بچوں کی کھانے سے رغبت کیسے پیدا کی جائے
بچوں کے غذائی مسائل میں ماؤں کی غفلت کو بھی دوش ہے۔۔۔
یہ تقریباً ہر گھر ہی کی کہانی ہے کہ کوئی گوشت نہیں کھاتا، تو کوئی دال سبزی سے دور بھاگتا ہے۔۔۔ اکثر ماؤں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے بچے یہ نہیں کھاتے اور وہ نہیں کھاتے، انھیں تو بس 'سینڈوچ' اور برگر ہی پسند ہیں۔
ہر ماں یہی شکوہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، تو اس میں قصور کس کا ہے۔۔۔؟ یا پھر یہ دراصل ماؤں ہی کی سہل پسندی ہے کہ وہ بچپن سے ہی بچوں کو گنی چنی چیزیں ہی کھانے کے لیے دیتی رہتی ہیں۔۔۔
پھر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ میں تو گھر میں ان کے پسند کا کچھ بھی بنا بنا کر تنگ آچکی ہوں۔ اس لیے مجبوراً پھر بازار سے ہی کچھ نہ کچھ منگوانا پڑتا ہے، کبھی ہوٹل سے پیزا پارسل ہو رہا ہے، تو کبھی انواع اقسام کے بن کباب، پیٹیز اور پراٹھوں کے مزے اڑائے جا رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ خود ماؤں کی سہل پسندی نے ہمارے بچوں کو 'فاسٹ فوڈ' کا عادی بنایا ہے، پہلے تو شوقیہ یا بچوں کو خوش رکھنے کے لیے ساتھ بازار لے گئیں اور وہاں سے برگر شوارما لے کر کھلا دیا، جب بچے گھر آئے، تو ظاہر ہے، انھوں نے گھر کے کھانے میں ذرا دل چسپی نہ لی، کیوں کہ انھیں تو بھوک ہی نہیں لگ رہی تھی، بھئی، جب برگر اور شوارما سے پیٹ بھر لیا، تو وہ بھلا گھر کے کھانے پینے سے کیا رغبت دکھائیں گے۔
اس لیے اب ان کے بڑے ہونے کے بعد روایتی ہانڈیوں سے ان کی رغبت نہ ہونے کی شکایت بے معنی ہے کہ آپ جو کچھ بھی پکالیں بچے شوق سے نہیں کھاتے۔ سبزیوں کی طرف تو دیکھتے بھی نہیں ہیں'' کسی نے شکوہ کیا۔
جب بچپن سے ہی آپ نے زیادہ تر فیڈر میں دودھ ڈال کر انھیں دے دیتے تھے، تو وہ گھر کے کھانوں اور سبزیوں وغیرہ سے کیوں کر آشنائی حاصل کریں گے، جب کہ چھے ماہ کے بعد سے بچے کو ٹھوس غذا سے متعارف کرانا شروع کر دینا چاہیے، کبھی دلیہ بنا دیا، کبھی چاول ابال کر کھلا دیے، تو کبھی کیلے اور ساگودانے کی کھیر بنا دی، چھوٹے بچوں کو چینی اور نمک سے دور رکھیں اور کوشش کریں کہ ایک سال کی عمر تک انھیں دودھ میں چینی ملا کر نہ دیں، اکثر مائیں بچے کو ایک ہی غذا کھانے پر مجبور کرتی ہیں، تب بچہ کھانے سے انکار کرتا ہے، بچوں کو بدل بدل کر مختلف چیزیں کھلائیں، تاکہ وہ سارے ذائقوں سے واقف ہو جائے اور جب بڑا ہو تو خوش ہو کر گھر میں پکنے والے تمام کھانے، سبزیاں اور گوشت کھائے۔
خوراک بدلنے سے مراد یہ نہیں کہ کوئی ثقیل چیز بنا کر دی جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیریلیک کو کھیر میں بدل دیں۔ ساگودانے کو دلیے میں۔ بچے کے لیے روز نہ سہی ہر تیسرے دن کچھ منفرد بنانا چاہیے، تاکہ وہ شوق سے کھائے، کبھی گوشت کی یخنی بنا کر دے دیں، تو کبھی سبزی کا سوپ، انڈے اور دودھ سے نئی نئی ڈش بنا کر کھلائیں، تاکہ بچوں میں پروٹین اور آئرن کی کمی نہ ہو۔
بازار کی چیزیں کھانے کے بعد بچے صبح شکایت کرتے ہیں کہ ان کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ جواباً ہم کہتے ہیں کہ یہ رات کے 'فاسٹ فوڈ' کا کمال تھا اور رہی سہی کسر آئس کریم اور دیگر مختلف مشروبات نے پوری کر دی ہے ۔ اگر بچوں کو بچپن سے سبزی' گوشت اور تازہ چیزیں کھانے کی عادت ڈالی جاتی، انھیں گھر میں ہی حفظان صحت کے مطابق چیزیں تیار کر کے دی جاتیں، تو امکان یہی ہوتا ہے کہ وہ پھر اسی رنگ رمیں رنگ جاتے اور اب آپ کو تنگ نہ کرتے۔
چھوٹے بچے پیار اور شفقت سے بات بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انھیں پیار سے اپنے پاس بٹھائیں، ان کی پسند ونا پسند پوچھیں، پھر بچے کو اس کی دل چسپی کی باتوں میں لگا کر اور اس کا من پسند کوئی قصہ کہانی چھیڑ کر یا اس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کھانا کھلائیے۔ انھیں سمجھائیں کہ اچھی اور صحت بخش غذا کھانے سے ان کا جسم بیماروں کے خلاف مدافعت پیدا کر سکے گا اور وہ زندگی میں کام یاب ہو سکیں گے۔ دماغ اور جسم کی چستی کے لیے تازہ جوس اور سبزیاں بہت ضروری ہیں۔
بچوں کو بچپن سے ہی کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں، تاکہ بڑے ہوکر ان میں اچھی عادات پختہ ہو جائیں، انھیں بچپن سے ہی ٹھیلوں پر ملنے والی چیزیں کھانے سے منع کریں، تاکہ وہ اس کے مضر اثرات اور بیماریوں سے بچ سکیں، بچوں کو سبزیوں کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بتائیں، اس طرح وہ جلد ہی سبزیاں کھانے لگیں گے، مل جل کر کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بچوں کے ساتھ مل کر بچے زیادہ آسانی سے کھا پی لیتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ان کے لیے بچوں کی سنگت اہم ہوتی ہے، وہ کیا کھا رہے ہیں، یہ چیز ثانوی سی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح بزرگوں اور دادی، نانی وغیرہ کے ہاں دسترخوان پر بھی اس کے مثبت اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ اکثر گھروں میں سب لوگ الگ الگ وقت پر کھانا کھاتے ہیں اس وجہ سے بچے کھانے سے انکار کرتے ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ سب لوگ ایک ہی دسترخوان پر کھانا تناول کریں۔
اس طرح بچوں کا دھیان بٹتا ہے، کھانے پینے کے آداب سے آگاہی ہوتی ہے، اکیلے کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں، تو ان کا سارا دھیان اپنے کھانے کی طرف جاتا ہے اور پھر وہ تنگ کرنے لگتے ہیں۔ بچہ انکار کرے تو اسے ڈانٹنے کے بہ جائے سمجھا بجھا کر کھانے پر قائل کریں۔ بچے شوق سے دودھ نہ پیئیں، تو انھیں دودھ سے بنی ہوئی مختلف اشیا تیار کر کے کھلائیں، تازہ جوس بنا کر دیں، ملک شیک بنا دیں، بازار کے جوس اور شیک سے پرہیز کریں۔
کچھ ماؤں کو یہ شکایت بھی ہوتی ہے کہ 'سب کے بچے تو پلیٹ بھر بھر کے کھاتے ہیں، ایک ہمارے بچے ہیں، تھوڑا سا کھا کر ہاتھ پیچھے کر لیتے ہیں' بچہ جتنا کھائے اسے کھانے دیں، زبردستی نہ کریں، اگر اس کی نشوونما اچھی ہے، تو پریشانی کی بات نہیں۔ زیادہ کھانے والے بچے ضروری نہیں صحت مند بھی ہوں، کچھ ماؤں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے بچوں کو موٹا دیکھ کر اپنے بچوں کو ٹھونس ٹھونس کر کھلانے کی کوشش کرتی ہیں، بچے کو لٹا کر زبردستی چمچے سے اس کے منہ میں گویا کھانا انڈیلتی ہیں۔
بچہ چیختا چلاتا ہے، لیکن ان پر اثر نہیں ہوتا، اس کے دو نقصان ہوتے ہیں، ایک تو بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور دوسرا کھانے سے اور دور بھاگنے لگتے ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ بچہ جتنا شوق اور خوشی سے کھائے، اسے کھلائیں، زیادہ کھلانے سے بچوں کا ہاضمہ متاثر ہوتا ہے اور اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہر ماں یہی شکوہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، تو اس میں قصور کس کا ہے۔۔۔؟ یا پھر یہ دراصل ماؤں ہی کی سہل پسندی ہے کہ وہ بچپن سے ہی بچوں کو گنی چنی چیزیں ہی کھانے کے لیے دیتی رہتی ہیں۔۔۔
پھر ماؤں کو شکایت ہوتی ہے کہ میں تو گھر میں ان کے پسند کا کچھ بھی بنا بنا کر تنگ آچکی ہوں۔ اس لیے مجبوراً پھر بازار سے ہی کچھ نہ کچھ منگوانا پڑتا ہے، کبھی ہوٹل سے پیزا پارسل ہو رہا ہے، تو کبھی انواع اقسام کے بن کباب، پیٹیز اور پراٹھوں کے مزے اڑائے جا رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ خود ماؤں کی سہل پسندی نے ہمارے بچوں کو 'فاسٹ فوڈ' کا عادی بنایا ہے، پہلے تو شوقیہ یا بچوں کو خوش رکھنے کے لیے ساتھ بازار لے گئیں اور وہاں سے برگر شوارما لے کر کھلا دیا، جب بچے گھر آئے، تو ظاہر ہے، انھوں نے گھر کے کھانے میں ذرا دل چسپی نہ لی، کیوں کہ انھیں تو بھوک ہی نہیں لگ رہی تھی، بھئی، جب برگر اور شوارما سے پیٹ بھر لیا، تو وہ بھلا گھر کے کھانے پینے سے کیا رغبت دکھائیں گے۔
اس لیے اب ان کے بڑے ہونے کے بعد روایتی ہانڈیوں سے ان کی رغبت نہ ہونے کی شکایت بے معنی ہے کہ آپ جو کچھ بھی پکالیں بچے شوق سے نہیں کھاتے۔ سبزیوں کی طرف تو دیکھتے بھی نہیں ہیں'' کسی نے شکوہ کیا۔
جب بچپن سے ہی آپ نے زیادہ تر فیڈر میں دودھ ڈال کر انھیں دے دیتے تھے، تو وہ گھر کے کھانوں اور سبزیوں وغیرہ سے کیوں کر آشنائی حاصل کریں گے، جب کہ چھے ماہ کے بعد سے بچے کو ٹھوس غذا سے متعارف کرانا شروع کر دینا چاہیے، کبھی دلیہ بنا دیا، کبھی چاول ابال کر کھلا دیے، تو کبھی کیلے اور ساگودانے کی کھیر بنا دی، چھوٹے بچوں کو چینی اور نمک سے دور رکھیں اور کوشش کریں کہ ایک سال کی عمر تک انھیں دودھ میں چینی ملا کر نہ دیں، اکثر مائیں بچے کو ایک ہی غذا کھانے پر مجبور کرتی ہیں، تب بچہ کھانے سے انکار کرتا ہے، بچوں کو بدل بدل کر مختلف چیزیں کھلائیں، تاکہ وہ سارے ذائقوں سے واقف ہو جائے اور جب بڑا ہو تو خوش ہو کر گھر میں پکنے والے تمام کھانے، سبزیاں اور گوشت کھائے۔
خوراک بدلنے سے مراد یہ نہیں کہ کوئی ثقیل چیز بنا کر دی جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیریلیک کو کھیر میں بدل دیں۔ ساگودانے کو دلیے میں۔ بچے کے لیے روز نہ سہی ہر تیسرے دن کچھ منفرد بنانا چاہیے، تاکہ وہ شوق سے کھائے، کبھی گوشت کی یخنی بنا کر دے دیں، تو کبھی سبزی کا سوپ، انڈے اور دودھ سے نئی نئی ڈش بنا کر کھلائیں، تاکہ بچوں میں پروٹین اور آئرن کی کمی نہ ہو۔
بازار کی چیزیں کھانے کے بعد بچے صبح شکایت کرتے ہیں کہ ان کے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ جواباً ہم کہتے ہیں کہ یہ رات کے 'فاسٹ فوڈ' کا کمال تھا اور رہی سہی کسر آئس کریم اور دیگر مختلف مشروبات نے پوری کر دی ہے ۔ اگر بچوں کو بچپن سے سبزی' گوشت اور تازہ چیزیں کھانے کی عادت ڈالی جاتی، انھیں گھر میں ہی حفظان صحت کے مطابق چیزیں تیار کر کے دی جاتیں، تو امکان یہی ہوتا ہے کہ وہ پھر اسی رنگ رمیں رنگ جاتے اور اب آپ کو تنگ نہ کرتے۔
چھوٹے بچے پیار اور شفقت سے بات بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انھیں پیار سے اپنے پاس بٹھائیں، ان کی پسند ونا پسند پوچھیں، پھر بچے کو اس کی دل چسپی کی باتوں میں لگا کر اور اس کا من پسند کوئی قصہ کہانی چھیڑ کر یا اس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کھانا کھلائیے۔ انھیں سمجھائیں کہ اچھی اور صحت بخش غذا کھانے سے ان کا جسم بیماروں کے خلاف مدافعت پیدا کر سکے گا اور وہ زندگی میں کام یاب ہو سکیں گے۔ دماغ اور جسم کی چستی کے لیے تازہ جوس اور سبزیاں بہت ضروری ہیں۔
بچوں کو بچپن سے ہی کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں، تاکہ بڑے ہوکر ان میں اچھی عادات پختہ ہو جائیں، انھیں بچپن سے ہی ٹھیلوں پر ملنے والی چیزیں کھانے سے منع کریں، تاکہ وہ اس کے مضر اثرات اور بیماریوں سے بچ سکیں، بچوں کو سبزیوں کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بتائیں، اس طرح وہ جلد ہی سبزیاں کھانے لگیں گے، مل جل کر کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ بچوں کے ساتھ مل کر بچے زیادہ آسانی سے کھا پی لیتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ان کے لیے بچوں کی سنگت اہم ہوتی ہے، وہ کیا کھا رہے ہیں، یہ چیز ثانوی سی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح بزرگوں اور دادی، نانی وغیرہ کے ہاں دسترخوان پر بھی اس کے مثبت اثرات دیکھے جاتے ہیں۔ اکثر گھروں میں سب لوگ الگ الگ وقت پر کھانا کھاتے ہیں اس وجہ سے بچے کھانے سے انکار کرتے ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ سب لوگ ایک ہی دسترخوان پر کھانا تناول کریں۔
اس طرح بچوں کا دھیان بٹتا ہے، کھانے پینے کے آداب سے آگاہی ہوتی ہے، اکیلے کھانے کے لیے بیٹھتے ہیں، تو ان کا سارا دھیان اپنے کھانے کی طرف جاتا ہے اور پھر وہ تنگ کرنے لگتے ہیں۔ بچہ انکار کرے تو اسے ڈانٹنے کے بہ جائے سمجھا بجھا کر کھانے پر قائل کریں۔ بچے شوق سے دودھ نہ پیئیں، تو انھیں دودھ سے بنی ہوئی مختلف اشیا تیار کر کے کھلائیں، تازہ جوس بنا کر دیں، ملک شیک بنا دیں، بازار کے جوس اور شیک سے پرہیز کریں۔
کچھ ماؤں کو یہ شکایت بھی ہوتی ہے کہ 'سب کے بچے تو پلیٹ بھر بھر کے کھاتے ہیں، ایک ہمارے بچے ہیں، تھوڑا سا کھا کر ہاتھ پیچھے کر لیتے ہیں' بچہ جتنا کھائے اسے کھانے دیں، زبردستی نہ کریں، اگر اس کی نشوونما اچھی ہے، تو پریشانی کی بات نہیں۔ زیادہ کھانے والے بچے ضروری نہیں صحت مند بھی ہوں، کچھ ماؤں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے بچوں کو موٹا دیکھ کر اپنے بچوں کو ٹھونس ٹھونس کر کھلانے کی کوشش کرتی ہیں، بچے کو لٹا کر زبردستی چمچے سے اس کے منہ میں گویا کھانا انڈیلتی ہیں۔
بچہ چیختا چلاتا ہے، لیکن ان پر اثر نہیں ہوتا، اس کے دو نقصان ہوتے ہیں، ایک تو بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور دوسرا کھانے سے اور دور بھاگنے لگتے ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ بچہ جتنا شوق اور خوشی سے کھائے، اسے کھلائیں، زیادہ کھلانے سے بچوں کا ہاضمہ متاثر ہوتا ہے اور اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔