’’صحافت کے اُستاد‘‘ عارف نظامی بھی چلے گئے
وطن عزیز میں آزادی صحافت کے لیے صبر آزما جدوجہد میں بھی وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔
رہنما، اُستاد، دوست اور صحافی عارف نظامی کی اچانک رحلت ، وہ بھی عید قربان کے دن شدید صدمے کا باعث بنی، وہ کچھ عرصہ سے بیمار تو تھے، اُن کی آواز بھی خاصی مدہم ہوچکی تھی، وہ ٹی وی پر بھی تھکے تھکے دکھائی دیتے تھے، لیکن اتنی جلدی چلے جائیں گے، یہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ بلکہ مجھ سمیت حلقہ احباب میں کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی کہ وہ کب اسپتال میں داخل ہوئے اور کب وہ وینٹی لیٹر پر گئے، اور کب پردہ فرما گئے۔
عارف نظامی کی وفات صرف اُن کے خاندان ہی کے لیے صدمے کا باعث نہیں بلکہ اْن کے دوستوں کے لیے بھی بہت کربناک تھی!
عارف نظامی (مرحوم)...ویسے دوست احباب، اساتذہ اور قریبی لوگوں کے ساتھ ''مرحوم'' لکھنا بھی بہت معیوب سا لگتا ہے، لیکن یہی حقیقت ہے کہ بقول شاعر
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی
عارف نظامی صاحب سے میری پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی، جب ہم طالب علم ہوا کرتے تھے اور وہ ہمارے اُستاد۔ وہ بہت disciplined ، Gracefulاور قابل اعتبار شخصیت کے مالک تھے۔ بطور شاگرد اُن کا احترام بجا لانا مجھ پر فرض تھا، لیکن بعد میں چونکہ صحافت کی دنیا قدرے مختصر سی ہے، اس لیے اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ 1985کے بعد ایسا شروع ہوا، کہ پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔
شروع شروع میں جب ہم بھی پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے تو تب محترمہ بے نظیر کی موجودگی میں اُن سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اور چونکہ محترمہ سمیت ہر سیاسی پارٹی کا قائد انھیں پسند کرتا تھا، اس لیے وہ بھی ہمیشہ خبروں کے پیچھے رہتے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذہانت، تجزیہ کاری اور خبروں کی بروقت ''بریکنگ'' کی وجہ سے خاصے مشہور تھے۔ اور یہ بریکنگ آج کی نہیں بلکہ اُس دور کی تھیں، جب پرائیویٹ چینلز کے بارے میں صرف کہانیوں میں ہی سنا جا سکتا تھا۔ مثلاََبے نظیر بھٹو حکومت کی معزولی اور نوازشریف کے پہلے دور کی رخصتی جیسی خبریں سب سے پہلے انھوں نے ہی بریک کی تھیں۔
پھر جدید دور میں ریحام خان سے عمران خان کی شادی، پھر دونوں کے رشتہ ازدواج کے اختتام کی خبریں، اس کے علاوہ سابق آرمی چیف کی توسیع نہ لینے کی خبریں قارئین کو آج بھی یاد ہوں گی،یہ خبریں بھی سب سے پہلے انھوں نے ہی دی تھیں۔ ریحام خان اور عمران خان کی شادی کی خبروں کے حوالے سے جب میں نے ایک نجی محفل میں اُن سے ذاتی طور پر دریافت کیا تو وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔
کہتے بھلا میں ایک ذمے دار آدمی کیسے غلط خبر دے سکتا ہوں۔ اُس وقت چونکہ میں بھی تحریک انصاف کے ''بخار'' میں مبتلا تھا، اس لیے مجھے نظامی صاحب کی بات پر پھر بھی یقین نہیں آیا، لیکن جب اُن کی بات سچ ثابت ہوئی تو پھر اگلی نشست میں اُن کی آنکھیں مجھے تلاش کر رہی تھی اور میں اُن سے اپنے تئیں نظریں چرا رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں اُن سے بطور شاگرد بچ بچا کر نکلنے کی کوشش میں تھا کہ اتنے میں انھوں نے قریب آکر تھپکی دی اور کہا کہ '' دیکھا ڈھلوں صاحب آپ کے لیڈر کا کمال۔'' پھر کیا تھا، باتیں قہقہوں میں بدل گئی اور قہقہے خاموشیوں میں! خاموشیوں میں اس لیے کہ وہ ہر بار ایک اچھی بات اور نصیحت کرنے کے عادی اور چونکہ اُن کی ہر بات میں کوئی نہ کوئی حقیقت چھپی ہوتی تھی، اس لیے مجھ سمیت بہت سے پرانے شاگردوں کو اُن کی باتوں پر خاص دھیان دینا پڑتا تھا ورنہ وہ ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے۔
پھر انھیں جب بھی میں نے کسی تقریب میں مدعو کیا، وہ بغیر کسی بہانے کے تقریب کو عزت بخشتے، وہ راقم کی کتاب ''تلخیاں'' کی تقریب رونمائی میں آئے، اور اپنے خطاب میں بھی ''استادوں'' والا رویہ رکھا۔ اور کئی ایک چیزوں پر دوران خطاب ہی مجھے مثبت تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ لیکن میرے لیے یہ شرف کی بات تھی کہ وہ میرا کس قدر گہرائی سے مشاہدہ کرتے تھے۔ پھر جب میں نے اُن سے اپنی کتاب''تلخیاں'' کے بارے میں چند حروف لکھنے کے لیے کہا تو انھوں نے لکھا کہ '' مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مصنف میرا شاگرد رہا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں علی ہمیشہ غیر نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں مشغول رہتا تھا۔ اس لیے وہ ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا، مگر اُس کا آئی کیو لیول بہترین تھا''۔ وغیرہ۔ پھر جب میں نے اُن سے اپنی کتاب ''پاکستان کی روشن اقلیتیں'' کے لیے چند حروف لکھنے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ موضوع اچھا ہے اس لیے اس پر بھی میں ضرور لکھوں گا۔ مذکورہ کتاب کے لیے اُن کا لکھا ہوا ابتدائیہ پیش خدمت ہے۔
''برادرم علی احمد ڈھلوں نے ''پاکستان کی روشن اقلیتیں''رقم کر کے نہ صرف پاکستانی مسلمانوں پر اقلیتی برادری کا 73 سالہ واجب الادا قرض چکا دیا بلکہ پاکستان کے قیام، اس کی تعمیروترقی میں قربانیاں دینے اور خون پسینہ ایک کرنے والے اقلیتی بھائیوں کو خراج عقیدت پیش کر کے قومی پرچم میں سفید رنگ کی جامع تشریح کر دی ہے،ایسا گماں ہوتا ہے کہ ہمارے جھنڈے کے دونوں رنگوں کی انفرادی خصوصیات اجاگر ہو گئی ہیں۔راقم نے بڑی وسیع القلبی سے یہ واضح کیا ہے کہ ریاست پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے ہر ایک کے حقوق برابر اور کوئی کسی سے کمتر نہیں۔اقلیتی برادری کی خدمات کو سراہا جائے اور انھیں مساوی شہری گردانا جائے تو وہ ملک عزیزمیں ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے اپنامزید حصہ ڈال سکتے ہیں۔''
بہرکیف عارف نظامی دوستوں کی محفل میں بھرپور قہقہے بھی لگاتے تھے ۔ ان کے سیاسی تجزیے بہت حد تک متوازن ہوتے تھے، انھوں نے ڈیلی ''دی نیشن'' کی ادارت کے فرائض طویل عرصے تک انجام دیے اور ان کے نظریات کی جھلک اخبار کے اداریوں اور ٹی وی کے تجزیوں میں دیکھی جا سکتی تھی، وہ روزنامہ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کے صاحبزادے تھے چنانچہ انھیں ان کی فکری پاسداری کا خیال بھی رہتا تھا۔
وہ کئی بار آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر کے منصب پر فائز رہے۔ وطن عزیز میں آزادی صحافت کے لیے صبر آزما جدوجہد میں بھی وہ ہمیشہ پیش پیش رہے اور انھوں نے اپنے عظیم والد جناب حمید نظامی کی اعلیٰ روایات کی ہمیشہ پاس داری کی اور اخبارات کی آزادی کی جدو جہد میں اور صحافیوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے صف اول میں کھڑے رہے۔
میری اُن سے آخری ملاقات رواں سال مئی کے مہینے میں ہوئی تھی جب وہ سی پی این ای کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی گئے تھے۔ جہاں انھیں صدر کے عہدہ پر دوبارہ منتخب کیا گیا، ان کے بڑے بھائی شعیب نظامی بتاتے ہیں کہ وہاں انھیں پاؤں میں سوجن کی شکایت ہوئی۔ لاہور واپسی پر انھوں نے اس کا علاج شروع کرایا۔
ان کے ڈاکٹروں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ان کے گردوں کی فعالیت میں کمی آگئی ہے۔ اس کے لیے ان کی Biopsy کا فیصلہ کیا گیا مگر ابھی سوئی ان کی ہتھیلی میں پوری طرح داخل نہیں ہوئی تھی کہ اس جگہ سے خون بہنا شروع ہوگیا جس سے نہ صرف ان کے گردے اور پھیپھڑے بھی بری طرح متاثر ہوئے اور یہی عارضہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کے دنیا سے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ بڑے عرصہ تک پْر نہیں ہوسکے گا۔
عارف نظامی کی وفات صرف اُن کے خاندان ہی کے لیے صدمے کا باعث نہیں بلکہ اْن کے دوستوں کے لیے بھی بہت کربناک تھی!
عارف نظامی (مرحوم)...ویسے دوست احباب، اساتذہ اور قریبی لوگوں کے ساتھ ''مرحوم'' لکھنا بھی بہت معیوب سا لگتا ہے، لیکن یہی حقیقت ہے کہ بقول شاعر
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی
عارف نظامی صاحب سے میری پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی، جب ہم طالب علم ہوا کرتے تھے اور وہ ہمارے اُستاد۔ وہ بہت disciplined ، Gracefulاور قابل اعتبار شخصیت کے مالک تھے۔ بطور شاگرد اُن کا احترام بجا لانا مجھ پر فرض تھا، لیکن بعد میں چونکہ صحافت کی دنیا قدرے مختصر سی ہے، اس لیے اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ 1985کے بعد ایسا شروع ہوا، کہ پھر رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔
شروع شروع میں جب ہم بھی پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے تو تب محترمہ بے نظیر کی موجودگی میں اُن سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اور چونکہ محترمہ سمیت ہر سیاسی پارٹی کا قائد انھیں پسند کرتا تھا، اس لیے وہ بھی ہمیشہ خبروں کے پیچھے رہتے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذہانت، تجزیہ کاری اور خبروں کی بروقت ''بریکنگ'' کی وجہ سے خاصے مشہور تھے۔ اور یہ بریکنگ آج کی نہیں بلکہ اُس دور کی تھیں، جب پرائیویٹ چینلز کے بارے میں صرف کہانیوں میں ہی سنا جا سکتا تھا۔ مثلاََبے نظیر بھٹو حکومت کی معزولی اور نوازشریف کے پہلے دور کی رخصتی جیسی خبریں سب سے پہلے انھوں نے ہی بریک کی تھیں۔
پھر جدید دور میں ریحام خان سے عمران خان کی شادی، پھر دونوں کے رشتہ ازدواج کے اختتام کی خبریں، اس کے علاوہ سابق آرمی چیف کی توسیع نہ لینے کی خبریں قارئین کو آج بھی یاد ہوں گی،یہ خبریں بھی سب سے پہلے انھوں نے ہی دی تھیں۔ ریحام خان اور عمران خان کی شادی کی خبروں کے حوالے سے جب میں نے ایک نجی محفل میں اُن سے ذاتی طور پر دریافت کیا تو وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔
کہتے بھلا میں ایک ذمے دار آدمی کیسے غلط خبر دے سکتا ہوں۔ اُس وقت چونکہ میں بھی تحریک انصاف کے ''بخار'' میں مبتلا تھا، اس لیے مجھے نظامی صاحب کی بات پر پھر بھی یقین نہیں آیا، لیکن جب اُن کی بات سچ ثابت ہوئی تو پھر اگلی نشست میں اُن کی آنکھیں مجھے تلاش کر رہی تھی اور میں اُن سے اپنے تئیں نظریں چرا رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں اُن سے بطور شاگرد بچ بچا کر نکلنے کی کوشش میں تھا کہ اتنے میں انھوں نے قریب آکر تھپکی دی اور کہا کہ '' دیکھا ڈھلوں صاحب آپ کے لیڈر کا کمال۔'' پھر کیا تھا، باتیں قہقہوں میں بدل گئی اور قہقہے خاموشیوں میں! خاموشیوں میں اس لیے کہ وہ ہر بار ایک اچھی بات اور نصیحت کرنے کے عادی اور چونکہ اُن کی ہر بات میں کوئی نہ کوئی حقیقت چھپی ہوتی تھی، اس لیے مجھ سمیت بہت سے پرانے شاگردوں کو اُن کی باتوں پر خاص دھیان دینا پڑتا تھا ورنہ وہ ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے۔
پھر انھیں جب بھی میں نے کسی تقریب میں مدعو کیا، وہ بغیر کسی بہانے کے تقریب کو عزت بخشتے، وہ راقم کی کتاب ''تلخیاں'' کی تقریب رونمائی میں آئے، اور اپنے خطاب میں بھی ''استادوں'' والا رویہ رکھا۔ اور کئی ایک چیزوں پر دوران خطاب ہی مجھے مثبت تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ لیکن میرے لیے یہ شرف کی بات تھی کہ وہ میرا کس قدر گہرائی سے مشاہدہ کرتے تھے۔ پھر جب میں نے اُن سے اپنی کتاب''تلخیاں'' کے بارے میں چند حروف لکھنے کے لیے کہا تو انھوں نے لکھا کہ '' مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مصنف میرا شاگرد رہا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں علی ہمیشہ غیر نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں مشغول رہتا تھا۔ اس لیے وہ ایک اوسط درجے کا طالب علم تھا، مگر اُس کا آئی کیو لیول بہترین تھا''۔ وغیرہ۔ پھر جب میں نے اُن سے اپنی کتاب ''پاکستان کی روشن اقلیتیں'' کے لیے چند حروف لکھنے کی درخواست کی تو انھوں نے کہا کہ موضوع اچھا ہے اس لیے اس پر بھی میں ضرور لکھوں گا۔ مذکورہ کتاب کے لیے اُن کا لکھا ہوا ابتدائیہ پیش خدمت ہے۔
''برادرم علی احمد ڈھلوں نے ''پاکستان کی روشن اقلیتیں''رقم کر کے نہ صرف پاکستانی مسلمانوں پر اقلیتی برادری کا 73 سالہ واجب الادا قرض چکا دیا بلکہ پاکستان کے قیام، اس کی تعمیروترقی میں قربانیاں دینے اور خون پسینہ ایک کرنے والے اقلیتی بھائیوں کو خراج عقیدت پیش کر کے قومی پرچم میں سفید رنگ کی جامع تشریح کر دی ہے،ایسا گماں ہوتا ہے کہ ہمارے جھنڈے کے دونوں رنگوں کی انفرادی خصوصیات اجاگر ہو گئی ہیں۔راقم نے بڑی وسیع القلبی سے یہ واضح کیا ہے کہ ریاست پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے ہر ایک کے حقوق برابر اور کوئی کسی سے کمتر نہیں۔اقلیتی برادری کی خدمات کو سراہا جائے اور انھیں مساوی شہری گردانا جائے تو وہ ملک عزیزمیں ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لیے اپنامزید حصہ ڈال سکتے ہیں۔''
بہرکیف عارف نظامی دوستوں کی محفل میں بھرپور قہقہے بھی لگاتے تھے ۔ ان کے سیاسی تجزیے بہت حد تک متوازن ہوتے تھے، انھوں نے ڈیلی ''دی نیشن'' کی ادارت کے فرائض طویل عرصے تک انجام دیے اور ان کے نظریات کی جھلک اخبار کے اداریوں اور ٹی وی کے تجزیوں میں دیکھی جا سکتی تھی، وہ روزنامہ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی کے صاحبزادے تھے چنانچہ انھیں ان کی فکری پاسداری کا خیال بھی رہتا تھا۔
وہ کئی بار آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی(اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر کے منصب پر فائز رہے۔ وطن عزیز میں آزادی صحافت کے لیے صبر آزما جدوجہد میں بھی وہ ہمیشہ پیش پیش رہے اور انھوں نے اپنے عظیم والد جناب حمید نظامی کی اعلیٰ روایات کی ہمیشہ پاس داری کی اور اخبارات کی آزادی کی جدو جہد میں اور صحافیوں کے حقوق کی پاس داری کے لیے صف اول میں کھڑے رہے۔
میری اُن سے آخری ملاقات رواں سال مئی کے مہینے میں ہوئی تھی جب وہ سی پی این ای کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی گئے تھے۔ جہاں انھیں صدر کے عہدہ پر دوبارہ منتخب کیا گیا، ان کے بڑے بھائی شعیب نظامی بتاتے ہیں کہ وہاں انھیں پاؤں میں سوجن کی شکایت ہوئی۔ لاہور واپسی پر انھوں نے اس کا علاج شروع کرایا۔
ان کے ڈاکٹروں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ان کے گردوں کی فعالیت میں کمی آگئی ہے۔ اس کے لیے ان کی Biopsy کا فیصلہ کیا گیا مگر ابھی سوئی ان کی ہتھیلی میں پوری طرح داخل نہیں ہوئی تھی کہ اس جگہ سے خون بہنا شروع ہوگیا جس سے نہ صرف ان کے گردے اور پھیپھڑے بھی بری طرح متاثر ہوئے اور یہی عارضہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کے دنیا سے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ بڑے عرصہ تک پْر نہیں ہوسکے گا۔