ایف آئی اے کی جانب سے دفتر میں بلانا بھی ہراسیت ہے اسلام آباد ہائیکورٹ
یہ تاثر کیوں ہے کہ ایف آئی اے مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے ؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ایف آئی اے کی جانب سے دفتر میں بلانا بھی ہراسیت ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ تاثر کیوں ہے کہ ایف آئی اے مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے ؟ ابھی تک پیکا ایکٹ کے تحت کتنی شکایات درج ہوئیں ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے بتایا کہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت بائیس ہزار 8 سو 77 شکایات درج ہوئی ہیں ، 30 صحافیوں کے خلاف سیکشن بیس کی شکایات درج ہوئیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ تاثر بھی آیا ہے کہ جو حکومت میں ہیں صرف ان کی شکایات سنی جاتی ہیں ، ایک صحافی جو ایک خاص موقف رکھتے ہیں ان کے خلاف ہی کارروائی کیوں ہوتی ہے ؟، بادی النظر میں اس طرح کی کارروائی ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر کسی کی رائے کی وجہ سے ایف آئی اے نوٹس کرتی ہے تو اس کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں، صرف ایف آئی اے کی جانب سے دفتر میں بلانا بھی ہراسیت ہوتی ہے، دفتر تو ایک تھانہ ہے مہذب سوسائٹی میں ایسا نہیں ہوتا ، ابھی آپ نے کسی صحافی کو نوٹس کیا تھا اس سے اس کا سورس پوچھ رہے تھے ، آپ امریکہ اور دوسرے ممالک کو دیکھ لیں پبلک آفس ہولڈر پر تنقید ہوتی، ماحولیات کے معاملے میں جس طرح ایف آئی اے ایک شہری پر چڑھ دوڑی تھی ایسا تو نہیں ہوتا ، انوائرمنٹل معاملے پر فوجداری کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟، تنقید سے تو نہیں گھبرانا چاہیے تنقید نہیں ہو گی تو احتساب نہیں ہو سکے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انوائرمنٹ معاملے پر جس ایف آئی اے کے افسر نے یہ نوٹس کیا کیوں نا اس پر جرمانہ عائد کیا جائے، ایف آئی اے ابھی جو ایس او پیز بنا رہی ہے یہ بہتر عمل ہے، بائیس ہزار شکایات نمٹانے کی تو ایف آئی اے کے پاس استعداد نہیں ہے، آپ صحافیوں کی تنظیموں سے مشاورت کیوں نہیں کرتے؟ اسٹیک ہولڈرز سے ملنے میں تو کوئی حرج نہیں؟، عوام کو معلومات ملنی چاہے صحافیوں کا کردار اہم ہے ، ایف آئی اے صرف اس وقت کارروائی کر سکتی ہے جب نفرت پر مبنی گفتگو ہو، زیادہ سچ بولا جائے گا تو معاشرہ بہتر ہو جائے گا، اختلاف رائے سے گھبرانا تو نہیں چاہیے، یہ خوش آئند بات ہے کہ صحافیوں کے حوالے سے کوئی نئی پٹیشن نہیں آئی۔
عدالت نے تفصیلی رپورٹ آئندہ سماعت تک جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ تاثر کیوں ہے کہ ایف آئی اے مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے ؟ ابھی تک پیکا ایکٹ کے تحت کتنی شکایات درج ہوئیں ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے بتایا کہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت بائیس ہزار 8 سو 77 شکایات درج ہوئی ہیں ، 30 صحافیوں کے خلاف سیکشن بیس کی شکایات درج ہوئیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ تاثر بھی آیا ہے کہ جو حکومت میں ہیں صرف ان کی شکایات سنی جاتی ہیں ، ایک صحافی جو ایک خاص موقف رکھتے ہیں ان کے خلاف ہی کارروائی کیوں ہوتی ہے ؟، بادی النظر میں اس طرح کی کارروائی ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر کسی کی رائے کی وجہ سے ایف آئی اے نوٹس کرتی ہے تو اس کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں، صرف ایف آئی اے کی جانب سے دفتر میں بلانا بھی ہراسیت ہوتی ہے، دفتر تو ایک تھانہ ہے مہذب سوسائٹی میں ایسا نہیں ہوتا ، ابھی آپ نے کسی صحافی کو نوٹس کیا تھا اس سے اس کا سورس پوچھ رہے تھے ، آپ امریکہ اور دوسرے ممالک کو دیکھ لیں پبلک آفس ہولڈر پر تنقید ہوتی، ماحولیات کے معاملے میں جس طرح ایف آئی اے ایک شہری پر چڑھ دوڑی تھی ایسا تو نہیں ہوتا ، انوائرمنٹل معاملے پر فوجداری کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟، تنقید سے تو نہیں گھبرانا چاہیے تنقید نہیں ہو گی تو احتساب نہیں ہو سکے گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ انوائرمنٹ معاملے پر جس ایف آئی اے کے افسر نے یہ نوٹس کیا کیوں نا اس پر جرمانہ عائد کیا جائے، ایف آئی اے ابھی جو ایس او پیز بنا رہی ہے یہ بہتر عمل ہے، بائیس ہزار شکایات نمٹانے کی تو ایف آئی اے کے پاس استعداد نہیں ہے، آپ صحافیوں کی تنظیموں سے مشاورت کیوں نہیں کرتے؟ اسٹیک ہولڈرز سے ملنے میں تو کوئی حرج نہیں؟، عوام کو معلومات ملنی چاہے صحافیوں کا کردار اہم ہے ، ایف آئی اے صرف اس وقت کارروائی کر سکتی ہے جب نفرت پر مبنی گفتگو ہو، زیادہ سچ بولا جائے گا تو معاشرہ بہتر ہو جائے گا، اختلاف رائے سے گھبرانا تو نہیں چاہیے، یہ خوش آئند بات ہے کہ صحافیوں کے حوالے سے کوئی نئی پٹیشن نہیں آئی۔
عدالت نے تفصیلی رپورٹ آئندہ سماعت تک جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔