اوورسیز پاکستانیوں نے ’’میڈان پاکستان الیکٹرک کار‘‘ تیار کرلی

الیکٹرک کار کے ساتھ بیٹری بھی تیار کی گئی ہے، دونوں کو آئندہ تین سے چار ماہ کے دوران منظرعام پر لایا جائے گا

الیکٹرک کار کے ساتھ بیٹری بھی تیار کی گئی ہے، دونوں کو آئندہ تین سے چار ماہ کے دوران منظرعام پر لایا جائے گا (فوٹو : ایکسپریس)

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے میڈ ان پاکستان الیکٹرک کار اور بیٹری تیار کرلی جو آئندہ تین سے چار ماہ کے دوران منظرعام پر لائی جائے گی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ میڈ ان پاکستان الیکٹرک کار امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں پر مشتمل ڈی آئی سی ای (ڈائس) فاؤنڈیشن کی جانب سے بنائی گئی ہے، یہ پروجیکٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے پاکستان میں چلائے جانے والے چار میگا پراجیکٹس میں سے ایک ہے جس کا مقصد ٹیکنالوجی کے میدان میں اوورسیز پاکستانیوں کی مہارت کو سامنے لانا ہے۔

ڈی آئی سی ای فاؤنڈیشن کے بانی و چیئرمین ڈاکٹر خورشید قریشی نے ایکسپریس سے ملاقات میں بتایا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان دنیا کے سامنے میڈن ان پاکستان الیکٹرک کار پیش کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے، الیکٹرک کار کا ڈیزائن امریکا اور برطانیہ کی گلوبل آٹو کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی ماہرین نے ڈیزائن کیا ہے جس میں پاکستانی ماہرین نے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کی ہیں اسی لیے پاکستانی کار کے پروٹو ٹائپ (پہلے ماڈل) پر اٹھنے والے اخراجات کو نمایاں طور پر کم کرنے میں مدد ملی ہے۔

ڈاکٹر خورشید قریشی نے بتایا کہ میڈ ان پاکستان الیکٹرک وہیکل کا ابتدائی نمونہ آئندہ تین سے چار ماہ میں سامنے آجائے گا جبکہ الیکٹرک کار کے لیے بیٹری پیک بھی پاکستان میں ہی تیار کیا جارہا ہے جس کی ڈیزائننگ اور فیبریکیشن کا عمل آئندہ دو ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ بجلی سے چلنے والی پاکستانی کار ریورس انجینئرنگ کے بجائے انجینئرنگ کے عالمی معیارات کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کی مہارت کا شاہکار ہوگی جو دنیا کی توجہ حاصل کرے گی، پاکستانی الیکٹرک کار کے تجزیے کے بہترین نتائج ملے ہیں اور یہ کار صف اول کی الیکٹرک کاروں کا مقابلہ کرے گی۔




ڈاکٹر خورشید قریشی نے بتایا کہ الیکٹرک کار کے ڈیزائن اور پروٹو ٹائپ کی تیاری پر اب تک ایک لاکھ ڈالر کا سرمایہ خرچ ہوچکا ہے جو تمام تر فنڈ ڈائس فاؤنڈیشن کے اراکین نے عطیہ کیا ہے، اس طرز کے پروٹو ٹائپ تک پہنچنے پر 100 ملین ڈالر کا خرچہ آتا ہے وہ اوورسیز پاکستانیوں کی مہارت کی وجہ سے بچ گیا۔

انہوں نے بتایا کہ الیکٹرک کار کی تیاری میں اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تکنیکی تدریس کے ادارے اور انڈسٹری نے بھی معاونت کی ہے، اس پراجیکٹ کے تکنیکی تجزیات ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی میں ہورہے ہیں جبکہ این ای ڈی یونیورسٹی میں بیٹری پیک اور پاور الیکٹرانکس پر کام ہورہا ہے۔

ڈاکٹر قریشی کے مطابق کار کے اندرونی اور بیرونی ڈیزائن کا کام نیشنل کالج آف آرٹ نے کیا اور دیگر جامعات بھی حصہ شامل کررہی ہیں اسی طرح کار کی فیبرکیشن TEVTA میں ہورہی ہے، اس پراجیکٹ میں پاکستان میں گاڑیوں کے پرزہ جات بنانے والی وینڈر انڈسٹری بھی اپنا حصہ شامل کر رہی ہے اور ڈیزائن کے مطابق کمپونینٹس اور پرزہ جات مہیا کررہی ہے۔

ڈاکٹر خورشید قریشی نے بتایا کہ پاکستان کی الیکٹرک کاروں کے لیے بیٹری پیک پاکستان کے ماحول، موسم، ڈرائیونگ کے رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی کم سے کم لائف 10سال ہوگی، بیٹری کے صرف سیل بیرون ملک سے درآمد کیے گئے جبکہ بیٹری پیک اور فیبری کیشن کا تمام کام پاکستان میں ہورہا ہے، بیٹری کی پاکستان میں ہی کمرشل پیداوار کے لیے بھی کچھ کمپنیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کار کے پروٹوٹائپ کی اس وقت ورچوئل اور بینچ ٹیسٹنگ ہورہی ہے، کار کا پروٹو ٹائپ تیار ہونے کے بعد اس کی سڑک پر آزمائش کی جائے گی اور اسے مکمل طور پاکستان کی سڑکوں، ڈرائیونگ کے رجحان، ماحول اور موسم کے مطابق بنایا جائے گا۔

گاڑی کی کمرشل پیداوار کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پروٹوٹائپ کی کامیابی کے بعد سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جائے گی کہ وہ اس پراجیکٹ میں کم از کم 30ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کریں، پاکستان میں تیار کی جانے والی الیکٹرک کاریں اور بیٹری ایکسپورٹ بھی کی جائیں گی۔
Load Next Story