Seniorکی اُردو اورSenior ترین
متعدد مثالوں کی طرح لفظ Seniorکے ساتھ بھی اردونہ جاننے والے، بظاہر، اہل زبان نے بہت کھِلواڑ کیا ہے۔
زباں فہمی 106
کلام ِمجید اُن کو پڑھ کر سُنادو
جنھیں علم کا زعم ِخام آرہا ہے
شہرِاقتدار کے ادبی حلقوں میں مجید ؔ میرٹھی کے مختصر مجموعہ کلام بعنوان 'کلامِ مجید' نے دھوم مچائی ہو نہ مچائی ہو، یہ شعر بہرحال اچھے اچھوں کو سبق سکھانے اور گویا سیدھی راہ دکھانے کے لیے نسخہ تیر بہدف ( تِیر بہ ہَدَف: ٹھیک نشانے پر لگنے والا تِیر، نیز لفظ زعم کے زے پر زبر ہے) ہے۔
(ناواقفین کے منھ سے 'تِیر بہہ دَف ' سن کر ہم پر کیا گزری ہوگی، ذرا سوچیں)۔ شاعر نے اپنے تخلص اور مجموعہ کلام کے عنوان دونوں کی رعایت سے، انھیں یک جا کرتے ہوئے بہت عمدگی سے وہ بات کہی کہ جسے سن کر آج کے بہت سے بہ زعم خویش (تلفظ: خیش) سینئر اور ہمہ دانی (یعنی سب کچھ جاننا) کے گھمنڈ میں مبتلا افراد یقیناً مضطرب ہوں گے۔
یہاں ایک دل چسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ پوری اردوشاعری میں حکیم مومن خان مومنؔ کے سوا، بہت کم کسی شاعر نے اپنے کلام میں اپنے تخلص کا ایسا معنی خیز اور بھرپور استعمال کیا ہے کہ قارئین وسامعین اَش اَش (عش عش نہیں) کہہ اٹھیں۔ اِکّا دُکّا اشعار تو اساتذہ سخن کے یہاں مل جاتے ہیں، مگر جدید شعراء میں شاذہی ایسے اہل ہنر دیکھنے کو ملے۔ اس لحاظ سے بھی یہ شعر بہت منفرد ہے۔
آمدم برسرِمطلب! اردو نے فرنگی زبان ہی نہیں، بلکہ فرنگی زبانوں کے متعددالفاظ ایسے اپنالیے ہیں، سمولیے ہیں کہ اَب وہ اردو ہی کا حصہ ہیں۔ اُن الفاظ کے متبادل اور مترادف موجود ہیں تو عوام النّاس کُجا، خواص بھی یا تو ناواقف ہیں یا ان کے استعمال سے بوجوہ گریز کرتے ہیں۔ ایسے ہی الفاظ میں انگریزی لفظ Senior بھی ہے۔
ہم اپنے ہر شعبے کے Seniors کا دلی احترام کرتے ہیں، بلکہ شعبہ صحافت کے پردہ سیمیں ( یعنی ٹیلی وژن) والے حصے پرچھائے ہوئے جعلی Seniors کا بھی لحاظ کرتے ہیں جو ہمارے آغازِکار کے وقت یا تو پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا کہیں اور، کچھ اور کام کیا کرتے تھے .....پھر اُن کا قُرعہ نکل آیا یعنی لاٹری نکل آئی اور وہ اچانک سے ٹی وی کے پردۂ دل فریب پر نمودار ہوئے اور محض ڈیڑھ سے دوسال میں مَہان ہوگئے۔
ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو پہلے بقول شخصے قلم مزدوری کیا کرتے تھے، یعنی اخبار میں کام کرنے والے عامل صحافی [Working/Professional journalist] تھے اور اُن کے اہل خانہ کے سوا، کسی نے اُن کا مکھڑا تو کُجا، نام بھی شاید ہی ملاحظہ کیا ہو اور ایسے افراد بھی شامل ہیں جنھیں کسی کی نظرِ کرم، پرچی یا ایک ٹیلی فون کال نے اچانک بڑے منصب پر فائز کرتے ہوئے عظیم قرار دے دیا۔ ع اتفاقات ہیں زمانے کے۔ ادبی دنیا میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، مگر اُن کا راز بہت جلد کھُل جاتا ہے۔
شاعری میں ایسے جعلی مشاہیر اپنی خودساختہ عظمت کا مینار ناصرف تعمیر کرتے ہیں، بلکہ اسے کئی منزلہ بنانے کے لیے ہرممکن جتن کرتے ہیں۔ یہ بات تو بہت سے لوگو ں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے کہ جب اُنھیں کہیں فی البدیہ اظہارَخیال کرنا پڑجائے تو بس...اُن کی عظمت کا بُت پاش پاش ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایک واقعہ شدت سے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہا ہے، مگر بغیر نام لیے بھی لکھوں تو اُس موقع کے شاہدِین (جوہوتے ہی عینی ہیں) پہچان جائیں گے۔
ایک بزرگ اپنی ایسی ہی مساعی کے سبب، بہت سُرعت سے، عظیم ہوگئے تھے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ اُن کے کورمقلدین اُنھیں آج بھی عظیم سمجھتے ہیں، اُن کے انتقال کے برسوں بعد۔ ہوا یوں کہ اُن کے کوئی دوست، ہمارے بزرگ معاصرین میں شامل، ایک لائق فائق محقق وشاعر ، بیرون ملک سے تشریف لائے۔ اِنھیں مدعو کیا گیا کہ بطور مہمانِ خصوصی اظہار خیال کریں۔
انھوں نے ایک طویل مضمون پڑھا جو تمام حاضرین کو اُکتاہٹ اور بیزاری میں مبتلا کرگیا یعنی سب بور ہوگئے۔ تقریب کے اختتام پر، خاکسار نے واپسی کی راہ لیتے ہوئے اپنے ایک اور بزرگ معاصر (ناظم تقریب) سے کہا کہ انھوں نے مہمان فاضل شاعر سے پینتالیس سال کی رفاقت کے بعد ایسا پھُس پھُسا مضمون لکھا...بخدا! میرے اگر اُن سے پینتالیس دن بلکہ پینتالیس منٹ پر محیط تعلقات بھی ہوتے تو اس سے بہتر لکھ لیتا...اُن بزرگ نے ہنستے ہوئے تائید کردی۔
یہ اظہارِحقیقت ہے، تعلّیٰ نہیں! ابھی راقم نے لفظ بور استعمال کیا۔ یہ بور بھی تو انگریزی کا Bore ہے۔ اب پوچھیے کسی سے کہ اس لفظ کا متبادل کیاہے...بیزار، کتنے اہل قلم کو یاد رہتا ہے، عوام کی تو بات ہی کیا۔ اب آتے ہیں سینئر کی طرف۔ اس لفظ کے اردو متبادل اور مترادف موجود تو ہیں، مگر مستعمل کم ہیں۔
موقع محل کے اعتبار سے یہ کُہنہ مشق ہے، بزرگ بھی ہے اور مُقَدَّم بھی۔ مقتدرہ قومی زبان کی شایع کردہ قومی انگریزی اردو لغت کی رُو سے Senior کے معانی یہ ہیں: مُقَدَّم، کبیر، بڑا (عمر، مرتبے، درجے، تعلیم یا ملازمت میں)، دوسروں سے بڑا یا مُعَمّر۔ اردو لغت بورڈ کی مختصر اردو لغت میں یہ لفظ اِن معانی کے ساتھ شامل ہے: ۱۔ افضل، اعلی ٰ(بلحاظِ عمر، تعلیم، مدت ِملازمت، تنخواہ یا عُہدہ وغیرہ)۲۔ا) یونی ورسٹی وغیرہ کے آخری سال کا طالب علم ب)۔ بڑی کلاس کا طالب علم۔ انگریزی لغت مریم ویبسٹر سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ Seniorکے مفاہیم مندرجہ ذیل ہیں:
Senior (noun)
se·?nior | \ 'se-ny?r \
Definition of senior (Entry 1 of 2)
1: a person older than another
--five years my senior
2a: a person with higher standing or rank
b: a senior fellow of a college at an English university
c: a student in the year preceding graduation from a school of secondary or higher level
3capitalized : a member of a program of the Girl Scouts for girls in the 9th through 12th grades in school
4: SENIOR CITIZEN
Senior (adjective)
Definition of senior (Entry 2 of 2)
1: of prior birth, establishment, or enrollment -often used to distinguish a father with the same given name as his son
2: higher ranking : SUPERIOR
senior officers
3: of, relating to, or intended for seniors
a senior center
4: having a claim on corporate assets and income prior to other securities
میرا خیال ہے کہ اس عبارت کا ترجمہ کیے بغیر ہی کام چلایا جاسکتا ہے۔ ''فادری'' زبان جاننے والے خود ہی سمجھ لیں گے کہ بندہ کیا کہنا چاہتا ہے اور زیر تحریر کالم سے اس کا تعلق کس قدر ثابت ہوتا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کے تجربے کی بنیاد پر کوئی اناڑی ، کیسے اپنے آپ کو کھلاڑی کہہ سکتا ہے۔ ہم اسی موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور نکتہ پیش کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ایسے خودساختہ Seniors ہیں تو دوسری طرف ہمارے بعض Seniors ایسے بھی ہیں جو بزرگ کہلانا پسند نہیں کرتے، خصوصاً خواتین۔ اچھا یہ خواتین کی بات ہوئی تو ذرا غیرمتعلق شگوفہ بھی سن لیں کہ ہمارے ادبی حلقے میں فقط ایک ہی ایسی پختہ کار خاتون ہیں جو اِس راقم سمیت تمام چھوٹوں سے آنٹی کہلوانا پسند کرتی ہیں اور خاکسار کو اپنا بیٹا کہتی ہیں....محترمہ تنویررؤف صاحبہ، انگریزی معلمہ، مترجم اور اردو ادیبہ۔ باقی تو خیر سے ''آپا'' اور ''باجی'' کی منزل پر گویا جم کے رہ گئی ہیں (یہ اور بات کہ ہم اُنھیں اُن کے پیچھے آنٹی کہہ کر یاد کرتے ہیں)۔
ایک اور نجی تجربہ بھی بہت چونکا دینے والا ہے، مگر خیر جانے دیجئے، جانے والے چلے گئے ...خدا جھوٹ نہ بُلوائے ہم تو کہیں بھی جائیں، کوئی ہمیں زبردستی انکل بنائے نہ بنائے، عمر کا فرق دیکھتے ہوئے خود ہی بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، خواہ کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو، ہاں البتہ جب ہمارے ہم عمر یا ذرا ہی چھوٹے /بڑے ہمیں جبراً انکل بنانا چاہیں تو معاملہ خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اب ہمارے ارد گرد اتنے خودساختہ Seniors جمع ہوچکے ہیں کہ ہمارے حقیقی سینئر، بزرگ، مقدّم، کہنہ مشق صحافی وشاعر محترم محمودشام صاحب نے، مؤرخہ تین جولائی دوہزار اکیس کو فیس بک پر ایسے ہی کچھ لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا:''سینئر صحافی اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ اپنے آپ کو سینئر کہتے اچھا نہیں لگتا۔ آج سے مجھے جونئیر صحافی کہا جائے۔'' اس طنز کے جواب میں دل چسپ تبصروں کی گویا جھَڑی لگ گئی۔
ایک صاحب عرفان شجاع نے کہا: Sir، حالی کا شعر آپ کی نذر;ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا/خاکساری اپنی کام آئی بہت۔ ممتاز، کہنہ مشق صحافی جناب امین یوسف نے کہا:''ہم تو پھر صحافی ہی نہیں رہےSir'' ...ایسے میں خاکسارسہیل احمدصدیقی کو کہنا پڑا:''اور ہم توا بھی پیدا ہی نہیں ہوئے''۔ کچھ یاد آیا آپ کو وہ فرسودہ لطیفہ...درزی کی دکان پر موجود، دو خواتین آپس میں کچھ باتیں کررہی تھیں کہ عمر کا ذکر ہوا، دونوں نے حسبِ توفیق اپنی عمر اس قدر گھٹا کے بتائی کہ قریب موجود، درزی بے اختیار کہہ اُٹھا: پھر تو میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے عہد کا یادگار ہے۔
آج سے کوئی اٹھارہ بیس برس پہلے، مرکز انجمن سادات امروہہ میں مشاعرہ ہورہا تھا، خاکسار اپنی اُفتادِطبع کے باعث، بطور شاعر کی بجائے، بطور سامع محفل میں شامل اور حسب ِ ضرورت، شعراء کو داد دے رہا تھا۔ ایسے میں ہمارے بزرگ معاصر، ناظم مشاعرہ جناب راشدنور نے کوئی پانچ جملوں پر مشتمل اعلان فرمایا کہ اب تشریف لاتے ہیں، نوجوان نسل کے نمایندہ شاعر، قیصر نجفی۔ (موصوف مجھ سے کئی سال بڑے ہیں)۔
یہ سن کر میں نے بے اختیار کہا (اور مابعد، قیصر نجفی صاحب کو چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے، ہلکے پھلکے ناشتے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دُہرایا): ''اگر قیصر نجفی، نوجوان ہیں تو مَیں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔'' قیصر نجفی بہت زندہ دل آدمی ہیں، اُسی وقت حاضرین میں شامل، کچھ شعراء کو باقاعدہ پکڑ کے کہا، ''یار! محفل میں کوئی دو چارسو آدمی تھے ... صرف ایک سہیل صدیقی ہی کو اعتراض ہوا۔'' واپسی کے سفر میں کچھ دور تک موٹرسائیکل پر ساتھ رہا اور موصوف وہی دُہرا تے رہے، ہنستے اور ہنساتے رہے۔ بلامبالغہ کم وبیش ہر شعبے میں یہ معاملات اب زیادہ زیرِبحث آنے لگے ہیں، کیوںکہ ہمارے معاشرے میں تصنع کا دَوردورہ ہے۔ جو لوگ کسی بھی شعبے میں اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے،''فنا بہ کار'' یعنی کام ہی میں غرق ہوجائیں، اُنھیں جاننے والے جانتے ہیں، ناواقف جاننا نہیں چاہتے اور ایسے لوگ اپنی باری آنے پر، دنیائے فانی سے رخصت ہوکر، قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر سیر کرتے ہوئے بنگیال اردونیوزڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر کسی تجربہ کار صحافی کا یہ مضمون بھی ہمارے مؤقف کی تائید کرتا دکھائی دیا۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
{ایک آن لائن تحریر۔ لفظ سینئر کا بے جا استعمال حقیقی معنوں میں سینئرز کی توہین ہے۔ ''ممتاز سماجی وسیاسی شخصیت'' کے بعد، جس لفظ بلکہ ایک اعزاز کو جس دیدہ دلیری سے بیجا بلاضروت استعمال کیا گیا، اسے کہتے ہیں سینئر۔......اُس زمانے میں کسی انتہائی قابل احترام بزرگ اور اپنے شعبے میں ماہر شخصیت کے نام کے ساتھ، ممتاز شخصیت یا ممتاز قانون داں لکھا اور بولا جاتا تھا۔... لفظ سینئر کے ساتھ ہی تصور میں سب کسی انتہائی معتبر شخصیات کا خاکہ بھی ذہن میں آ جاتا تھا بلکہ عموماً محافل میں لفظ سینئر سنتے ہی اکثر اوقات فوری طور پر اُٹھ کر احترام کے لیے کھڑے ہونے کو جی کرتا تھا، مگر پچھلے کچھ عرصہ سے ہر ایرے غیرے نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی پہچان یا اجارہ داری قائم کرنے کے لیے سینئر سیاست داں، سینئر رہنما، سینئر صحافی لکھنا شروع کر دیا اور انتہائی ڈھٹائی سے اپنے نام کے ساتھ (اَز) خود سینئر (لکھنا) اپنا حق سمجھا جانے لگا ہے۔...دو دن قبل میرے واٹس ایپ پر ایک دوست نے خبر بھیجی اور اس میں سینئر پرنسپل لکھا ہوا تھا، حالانکہ (وہ) اس اسکول میں اکلوتے پرنسپل ہیں۔ وہاں درجہ بندی کی ضرورت نہیں تھی مگر نجانے کس کج فہمی میں ہمارے لوگ مبتلا ہیں}۔
صحافت ہی کی بات کرتے ہوئے ایک نسبتاً کم پرانا قصہ دُہراتا چلوں۔ ماضی قریب میں ایک ٹی وی چینل کے ذیلی یا بنیادی، ادارے میں فحاشی کی مہم اور جعل سازی پر مبنی اسکینڈل منظر عام پر آیا (جو حسب ِ روایت دَبا بھی دیا گیا) تو ایک ایسے ہی جعلی اور کسی کی منشاء پر، بلکہ کسی اور کے زیراہتمام بننے والے، مشہور اور عظیم سینئر سے، ایک حقیقی سینئر نے انٹرویو کیا۔ موصوف نے ایک یا ڈیڑھ کروڑ روپے والی ملازمت کے دوران میں، اُسی آجر کے ایسے کسی کارنامے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اُس حقیقی سینئر کو جھاڑ پِلادی کہ ''آپ کو پتا ہے، میں کون ہوں، میری لکھی ہوئی، اتنے سو، خبری کہانیاں[News stories] فُلاں فُلاں بڑے عالمی اخبارات میں شایع ہوئی ہیں ''۔
خاکسار اُس حقیقی سینئر کی جگہ ہوتا تو کہتا کہ اگر ایسا ہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی عمارت کے ایک گوشے میں اتنا بڑا شیطانی کام ہوتا رہا اور آپ چینل کے تقریباً خودمختار سربراہ ہوتے ہوئے اُس سے لاعلم رہے ...نیز کیا آپ کو بتاؤ ں کہ آپ کے اور ہمارے ایک سینئر ابھی، اسی وقت، (بیرون ملک میں اپنی قیام گاہ سے) اُس سینئر کا نام بتاسکتے ہیں جس غریب کی محنت سے لکھی ہوئی News storiesآپ کے نام سے شایع کرکے آپ کو ''چمکا یا گیا''۔ شعبہ تشہیر [Advertising]میں ایسے Seniorsکی بھرمار ہے جو اپنے ماتحتوں سے زیادہ تو کیا، اُن کے برابر معلومات کے حامل بھی نہیں۔
لفظ Creativeیعنی اختراعی اور اس کے مشتقات کا عملی مذاق اسی شعبے میں نظر آتا ہے۔ مثالیں دینے پر آؤں تو یہ کالم اسی کی نذر ہوجائے۔ آدھا تیتر، آدھا بٹیر قسم کی یہ مخلوق ایک جگہ کسی کی سیڑھی لگا کر پہنچتی ہے اور پھر چند ماہ یا ایک آدھ سال میں اُس سے بڑی ملازمت اور پھر چل سو چل... اُن کی بے بنیاد عظمت کا سفر تیزی سے جاری رہتا ہے۔
ہماری معیشت کی خستہ حالی میں ایسے لوگوں کا بھی نمایاں طور پر دَخل ہے جو نااہل ہونے کے باوجود، اہل افراد کا حق غصب کرتے ہوئے کسی بڑے منصب پر فائز ہیں اور جب کسی حقیقی لائق فائق شخص کو ملازمت ملنے لگے تو Budgetکے ناکافی ہونے کا رونا رو کر حقیر معاوضے پر موقع دیتے ہیں تاکہ اُن سے دب کر رہے اور کبھی کسی بڑی جگہ اس ملازمت کا حوالہ دے کر بہتر کام حاصل نہ کرسکے۔ آج کا کالم اس نکتہ بے نظیر پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ دیگر متعدد مثالوں کی طرح لفظ Seniorکے ساتھ بھی اردونہ جاننے والے، بظاہر، اہل زبان نے بہت کھِلواڑ کیا ہے۔ زیادہ یا سب سے زیادہ تجربہ کار کو Senior ترین کہا جانے لگا ہے جو کسی بھی لحاظ سے درست نہیں!
کلام ِمجید اُن کو پڑھ کر سُنادو
جنھیں علم کا زعم ِخام آرہا ہے
شہرِاقتدار کے ادبی حلقوں میں مجید ؔ میرٹھی کے مختصر مجموعہ کلام بعنوان 'کلامِ مجید' نے دھوم مچائی ہو نہ مچائی ہو، یہ شعر بہرحال اچھے اچھوں کو سبق سکھانے اور گویا سیدھی راہ دکھانے کے لیے نسخہ تیر بہدف ( تِیر بہ ہَدَف: ٹھیک نشانے پر لگنے والا تِیر، نیز لفظ زعم کے زے پر زبر ہے) ہے۔
(ناواقفین کے منھ سے 'تِیر بہہ دَف ' سن کر ہم پر کیا گزری ہوگی، ذرا سوچیں)۔ شاعر نے اپنے تخلص اور مجموعہ کلام کے عنوان دونوں کی رعایت سے، انھیں یک جا کرتے ہوئے بہت عمدگی سے وہ بات کہی کہ جسے سن کر آج کے بہت سے بہ زعم خویش (تلفظ: خیش) سینئر اور ہمہ دانی (یعنی سب کچھ جاننا) کے گھمنڈ میں مبتلا افراد یقیناً مضطرب ہوں گے۔
یہاں ایک دل چسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ پوری اردوشاعری میں حکیم مومن خان مومنؔ کے سوا، بہت کم کسی شاعر نے اپنے کلام میں اپنے تخلص کا ایسا معنی خیز اور بھرپور استعمال کیا ہے کہ قارئین وسامعین اَش اَش (عش عش نہیں) کہہ اٹھیں۔ اِکّا دُکّا اشعار تو اساتذہ سخن کے یہاں مل جاتے ہیں، مگر جدید شعراء میں شاذہی ایسے اہل ہنر دیکھنے کو ملے۔ اس لحاظ سے بھی یہ شعر بہت منفرد ہے۔
آمدم برسرِمطلب! اردو نے فرنگی زبان ہی نہیں، بلکہ فرنگی زبانوں کے متعددالفاظ ایسے اپنالیے ہیں، سمولیے ہیں کہ اَب وہ اردو ہی کا حصہ ہیں۔ اُن الفاظ کے متبادل اور مترادف موجود ہیں تو عوام النّاس کُجا، خواص بھی یا تو ناواقف ہیں یا ان کے استعمال سے بوجوہ گریز کرتے ہیں۔ ایسے ہی الفاظ میں انگریزی لفظ Senior بھی ہے۔
ہم اپنے ہر شعبے کے Seniors کا دلی احترام کرتے ہیں، بلکہ شعبہ صحافت کے پردہ سیمیں ( یعنی ٹیلی وژن) والے حصے پرچھائے ہوئے جعلی Seniors کا بھی لحاظ کرتے ہیں جو ہمارے آغازِکار کے وقت یا تو پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا کہیں اور، کچھ اور کام کیا کرتے تھے .....پھر اُن کا قُرعہ نکل آیا یعنی لاٹری نکل آئی اور وہ اچانک سے ٹی وی کے پردۂ دل فریب پر نمودار ہوئے اور محض ڈیڑھ سے دوسال میں مَہان ہوگئے۔
ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو پہلے بقول شخصے قلم مزدوری کیا کرتے تھے، یعنی اخبار میں کام کرنے والے عامل صحافی [Working/Professional journalist] تھے اور اُن کے اہل خانہ کے سوا، کسی نے اُن کا مکھڑا تو کُجا، نام بھی شاید ہی ملاحظہ کیا ہو اور ایسے افراد بھی شامل ہیں جنھیں کسی کی نظرِ کرم، پرچی یا ایک ٹیلی فون کال نے اچانک بڑے منصب پر فائز کرتے ہوئے عظیم قرار دے دیا۔ ع اتفاقات ہیں زمانے کے۔ ادبی دنیا میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، مگر اُن کا راز بہت جلد کھُل جاتا ہے۔
شاعری میں ایسے جعلی مشاہیر اپنی خودساختہ عظمت کا مینار ناصرف تعمیر کرتے ہیں، بلکہ اسے کئی منزلہ بنانے کے لیے ہرممکن جتن کرتے ہیں۔ یہ بات تو بہت سے لوگو ں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے کہ جب اُنھیں کہیں فی البدیہ اظہارَخیال کرنا پڑجائے تو بس...اُن کی عظمت کا بُت پاش پاش ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایک واقعہ شدت سے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہا ہے، مگر بغیر نام لیے بھی لکھوں تو اُس موقع کے شاہدِین (جوہوتے ہی عینی ہیں) پہچان جائیں گے۔
ایک بزرگ اپنی ایسی ہی مساعی کے سبب، بہت سُرعت سے، عظیم ہوگئے تھے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ اُن کے کورمقلدین اُنھیں آج بھی عظیم سمجھتے ہیں، اُن کے انتقال کے برسوں بعد۔ ہوا یوں کہ اُن کے کوئی دوست، ہمارے بزرگ معاصرین میں شامل، ایک لائق فائق محقق وشاعر ، بیرون ملک سے تشریف لائے۔ اِنھیں مدعو کیا گیا کہ بطور مہمانِ خصوصی اظہار خیال کریں۔
انھوں نے ایک طویل مضمون پڑھا جو تمام حاضرین کو اُکتاہٹ اور بیزاری میں مبتلا کرگیا یعنی سب بور ہوگئے۔ تقریب کے اختتام پر، خاکسار نے واپسی کی راہ لیتے ہوئے اپنے ایک اور بزرگ معاصر (ناظم تقریب) سے کہا کہ انھوں نے مہمان فاضل شاعر سے پینتالیس سال کی رفاقت کے بعد ایسا پھُس پھُسا مضمون لکھا...بخدا! میرے اگر اُن سے پینتالیس دن بلکہ پینتالیس منٹ پر محیط تعلقات بھی ہوتے تو اس سے بہتر لکھ لیتا...اُن بزرگ نے ہنستے ہوئے تائید کردی۔
یہ اظہارِحقیقت ہے، تعلّیٰ نہیں! ابھی راقم نے لفظ بور استعمال کیا۔ یہ بور بھی تو انگریزی کا Bore ہے۔ اب پوچھیے کسی سے کہ اس لفظ کا متبادل کیاہے...بیزار، کتنے اہل قلم کو یاد رہتا ہے، عوام کی تو بات ہی کیا۔ اب آتے ہیں سینئر کی طرف۔ اس لفظ کے اردو متبادل اور مترادف موجود تو ہیں، مگر مستعمل کم ہیں۔
موقع محل کے اعتبار سے یہ کُہنہ مشق ہے، بزرگ بھی ہے اور مُقَدَّم بھی۔ مقتدرہ قومی زبان کی شایع کردہ قومی انگریزی اردو لغت کی رُو سے Senior کے معانی یہ ہیں: مُقَدَّم، کبیر، بڑا (عمر، مرتبے، درجے، تعلیم یا ملازمت میں)، دوسروں سے بڑا یا مُعَمّر۔ اردو لغت بورڈ کی مختصر اردو لغت میں یہ لفظ اِن معانی کے ساتھ شامل ہے: ۱۔ افضل، اعلی ٰ(بلحاظِ عمر، تعلیم، مدت ِملازمت، تنخواہ یا عُہدہ وغیرہ)۲۔ا) یونی ورسٹی وغیرہ کے آخری سال کا طالب علم ب)۔ بڑی کلاس کا طالب علم۔ انگریزی لغت مریم ویبسٹر سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ Seniorکے مفاہیم مندرجہ ذیل ہیں:
Senior (noun)
se·?nior | \ 'se-ny?r \
Definition of senior (Entry 1 of 2)
1: a person older than another
--five years my senior
2a: a person with higher standing or rank
b: a senior fellow of a college at an English university
c: a student in the year preceding graduation from a school of secondary or higher level
3capitalized : a member of a program of the Girl Scouts for girls in the 9th through 12th grades in school
4: SENIOR CITIZEN
Senior (adjective)
Definition of senior (Entry 2 of 2)
1: of prior birth, establishment, or enrollment -often used to distinguish a father with the same given name as his son
2: higher ranking : SUPERIOR
senior officers
3: of, relating to, or intended for seniors
a senior center
4: having a claim on corporate assets and income prior to other securities
میرا خیال ہے کہ اس عبارت کا ترجمہ کیے بغیر ہی کام چلایا جاسکتا ہے۔ ''فادری'' زبان جاننے والے خود ہی سمجھ لیں گے کہ بندہ کیا کہنا چاہتا ہے اور زیر تحریر کالم سے اس کا تعلق کس قدر ثابت ہوتا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کے تجربے کی بنیاد پر کوئی اناڑی ، کیسے اپنے آپ کو کھلاڑی کہہ سکتا ہے۔ ہم اسی موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے ایک اور نکتہ پیش کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ایسے خودساختہ Seniors ہیں تو دوسری طرف ہمارے بعض Seniors ایسے بھی ہیں جو بزرگ کہلانا پسند نہیں کرتے، خصوصاً خواتین۔ اچھا یہ خواتین کی بات ہوئی تو ذرا غیرمتعلق شگوفہ بھی سن لیں کہ ہمارے ادبی حلقے میں فقط ایک ہی ایسی پختہ کار خاتون ہیں جو اِس راقم سمیت تمام چھوٹوں سے آنٹی کہلوانا پسند کرتی ہیں اور خاکسار کو اپنا بیٹا کہتی ہیں....محترمہ تنویررؤف صاحبہ، انگریزی معلمہ، مترجم اور اردو ادیبہ۔ باقی تو خیر سے ''آپا'' اور ''باجی'' کی منزل پر گویا جم کے رہ گئی ہیں (یہ اور بات کہ ہم اُنھیں اُن کے پیچھے آنٹی کہہ کر یاد کرتے ہیں)۔
ایک اور نجی تجربہ بھی بہت چونکا دینے والا ہے، مگر خیر جانے دیجئے، جانے والے چلے گئے ...خدا جھوٹ نہ بُلوائے ہم تو کہیں بھی جائیں، کوئی ہمیں زبردستی انکل بنائے نہ بنائے، عمر کا فرق دیکھتے ہوئے خود ہی بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، خواہ کوئی خاتون ہی کیوں نہ ہو، ہاں البتہ جب ہمارے ہم عمر یا ذرا ہی چھوٹے /بڑے ہمیں جبراً انکل بنانا چاہیں تو معاملہ خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔ اب ہمارے ارد گرد اتنے خودساختہ Seniors جمع ہوچکے ہیں کہ ہمارے حقیقی سینئر، بزرگ، مقدّم، کہنہ مشق صحافی وشاعر محترم محمودشام صاحب نے، مؤرخہ تین جولائی دوہزار اکیس کو فیس بک پر ایسے ہی کچھ لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا:''سینئر صحافی اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ اپنے آپ کو سینئر کہتے اچھا نہیں لگتا۔ آج سے مجھے جونئیر صحافی کہا جائے۔'' اس طنز کے جواب میں دل چسپ تبصروں کی گویا جھَڑی لگ گئی۔
ایک صاحب عرفان شجاع نے کہا: Sir، حالی کا شعر آپ کی نذر;ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا/خاکساری اپنی کام آئی بہت۔ ممتاز، کہنہ مشق صحافی جناب امین یوسف نے کہا:''ہم تو پھر صحافی ہی نہیں رہےSir'' ...ایسے میں خاکسارسہیل احمدصدیقی کو کہنا پڑا:''اور ہم توا بھی پیدا ہی نہیں ہوئے''۔ کچھ یاد آیا آپ کو وہ فرسودہ لطیفہ...درزی کی دکان پر موجود، دو خواتین آپس میں کچھ باتیں کررہی تھیں کہ عمر کا ذکر ہوا، دونوں نے حسبِ توفیق اپنی عمر اس قدر گھٹا کے بتائی کہ قریب موجود، درزی بے اختیار کہہ اُٹھا: پھر تو میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے عہد کا یادگار ہے۔
آج سے کوئی اٹھارہ بیس برس پہلے، مرکز انجمن سادات امروہہ میں مشاعرہ ہورہا تھا، خاکسار اپنی اُفتادِطبع کے باعث، بطور شاعر کی بجائے، بطور سامع محفل میں شامل اور حسب ِ ضرورت، شعراء کو داد دے رہا تھا۔ ایسے میں ہمارے بزرگ معاصر، ناظم مشاعرہ جناب راشدنور نے کوئی پانچ جملوں پر مشتمل اعلان فرمایا کہ اب تشریف لاتے ہیں، نوجوان نسل کے نمایندہ شاعر، قیصر نجفی۔ (موصوف مجھ سے کئی سال بڑے ہیں)۔
یہ سن کر میں نے بے اختیار کہا (اور مابعد، قیصر نجفی صاحب کو چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے، ہلکے پھلکے ناشتے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دُہرایا): ''اگر قیصر نجفی، نوجوان ہیں تو مَیں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔'' قیصر نجفی بہت زندہ دل آدمی ہیں، اُسی وقت حاضرین میں شامل، کچھ شعراء کو باقاعدہ پکڑ کے کہا، ''یار! محفل میں کوئی دو چارسو آدمی تھے ... صرف ایک سہیل صدیقی ہی کو اعتراض ہوا۔'' واپسی کے سفر میں کچھ دور تک موٹرسائیکل پر ساتھ رہا اور موصوف وہی دُہرا تے رہے، ہنستے اور ہنساتے رہے۔ بلامبالغہ کم وبیش ہر شعبے میں یہ معاملات اب زیادہ زیرِبحث آنے لگے ہیں، کیوںکہ ہمارے معاشرے میں تصنع کا دَوردورہ ہے۔ جو لوگ کسی بھی شعبے میں اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے،''فنا بہ کار'' یعنی کام ہی میں غرق ہوجائیں، اُنھیں جاننے والے جانتے ہیں، ناواقف جاننا نہیں چاہتے اور ایسے لوگ اپنی باری آنے پر، دنیائے فانی سے رخصت ہوکر، قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر سیر کرتے ہوئے بنگیال اردونیوزڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر کسی تجربہ کار صحافی کا یہ مضمون بھی ہمارے مؤقف کی تائید کرتا دکھائی دیا۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
{ایک آن لائن تحریر۔ لفظ سینئر کا بے جا استعمال حقیقی معنوں میں سینئرز کی توہین ہے۔ ''ممتاز سماجی وسیاسی شخصیت'' کے بعد، جس لفظ بلکہ ایک اعزاز کو جس دیدہ دلیری سے بیجا بلاضروت استعمال کیا گیا، اسے کہتے ہیں سینئر۔......اُس زمانے میں کسی انتہائی قابل احترام بزرگ اور اپنے شعبے میں ماہر شخصیت کے نام کے ساتھ، ممتاز شخصیت یا ممتاز قانون داں لکھا اور بولا جاتا تھا۔... لفظ سینئر کے ساتھ ہی تصور میں سب کسی انتہائی معتبر شخصیات کا خاکہ بھی ذہن میں آ جاتا تھا بلکہ عموماً محافل میں لفظ سینئر سنتے ہی اکثر اوقات فوری طور پر اُٹھ کر احترام کے لیے کھڑے ہونے کو جی کرتا تھا، مگر پچھلے کچھ عرصہ سے ہر ایرے غیرے نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی پہچان یا اجارہ داری قائم کرنے کے لیے سینئر سیاست داں، سینئر رہنما، سینئر صحافی لکھنا شروع کر دیا اور انتہائی ڈھٹائی سے اپنے نام کے ساتھ (اَز) خود سینئر (لکھنا) اپنا حق سمجھا جانے لگا ہے۔...دو دن قبل میرے واٹس ایپ پر ایک دوست نے خبر بھیجی اور اس میں سینئر پرنسپل لکھا ہوا تھا، حالانکہ (وہ) اس اسکول میں اکلوتے پرنسپل ہیں۔ وہاں درجہ بندی کی ضرورت نہیں تھی مگر نجانے کس کج فہمی میں ہمارے لوگ مبتلا ہیں}۔
صحافت ہی کی بات کرتے ہوئے ایک نسبتاً کم پرانا قصہ دُہراتا چلوں۔ ماضی قریب میں ایک ٹی وی چینل کے ذیلی یا بنیادی، ادارے میں فحاشی کی مہم اور جعل سازی پر مبنی اسکینڈل منظر عام پر آیا (جو حسب ِ روایت دَبا بھی دیا گیا) تو ایک ایسے ہی جعلی اور کسی کی منشاء پر، بلکہ کسی اور کے زیراہتمام بننے والے، مشہور اور عظیم سینئر سے، ایک حقیقی سینئر نے انٹرویو کیا۔ موصوف نے ایک یا ڈیڑھ کروڑ روپے والی ملازمت کے دوران میں، اُسی آجر کے ایسے کسی کارنامے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اُس حقیقی سینئر کو جھاڑ پِلادی کہ ''آپ کو پتا ہے، میں کون ہوں، میری لکھی ہوئی، اتنے سو، خبری کہانیاں[News stories] فُلاں فُلاں بڑے عالمی اخبارات میں شایع ہوئی ہیں ''۔
خاکسار اُس حقیقی سینئر کی جگہ ہوتا تو کہتا کہ اگر ایسا ہی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی عمارت کے ایک گوشے میں اتنا بڑا شیطانی کام ہوتا رہا اور آپ چینل کے تقریباً خودمختار سربراہ ہوتے ہوئے اُس سے لاعلم رہے ...نیز کیا آپ کو بتاؤ ں کہ آپ کے اور ہمارے ایک سینئر ابھی، اسی وقت، (بیرون ملک میں اپنی قیام گاہ سے) اُس سینئر کا نام بتاسکتے ہیں جس غریب کی محنت سے لکھی ہوئی News storiesآپ کے نام سے شایع کرکے آپ کو ''چمکا یا گیا''۔ شعبہ تشہیر [Advertising]میں ایسے Seniorsکی بھرمار ہے جو اپنے ماتحتوں سے زیادہ تو کیا، اُن کے برابر معلومات کے حامل بھی نہیں۔
لفظ Creativeیعنی اختراعی اور اس کے مشتقات کا عملی مذاق اسی شعبے میں نظر آتا ہے۔ مثالیں دینے پر آؤں تو یہ کالم اسی کی نذر ہوجائے۔ آدھا تیتر، آدھا بٹیر قسم کی یہ مخلوق ایک جگہ کسی کی سیڑھی لگا کر پہنچتی ہے اور پھر چند ماہ یا ایک آدھ سال میں اُس سے بڑی ملازمت اور پھر چل سو چل... اُن کی بے بنیاد عظمت کا سفر تیزی سے جاری رہتا ہے۔
ہماری معیشت کی خستہ حالی میں ایسے لوگوں کا بھی نمایاں طور پر دَخل ہے جو نااہل ہونے کے باوجود، اہل افراد کا حق غصب کرتے ہوئے کسی بڑے منصب پر فائز ہیں اور جب کسی حقیقی لائق فائق شخص کو ملازمت ملنے لگے تو Budgetکے ناکافی ہونے کا رونا رو کر حقیر معاوضے پر موقع دیتے ہیں تاکہ اُن سے دب کر رہے اور کبھی کسی بڑی جگہ اس ملازمت کا حوالہ دے کر بہتر کام حاصل نہ کرسکے۔ آج کا کالم اس نکتہ بے نظیر پر ختم کرنا چاہتا ہوں کہ دیگر متعدد مثالوں کی طرح لفظ Seniorکے ساتھ بھی اردونہ جاننے والے، بظاہر، اہل زبان نے بہت کھِلواڑ کیا ہے۔ زیادہ یا سب سے زیادہ تجربہ کار کو Senior ترین کہا جانے لگا ہے جو کسی بھی لحاظ سے درست نہیں!