کارڈز ہی کارڈز
بچوں ہی نہیں بڑوں کے جنم دن کی یاد تازہ کرنے کے لیے بھی برتھ ڈے کارڈ بھیجنے کا رواج ہے
میں اور جاوید اقبال معروف دانشور، ڈرامہ نویس اور یونیورسٹی کے استاد اصغر ندیم سید کی صحت و سلامتی کی خبر لینے ہسپتال پہنچے تو وہاں ان کے چاہنے والوں کا ہجوم تھا۔ خدا کا شکر کہ وہ رُو بصحت ہیں۔ دہشت گردی کی جس لپیٹ میں وہ آئے اس کے محرکات یا اس سے نمٹنے کی سرکاری پالیسی کے بارے میں عوام اور عام شہریوں کو حکمران کچھ بھی بتانے سے گریزاں ہیں۔ کیا اس میں کوئی مصلحت ہے یا حتمی اقدام کرنے میں سول اور فوجی طاقتوں میں نااتفاقی اس بارے میں بھی عوام ہی نہیں اہل دانش بھی اب جھنجھلاہٹ اور بے صبری کا شکار ہیں۔ موجودہ گومگو کی کیفیت اچھی یا دانش مندی کی حکمرانی نہیں کہلائی جا سکتی۔ ہسپتال میں آئے ہوئے ایک صاحب نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا۔ وہ میرے لیے اجنبی تھے لیکن اپنائیت سے ملے۔ گھر آ کر میں ان صاحب کا کارڈ اپنی وزٹرز کارڈ البم میں لگاتے ہوئے رک گیا۔ میری الماری میں سے ایک روز پانچ وزٹرز کارڈز ALBUMS برآمد ہوئی تھیں۔ میں نے ان میں محفوظ کیے کارڈ دیکھنے اور پڑھنے شروع کر دیئے تا کہ ان کی چھانٹی ہو جائے۔
ایک وقت تھا جب مرد حضرات گھر سے نکلتے وقت جیب ٹٹول لیا کرتے تھے کہ کچھ رقم ساتھ رکھ لی ہے' پھر وہ دن آ گئے کہ موبائل فون ضرورت بن گیا اور اس کو ساتھ لیے بغیر باہر جانا نہ ہوتا اور اب شناختی کارڈ اور وزٹرز کارڈ بھی ساتھ رکھنا ضروری ہوگیا ہے کہ کسی دہشت گردی کی لپیٹ میں آنے پر شناخت میں لواحقین یا پولیس کو مشکل نہ ہو۔ بہرحال میں نے گزشتہ تیس سال میں جمع ہونے والی اپنی پانچ عدد کارڈز والی البمیں ایک ایک کر کے دیکھنا شروع کیں۔
وزٹنگ یا تعارفی کارڈ میرے بلکہ ہر کسی کے لیے تعلقات کی ایک کڑی ہوتے ہیں۔ اس کڑی کو اب لوگ اپنے موبائل فونوں میں منتقل کر لیتے ہیں جہاں بعض اوقات فون گم یا چوری ہو جانے پر یہ غیر محفوظ تو ہوتے ہی ہیں غلط ہاتھوں میں بھی جا سکتے ہیں۔ اسی لیے سمجھدار لوگ نام اور نمبروں کو ڈائری میں لکھ لیتے ہیں۔ میرے سکول کے دنوں کے دوست بینکر شفقت بخاری نے 1970ء سے ایسی ڈائری بنا رکھی ہے جسے وہ up date کرتے رہنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ بہرحال میں نے جب اپنی کارڈ البموں کو دیکھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ دوستوں اور ملاقاتیوں کے علاوہ ان میں سائل قسم کی بعض بڑی شخصیات کے ساتھ خواہ مخواہ لوگوں کے وزٹنگ کارڈز بھی موجود تھے۔ کئی لوگوں کے فون نمبر اور ایڈریس تبدیل ہو چکے تھے کئی اب اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے جب کہ بہت سوں کو میںLocate کرنے میں مشکل پا رہا تھا۔ میں کئی دن وزٹنگ کارڈوں کی، جن کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی، درستی کرتا رہا۔
چند سال پہلے تک عید کے دن قریب آنے پر رشتہ دار اور دوست احباب عید کارڈ بھیج کر ایک دوسرے کو مبارک بادی کے پیغام بھجوایا کرتے تھے۔ بڑی بک شاپس والے نت نئے ڈیزائن کے عید کارڈ منگوا کر رکھتے تھے بلکہ فٹ پاتھوں اور تھڑوں پر بھی دکاندار ان کی سیل لگاتے اور شوقین حضرات خوب خریداری کرتے اور اپنے پیاروں کو عید کارڈ بھیج کر خوشیاں بانٹا کرتے تھے۔ سرکاری افسروں کے گھروں کے کارنس اور میز بھی عید کارڈوں سے سج جاتے تھے۔ اب موبائل فون کی میسج سروس نے اگر عید کارڈوں کی صف لپیٹ نہیں دی تو الٹ ضرور دی ہے جس کے نیچے پڑے چند عید کارڈ مل جاتے ہیں۔
بات وزٹنگ کارڈ سے آگے بڑھی تھی اس سے یاد آیا کہ عید کارڈ کی کمی پرنٹروں نے شادی بیاہ کے دعوتی کارڈوں کی ورائٹی سے پوری کر لی ہے۔ ایک دن کے بعد بے مقصد ہو جانے والا دعوت نامہ پچاس روپے فی کارڈ سے پانچ سو روپے تک میں بن سکتا ہے۔ اسے ''چھپ سکنا'' اس لیے کہنا نامناسب ہو گا کہ بڑی آکسفورڈ ڈکشنری کے سائز کا دعوت نامہ ذرا سوچئے کہ اپنے اندر کتنی متنوع اور دل خوش کن جہتیں رکھتا ہو گا اور امرأ کے نزدیک ''شو شا'' کے لیے پانچ سو روپے فی دعوت نامہ کون سی بڑی بات ہے۔ اس شادی کے دعوت نامے میں آپ جتنے کرنسی نوٹ ڈالنا چاہیں ڈال سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے البتہ اپنے بیٹے کے ولیمے کا دعوتی خط ہاتھ سے لکھ کر اس کی تین سو فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بنوائی تھیں۔
بچوں ہی نہیں بڑوں کے جنم دن کی یاد تازہ کرنے کے لیے بھی برتھ ڈے کارڈ بھیجنے کا رواج ہے۔ یورپ امریکا وغیرہ میں تو یہ عام ہے لیکن ہمارے ملک کے خواندہ اور متوسط طبقہ میں اب اس دن کی یاد ٹیلیفون کر کے SMS سے اور برتھ ڈے کارڈ بھجوا کر celebrate کی جاتی ہے۔ رشتہ داروں اور عزیزوں کو کھانے پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے تو کیک کاٹنے اور کینڈل جلانے بجھانے کا اہتمام ہونے لگا ہے۔ یہ الگ بات کہ کارڈ بھیجنا تو درکنار پاکستان میں رہائش پذیر افراد کی اکثریت کو اپنا یوم پیدائش بھی یاد نہیں ہوتا۔ ناخواندگی اور افلاس کے ہوتے ہوئے برتھ ڈے کارڈ یا ''ہیپی برتھ ڈے ٹویو'' کے گیت کا ذکر کرتے ہوئے کالم کے الفاظ کانپ رہے ہیں۔
کارڈز کا ذکر آیا ہے تو نیو ایئر ڈے پر آنے جانے والے نیو ایئر ڈے کارڈز کو بھی یاد کر لیا جائے۔ یہ کارڈز اب صرف کمرشل ادارے اپنے قیمتی گاہکوں کو بھجواتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اگر لوگوں کی آنے والے سالوں سے مثبت امیدیں قائم اور وابستہ ہو سکیں تو عوام اور خواص ہر دو نیو ایئر کا استقبال کرنے سڑکوں پر نکل آیا کریں گے لیکن یہاں تو ہر دن گزشتہ دن اور ہر نیا سال گزرے سال سے بدتر اور خوفناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے ہر پاکستانی ملک کو شجر سایہ دار سمجھ کر اس سے وابستہ تو رہنا چاہتا ہے خدا کرے کہ آئندہ اسے امید بہار بھی ہو۔
ملک میں ہر 14 اگست کو دفتروں اور دیگر اداروں میں چھٹی ہوتی ہے۔ یوم آزادی پر کارڈ چھپوانے بھجوانے کا رواج نہیں کیونکہ اس عظیم دن کے بعد سے ترقی، خوشحالی، امن، تعلیم اور صحت سے فیض یاب ہونے والی ایک مخصوص کلاس ہے۔ عوام ابھی تک آزادی کی نعمتوں کے منتظر ہیں۔ یوم آزادی پر کارڈ کیا چھپیں گے اکثریت کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آزادی کس لیے اور کیوں حاصل کی گئی۔ اگر گہرائی میں جا کر دیکھیں تو اکثریت کے اندر غلامانہ سوچ اور طرز زندگی کے جراثیم آزادی کے بعد داخل ہوئے۔ دراصل یہ کارڈ چھپنے چاہئیں لوگوں کو بتانے کے لیے کہ آزادی کے ثمرات کیا ہوتے ہیں جن سے وہ محروم ہیں اور یہ کہ انھیں محرومی کے گڑھے میں دبائے رکھنے کے ذمے دار کون ہیں۔
ایک وقت تھا جب مرد حضرات گھر سے نکلتے وقت جیب ٹٹول لیا کرتے تھے کہ کچھ رقم ساتھ رکھ لی ہے' پھر وہ دن آ گئے کہ موبائل فون ضرورت بن گیا اور اس کو ساتھ لیے بغیر باہر جانا نہ ہوتا اور اب شناختی کارڈ اور وزٹرز کارڈ بھی ساتھ رکھنا ضروری ہوگیا ہے کہ کسی دہشت گردی کی لپیٹ میں آنے پر شناخت میں لواحقین یا پولیس کو مشکل نہ ہو۔ بہرحال میں نے گزشتہ تیس سال میں جمع ہونے والی اپنی پانچ عدد کارڈز والی البمیں ایک ایک کر کے دیکھنا شروع کیں۔
وزٹنگ یا تعارفی کارڈ میرے بلکہ ہر کسی کے لیے تعلقات کی ایک کڑی ہوتے ہیں۔ اس کڑی کو اب لوگ اپنے موبائل فونوں میں منتقل کر لیتے ہیں جہاں بعض اوقات فون گم یا چوری ہو جانے پر یہ غیر محفوظ تو ہوتے ہی ہیں غلط ہاتھوں میں بھی جا سکتے ہیں۔ اسی لیے سمجھدار لوگ نام اور نمبروں کو ڈائری میں لکھ لیتے ہیں۔ میرے سکول کے دنوں کے دوست بینکر شفقت بخاری نے 1970ء سے ایسی ڈائری بنا رکھی ہے جسے وہ up date کرتے رہنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتا۔ بہرحال میں نے جب اپنی کارڈ البموں کو دیکھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ دوستوں اور ملاقاتیوں کے علاوہ ان میں سائل قسم کی بعض بڑی شخصیات کے ساتھ خواہ مخواہ لوگوں کے وزٹنگ کارڈز بھی موجود تھے۔ کئی لوگوں کے فون نمبر اور ایڈریس تبدیل ہو چکے تھے کئی اب اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے جب کہ بہت سوں کو میںLocate کرنے میں مشکل پا رہا تھا۔ میں کئی دن وزٹنگ کارڈوں کی، جن کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی، درستی کرتا رہا۔
چند سال پہلے تک عید کے دن قریب آنے پر رشتہ دار اور دوست احباب عید کارڈ بھیج کر ایک دوسرے کو مبارک بادی کے پیغام بھجوایا کرتے تھے۔ بڑی بک شاپس والے نت نئے ڈیزائن کے عید کارڈ منگوا کر رکھتے تھے بلکہ فٹ پاتھوں اور تھڑوں پر بھی دکاندار ان کی سیل لگاتے اور شوقین حضرات خوب خریداری کرتے اور اپنے پیاروں کو عید کارڈ بھیج کر خوشیاں بانٹا کرتے تھے۔ سرکاری افسروں کے گھروں کے کارنس اور میز بھی عید کارڈوں سے سج جاتے تھے۔ اب موبائل فون کی میسج سروس نے اگر عید کارڈوں کی صف لپیٹ نہیں دی تو الٹ ضرور دی ہے جس کے نیچے پڑے چند عید کارڈ مل جاتے ہیں۔
بات وزٹنگ کارڈ سے آگے بڑھی تھی اس سے یاد آیا کہ عید کارڈ کی کمی پرنٹروں نے شادی بیاہ کے دعوتی کارڈوں کی ورائٹی سے پوری کر لی ہے۔ ایک دن کے بعد بے مقصد ہو جانے والا دعوت نامہ پچاس روپے فی کارڈ سے پانچ سو روپے تک میں بن سکتا ہے۔ اسے ''چھپ سکنا'' اس لیے کہنا نامناسب ہو گا کہ بڑی آکسفورڈ ڈکشنری کے سائز کا دعوت نامہ ذرا سوچئے کہ اپنے اندر کتنی متنوع اور دل خوش کن جہتیں رکھتا ہو گا اور امرأ کے نزدیک ''شو شا'' کے لیے پانچ سو روپے فی دعوت نامہ کون سی بڑی بات ہے۔ اس شادی کے دعوت نامے میں آپ جتنے کرنسی نوٹ ڈالنا چاہیں ڈال سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے البتہ اپنے بیٹے کے ولیمے کا دعوتی خط ہاتھ سے لکھ کر اس کی تین سو فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بنوائی تھیں۔
بچوں ہی نہیں بڑوں کے جنم دن کی یاد تازہ کرنے کے لیے بھی برتھ ڈے کارڈ بھیجنے کا رواج ہے۔ یورپ امریکا وغیرہ میں تو یہ عام ہے لیکن ہمارے ملک کے خواندہ اور متوسط طبقہ میں اب اس دن کی یاد ٹیلیفون کر کے SMS سے اور برتھ ڈے کارڈ بھجوا کر celebrate کی جاتی ہے۔ رشتہ داروں اور عزیزوں کو کھانے پر اکٹھا کیا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے تو کیک کاٹنے اور کینڈل جلانے بجھانے کا اہتمام ہونے لگا ہے۔ یہ الگ بات کہ کارڈ بھیجنا تو درکنار پاکستان میں رہائش پذیر افراد کی اکثریت کو اپنا یوم پیدائش بھی یاد نہیں ہوتا۔ ناخواندگی اور افلاس کے ہوتے ہوئے برتھ ڈے کارڈ یا ''ہیپی برتھ ڈے ٹویو'' کے گیت کا ذکر کرتے ہوئے کالم کے الفاظ کانپ رہے ہیں۔
کارڈز کا ذکر آیا ہے تو نیو ایئر ڈے پر آنے جانے والے نیو ایئر ڈے کارڈز کو بھی یاد کر لیا جائے۔ یہ کارڈز اب صرف کمرشل ادارے اپنے قیمتی گاہکوں کو بھجواتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اگر لوگوں کی آنے والے سالوں سے مثبت امیدیں قائم اور وابستہ ہو سکیں تو عوام اور خواص ہر دو نیو ایئر کا استقبال کرنے سڑکوں پر نکل آیا کریں گے لیکن یہاں تو ہر دن گزشتہ دن اور ہر نیا سال گزرے سال سے بدتر اور خوفناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے ہر پاکستانی ملک کو شجر سایہ دار سمجھ کر اس سے وابستہ تو رہنا چاہتا ہے خدا کرے کہ آئندہ اسے امید بہار بھی ہو۔
ملک میں ہر 14 اگست کو دفتروں اور دیگر اداروں میں چھٹی ہوتی ہے۔ یوم آزادی پر کارڈ چھپوانے بھجوانے کا رواج نہیں کیونکہ اس عظیم دن کے بعد سے ترقی، خوشحالی، امن، تعلیم اور صحت سے فیض یاب ہونے والی ایک مخصوص کلاس ہے۔ عوام ابھی تک آزادی کی نعمتوں کے منتظر ہیں۔ یوم آزادی پر کارڈ کیا چھپیں گے اکثریت کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آزادی کس لیے اور کیوں حاصل کی گئی۔ اگر گہرائی میں جا کر دیکھیں تو اکثریت کے اندر غلامانہ سوچ اور طرز زندگی کے جراثیم آزادی کے بعد داخل ہوئے۔ دراصل یہ کارڈ چھپنے چاہئیں لوگوں کو بتانے کے لیے کہ آزادی کے ثمرات کیا ہوتے ہیں جن سے وہ محروم ہیں اور یہ کہ انھیں محرومی کے گڑھے میں دبائے رکھنے کے ذمے دار کون ہیں۔