آگ اتنی کبھی نہ بھڑکاؤ

حالیہ انتخابات میں ہماری تینوں قومی سیاسی پارٹیوں نے جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، وہ افسوسناک بھی تھا اور تشویشناک بھی۔

Amjadislam@gmail.com

موبائل فون اور اُس سے متعلقہ ایپس کے بارے میں طرح طرح کی آرا دیکھنے اور سننے میں آتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس چھوٹے سے آلے نے دنیا کی شکل بدل کررکھ دی ہے اور دنیا اور اپنے اردگرد کے بارے میں فوری معلومات کے ضمن میں تاریخ کے کسی بھی دور میں انسان اتنا زیادہ باخبر نہیں تھا جتنا اب ہے۔

جہاں تک اقوال زریں، دانش اور بصیرت سے متعلق باتوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بھی اس کا کردار بے حد موثر اور قابلِ تعریف ہے۔ ہر روز صبح واٹس ایپ کھولنے پر آپ کو ایک یا دو باتیں ضرور ایسی ملتی ہیں جن سے آپ کا ذہن روشن ہوجاتا ہے یوں تو بہت سے احباب مجھ پر یہ کرم فرماتے رہتے ہیں مگر کوئٹہ کے برادرم راحت ملک اور لاہور کے بھائی شفیق عباسی تو اتوار کو بھی ناغہ نہیں کرتے۔

آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں ہماری تینوں قومی سیاسی پارٹیوں نے جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، وہ افسوسناک بھی تھا اور تشویشناک بھی۔میں اپنے اس کالم ''چشمِ تماشا'' میں سیاسی منظر نامے پر براہ راست گفتگو یا تبصرے سے حتی الامکان بوجوہ گریزکرتا ہوں لیکن یہ صورتِ حال ایسی تھی کہ اسے نظر انداز کرکے گزر جانا اپنی جگہ پر ایک اخلاقی جرم سے کم نہیں تھا۔ ابھی ذہن کے اندر یہ کشمکش چل ہی رہی تھی کہ راحت ملک کے آج کے پیغام پر نظر پڑی جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ جو آگ تمہارے لیے ناقابلِ برداشت ہو، وہ دوسروں کے لیے بھی مت لگاؤ یعنی ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔

ایک حد تک گرما گرمی ہماری طرح کے ملکوں کا سیاسی کلچر بن گئی ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ سٹیج سے جو لوگ منہ سے آگ کے گولے پھینکتے ہیں، اُن کے اِرد گرد اور اگلی صفوں میں بھی اُن کے اپنے ہی کارندے پٹرول کے کنستر لیے کھڑے ہوتے ہیں ، ان کے بعد تماشائیوں اور تماش بینوں کا نمبر آتا ہے جنھیں صرف تماشا دیکھنے سے غرض ہوتی ہے اور سب سے آخر میں وہ افتادگانِ خاک ہوتے ہیں جو میرے ہی ایک شعر کے مطابق تدبیر سے زیادہ تقدیر پر یقین رکھتے ہیں اور ان جلسوں میں اُسی کو ڈھونڈنے آتے ہیں۔

شائد اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ

آیئے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں

ایک مدت تک آزاد کشمیر کے انتخابات میں وہاں کی مقامی پارٹیاں ہی حصہ لیا کرتی تھیں۔ مسلم کانفرنس کے اس بار کامیاب ہونے والے واحد امیدوار اور عزیز دوست سردار محمد عتیق کے والد گرامی شیرِ کشمیر سردار عبدالقیوم مرحوم کے آخری دنوں میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا عمل دخل بڑھنا شروع ہوا جس پر وہ رنجیدہ بھی تھے اور ناراض بھی لیکن اس کے بعد تو سارا معاملہ ہی اُلٹ ہوگیا۔

میری ذاتی رائے میں بھی یہ انتخابات وہاں کی مقامی پارٹیوں کے درمیان ہی ہونے چاہییں۔ انفرادی سطح پر کسی امیدوار کا ذہنی جھکاؤ پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کی طرف ہوسکتا ہے لیکن اس پارٹی یا اُس کی قیادت کو اس سارے معاملے سے فاصلے پر رہنا چاہیے۔

گالم گلوچ ذاتی جملے اور تبرہ بازی کم یا زیادہ ہر جمہوری نظام کا ایک طرح سے حصہ بن چکی ہے مگر اسے جمہوریت کا حسن کہنا سراسر زیادتی ہے۔ یہ کیسا حسن ہے جس میں کسی کی ماں بہن کی عزت اُس کی حب الوطنی یا شخصیت کا سرِعام مذاق اُڑایا جاتا ہے۔


تو بات ہورہی تھی برادرم راحت ملک کے پیغام کی جس نے نہ صرف مجھے اس کالم کا ایک بہت خیال انگیز عنوان مہیا کیا بلکہ چند ہی منٹوں میں اس نے ایک غزل کے مطلع کی صورت اختیار کرلی اور پھر اپنے پیچھے پوری غزل کو بھی لگا لیا لیکن فی الوقت ہم اس مطلع تک ہی محدود رہتے ہیں کہ شعر کی نثر کی طرح یہ نثر کا شعر بن گیا ہے۔

خود بھی جس کی تپش نہ سہہ پاؤ

آگ اتنی کبھی نہ بھڑکاؤ

کہنے کو آزاد کشمیر کی حد تک یہ طوفان تھم گیا ہے کہ نتائج کی بارش نے بظاہر اُن شعلوںکو سرد کردیا ہے جن میں یہ جنت نظیر وادی گھری ہوئی تھی لیکن ا گر اس مطلع میں دیے گئے فارمولے پر غور اور عمل نہ کیا گیا تو آیندہ ہمیں اس سے بھی بُرے منظر دیکھنے کو ملیں گے۔ میں متعلقہ افراد کے نام اور ان کی ہرزہ سرائیوں کا ذکر جان بوجھ کر نہیں کررہا کہ آپ سب ان سے بخوبی واقف ہیں اصل مسئلہ ان کا نہیں ان رویوں کا ہے جن کے یہ مبلغ اور پاسدارہیں۔

ایک لحاظ سے یہ نتائج بھی بے معنی ہیں کہ مسئلہ حاصل شدہ سیٹوں کی گنتی کا نہیں کشمیری بھائیوں کے حقوق کے احترام اور اُن کے ساتھ باہمی محبت کا ہے۔ مجھے مختلف مواقعے پر دو تین بار سابق وزیراعظم فاروق حیدر سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہر بار تاثر پہلے سے زیادہ خوشگوار تھا کہ وہ جرات مندی ، دانش اور کھلے دل کے ساتھ بات کرنے والے آدمی ہیں۔ کشمیر کے ساتھ ساتھ باہمی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔

غالباً یہ انتخابی مہم کے دوران ہونے والی بدتہذیبوں اور آتش زنی کا ردعمل تھا کہ انھوں نے کشمیر کے انتخابات میں وفاق میں موجود حاکم پارٹی کی روایتی فتح کو کشمیری عوام کی دو سو سالہ غلامی اور ایک طرح کی غلامانہ ذہنیت سے جوڑ دیا کیوں کہ اس طرح خود اُن کی حکومت کی جیت بھی اُن کی یا اُن کی جماعت کی کسی خوبی کے بجائے ایک غلط روایت کا تسلسل بن جاتی ہے۔

بہتر ہوگا کہ غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد وہ اپنے مخالف ہی سہی مگر لوکل کشمیری لیڈر سردار محمد عتیق اور دیگر ہم خیال لوگوں سے مل کریہ قانون پاس کروائیں کہ آیندہ انتخابات میں کسی غیر کشمیری پارٹی اور ہر قسم کی بیرونی مداخلت کو ختم کیا جائے اور پاکستان کے عوام اور حکومت کی حمایت سے مقبوضہ کشمیر میں موجود بھائیوں کی بھرپور مدد کی جائے اور یہ کہ ووٹ کے ساتھ ساتھ ووٹر کو بھی برابر کی عزت دی جائے جہاں تک وطنِ عزیز کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی بات ہے تو اُن سے ایک بار پھر میری یہی درخواست ہوگی کہ

خود بھی جس کی تپش نہ سہہ پاؤ

آگ اتنی کبھی نہ بھڑکاؤ
Load Next Story