خواتین کے ساتھ جرائم اور نظام انصاف

لوگ سوال کررہے ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ کیوں پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی جرائم اور دیگر جرائم میں تیزی آرہی ہے۔

msuherwardy@gmail.com

نور مقدم کے کیس نے پورے ملک کو غم میں مبتلا کر دیاہے۔ خواتین کے ساتھ جنسی جرائم کے بارے میں ایک بحث شروع ہو گئی ہے۔ ساتھ ساتھ خدیجہ کے ملزم شاہ حسین کی قبل از وقت جیل سے رہائی نے بھی بحث کو شدت دے دی ہے۔

لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ کیوں پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی جرائم اور دیگر جرائم میں تیزی آرہی ہے۔ ویسے تو سارے جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے لیکن میں اس وقت خواتین کے ساتھ پیش آنے والے جرائم پر ہی بات کروں گا۔

ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ ان جرائم میں اضافے کا کون ذمے دار ہے۔کیا حکومت ذمے دار ہے؟ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے ذمے دار ہیں؟ کیا ہمارے قانون بنانے والے ادارے ذمے دار ہیں؟ کیا معاشرے کی اخلاقی گروٹ اس کی ذمے دار ہے؟ خواتین کی آزادی ذمے دار ہے؟ معاشرے کی بے راہ روی ذمے دار ہے؟ مغرب کی روشن خیالی ذمے دار ہے؟ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی اس کا ذمے دار نہیں ہے۔

ہمارے ملک کا نظام عدل اس کا بنیادی طور پر ذمے دار ہے۔ مجرموں کے اندر یہ احساس کہ وہ نظام عدل سے بچ سکتے ہیں، بنیادی طور پر ذمے دار ہے۔ مقدمات میں سالہا سال کا التوا ذمے دار ہے۔ عدالتوں میں تاریخ پر تاریخ کا کلچر ذمے دار ہے۔ پیچیدہ نظام انصاف ذمے دار ہے۔ وکلا گردی ذمے دار ہے۔

بار اور بنچ کے تنازعات ذمے دار ہیں۔ کیوں ہم نظام انصاف کے ذمے داران سے سوال نہیں کر رہے ہیں کہ معاشرے میں خواتین کے ساتھ جرائم کے مقدمات میں اس قدر بے حسی کیوں ہے؟ کسی خاتون کے ساتھ زیادتی یا دیگر جرائم کا مقدمہ سنتے ہوئے جب تاریخ پر تاریخ ڈالی جاتی ہے ، تب تاریخ پر تاریخ ڈالنے والے کا دل کیوں نہیں دہلتا؟ خواتین کو اپنے ساتھ جرائم میں انصاف کے حصول میں جو مشکلات ہیں نظام انصاف کے ذمے داران کو اس کا احساس کیوں نہیں ہے؟ کیوں یہ تاثر عام ہے کہ عدالت میں جا کر ملزم کے بجائے عورت کی عزت زیادہ خراب ہوتی ہے؟

عدالتوں میں ایسا ماحول کیوں نہیں ہے کہ خواتین عدالتوں میں نظام انصاف کے لیے جانے میں تحفظ محسوس کریں؟ خو اتین کی شناخت کو خفیہ رکھنے کا احساس کیوں نہیں کیا جاتا؟ میں آج بھی سمجھتا ہوں جب تک نظام انصاف کے ذمے دار اس ضمن میں کوئی مربوط پالیسی نہیں بنائیں گے تب تک یہ جرائم کم نہیں ہو سکیں گے۔ جب تک مجرم کو یہ احساس رہے گا کہ وہ بچ سکتا ہے، وہ جرم کرے گا۔ لیکن جب معاشرے میں یہ احساس ہوگا کہ کوئی بھی مجرم سزا سے نہیں بچ سکتا، تب ہی جرائم میں کمی آئے گی۔

لوگ جرم کرنے سے ڈریں گے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں ان جرائم کو روکنے کے لیے نظام انصاف کے ذمے داران کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔کیا یہ درست نہیں کہ نوے فیصد مقدمات میں ملزم گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن سزا سے بچ جاتے ہیں۔ انھیں ضمانت کی سہولت باآسانی مل جاتی ہے۔


وہ نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے ہی قانون کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ملزمان کو مثالی سزائیں ملنا نہیں شروع ہوں گی تب تک جرائم کا راستہ نہیں رک سکتا۔ گرفتار ملزما ن کے مقدمات اتنی تیزی سے سننے چاہیے کہ ضمانت کی نوبت ہی نہ آئے۔ ضمانت کی سہولت سے پہلے مقدمے کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اکثر ضمانتیں مقدمے میں تاخیر کو وجہ بنا کر ہی دی جاتی ہیں۔ لیکن ملزم کو ضمانت کی سہولت دیتے وقت مقدمے میں تاخیر کے ذمے دار پر کچھ نہیں کہا جاتا۔ کیوں ؟

میں یہ بھی نہیں مانتا کہ ہمارے عدالتی نظام میں فوری انصاف ممکن نہیں۔ زینب کے مقدمہ میں ہم نے دیکھا کہ اسی عدالتی نظام نے چند دنوں میں مقدمے کا فیصلہ کردیا۔کتنی جلدی ملزم کو پھانسی بھی لگا دی گئی۔یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ جہاں نظام انصاف فوری انصاف دینا چاہے وہ دے سکتا ہے۔ اسی نظام انصاف کے اندر فوری انصاف دینے کی صلاحیت موجود ہے۔

تاہم نظام انصا ف کے اندر خود احتسابی کا نظام اس قدر کمزور ہے کہ مقدمات میں بے جا تاخیر کو اب کوئی جرم یا نا اہلی نہیں سمجھا جاتا۔ کسی جج کا اس بات پر احتساب نہیں ہو سکتا کہ اس نے مقدمے کو بے وجہ تاخیر کا شکار کیا۔ تاریخ پر تاریخ دینے پر کوئی احتساب نہیں ہے۔

ملزمان اپیلوں پر بری ہوتے ہیں تو غلط فیصلہ دینے والے کا کوئی احتساب نہیں ہے۔ ایساکیوں ہے۔ کیوں نظام انصاف اپنے اندر بروقت انصاف فراہم نہ کرنے پر احتساب کا عمل شروع نہیں کرتا۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے، بعد میں دائر ہونے والے مقدمے کا پہلے فیصلہ ہوجاتا ہے اور پہلے دائر ہونے والا مقدمہ کئی، کئی سال التوا کا شکار رہتا ہے۔ ایساکیوں ہے کہ جس مقدمہ کو چاہے پہلے سن لیا اور جس کو چاہے بعد میں سن لیا اور جسے چاہے نہ ہی سنا جائے۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کے نظام انصاف کے بارے میں ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ایسی رپورٹ جاری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس امریکی رپورٹ کو مسترد کرنے کا بیان بھی جاری کیا ہے۔ وزا رت خا رجہ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام مکمل طور پر آزاد ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا کوئی حکومتی کنٹرول نہیں ہے۔ دوسری طرف کابینہ نے اپنے حالیہ اجلاس میں ججز کی سیکیور ٹی کے اخراجات پر بھی غور کیا ہے۔ بالخصوص ریٹائرڈ ججز کی سیکیورٹی پر آنے والے اخراجات کی بھی بات کی گئی ہے۔

اب تو پاکستان کی عدلیہ میں تنخواہیں بھی مثالی ہیں بلکہ عدالتی عملہ کی تنخواہیں بھی اچھی ہو گئی ہیں، دیگر مراعات بھی بہترین ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ججز کی تعداد میں کمی ہے تو پہلا سوال یہ ہو گا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی آسامیاں خا لی کیوں رہتی ہیں؟ کیا ہائی کورٹس میں ججز کی آسامیاں کئی کئی سال سے خالی نہیں ہیں؟ اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ عدلیہ نے خود ہی یہ آسامیاں پُرکرنی ہیں۔ اگر ایک عموی رائے ہے کہ نئے ججز اچھے نہیں آرہے ہیں تو اس کا ذمے دار بھی کون ہے؟کم از کم حکومت کو اس کا ذمے دار تو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اسی طرح بار اور بنچ کے اختلافات کو حل کس نے کرنا ہے؟ آج بھی اعلیٰ عدلیہ میں ایک جج کی تعیناتی پر بار اور بنچ کے درمیان تنازعہ جاری ہے۔ بار نے ہڑتال کی کال دی ہوئی ہے۔ آخر باراور بنچ ان ہڑتالوں کا کوئی علاج کیوں نہیں ڈھونڈتے۔ ماتحت عدلیہ میں بار کے نمایندوں کی جانب سے ججز کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات نظام انصاف کا کوئی مثبت چہرہ نہیں ہیں۔

یہ سب عوامل جرائم کی شرح میں اضا فے کا باعث ہیں۔ یہ سب عوا مل مجرمان کو جرم کرنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ یہ سب عوامل بیرونی دنیا کو ہمارے نظام انصاف پر سوال اٹھانے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں بیرونی دنیا کو ہمارے نظام انصاف کے بارے میں انگلی اٹھانے کی اجازت نہیں دینی ہے لیکن ان کو ٹھیک بھی کرنا ہے۔ اگر ہم ٹھیک نہیں کریں گے تو لوگ انگلیاں تو اٹھائیں گے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں توہین عدالت کا قانون بھی اتنا پر اثر نہیں رہا۔
Load Next Story