صدر ممنون نے جب اشرف غنی کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا

صدر مملکت نے افغان صدر کا یہ رویہ دیکھا تو سیکریٹری خارجہ سے کہا کہ وہ افغان صدر کے الزامات کا جواب دیں

farooq.adilbhuta@gmail.com

LONDON:
اسلام کریموف نے اس روز ہمیں حیران کر دیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وفد تاشقند میں تھا لیکن اس سے قبل اس وفد نے تاریخ کے پھولوں سے مہکتے ہوئے سمرقند میں اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کیا۔

اس سفر سے پیشتر ایوان صدر میں ایک گرینڈ بریفنگ ہوئی جس میں ازبکستان میں پاکستان کے سفیر، دفتر خارجہ کے متعلقہ حکام، سیکریٹری خارجہ اور مشیر خارجہ سمیت تمام اہم ذمے داران شریک ہوئے۔

اجلاس میں دورۂ ازبکستان، ایس سی او سربراہان مملکت اجلاس کے ایجنڈے اور دیگر ضروری امور زیر بحث آئے۔ کچھ ہی دن قبل جناب اسلام کریموف کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تھا اور صدرممنون حسین چاہتے تھے کہ وفود کی سطح پر مذاکرات کے موقع پر بات چیت کا آغازاسلامی اور مشرقی تہذیب کی روایت کے مطابق تعزیت سے کیا جائے۔

سفارتی نزاکتوں اور تشریفات (پروٹوکول)کے ایک ماہر نے مشورہ دیا کہ ایسا ہرگز نہ کیا جائے کیونکہ ازبک تعزیت کے عادی نہیں، وہ اس کا برا مناتے ہیں۔ انھیں دوسرا مشورہ دیا گیا کہ وہ دوران گفتگو اپنی عادت کے مطابق اسلامی بھائی چارے اور مسلم امہ وغیرہ کا ذکر بھی نہ کریں، اس طرح ابتدا میں ہی سردمہری کے پیدا ہو جانے کا خدشہ ہے۔صدر مملکت نے ایک مشورے کو قبول کر لیا اور دوسرے کو نظر انداز کر دیا۔

بات چیت شروع ہوئی تو رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد صدر ممنون حسین نے میزبان صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بڑے بڑے انسان پہلے چھوٹے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ یہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے جس میں کلکاریاں مارتے ہوئے وہ نونہال سے جواں سال بنتے ہیں، ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو زمین کی پشت پر حکمت، دانائی کی قوت سے اپنی کامیابیوں کی مہر ثبت کرتے ہیں، انھیں یہ صلاحیت اس گود سے ملتی ہے جس میں وہ پرورش پاتے ہیں۔

اس معیار سے آپ کی والدہ یقینا ایک عظیم بزرگ تھیں، ان کے سانحہ ارتحال پر میں آپ سے تعزیت کرتا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ انھیں اپنے قرب میں بہترین جگہ عطا فرمائیں۔صدر مملکت جب یہ تعزیتی الفاظ ادا کر رہے تھے، صدر اسلام کریموف نے تحیر کے عالم میں اپنے مہمان کی جانب ٹکٹکی جمائے رکھی، صدر ممنون نے جیسے ہی اپنی بات ختم کی، انھوں نے جذباتی انداز میں ان کا شکریہ ادا کیا، اس لمحے ان کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ گفتگو کا یہ مرحلہ ختم ہوا، پروٹوکول کے مطابق اب میزبان کو بات آگے چلانی تھی۔

صدر اسلام کریموف نے کہا کہ آپ نے اپنے اس دورے کا آغاز سمر قند اور خاص طور پر امام بخاری کے مزار سے کر کے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ مسلم دنیاکے قائدین آیندہ اپنے دورے کا آغاز اسی طرح کیا کریں گے۔ یوں وہ بات جس سے صدر ممنون حسین کو روکا گیا تھا،وہ صدر اسلام کریموف نے کہہ دی۔ اس طرح یہ ملاقات انتہائی خوش گوار ماحول میں شروع ہوئی۔

بات چیت کے اگلے مرحلے میں اسلام کریموف نے کہا کہ ان کا ملک پاک چین اقتصادی راہ داری کے فعال ہونے کا بے چینی سے منتظر ہے تاکہ اس کے ثمرات سے نہ صرف ان کا ملک بلکہ پورا وسط ایشیا مستفید ہو سکے۔ اقتصادی راہداری ہی کے ذکر پر ایک بار صدر مملکت نے افغانستان کے حالات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے خطے کی ترقی میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے۔

پاکستان کے ساتھ پر خلوص تعلقات اور اقتصادی راہداری کے ضمن میں افغانستان کے معاندانہ طرز عمل کے ضمن میں صدر اسلام کریموف کی گفتگو نے نہ صرف پاکستانی وفد بلکہ صدر مملکت کو بھی خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا اور ہم لوگ اس کے اسباب کو سمجھنے کے لیے کڑیوں سے کڑیاں ملاتے رہے۔


یہ راز گزشتہ روز صدر ممنون حسین سے افغان صدر کی ملاقات میں کھلا اور اندازہ ہوا کہ اسلام کریموف پہلے ہی اشرف غنی کا ذہن پڑھ چکے تھے۔ اس ملاقات کی تیاری جیسے ہی شروع ہوئی، اندازہ ہو گیا کہ ہمارے اس برادر ہمسایہ ملک کی قیادت کا موڈ زیادہ خوش گوار نہیں۔ افغانستان کی طرف سے کہاگیا کہ وہ ملاقات کے لیے پاکستان کی میزبانی قبول کرنے پر آمادہ نہیں، ہم چاہیں گے کہ پاکستان ان کی میزبانی قبول کرے۔ یہ روایت اور پروٹوکول کے خلاف تھا لہٰذا تان اس بات پر ٹوٹی کہ پاکستانی وفد افغانستان کے طے شدہ مقام پر پہنچ تو جائے گا لیکن اس کی حیثیت میزبان کی ہوگی۔

اگرچہ اس انتظام کی موضونیت پر بھی کافی سوالات تھے جس پر اس زمانے کے پروٹوکول چیف کی اہلیت معرض بحث میں بھی آئی لیکن وقت اتنا کم تھا کہ یہ انتظام قبول کر لیا گیا۔جیسے ہی ملاقات شروع ہوئی اندازہ ہو گیا کہ افغان وفد کا رویہ غیر مناسب ہے۔

افغان وفد کے ارکان اور اشرف غنی کرخت چہروں کے ساتھ ہال میں داخل ہوئے ، غیر سفارتی انداز میں دعا سلام کے بغیر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور اشرف غنی نے بیٹھتے ہی انتہائی ناشائستہ انداز میں گفتگو شروع کر دی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز روزانہ تقریبا پچاس افغانوں کو قتل کر رہی ہیں۔ یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان اگر اپنی اس روش سے باز نہ آیا تو افغانستان جواب دینے کاحق محفوظ رکھتا ہے اور اس کی بھرپور صلاحیت بھی۔

صدر مملکت نے افغان صدر کا یہ رویہ دیکھا تو سیکریٹری خارجہ سے کہا کہ وہ افغان صدر کے الزامات کا جواب دیں۔ انھوں نے کچھ نکات پیش کیے لیکن وہ اشرف غنی کے جارحانہ رویے کا توڑ نہ کر سکے۔ اس پر صدر مملکت نے مشیر امور خارجہ سے کہا کہ وہ جواب دیں لیکن اشرف غنی نے ان کی گفتگو پر بھی توجہ نہ دی۔

یہ دیکھ کر صدر ممنون حسین نے خود گفتگو کا آغاز کیا اور افغان صدر سے کہا کہ آپ کی برہمی سے خوب اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ لوگ پاکستان کے مقابلے میں کتنی طاقت رکھتے ہیں لیکن میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنی فورسز کے غیر پیشہ وارانہ طرز عمل اور بے ہمتی کا الزام پاکستان کو نہ دیں کیونکہ جن ہلاکتوں کا الزام آپ ہمیں دے رہے ہیں، اس کے ذمے دار دراصل طالبان ہیں، آپ ان کا سامنا نہیں کر پاتے تو ہم پر الزام دھرنے لگتے ہیں، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔

افغان صدر نے صدر ممنون حسین کی گفتگو کچھ دیر پہلے کے بدتہذیبی پر مبنی رویے کے برعکس خاموشی کے ساتھ سنی۔ کچھ دیر خاموشی کے ساتھ اس کا جواب سوچتے رہے اور پھر اچانک تھینک یو پریزیڈنٹ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باہر جانے کے دروازے پر جا پہنچے۔

اسی دوران میں صدر ممنون حسین اٹھ کھڑے ہوئے اور آگے بڑھ کر اشرف غنی کو ان کے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے کیا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ پاکستان نے تاریخ کے ہر مرحلے پر ہمسائیگی اور اسلامی بھائی چارے کے جذبے کے تحت افغانستان کے ساتھ تعاون کیا ہے، آج بھی لاکھوں افغان ہمارے درمیان خود پاکستانی شہریوں جیسے اعتماد کے ساتھ رہتے ہیں۔ آپ کا طرزعمل دونوں ملکوں کے عوام کو تو کیا دور کرے گا لیکن اس سے خود افغانستان اور خطے میں امن کے دشمنوں کا کام آسان بنا دے گا۔

صدر ممنون حسین نے بازو سے پکڑ کر صدر اشرف غنی سے یہ باتیں کہیں تو ان کے رویے میں کچھ تبدیلی پیدا ہوئی۔ انھوں نے پلٹ کر پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ صدر مملکت سے مصافحہ کیا اور اپنی تلخ نوائی کی مناسب انداز میں معذرت کی۔

حیرت ہوتی ہے اسی تاشقند میں اشرف غنی نے ماضی کی طرح طالبان کے سامنے بے بسی محسوس کرتے ہوئے عمران خان کے ساتھ نامناسب طرز عمل اختیار کیا۔ تاشقند میں عمران خان کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد افغان رہنماؤں کے غیر مناسب لب و لہجے میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے، سب ضروری محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اسی زبان میں جواب دیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ماضی کی طرح مضبوط لب و لہجے کے جواب میں افغان رہنما معقولیت اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
Load Next Story