شمالی وزیرستان آپریشن مارچ میں متوقع فضائی حملے جلد شروع ہوسکتے ہیں
مذاکرات کے لیے تیار نہ ہونیوالے گروپوں کو کچلا جا سکتا ہے، عسکری ذرائع
DI KHAN:
حکومت پالیسی میں واضح تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیلئے تیار ہے، مارچ میں آپریشن شروع ہوسکتا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی و عسکری حکام نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آخرکار سول و فوجی قیادت اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ ایک اہدافی فوجی آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونیوالے اجلاس میں دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی لہر میں طالبان سے نمٹنے کیلئے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔ ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اس بات کا گہرا ادراک تھا کہ مختلف گروپ مذاکرات پر تیار نہیں ہونگے اور ان کے ساتھ طاقت سے ہی نمٹنا پڑے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ میں زمینی کارروائی کا فیصلہ شمالی وزیرستان میں شدید سردی کے باعث کیا گیا مگر اس سے قبل طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے جاسکتے ہیں۔ عسکری ذرائع نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ فوج سمجھوتے پر تیار نہ ہونے والے گروپوں کو طاقت سے کچل سکتی ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مارچ میں ہونے والے آپریشن میں بھی حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بتایا جائیگا یہ نہیں۔
سکیورٹی اسٹبلشمنٹ سے رابطہ رکھنے والے ایک ریٹائرڈ افسر کا کہنا ہے کہ حقانی بھی اب سمجھتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے اور وہ آپریشن شروع ہونے سے قبل افغانستان میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ہی مذاکرات کے نام پر کافی وقت ضائع ہوچکا ہے، اب آپریشن بہت جلد ہوسکتاہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حالیہ فضائی حملوں میں بھی سکیورٹی ایجنسیز نے شمالی وزیرستان میں موجود مختلف گروپوں کے درمیان تقسیم کو استعمال کیا ہے، مذاکرات پر آمادہ گروپوں نے میرعلی اور میرانشاہ میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے سینئیر کمانڈرز اور غیرملکی جنگجوئوں کے بارے میں اہم خفیہ معلومات دی تھیں۔ ایک سینئیر وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت سمجھوتے پر آمادہ گروپوں سے مذاکرات کرے گی مگر جو گروپ حکومتی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دینگے، ان کے ساتھ طاقت سے نمٹنا جائے گا۔
حکومت پالیسی میں واضح تبدیلی کا اشارہ دیتے ہوئے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیلئے تیار ہے، مارچ میں آپریشن شروع ہوسکتا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی و عسکری حکام نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آخرکار سول و فوجی قیادت اس بات پر متفق ہوچکی ہے کہ ایک اہدافی فوجی آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ہونیوالے اجلاس میں دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی لہر میں طالبان سے نمٹنے کیلئے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔ ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اس بات کا گہرا ادراک تھا کہ مختلف گروپ مذاکرات پر تیار نہیں ہونگے اور ان کے ساتھ طاقت سے ہی نمٹنا پڑے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ میں زمینی کارروائی کا فیصلہ شمالی وزیرستان میں شدید سردی کے باعث کیا گیا مگر اس سے قبل طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے جاسکتے ہیں۔ عسکری ذرائع نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ فوج سمجھوتے پر تیار نہ ہونے والے گروپوں کو طاقت سے کچل سکتی ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مارچ میں ہونے والے آپریشن میں بھی حقانی نیٹ ورک کو نشانہ بتایا جائیگا یہ نہیں۔
سکیورٹی اسٹبلشمنٹ سے رابطہ رکھنے والے ایک ریٹائرڈ افسر کا کہنا ہے کہ حقانی بھی اب سمجھتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے اور وہ آپریشن شروع ہونے سے قبل افغانستان میں موجود اپنے محفوظ ٹھکانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے ہی مذاکرات کے نام پر کافی وقت ضائع ہوچکا ہے، اب آپریشن بہت جلد ہوسکتاہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حالیہ فضائی حملوں میں بھی سکیورٹی ایجنسیز نے شمالی وزیرستان میں موجود مختلف گروپوں کے درمیان تقسیم کو استعمال کیا ہے، مذاکرات پر آمادہ گروپوں نے میرعلی اور میرانشاہ میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے سینئیر کمانڈرز اور غیرملکی جنگجوئوں کے بارے میں اہم خفیہ معلومات دی تھیں۔ ایک سینئیر وزیر کا کہنا ہے کہ حکومت سمجھوتے پر آمادہ گروپوں سے مذاکرات کرے گی مگر جو گروپ حکومتی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دینگے، ان کے ساتھ طاقت سے نمٹنا جائے گا۔