جمہوریت کا استحکام انتخابی اصلاحات سے مشروط

انتخابی اصلاحات کا معاملہ بہت اہم ہے کیونکہ صاف ستھرے الیکشن پر جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔

خامیوں اور خرابیوں کا ادراک کرنے کے بعد بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

آزادکشمیر میں انتخابات کا انعقاد جمہوری عمل کا تسلسل ہے، یہ ایک مستحسن روایت ہے کہ عوام اپنے نمایندوں کا انتخاب آزادانہ حق رائے دہی کی بنیاد پر کریں ، انتخابات ہمیشہ جمہوریت کے استحکام کا سبب بنتے ہیں لیکن ہمارے یہاں عجب چلن ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں۔

ہارنے والا نتائج تسلیم نہیں کرتا، دھاندلی کا شور مچایا جاتا ہے ،جیسا کہ ان انتخابات کے بعد ہورہا ہے ، پاکستان تحریک انصاف سادہ اکثریت سے یہ الیکشن جیت گئی ہے،جب کہ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر آئی ہیں۔

آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 45 نشستوں پر پولنگ کے دوران مختلف مقامات پر سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں2 افراد ہلاک دیگر واقعات میں 10 سے زائد افراد زخمی ہوگئے، جب کہ پولیس پارٹی پر حملے میں 5 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

امن وامان کے حوالے سے یہ صورتحال انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور اسے قطعی طور پر اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا ،یہ عدم برداشت کا رویہ جمہوریت کی بنیادی روح کے خلاف ہے۔

انتخابی اصلاحات کا معاملہ بہت اہم ہے کیونکہ صاف ستھرے الیکشن پر جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ بدقسمتی سے ہر الیکشن کے بعد ہارنے والی جماعتیں انتخابی عمل میں شدید دھاندلی کی شکایت کرتی ہیں۔ کبھی ووٹنگ سے پہلے دھاندلی کرنے کا شور مچتا ہے۔ کبھی ووٹنگ کے بعدپولنگ اسٹیشن پر گنتی اورریٹرننگ افسر کے دفتر میںنتائج مرتب کرنے میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

جمہوری عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلافات کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات لانے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں، تاکہ انتخابات کا عمل شفاف ہواور کسی کو بھی الزامات عائد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی کی جانب سے منظور شدہ انتخابی اصلاحات کا پیکیج حکومت کی جانب سے انتخابات ایکٹ میں بعض ترامیم واپس لینے کے لیے رضامندی ظاہر کرنے کے ساتھ سینیٹ پینل میں دوسری مرتبہ زیر بحث آئے گا۔

فورم کے باضابطہ طور پر جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وزارت پارلیمانی امور کے سیکریٹریز سینیٹ قائمہ کمیٹی کو انتخابی قانون میں شامل کی گئی 72 ترامیم پر بریفنگ دیں گے۔ وزیراعظم کے تازہ اقدام سے لگتا ہے کہ وہ اپنے منظور کرائے ہوئے بل کو واپس لے کر اپوزیشن سے ملکر نیا قانون منظور کروانا چاہتے ہیں۔یہ مثبت سوچ ہے کیونکہ جس قانون کو وسیع تر سیاسی حمایت حاصل نہ ہو وہ موثر اور دیرپا نہیں ہوسکتا۔

وزیراعظم عمران خان الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام جلد از جلد تیار کرنے کے حوالے سے پرعزم ہیں۔ وفاقی وزرا نے الیکشن ایکٹ 2017کے ترمیمی بل کی منظوری سے پیشتر ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری اور تیاری کے اختیارات سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارے کو دے دیے تھے۔ وزیراعظم پراعتماد ہیں کہ اگلا الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی شفافیت پر مبنی ہوگا۔

ان کی پہلی خواہش بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو آیندہ الیکشن میں ووٹ کا حق دینا ہے جب کہ دوسری خواہش یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 103 میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کرانے کا پابند کیا جائے جب کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی متعدد دفعات جن کا تعلق انتخابی فہرستوں سے ہے' میں الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود کرکے نادرا کو اختیارات تفویض کر دیے جائیں' جو بادی النظر میں آئین کے آرٹیکل 218' 219 اور 222سے متصادم ہے۔

وزیراعظم کی خواہشات اپنی جگہ لیکن حزب اختلاف اس خدشے کا اظہار کررہی ہے، کہ اگلے الیکشن میں اس نظام کا فوری اور براہ راست فائدہ حکومت ہی کو پہنچے گا، کیونکہ انتظامی کنٹرول کے امور اور معاملات پر حکمران جماعت کو انتظامی برتری حاصل ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ فیصلہ کن فوائد حاصل کرنیکی پوزیشن میں ہو سکتی ہے۔ حکومت کی مجوزہ ترمیم کے تحت ووٹر فہرستیں بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کے بجائے نادرا کو مل جائے گا۔

اپوزیشن اور الیکشن کمیشن اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس اقدام سے الیکشن کمیشن بے اختیار ہوجائے گا۔ عام لوگوں کو ووٹر لسٹوںمیںاپنا نام درج کروانے میں یا ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں اپنا ووٹ منتقل کروانے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ نادرا کا وسیع نیٹ ورک ہے جو یہ کام سہولت سے کرسکتا ہے۔


اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر الیکشن کمیشن اور نادرا دونوں کوووٹر لسٹیں بنانے کی مشترکہ ذمے داری بھی دی جاسکتی ہے۔اسی طرح اگر ہم الیکشن کمیشن کی 20 مئی کی جاری کردہ ایک پریس ریلیز کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان مشینوں کے فوری استعمال کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ اس عمل کو ابھی مزید پرکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس کو نقائص سے پاک کیا جا سکے لیکن حکومتی اقدامات کی رو سے گمان ہوتا ہے کہ حکومت اس نئے طریقہ انتخاب کے لیے بہت جلدی میں نظر آ رہی ہے۔ صدر مملکت ان مشینوں کو دھاندلی سے پاک سمجھتے ہوئے جو توجیہات پیش کر رہے ہیں وہ قابل فہم نہیں ہیں۔

فہمیدہ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ اس نئے انتخابی طریق سے الزامات کی بھٹی سلگانا مزید آسان ہو جائے گا۔ زیادہ پرانی بات نہیں، مئی 2013 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ ثابت کرنے کے لیے تحریک انصاف کی قیادت نے اردو بازار سے بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ سمیت کئی ایسے الزامات لگائے جو بعد میں غلط ثابت ہوئے لیکن صورتحال کشیدہ بنائے رکھنے کے لیے ایک طویل عرصے تک الزامات کے ذریعے دھاندلی کا خوب شورمچایا گیا تھا۔

ایسے ماحول میں جہاں فریقین کو بدگمانیوں نے گھیرا ہو، آپس میں اعتماد کا فقدان ہو اور ہر طرف بے یقینی کے سائے ہوں وہاں مشینوں کے اس نئے طریقہ انتخاب کو یک طرفہ طور پر نافذ کرنے سے انتخابی عمل مزید متنازعہ ہو جائے گا۔ ایسی صورتحال میں نئی اصلاحات دھاندلی الزامات کے لیے مزید ایندھن مہیا کرنے کا سبب بنیں گی۔

مزید برآں حکومت کے مخالفین کا موقف ہے کہ موجودہ حکومت جس میں اربوں روپے کی کرپشن کے ان گنت اسکینڈلز آئے ہیں، شاید اس لیے بھی مشینوں کی تیاری میں دل چسپی رکھتی ہے تاکہ اپنوں کو نوازا جا سکے۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے اپنی غلطیوں کو سدھار کر اس نظام کو بہتر کرنے کی خاطرخواہ کوشش کی ہے۔

خوشاب میں ہونے والے ضمنی انتخاب کو پہلا نتیجہ کہا جا سکتا ہے جس میں ہارنے والے امیدوار نے کسی دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا کردار لائق تحسین ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن ہر لحاظ سے بہتری کی طرف گامزن ہے۔

بے قاعدگیاں دور کرنے کے ساتھ الیکشن کمیشن پاکستان کو الیکشن ٹریبونلز کے حوالے سے بھی بہتری لانی چاہیے تاکہ مقررہ مدت میں انتخابی درخواستوں کا فیصلہ ہو سکے اور سیاسی جماعتوں کو بھی ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ مقدمات سالوں لٹکانے کے بجائے طے شدہ وقت میں فیصلہ دیا جا سکے، اس تناظرمیں چند تجاویزیہ ہیں کہ تمام تر عدالتی اختیارات الیکشن ٹریبونلز کو منتقل کردیے جائیں۔

انتخابی اصلاحات کے عملی نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی طرح پاکستان کے الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار بنایا جائے، الیکشن کمیشن کو مکمل انتظامی اختیارات دیے جائیں، جیسا کہ بھارت میں ہوتا ہے۔مثال کے طور پر جیسے ہی حکومت اپنی مدت پورے کرے، اس کے تمام انتظامی اختیارات آئین کے تحت الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجائیں، الیکشن کمیشن کی سربراہی حاضر سروس آفیسر کو دی جائے، اس طرح اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی حکومت کے پاس انتخابی افسران اور عملے کی تعیناتی کے اختیارات ختم ہوجائیں گے۔

کیونکہ سارے انتظامی اختیارات، الیکشن کمشنر کو آئین کے تحت منتقل ہوجائیں گے،یوں ہر الیکشن کے موقعے پر نگران وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہونے کا جھگڑا بھی ختم ہوجائے گا،چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے مشورہ کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے متعدد اجلاسوں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی، مزید برآں الیکشن کمیشن کو عدالتی اختیارات بھی دیے جائیں، جو انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو فوری سزا بھی سنا سکے۔

ملک میں تقریباً ہر الیکشن کے بعد رونما ہونے والی صورتحال کی وجہ سے انتخابات اور جمہوریت پر سے لوگوں کا اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام کی سب سے بڑی خرابی بھی یہی ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کی کمی ہے۔جمہوری نظام کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے اور اسے عوامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اصلاحات کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔ پارلیمانی نظام کو اس کی صحیح روح کے مطابق چلانے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہماری نظم حکمرانی کے وہ کون سے پہلو ہیں جن کے بارے میں عوام کی بڑی اکثریت شدید تحفظات رکھتے ہوئے نالاں نظر آتی ہے۔

ان خامیوں اور خرابیوں کا ادراک کرنے کے بعد بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔تا کہ انتخابات کا انعقاد ایماندارانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ ہو، قانونی تقاضوں کے عین مطابق ہو اور دھونس دھاندلی کے بغیر انجام پائے۔ یہ وہ دستوری تقاضا ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کئی لازمی شرائط اور بھی ہیں۔

اس نوعیت کے تمام اقدامات پارلیمان کے ذریعے ہی ممکن ہیں، کیونکہ پارلیمان کو نظر انداز کر کے کیا جانے والا ہر عمل ماورائے جمہوریت اور آئین ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ اگر آئین کسی بھی سطح پر بائی پاس کیا گیا تو یہ اپنی افادیت کھو بیٹھے گا،اگر چہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کی وسیع خلیج حائل ہے مگر قومی مفاد میں بہتر ہو گا کہ سیاست سے بالاتر ہو کر نہ صرف انتخابات بلکہ ملکی نظام کے ہر شعبے میں اتفاق رائے سے اصلاحات لائی جائیں۔
Load Next Story