کوچۂ سخن
غزل
خود سے جب دور بہت دور نکل جاؤں میں
اپنی جانب ہی پلٹنے کو مچل جاؤں میں
رائج الوقت کوئی سکہ نہیں ہوں لیکن
کیا پتہ آپ کے ہاتھ آؤں تو چل جاؤں میں
اپنی مرضی کا بنا لینا اسی وقت مجھے
جب کسی لمحہ ٔ نازک میں پگھل جاؤں میں
بعض اوقات حقیقت بھی فرومایہ لگے
بعض اوقات کھلونوںسے بہل جاؤں میں
اک خطرناک ارادے سے بڑھوں اپنی طرف
درمیاں آپ جب آ جائیں تو ٹل جاؤں میں
زندگی راہِ محبت پہ گزاروں جاذبؔ
اور پھر ہنستا ہوا سوئے اجل جاؤں میں
(اکرم جاذب۔منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
خون میں اس قدر فشار رہا
جب تلک سر پہ وہ سوار رہا
کوئی چپکے سے آ گیا دل میں
ہم کو دستک کا انتظار رہا
چاندنی چار دن کی ہوتی ہے
کس پہ جوبن سدا بہار رہا
کتنے دن اس کی بے نیازی سے
ایک سو تین پر بخار رہا
حاصلِ وصل کچھ نہیں لیکن
تجربہ خاصا خو ش گوار رہا
اس کو بھی تمغۂ شجاعت دو
زندگی ہنس کے جو گزار رہا
جانے والا چلا گیا لیکن
دیر تک ہجر کا غبار رہا
ایک بچپن کا عشق تھا فوزیؔ
جس کا پچپن برس خمار رہا
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
بنا لیتا میں تجھ کو ہمسفر، کچھ سال پہلے تک
مگر اس بات سے لگتا تھا ڈر، کچھ سال پہلے تک
مجھے فکرِ معیشت تھی، تجھے خوفِ جدائی تھا
الگ تھے زاویہ ہائے نظر، کچھ سال پہلے تک
میں ناداں تھا، اُسے اپنے تصرف میں نہیں لایا
بہت نزدیک تھی شاخِ ثمر، کچھ سال پہلے تک
تری درویش آنکھوں کا ارادت مند بن جاتا
تُو مجھ کو مل گئی ہوتی اگر کچھ سال پہلے تک
ترے گالوں کے ڈمپل میں نگاہیں ڈوب جاتی تھیں
لہو میں رقص کرتے تھے بھنور، کچھ سال پہلے تک
مجھے یاور عظیم اب تک وہ آنکھیں یاد آتی ہیں
میں اُن پلکوں کے تھا زیرِ اثر، کچھ سال پہلے تک
(یاور عظیم ۔ضلع، رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
سر پہ جب عشق کا احسان لیا جاتا ہے
ہجر کو برسرِ امکان لیا جاتا ہے
میرے لفظوں سے خدو خال نمایاں ہیں مرے
مجھے اسلوب سے پہچان لیا جاتا ہے
پہلے پہلے تو اڑاتے ہیں کہانی کا مذاق
اور پھر اس میں لکھا مان لیا جاتا ہے
روک لیتا ہے یہ امکان مجھے باتوں سے
میری باتوں کا برا مان لیا جاتا ہے
اپنی ہر عرضی مدینے کی طرف بھیجتا ہوں
گھر بڑا ہو تو بڑا دان لیا جاتا ہے
صبر جتنا بھی ودیعت ہو مگر گھر میں عقیلؔ
زاویہ آنکھ کا پہچان لیا جاتا ہے
(عقیل ملک ۔پنڈی گھیب)
۔۔۔
غزل
قطار جگنوؤں کی روشنی لٹاتی رہی
میں رنگ گوندھ کے تتلی کے پر بناتی رہی
رکھا تھا سوئی کی ٹک ٹک پہ اک دھڑکتا دل
یہی تماشا گھڑی ہاتھ کی دکھاتی رہی
میں چاندنی کی سہیلی وہ چاند بھائی مرا
تمام دن یہی آواز کان کھاتی رہی
گھسا پٹا کہیں کچھ انتظار روتا رہا
ہوا کو دیکھو کھڑی سیٹیا ں بجاتی رہی
فلک کی کھونٹی سے ٹانگا ہوا تھا ایک خیال
زمیں پہ بیٹھی تری بات مسکراتی رہی
قریب لانے کی ترغیب دینے والے دیکھ
تری خوشی میں مری زندگی بھی جاتی رہی
فقیر اپنی فقیری میں مست بیٹھا ہوا
ٹرین دور تلک ہاتھ کو ہلا تی رہی
(یاسمین سحر۔امریکا)
۔۔۔
غزل
سبزہ زاروں سے نہ بہاروں سے
ہم تو بچھڑے ہیں اپنے یاروں سے
یاد آتا ہے اک حسیں چہرہ
جب گزرتے ہیں را ہ گزاروں سے
ہم اکیلے ہیں رات ہے باقی
بات کرتے ہیں ہم ستاروں سے
اپنا رشتہ ہے تند لہروں سے
دور رہتے ہیں ہم کناروں سے
دوست دشمن جدا نہیں ہوتے
دور ہوتے ہیں پھول خاروں سے؟
ایسے بچھڑا ہے مجھ سے وہ بزمیؔ
جیسے بچھڑی ہو کونج ڈاروں سے
(شبیر بزمی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
ترے خیال کی خواہش میں رکھا جاؤں گا
میں زندگی کی نمائش میں رکھا جاؤں گا
یقیں دلا کے اسے اپنی بے یقینی کا
وصالِ یار کی سازش میں رکھا جاؤں گا
کسی فقیر کے کشکول میں نہ ڈال مجھے
تری طرف سے ہی بخشش میں رکھا جاؤں گا
ملے گا قرب ترا لمس کے حوالے سے
پھر اس کے بعد میں رنجش میں رکھا جاؤں گا
ارادہ کر کے چلا ہوں مگر یہ جانتا ہوں
سفر کی آخری کوشش میں رکھا جاؤں گا
(حسن رضا ۔دمام، سعودی عرب)
۔۔۔
غزل
جو چشمِ نم تیرے اک اشارے کا سوچتی ہے
وہ گیلی مٹی ہے اور گارے کا سوچتی ہے
حریص ہیں ایک دوسرے کی طلب میں دونوں
میں خود شناسی تو وہ سہارے کا سوچتی ہے
مچل رہی ہے عجیب موجِ خروج مجھ میں
جو سر پٹختی ہے تیز دھارے کا سوچتی ہے
دوام ہو میری ملگجی روشنی کو شاید
لپک نہیں ہے جو ٹوٹے تارے کا سوچتی ہے
دکھائی دیتا ہے پانیوں پہ رواں جزیرہ
رکی ہوئی زندگی کنارے کا سوچتی ہے
(ذوالقرنین حسنی ۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
آغاز ہی میں کہہ گیا وہ بات آخری
ہونا ہی تھی یہ پہلی ملاقات آخری
کہہ دو امیرِ شہر کو بس ہو چکی بہت
اس شہر میں فقیر کی ہے رات آخری
جس دن عدو کو جان کے لالے پڑے رہے
ترکش میں اپنے تیر تھا اس رات آخری
لایا گیا وہ دار تک بارانِ سنگ میں
اس شہر کی جو شخص تھا سوغات آخری
اب کے خروشِ ابر سے پرواز یوں لگا
ان بستیوں پہ جیسے ہو برسات آخری
(یعقوب پرواز۔ چھانگا مانگا)
۔۔۔
غزل
سمندروں کی طرح بے کنار ہونے کی
کہیں تو رسم چلے بے شمار ہونے کی
ہر ایک شخص کی خواہش قدم رکھے مجھ پر
سزا ملی ہے تری رہگزار ہونے کی
مَیں داستانِ المناک کہہ نہیں سکتا
یہ روح داخل ِ مشت ِ غبارہونے کی
کسی بھی رت میں یہاں پھول اب نہیں کھلتے
یہی سبب ہے گریباں کے تار ہونے کی
میں وہ گھڑی بھی تمہارے نثارکر آیا
جو اک گھڑی تھی ہمارے شمار ہونے کی
یہ کارزار ِ جہاں میںجو زندگی ہے خضرؔ
یہ داستاں ہے خدا سے فرار ہونے کی
( خضر عباس۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
زندگی کے ساز میں درد ِنہاں بنتا گیا
میں نے دل سے جو بھی لکھا داستاں بنتا گیا
منزلیں یوں زندگی سے دور تر ہوتی گئیں
جس زمیں پر پاؤں رکھا آسماں بنتا گیا
وہ مرے احساس کے انداز سے واقف نہیں
ورنہ دردِ ہجر تو جی کا زیاں بنتا گیا
دیکھ سکتے تھے مگر چھونا اسے ممکن نہ تھا
ایک پردہ یوں ہمارے درمیاں بنتا گیا
ہر طرف پھولوں بھرا قریہ ٔمہکار تھا
خارو خس جس میں نہ تھے وہ گلستاں بنتا گیا
(جیا قریشی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
جب محبت ردیف رکھی تھی
دل نے وحشت ردیف رکھی تھی
دیکھ کرہم نے آئینہ اس کا
خوبصورت ردیف رکھی تھی
چھو کے پاؤں جنابِ مادر کے
میں نے جنت ردیف رکھی تھی
دیکھ کر اس کے خال و خد میں نے
رنگ و نکہت ردیف رکھی تھی
آمدِ یار کے ہر اک پل پر
دل نے راحت ردیف رکھی تھی
کاسۂ چشم ِدید پر میں نے
اک ضرورت ردیف رکھی تھی
اس کے سینے پہ زخم ہیں شائقؔ
جس نے عورت ردیف رکھی تھی
(سید شائق شہاب۔ کراچی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی