مسلم لیگ ن …شکست کی وجہ
مسلم لیگ (ن) کو اپنے اندر احتساب کا ایک عمل شروع کرنا چاہیے
ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے جیت کا ایک ماحول بنا لیا تھا۔ ساتھ ساتھ یہ ماحول بھی بن گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ سمیت سب نے مفاہمت کے بیانات دینے شروع کر دیے تھے بلکہ شاہد خاقان عباسی نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ ان کی اسٹبلشمنٹ سے کبھی لڑائی تھی ہی نہیں۔ تا ہم کچھ تو ایسا ہوا ہے کہ جیت کا ٹریک یک دم ہار میں بدل گیا ہے۔
آزاد کشمیر میں ہار کے بعد ن لیگ اب اپنی سیالکوٹ کی پنجاب اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ بھی ہار گئی ہے۔ جیسے آزاد کشمیر کی بری ہار نے ن لیگ کو سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا، ایسے ہی سیالکوٹ کی ہار نے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں مریم نواز نے انتخابی مہم کے دوران سولو فلائٹ کی ہے، جس کی وجہ سے ہار ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بطور جماعت ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا ہے۔ مریم نواز ساری جماعت اور بالخصوص سنیئر لیڈر شپ کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ جب انتخابی مہم انھوں نے اکیلے چلائی ہے تو ہار کی بھی وہ اکیلی ذمے دار ہیں۔ اس لیے انھیں اس ہار کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنے اندر احتساب کا ایک عمل شروع کرنا چاہیے۔
آپ دیکھیں گلگت میں مسلم لیگ (ن) کی پانچ سال ایک مضبوط حکومت تھی۔لیکن گلگت کے وزیر اعلیٰ حالیہ انتخابات میں اپنی سیٹ بھی نہیںبچا سکے۔ پانچ سال وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد وہ نہ تو اپنی جماعت کو متحد رکھ سکے اور نہ ہی اپنی سیٹ بچا سکے۔ اب دیکھا جائے تو انھیں مسلم لیگ (ن) نے پانچ سال بلا شرکت غیر اقتدار دیا لیکن نہ تو وہ کوئی خاص کام کر سکے جسے انتخابی مہم میں دکھا یا جا سکتا اور نہ ہی سیاسی طور پر کوئی کام کر سکے جس سے جماعت کو کوئی فائدہ ہوتا۔
اسی طرح آزاد کشمیر میں راجہ فاروق حیدر ایک مضبوط وزیر اعظم تھے۔ ان کے پاس دو تہائی اکثریت تھی۔ کام کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ لیکن وہ دو حلقوں سے انتخاب لڑ رہے تھے اورایک سے ہار گئے اور دوسرے سے بمشکل جیتے ہیں۔ ان کی کابینہ کے ارکان ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔حقیقت یہی ہے کہ ان کی ناقص سیاسی کارکردگی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو انتخابات سے قبل ہی کافی نقصان ہو چکا تھا۔ پھر کام بھی کوئی نہیں کیا ہوا تھا۔کوئی ایسا منصوبہ نہیں تھا جس کو دکھایا جا سکتا۔ جس کے گرد انتخابی مہم چلائی جا سکتی۔
ان کے سب سے فعال وزیر مشتاق منہاس چوتھے نمبر پر آئے ہیں۔ جب آپ چوتھے نمبر پر آئیں تو سمجھیں حلقہ کے ووٹر آپ سے شدید ناراض ہیں، ورنہ دوسرے نمبر پر آکر آپ دھاندلی اور دیگر شکایات کر سکتے ہیں۔ لیکن چوتھے نمبر پر آکر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اسی طرح بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کو مسلم لیگ (ن) نے وزارت اعلیٰ دی۔ وہ نہ حکومت بچا سکے اور نہ ہی پارٹی بچا سکے بلکہ بحران کے دور میں پاکستان سے ہی چلے گئے۔ سونے پر سہاگا پی ڈی ایم کی محبت میں مریم نواز نے انھیں پارٹی چھوڑنے کا موقع دے دیا۔ آج بلوچستان مسلم لیگ (ن) ختم ہو گئی ہے وہ ساتھیوں اور دہگر رہنماؤں کے ساتھ پیپلزپارٹی میں چلے گئے ہیں۔
یہ مثالیں دینے کا مطلب یہ ہے کہ صرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کافی نہیں۔ ساتھ کارکردگی بھی ضروری ہے۔ اگر آپ کی ٹیم کے کپتان نے کارکردگی نہیں دکھائی تو کتنا بھی مقبول نعرہ ہو کامیابی دوبارہ نہیں ملتی۔ پنجاب کی صورتحال ان سب مثالوں سے مختلف ہے۔ یہاں شہباز شریف کی کارکردگی آج بھی سیاسی مخالفین کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
آج بھی موجودہ حکومت کے کاموں کا موازنہ شہباز شریف کے کاموں سے ہی ہوتا۔ کارکرگی کا جو معیار شہباز شریف نے بنایا ہے اس نے مخالفین کی راتوں کی نیندیں آج بھی حر ام کی ہوئی ہیں۔ اسی لیے جب 2018میں ساری اسٹبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کو ہرانے کے لیے زور لگا رہی تھی۔ وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے تھے جو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر، بلوچستان اور دیگر جگہ استعمال کیے گئے۔ تا ہم ن لیگ کی پنجاب کی کارکردگی انتہائی نا مناسب حالات کے باوجود باقی سب جگہ سے بہتر رہی ہے۔
میں 2018کے انتخابات کی بات کر رہا ہوں۔ اس لیے اس میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کی کارکردگی کا بھی بڑا حصہ تھا۔ ورنہ اگر صرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہی کافی ہوتا تو باقی جگہ بھی پنجاب جیسے نتائج سامنے آجاتے۔ اسی لیے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پنجاب کی حدود سے باہر ووٹ کو عزت دو کی وہ افادیت نہیں جو پنجاب میں ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی جگہ کارکردگی وہ نہیں جو پنجاب میں ہے۔ اس لیے کارکردگی کے بغیر مقبول نعرہ بھی نتائج نہیں دے سکتا۔ آج عمران خان کو بھی یہی مسئلہ ہے کہ ان کی کارکردگی اچھی نہیں۔ اس لیے ان کے مقبول نعرے بھی نتائج نہیں دے رہے۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اگر اپنی پالیسی نہ بدلی تو شاید پنجاب بھی ہاتھ سے چلا جائے گا۔ شہباز شریف کی کارکردگی کے سر پر اسے مزید روکنا ممکن نہیں۔ اگر پنجاب کے لوگوں کے اندر یہ احساس مضبوط ہو گیا کہ اگلی دفعہ بھی پنجاب میں ن لیگ کو حکومت نہیں ملے گی تو پنجاب کی صورتحال بھی بدل جائے گی۔ خالی شہباز کی کارکردگی اس کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ شہباز شریف کے فلسفہ مفاہمت کو بھی اپنانا ہوگا۔ اس لیے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے نتائج ن لیگ کے لیے مستقبل کا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے جیت ناگزیر ہے اقتدار کا راستہ ناگزیر ہے۔ مسلم لیگ (ن) مزید محاذ آرائی کی سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ شہباز شریف کی مفاہمت کا راستہ ہی واحد آپشن ہے۔ مریم نواز کو شہباز شریف کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی سے بہتری کے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
یہ بہت کہا جاتا ہے کہ مفاہمت نے آج تک مسلم لیگ (ن) کو کچھ نہیں دیا، میں یہ نہیں مانتا۔ اگر مریم نواز کے کیس کو ہی دیکھ لیں۔ ان کو سیاست کرنے کی یہ آزادی مفاہمت کی وجہ سے ہی ملی ہے۔ آج ن لیگ کی ساری قیادت باہر ہے۔ عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے۔ نواز شریف لندن پہنچ گئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ باہر ہیں۔ یہ سب مفاہمت کے ثمرات ہیں۔ مفاہمت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ پتہ نہیں یک دم مفاہمت کیوں ختم کی گئی۔ پی ڈی ایم کے چکر میں مریم نواز کہاں پہنچ گئیں۔ نہ پی ڈی ایم رہی اور سارا کھیل بھی خراب ہو گیا۔ تب بھی شہباز شریف سمجھا رہے تھے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
نواز شریف سے وفاداری ثابت کرنے کے شہباز شریف نے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ جیل کاٹ لی ہے۔ جن باتوں کو ٹھیک نہیں سمجھتے ان کی بھی اطاعت کی ہے۔ کبھی سولو فلائٹ نہیں کی ہے۔ اپنا نقصان کیا ہے لیکن پارٹی کا نقصان نہیں کیا ہے۔ اس لیے اگر اب بھی ان پر اعتبار نہیں تو پھر کبھی نہیں ہوگا۔ اس وقت اب نہیں تو کبھی نہیں والی صورتحال ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو اکٹھے بیٹھ کر اگلا لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ اگر مریم نواز نے سولو فلا ئٹ کرنی ہے تو شہباز شریف کو صدارت چھوڑ دینی چاہیے اور اگر شہباز شریف نے صدر رہنا ہے تو مریم نواز سمیت سب کو ان کی اطاعت کرنا ہوگی۔ یہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
آزاد کشمیر میں ہار کے بعد ن لیگ اب اپنی سیالکوٹ کی پنجاب اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ بھی ہار گئی ہے۔ جیسے آزاد کشمیر کی بری ہار نے ن لیگ کو سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا، ایسے ہی سیالکوٹ کی ہار نے بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں مریم نواز نے انتخابی مہم کے دوران سولو فلائٹ کی ہے، جس کی وجہ سے ہار ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بطور جماعت ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا ہے۔ مریم نواز ساری جماعت اور بالخصوص سنیئر لیڈر شپ کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ جب انتخابی مہم انھوں نے اکیلے چلائی ہے تو ہار کی بھی وہ اکیلی ذمے دار ہیں۔ اس لیے انھیں اس ہار کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کو اپنے اندر احتساب کا ایک عمل شروع کرنا چاہیے۔
آپ دیکھیں گلگت میں مسلم لیگ (ن) کی پانچ سال ایک مضبوط حکومت تھی۔لیکن گلگت کے وزیر اعلیٰ حالیہ انتخابات میں اپنی سیٹ بھی نہیںبچا سکے۔ پانچ سال وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد وہ نہ تو اپنی جماعت کو متحد رکھ سکے اور نہ ہی اپنی سیٹ بچا سکے۔ اب دیکھا جائے تو انھیں مسلم لیگ (ن) نے پانچ سال بلا شرکت غیر اقتدار دیا لیکن نہ تو وہ کوئی خاص کام کر سکے جسے انتخابی مہم میں دکھا یا جا سکتا اور نہ ہی سیاسی طور پر کوئی کام کر سکے جس سے جماعت کو کوئی فائدہ ہوتا۔
اسی طرح آزاد کشمیر میں راجہ فاروق حیدر ایک مضبوط وزیر اعظم تھے۔ ان کے پاس دو تہائی اکثریت تھی۔ کام کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ لیکن وہ دو حلقوں سے انتخاب لڑ رہے تھے اورایک سے ہار گئے اور دوسرے سے بمشکل جیتے ہیں۔ ان کی کابینہ کے ارکان ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔حقیقت یہی ہے کہ ان کی ناقص سیاسی کارکردگی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو انتخابات سے قبل ہی کافی نقصان ہو چکا تھا۔ پھر کام بھی کوئی نہیں کیا ہوا تھا۔کوئی ایسا منصوبہ نہیں تھا جس کو دکھایا جا سکتا۔ جس کے گرد انتخابی مہم چلائی جا سکتی۔
ان کے سب سے فعال وزیر مشتاق منہاس چوتھے نمبر پر آئے ہیں۔ جب آپ چوتھے نمبر پر آئیں تو سمجھیں حلقہ کے ووٹر آپ سے شدید ناراض ہیں، ورنہ دوسرے نمبر پر آکر آپ دھاندلی اور دیگر شکایات کر سکتے ہیں۔ لیکن چوتھے نمبر پر آکر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اسی طرح بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کو مسلم لیگ (ن) نے وزارت اعلیٰ دی۔ وہ نہ حکومت بچا سکے اور نہ ہی پارٹی بچا سکے بلکہ بحران کے دور میں پاکستان سے ہی چلے گئے۔ سونے پر سہاگا پی ڈی ایم کی محبت میں مریم نواز نے انھیں پارٹی چھوڑنے کا موقع دے دیا۔ آج بلوچستان مسلم لیگ (ن) ختم ہو گئی ہے وہ ساتھیوں اور دہگر رہنماؤں کے ساتھ پیپلزپارٹی میں چلے گئے ہیں۔
یہ مثالیں دینے کا مطلب یہ ہے کہ صرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کافی نہیں۔ ساتھ کارکردگی بھی ضروری ہے۔ اگر آپ کی ٹیم کے کپتان نے کارکردگی نہیں دکھائی تو کتنا بھی مقبول نعرہ ہو کامیابی دوبارہ نہیں ملتی۔ پنجاب کی صورتحال ان سب مثالوں سے مختلف ہے۔ یہاں شہباز شریف کی کارکردگی آج بھی سیاسی مخالفین کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
آج بھی موجودہ حکومت کے کاموں کا موازنہ شہباز شریف کے کاموں سے ہی ہوتا۔ کارکرگی کا جو معیار شہباز شریف نے بنایا ہے اس نے مخالفین کی راتوں کی نیندیں آج بھی حر ام کی ہوئی ہیں۔ اسی لیے جب 2018میں ساری اسٹبلشمنٹ مسلم لیگ (ن) کو ہرانے کے لیے زور لگا رہی تھی۔ وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے تھے جو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر، بلوچستان اور دیگر جگہ استعمال کیے گئے۔ تا ہم ن لیگ کی پنجاب کی کارکردگی انتہائی نا مناسب حالات کے باوجود باقی سب جگہ سے بہتر رہی ہے۔
میں 2018کے انتخابات کی بات کر رہا ہوں۔ اس لیے اس میں ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کی کارکردگی کا بھی بڑا حصہ تھا۔ ورنہ اگر صرف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہی کافی ہوتا تو باقی جگہ بھی پنجاب جیسے نتائج سامنے آجاتے۔ اسی لیے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پنجاب کی حدود سے باہر ووٹ کو عزت دو کی وہ افادیت نہیں جو پنجاب میں ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی جگہ کارکردگی وہ نہیں جو پنجاب میں ہے۔ اس لیے کارکردگی کے بغیر مقبول نعرہ بھی نتائج نہیں دے سکتا۔ آج عمران خان کو بھی یہی مسئلہ ہے کہ ان کی کارکردگی اچھی نہیں۔ اس لیے ان کے مقبول نعرے بھی نتائج نہیں دے رہے۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اگر اپنی پالیسی نہ بدلی تو شاید پنجاب بھی ہاتھ سے چلا جائے گا۔ شہباز شریف کی کارکردگی کے سر پر اسے مزید روکنا ممکن نہیں۔ اگر پنجاب کے لوگوں کے اندر یہ احساس مضبوط ہو گیا کہ اگلی دفعہ بھی پنجاب میں ن لیگ کو حکومت نہیں ملے گی تو پنجاب کی صورتحال بھی بدل جائے گی۔ خالی شہباز کی کارکردگی اس کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ شہباز شریف کے فلسفہ مفاہمت کو بھی اپنانا ہوگا۔ اس لیے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے نتائج ن لیگ کے لیے مستقبل کا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے جیت ناگزیر ہے اقتدار کا راستہ ناگزیر ہے۔ مسلم لیگ (ن) مزید محاذ آرائی کی سیاست کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ شہباز شریف کی مفاہمت کا راستہ ہی واحد آپشن ہے۔ مریم نواز کو شہباز شریف کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی سے بہتری کے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
یہ بہت کہا جاتا ہے کہ مفاہمت نے آج تک مسلم لیگ (ن) کو کچھ نہیں دیا، میں یہ نہیں مانتا۔ اگر مریم نواز کے کیس کو ہی دیکھ لیں۔ ان کو سیاست کرنے کی یہ آزادی مفاہمت کی وجہ سے ہی ملی ہے۔ آج ن لیگ کی ساری قیادت باہر ہے۔ عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے۔ نواز شریف لندن پہنچ گئے ہیں۔ رانا ثناء اللہ باہر ہیں۔ یہ سب مفاہمت کے ثمرات ہیں۔ مفاہمت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ پتہ نہیں یک دم مفاہمت کیوں ختم کی گئی۔ پی ڈی ایم کے چکر میں مریم نواز کہاں پہنچ گئیں۔ نہ پی ڈی ایم رہی اور سارا کھیل بھی خراب ہو گیا۔ تب بھی شہباز شریف سمجھا رہے تھے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
نواز شریف سے وفاداری ثابت کرنے کے شہباز شریف نے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ جیل کاٹ لی ہے۔ جن باتوں کو ٹھیک نہیں سمجھتے ان کی بھی اطاعت کی ہے۔ کبھی سولو فلائٹ نہیں کی ہے۔ اپنا نقصان کیا ہے لیکن پارٹی کا نقصان نہیں کیا ہے۔ اس لیے اگر اب بھی ان پر اعتبار نہیں تو پھر کبھی نہیں ہوگا۔ اس وقت اب نہیں تو کبھی نہیں والی صورتحال ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو اکٹھے بیٹھ کر اگلا لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ اگر مریم نواز نے سولو فلا ئٹ کرنی ہے تو شہباز شریف کو صدارت چھوڑ دینی چاہیے اور اگر شہباز شریف نے صدر رہنا ہے تو مریم نواز سمیت سب کو ان کی اطاعت کرنا ہوگی۔ یہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔