حکومت کو عوام کی بے چینی پریشانی اور خوف کا سدباب کرنا ہو گا

حکومت کو اب سیاسی انتقام کی سوچ ترک کر کے ملک و قوم کے مفاد اور ترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔

حکومت کو اب سیاسی انتقام کی سوچ ترک کر کے ملک و قوم کے مفاد اور ترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔فوٹو : فائل

آزاد جموں و کشمیر انتخابات میں سادہ اکثریت کے ساتھ فتح نے تحریک انصاف کی زوال پذیر مقبولیت اور منہدم ہوتے ہوئے حوصلے کو نئی زندگی دے دی ہے۔ بادی النظر میں آزاد کشمیر انتخابات میں ہمیشہ وہی جماعت کامیاب ہوتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے۔

لہذا اس مرتبہ بھی یہ واضح دکھائی دے رہا تھا کہ تحریک انصاف آزاد کشمیر میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی،آزاد کشمیر الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ سے ایک اہم رول رہا ہے کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے لہذا وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ''ایک پیج'' پر ہونا بھی یقینی تھا لیکن اب سب سے اہم سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ گزشتہ تین برس میں مسلسل ضمنی الیکشن ہارنے والی تحریک انصاف آزاد کشمیر الیکشن میں ملنے والی کامیابی کو پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں اپنی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت کو بحال کرنے میں استعمال کر پائے گی؟ وقتی طور پر تو حکومت فتح کے شادیانے بجا رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا مورال گر چکا ہے لیکن پیپلز پارٹی کا مورال مزید بلند ہوا ہے کیونکہ اس طرز کے الیکشن میں 11 نشستوں پر کامیابی، ایک نمایاں بہتری کا اشارہ ہے۔ پنجاب میں آزاد کشمیر الیکشن کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی ناکامی بھی ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور بہت سی کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے، بالخصوص ن لیگ کا گڑھ سمجھے جانے والے لاہور میں تحریک انصاف کے امیدوار غلام محی الدین دیوان کی کامیابی ہر لحاظ سے مسلم لیگ (ن) کی کمزور اور باہم متصادم حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔

تحریک انصاف میں دیوان صاحب ایک متنازعہ شخصیت ہیں، ان کا تحریک انصاف سے کسی قسم کا کوئی نظریاتی تعلق نہیں، چند برس قبل انہوں نے موجودہ سینیٹر اور تحریک انصاف سنٹرل پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری کے ساتھ اپنے خاص تعلق کے تحت تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی، لاہور کی تنظیمی سیاست سے عبدالعلیم خان کی غیر اعلانیہ کنارہ کشی کے بعد اعجاز چوہدری تنظیمی معاملات میں مضبوط ہوئے تو انہوں نے دیوان صاحب کو تحریک انصاف شمالی لاہور کا صدر بنوا دیا حالانکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت لاہور سے تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماوں کی اکثریت دیوان غلام محی الدین کو صدر بنانے کے معاملے پر تحفظات اور اختلافات کا شکار تھی تاہم دیوان صاحب نے جو '' قربانیاں'' دی ہوئی تھیں اس کی بدولت وہ صدر بننے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن آج تک تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماوں نے انہیں دل سے صدر تسلیم نہیں کیا ہے۔

اس تمام صورتحال میں بھی اگر مسلم لیگ (ن) لاہور میں اپنے امیدوار کو کامیاب نہیں کروا سکی ہے تو پھر مریم نواز شریف کو اپنی لیڈر شپ اور منصوبہ بندی کی صلاحیتوں پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ایک بڑا معرکہ آئندہ چند روز میں سیالکوٹ کے ایک صوبائی حلقہ کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے ہونے والا ہے۔غیر جانبدار حلقوں کے مطابق اس حلقہ میں مسلم لیگ(ن) کی پوزیشن بہتر معلوم ہوتی ہے لیکن تحریک انصاف بھی کامیابی حاصل کرنے کیلئے ''ایڑی چوٹی'' کا زور لگا رہی ہے۔

چند ماہ قبل ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے معاملے میں تحریک انصاف کو شکست کے ساتھ ساتھ خاصی سبکی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ڈسکہ الیکشن کے نتیجہ میں ہی ''دھند'' کی اصطلاح بھی سامنے آئی تھی،اس وقت بھی ن لیگی قیادت کا بیانیہ ہے کہ اگر سیالکوٹ الیکشن میں ''دھند'' نہ چھائی تو ان کی جیت یقینی ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملکی سیاست میں تناو اور غیر یقینی پن بڑھتا جا رہا ہے،حکومت یہ سمجھتی اور یہ تاثر پیش کرتی ہے کہ وہ اب سنبھلنا اور مضبوط ہونا شروع ہو گئی ہے،اس نے معیشت کو بھی مستحکم کر لیا ہے اور سیاسی فتوحات کا بھی آغاز ہو گیا ہے، دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے اندر کی کشمکش اور متضاد بیانیہ کے سبب وہ دن بدن کمزور ہو رہی ہے۔


مریم نواز اور میاں شہباز شریف کے درمیان ایک خاموش مگر خوفناک رسہ کشی ہو رہی ہے۔ مریم نواز ریاستی اداروں کے خلاف جارحانہ رویہ برقرار رکھنے پر بضد ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اور ان کے ہم خیال ساتھیوں کا موقف ہے کہ کئی سالوں سے جاری اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نے پارٹی کو فائدہ نہیں شدید نقصان پہنچایا ہے جبکہ ن لیگ کے جارحانہ رویے کا فائدہ عمران خان کو ہوا ہے اور وہ اپنی خامیوں اور خرابیوں کو پس منظر میں لیجانے میں قدرے کامیاب رہے ہیں۔

میاں نواز شریف ابھی تک گو مگو کی کیفیت میں ہیں اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ وہ اپنے بھائی کا ساتھ دیں یا بیٹی کا۔ ابھی تک تو انہوں نے مریم نواز کو فری ہینڈ دے رکھا ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ عرصہ تک میاں صاحب دو کشتیوں کی سواری نہیں کر پائیں گے اور بہت جلد وقت آئے گا کہ انہیں اعلانیہ طور پر میاں شہباز شریف یا مریم نواز میں سے کسی ایک کے بیانیہ کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ن لیگی اراکین اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز سمیت تنظیمی رہنما شدید پریشانی کا شکار ہیں کیونکہ آئندہ الیکشن نزدیک آرہا ہے اور انہیں ووٹرز سے سخت سوالات سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی تمام تر خامیوں کے باوجود تحریک انصاف حلقہ کی سطح پر خود کو مضبوط اور مقبول نہیں بنا پا رہی جس کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کی متنازعہ اور کمزور تنظیم سازی اور ٹکٹ ہولڈرز کو مطلوبہ سپورٹ نہ دینا ہے۔ چند ماہ سے حلقوں میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام شروع تو ہوا ہے لیکن اب عوام صرف ایک سڑک بنانے کی وجہ سے ووٹ نہیں دیں گے۔

خوفناک ترین مہنگائی اور بے روزگاری موجودہ حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن ہے،ایک بندہ سونے کی بنی سڑک پر سفر کرتا ہوا گھر پہنچے، مہنگائی و کم تنخواہ کی وجہ سے اس کی جیب میں اپنے بچوں کو ان کی من پسند شے دلانے یا ان کو اچھی تعلیم دلانے کیلئے پیسے نہ ہوں، بہن کی شادی کیلئے وسائل نہ ہوں، بیمار والدین کی بیماری کا علاج کروانے کے پیسے نہ ہوں تو کیا وہ، سڑک بنانے والی حکومت کو ووٹ دے گا؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت تمام اپوزیشن ملکر گزشتہ تین برس میں عمران خان اور ان کی حکومت کو اتنا ٹف ٹائم نہیں دے پائی جتنا کہ خود حکومت نے اپنی ہی متنازعہ معاشی پالیسیوں کے ذریعے پیدا کردہ مہنگائی اور بے روزگاری سے خود کو نقصان پہنچایا ہے۔

جو بھی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے وہ ''میڈیا مینجمنٹ'' کے ذریعے خود کو مضبوط ظاہر کرتی ہے یہی سب اس وقت ہو رہا ہے، اگر اپوزیشن کمزور ہے تو حکومت بھی کمزور ہوئی ہے لیکن اس کو کیمو فلاج کرنے کیلئے مختلف طریقے استعمال کیئے جا رہے ہیں، نان ایشوز کو ایشو بنایا جا رہا ہے اور رائی برابر کامیابی کو پہاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی ایک ایسا فیصلہ کن وقت آنے والا ہے جب انہیں اہم ترین فیصلے کرنا ہیں، اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ حکومت کے ایسے وزراء، مشیروں اور اراکین اسمبلی سمیت تنظیمی رہنماوں بارے بخوبی علم ہے جو ''کارروائیاں'' ڈالنے کے الزامات کی گرفت میں ہیں جبکہ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر عوام کی ایک اجتماعی رائے سے بھی اسٹیبلشمنٹ کو واقفیت ہے ۔ وزیر اعظم کے پاس اب نہایت کم وقت بچا ہے اور انہیں اپنی ٹیم میں بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی ورنہ ''سب اچھا ہے'' کی گردان سنانے والے طوطے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔

حکومت کو اب سیاسی انتقام کی سوچ ترک کر کے ملک و قوم کے مفاد اور ترقی پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے کیونکہ عوام سخت بے چین، پریشان اور خوفزدہ ہیں،عوام کا دل جیتنا ہے تو شدید مہنگائی اور بے روزگاری میں نمایاں کمی لانا ہو گی، صرف صحت کارڈ دینے سے تبدیلی نہیں آئے گی، سرکاری نظام صحت کی تنظیم نو کرنا ہو گی اور سب سے اہم یہ کہ عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ ان کے بچوں اور اہل خانہ کی عزت اور جان محفوظ ہے ۔
Load Next Story