاحیہ خاکے، فیچرز اور مقالے بڑے مشہور رہے ہیں۔ انھیں پیروں اور فقیروں سے بڑی عقیدت رہی تھی، اس لیے وہ اکثر شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، لال شہباز قلندر کے مزاروں پر جاتے تھے۔ اپنے آبائی شہر جو شکار پور ضلع میں ہے وہاں پر بھٹائی کا تکیہ کے نام سے ایک جگہ ہے جہاں پر نصرت ہر سال ایک میلہ منعقد کرواتے تھے اور اس مقام کو اپنی تحریروں سے پورے ملک میں متعارف کروایا۔ اس موقع پر راگ اور رنگ کی محفل بھی منعقد ہوتی تھی۔
وہ اچھے مقرر بھی تھے اور جب بھی وہ کہیں تقریر کرتے تھے تو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سنجیدہ باتوں کے ساتھ مزاحیہ لطیفے بھی بتاتے تھے جس سے ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا۔ انھوں نے بیک وقت سندھی، اردو اور انگریزی میں بھی لکھا۔ یہ پہلے سندھی اسٹوڈنٹ تھے جس نے کراچی یونیورسٹی میں بطور جرنلزم میں داخلہ لیا تھا اور 1968 میں اس مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ صحافت سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے انھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی خیرپور میں ماس کمیونیکیشن (پرائیویٹ) پڑھنے والوں کے لیے سہولتیں منظور کروائیں۔ اس کے علاوہ 1989 میں صحافت کی ترقی کے لیے ایک سوسائٹی قائم کی جس کے تحت وہ سکھر میں شام کو پرائیویٹ پڑھنے والوں کے لیے کلاسز شروع کیں جس میں وہ خود پڑھاتے تھے۔ جو اسٹوڈنٹ دوسرے علاقوں میں رہتے تھے انھیں گائیڈ لائنز دینے کے لیے خط و کتابت کے ذریعے درس دیتے تھے۔ اس عمل کی وجہ سے کئی پرائیویٹ اسٹوڈنٹس اچھے نمبروں سے ماس کمیونیکیشن میں امتحان میں پاس ہوئے۔
نصرت کو اپنی زبان سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کے ساتھ بہت محبت تھی اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کراچی میں رہنے والے دوست سندھی سیکھیں، جس کے لیے انھوں نے ریڈیو پاکستان کراچی سے اردو، سندھی بول چال کا پروگرام پیش کیا۔ نصرت نے ادبی دنیا میں اپنا پہلا قدم بچپن سے ہی رکھا تھا اور 1950 میں ایک ادبی سنگت کی میٹنگ میں انھوں نے اپنی لکھی ہوئی کہانی دوستوں کو پڑھ کر سنائی جس کا نام تھا ''چراغ کے پیچھے''۔ اردو میں اس کی پہلی کہانی ''دہرا قتل'' جو ایک بڑے اردو میگزین میں شایع ہوئی، اس کے بعد مسلسل ان کی کہانیاں سندھی اخبار الوحید میں چھپتی رہیں۔ اردو کے ایک بڑے اخبار کے مالک نے نصرت کو میر صحافت کا خطاب دیا تھا، اس لیے بعد میں انھوں نے اپنے نام کے آگے میر نصرت حسن ابڑو لکھنا شروع کیا۔ اس کی دو کمزوریاں تھیں ایک کتاب اور دوسری دوستوں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کی محفل میں جانا، ان سے ملنا اور علمی گفتگو کرنا جس کے لیے وہ اکثر مختلف اخباری دفاتر میں صحافیوں سے ملنے جاتے تھے۔
وہ یکم جنوری 1938 میں اللہ ورایو کے گھر میں پیدا ہوئے، اپنی پرائمری تعلیم اپنے شہر سے حاصل کی اور سیکنڈری تعلیم کے لیے لاڑکانہ گئے جہاں انھوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول لاڑکانہ سے 1958 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے B.A کا امتحان 1962 میں پاس کیا۔میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ اپنے شہر میں ڈرائنگ ٹیچر کے طور پر بھرتی ہوگئے اور اس کے بعد مختلف اسکولوں میں وہ انگریزی کا مضمون پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد مزید ترقی کرنے کے خیال سے انھوں نے اپنا تبادلہ کراچی کروالیا اور ٹیچر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ 1972 میں وہ سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں انفارمیشن افسر بن گئے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے انٹرنیشنل ریلیشن میں ڈگری حاصل کی جب کہ بعد میں وہ ایم اے جرنلزم میں کراچی یونیورسٹی سے پاس کی۔
مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ مرجانے کے بعد بہت ہی کم لوگوں کو یاد کیا جاتا ہے، اس کے لیے لکھا جاتا ہے، پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، اکیڈمیاں بنائی جاتی ہیں تاکہ اسے یاد رکھا جائے۔ حالانکہ انھوں نے بڑے اچھے دوست پیدا کیے اور اچھی تحریریں چھوڑی ہیں جنھیں آگے لے جانا ان کی اولاد کا فرض ہے اور دوستوں پر ان کا یہ قرض ہے کہ وہ نصرت کو یاد رکھیں۔
نصرت ابڑو کی شخصیت بڑی ملنسار، ہنس مکھ، خوش لباس، خوش خوراک، یاروں کے یار اور مزاح طبع والے تھے۔وہ خوبرو انسان تھے۔ ان کی یہ عادت تھی کہ وہ اکیلے کبھی بھی کھانا نہیں کھاتے تھے اور ہوٹل پر مجھے اور اپنے اسٹاف کو لے جاتے تھے۔ وہ اکثر ہوٹل مہران یا سماران میں آکر ٹھہرتے تھے۔ اس موقع پر وہ کسی نہ کسی پریس کلب کا وزٹ کرتے تھے یا پھر کسی پروگرام میں مہمان خاص رہتے تھے۔ اس کے علاوہ سماجی اور ادبی شخصیات سے ملاقات ضرور کرتے تھے۔ رات کے وقت صوفی سنگت، میوزک کے پروگرام میں شرکت کرنے کے بڑے شوقین تھے۔ جب وی آئی پی واپس چلے جاتے تو پھر کچھ گھنٹے سگھڑ اور دوسرے شاعروں سے محفل منعقد کرتے تھے۔
نصرت نے اپنی سرکاری نوکری کے دوران کئی غریب لوگوں کے بچوں کو مختلف دفاتر میں نوکری دلوائی اور ان کے مالی مسائل کو حل کروانے میں سرکار سے کافی مدد دلوانے میں بڑا اہم رول ادا کیا، جن لوگوں کے بچے پڑھنا چاہتے تھے مگر ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ کتابیں خرید سکیں یا دوسرے پڑھائی کا خرچہ برداشت کرسکیں، ان کی ذاتی جیب سے امداد کرتے تھے۔ انھیں اپنے شہر سے بڑا پیار تھا جہاں پر وہ اکثر فارغ وقت گزارنے جاتے تھے اور وہاں پر عام لوگوں سے ملتے رہتے تھے اور انھیں بچوں کو پڑھانے اور اپنے شہر کو پرامن بنانے کا درس دیتے تھے۔ انھیں گاؤں کی زندگی اور وہاں بسنے والے سادہ اور بے لوث لوگوں سے بڑا پیار تھا۔ نصرت کو پڑھائی، ادب اور کتابوں سے بڑا لگاؤ تھا، اس لیے وہ ہر مہینے کچھ کتابیں ضرور خریدتے تھے اور جب وہ ریٹائرڈ ہوئے تو انھوں نے اپنے گھر پر ایک چھوٹی سی لائبریری سجائی تھی، جس میں ہر قسم کے مضامین کی کتابیں تھیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر اتوار کو ان کے پاس جانا میرا فرض ہوتا تھا اور دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھانا ضروری ہوتا تھا۔ ہماری ہر ہفتے کی اس ملاقات میں زیادہ تر گفتگو میں ادبی، تعلیمی اور سیاسی باتیں ہوتی تھیں جس میں ان کا یہ خیال ہوتا تھا کہ ہم لوگوں کو انسانیت کو سرفہرست رکھنا چاہیے۔ ابڑو صاحب کی لائبریری میں جو کتابیں پڑی ہیں، وہ خراب ہو رہی ہیں۔ جس کے لیے انھوں نے مجھے کہا تھا کہ جو تحریریں ہیں وہ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کو دی جائیں، جہاں پر ان کے نام سے ایک کارنر بنایا جائے اور کتابیں ان کے بچوں میں تقسیم کی جائیں جو نہ ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی لکھی ہوئی چیزیں اخباروں، رسائل، ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرامز میں موجود ہیں جو انھیں لوگوں کے ذہن میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
نصرت نے صحافتی دنیا میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ انھوں نے سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارات و رسائل میں 400 سے زیادہ مضامین، کہانیاں، مقالے، کالم، ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں کے اسکرپٹ لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے دو کتابیں لکھی تھیں جو چھپ چکی تھیں جس میں ایک کتاب ''روشنیوں کا شہر کراچی'' ہے جس میں اس نے اپنے تجربے اور مشاہدے لکھے ہیں کہ شروع میں کراچی کیسا تھا۔ ان کے لکھے ہوئے مزاحیہ خاکے، فیچرز اور مقالے بڑے مشہور رہے ہیں۔ انھیں پیروں اور فقیروں سے بڑی عقیدت رہی تھی، اس لیے وہ اکثر شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، لال شہباز قلندر کے مزاروں پر جاتے تھے۔ اپنے آبائی شہر جو شکار پور ضلع میں ہے وہاں پر بھٹائی کا تکیہ کے نام سے ایک جگہ ہے جہاں پر نصرت ہر سال ایک میلہ منعقد کرواتے تھے اور اس مقام کو اپنی تحریروں سے پورے ملک میں متعارف کروایا۔ اس موقع پر راگ اور رنگ کی محفل بھی منعقد ہوتی تھی۔
وہ اچھے مقرر بھی تھے اور جب بھی وہ کہیں تقریر کرتے تھے تو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو سنجیدہ باتوں کے ساتھ مزاحیہ لطیفے بھی بتاتے تھے جس سے ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا۔ انھوں نے بیک وقت سندھی، اردو اور انگریزی میں بھی لکھا۔ یہ پہلے سندھی اسٹوڈنٹ تھے جس نے کراچی یونیورسٹی میں بطور جرنلزم میں داخلہ لیا تھا اور 1968 میں اس مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ صحافت سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے انھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی خیرپور میں ماس کمیونیکیشن (پرائیویٹ) پڑھنے والوں کے لیے سہولتیں منظور کروائیں۔ اس کے علاوہ 1989 میں صحافت کی ترقی کے لیے ایک سوسائٹی قائم کی جس کے تحت وہ سکھر میں شام کو پرائیویٹ پڑھنے والوں کے لیے کلاسز شروع کیں جس میں وہ خود پڑھاتے تھے۔ جو اسٹوڈنٹ دوسرے علاقوں میں رہتے تھے انھیں گائیڈ لائنز دینے کے لیے خط و کتابت کے ذریعے درس دیتے تھے۔ اس عمل کی وجہ سے کئی پرائیویٹ اسٹوڈنٹس اچھے نمبروں سے ماس کمیونیکیشن میں امتحان میں پاس ہوئے۔
نصرت کو اپنی زبان سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کے ساتھ بہت محبت تھی اس لیے وہ چاہتے تھے کہ کراچی میں رہنے والے دوست سندھی سیکھیں، جس کے لیے انھوں نے ریڈیو پاکستان کراچی سے اردو، سندھی بول چال کا پروگرام پیش کیا۔ نصرت نے ادبی دنیا میں اپنا پہلا قدم بچپن سے ہی رکھا تھا اور 1950 میں ایک ادبی سنگت کی میٹنگ میں انھوں نے اپنی لکھی ہوئی کہانی دوستوں کو پڑھ کر سنائی جس کا نام تھا ''چراغ کے پیچھے''۔ اردو میں اس کی پہلی کہانی ''دہرا قتل'' جو ایک بڑے اردو میگزین میں شایع ہوئی، اس کے بعد مسلسل ان کی کہانیاں سندھی اخبار الوحید میں چھپتی رہیں۔ اردو کے ایک بڑے اخبار کے مالک نے نصرت کو میر صحافت کا خطاب دیا تھا، اس لیے بعد میں انھوں نے اپنے نام کے آگے میر نصرت حسن ابڑو لکھنا شروع کیا۔ اس کی دو کمزوریاں تھیں ایک کتاب اور دوسری دوستوں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کی محفل میں جانا، ان سے ملنا اور علمی گفتگو کرنا جس کے لیے وہ اکثر مختلف اخباری دفاتر میں صحافیوں سے ملنے جاتے تھے۔
وہ یکم جنوری 1938 میں اللہ ورایو کے گھر میں پیدا ہوئے، اپنی پرائمری تعلیم اپنے شہر سے حاصل کی اور سیکنڈری تعلیم کے لیے لاڑکانہ گئے جہاں انھوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول لاڑکانہ سے 1958 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے B.A کا امتحان 1962 میں پاس کیا۔میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ اپنے شہر میں ڈرائنگ ٹیچر کے طور پر بھرتی ہوگئے اور اس کے بعد مختلف اسکولوں میں وہ انگریزی کا مضمون پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد مزید ترقی کرنے کے خیال سے انھوں نے اپنا تبادلہ کراچی کروالیا اور ٹیچر کے طور پر پڑھاتے رہے۔ 1972 میں وہ سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں انفارمیشن افسر بن گئے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے انٹرنیشنل ریلیشن میں ڈگری حاصل کی جب کہ بعد میں وہ ایم اے جرنلزم میں کراچی یونیورسٹی سے پاس کی۔
مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ مرجانے کے بعد بہت ہی کم لوگوں کو یاد کیا جاتا ہے، اس کے لیے لکھا جاتا ہے، پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، اکیڈمیاں بنائی جاتی ہیں تاکہ اسے یاد رکھا جائے۔ حالانکہ انھوں نے بڑے اچھے دوست پیدا کیے اور اچھی تحریریں چھوڑی ہیں جنھیں آگے لے جانا ان کی اولاد کا فرض ہے اور دوستوں پر ان کا یہ قرض ہے کہ وہ نصرت کو یاد رکھیں۔