دانش صدیقی کی موت
دانش صدیقی کے کیمرے اور مخصوص اینگل سے بنائی گئی تصاویر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔
بھارت کے 39سالہ ہونہار نوجوان فوٹوگرافر دانش صدیقی افغانستان کی خانہ جنگی کا شکار ہوئے۔
دانش صدیقی 16مئی 1983کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم دہلی کے Fragnal School سے حاصل کی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے معاشیات کے شعبہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ دانش نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے انور جمال قدوائی ماس کمیو نی کیشن ریسرچ سینٹر سے ایم اے کیا۔ ان کی خصوصی دلچسپی کے مضامین نیوز، فوٹوگرافی اور فلم تھے۔
دانش نے بہت جلد میڈیا میں اپنی حیثیت منوانا شروع کی،وہ پہلے ہندوستان ٹائمز میں نامہ نگار ہوئے، پھرTV Topynet Work میں صحافی کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ دانش کو فوٹوگرافی کا انتہا درجہ کا شوق تھا، یوں دانش صدیقی نے دنیا کی معروف خبررساں ایجنسی رائٹر میں بحیثیت فوٹوگرافر شمولیت اختیار کی۔ دانش نے گزشتہ 11برسوں کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی مختلف جنگوں کی کہانی کو اپنے کیمرہ میں محفوظ کیا۔ جب 2016ء میں عراق میں موصل کے شہر پر قبضہ کی لڑائی شروع ہوئی تو دانش صدیقی کو عراق بھیج دیا گیا۔
وہ ایک سال تک موصل میں فوٹوگرافی کرتے رہے۔ 2015 میں نیپال میں آنے والے زلزلہ کو کور کیا۔ اسی سال برما میں روہنگیا کے مہاجرین کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ روہنگیا مہاجرین چھوٹی لانچوں کے ذریعہ برما سے فرار ہوئے۔ انھیں کبھی بنگلہ دیش میں پناہ ملی کبھی کسی ملک میں داخلہ کی اجازت نہ ملی۔ دانش نے روہنگیا مہاجرین کے المیہ کو اپنی تصاویر میں محفوظ کیا۔
اسی طرح 2019 اور 2020 میں ہانگ کانگ میں نوجوانوں نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے تاریخی تحریک شروع کی۔ چین کے حکام نے طاقت کے ذریعہ اس تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے دوران لاکھوں مظاہرین نے تاریخی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔
دانش صدیقی کے کیمرے اور مخصوص اینگل سے بنائی گئی تصاویر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئیں اور فوٹیج ٹی وی چینلز کی اسکرین کی زینت بنیں۔ یوں پوری دنیا کو اس تحریک کے منظم ہونے کے بارے میں پتہ چلا۔ 2020میں نئی دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں بہت سے بے گناہ مسلمان قتل ہوئے۔ دانش کی ایک تصویر پر ساری دنیا متوجہ ہوئی۔ اس تصویر میں ہندو مشتعل ہجوم ایک مسلمان کو تشدد کا نشانہ بنارہا ہے۔ ہندو بلوائیوں نے دانش کو گھیرلیا تھا۔ یہ بلوائی دانش کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر دانش صدیقی کے ساتھی ہندو فوٹوگرافروں نے اس کی جان بچائی۔
اس سال کورونا وائرس نے دہلی، بمبئی اور دیگر شہروں میں تباہی مچائی۔ ہزاروں افراد آکسیجن نہ ملنے اور اسپتال میں بیڈ نہ ہونے کی بناء پر سڑکوں اور اسپتالوں کے دروازوں پر مر گئے۔ دانش نے اس وبائی تباہ کاریوں کو اپنی تصاویر میں محفوظ کیا۔ 2018 میں دانش صدیقی اور ان کے ساتھی فوٹوگرافر عدنان عابد کو Pulitz Price of feature photography ایوارڈ ملا۔ دانش اور عدنان عابدی کو دنیا کا مشہور ایوارڈ روہنگیا مہاجرین پر ڈاکیومنٹری بنانے پر دیا گیا تھا۔ دانش صدیقی گزشتہ کئی ماہ سے افغانستان میں سرکاری فوجیوں اور طالبان کے درمیان لڑائی کی تصاویر کو اپنے کیمرہ میں منتقل کررہے تھے۔
وہ پاکستان کی سرحد کے قریب اسپن بولدلک کے مقام پر سرکاری فوجیوں اور طالبان کے درمیان خون ریز جھڑپوں کو کور کررہے تھے کہ کسی سمت سے آنے والی گولیوں نے ان کی جان لے لی۔ افغانستان کی حکومت نے دانش کی موت کا الزام طالبان پر عائد کیا۔ طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں مگر دنیا ایک ذہین ہونہار فوٹوگرافرسے محرو م ہوگئی۔ دانش کے والد بھارت کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ہیں۔ ان کی اہلیہ کا تعلق جرمنی سے ہے اور دو بچے ہیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت دنیا بھر کے معروف افراد نے ان سے تعزیت کی مگر بھارت کے وزیر اعظم مودی تعزیت کرنے والوں کی اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔ افغانستان کی خانہ جنگی میں جہاں ہزاروں افراد مارے جارہے ہیں اور لاکھوں افراد بار بار اپنا گھار بار چھوڑنے پر مجبو ہوئے ہیں وہاں اپنے فرائض انجام دینے والے بہت سے صحافی بھی اپنی جانیں کھوچکے ہیں۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم Committee to Protect Journalists دنیا بھر میں فرائض کے دوران ہلاک اور زخمی ہونے والے صحافیوں کی فہرست جاری کرتی ہے۔
اس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اس صدی کے آغاز سے اب تک 53 کے قریب صحافی افغانستان میں متحارب گروہوں کی لڑائی میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان میں مقامی افغان صحافی بھی شامل ہیں اور وہ غیر ملکی صحافی بھی شامل ہیں جو افغانستان میں جنگ کو کور کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ جب سے امریکا نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ افغان صحافی جو کابل کے علاوہ دیگر شہروں میں فرائض انجام دے رہے تھے سخت مشکلات کا شکار ہوئے۔ ان میں سے کچھ خواتین بھی ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے کام کرتی ہیں اور کچھ کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہیں۔
ایک افغان خاتون صحافی نے جو اندورن افغانستان سے اپنی جان بچا کر کابل پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھیں انھوں امریکا کے سرکاری ریڈیو کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں صحافیوں اور خاص طور پر خواتین صحافیوں کا کام کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ طالبان نے ریڈیو اور ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کی تھیں کہ موسیقی کے پروگرام بند کردیے جائیں اور خواتین کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 21 سال سے ہونے والی لڑائی میں کئی لاکھ افغان شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں افراد کو بار بار اپنا وطن چھوڑنا پڑا ہے۔
اب خبریں یہ ہیں کہ طالبان نے آدھے افغانستان پر یا تو قبضہ کیا ہوا ہے یا مزید علاقوں پر قبضہ کے لیے کابل کی سرکاری فوج اور طالبان میں جنگ جاری ہے اور روس جو افغانستان کا پڑوسی ملک ہے افغانستان کے حالیہ بحران کی ذمے داری امریکا پر عائد کررہا ہے۔ چین، پاکستان اور دیگر ممالک کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ امریکا نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان بھی وقتاً فوقتاً اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اگرچہ دوہا، استنبول، تاشقند اور بیجنگ سے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کی خبریں آتی ہیں، بھارت، پاکستان اور ایران کے وزراء خارجہ افغانستان کی صورتحال پر مسلسل تبادلہ خیال کرتے ہیں مگر افغانستان میں مستقل امن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم عمران خان یہ پیشگوئی کررہے ہیں کہ افغانستان کی خانہ جنگی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوسکتا ہے اور ماضی کی طرح لاکھوں مہاجرین پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں۔ بعض دانشوروں کو خطرہ ہے کہ ایسی ہی صورتحال رہی تو افغانستان میں مستقبل میں امن ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔
سفارتکار یہ تجویز دے رہے ہیں کہ اگر افغانستان میں متحرب گروہوں کی عسکری اور مالیاتی امداد بند ہوجائے تو پھر متحارب گروہ کسی نہ کسی سمجھوتہ پر متفق ہوجائیں گے ۔بڑی طاقتوں سمیت افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی اسی بیانیہ کو اپنی پالیسی قرار دیتے رہے مگر عملی صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ دانش صدیقی کی موت دنیا بھر کے ابلاغ عامہ کے مضمون کے طلبہ کے لیے صدمہ کا باعث ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ وقت کب آئے گا کہ افغانستان کی جنگ میں مزید کوئی ذہین صحافی اور فوٹوگرافر مارا نہیں جائے گا اور کوئی افغان نہ تو جان سے جائے گا اور نہ ہی اس کو اپنا گھر چھوڑنا پڑے گا اور خواتین اور مردبغیر کسی خوف کے زندگی کی دوڑ میں شامل ہوجائیں گے۔
دانش صدیقی 16مئی 1983کو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم دہلی کے Fragnal School سے حاصل کی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے معاشیات کے شعبہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ دانش نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے انور جمال قدوائی ماس کمیو نی کیشن ریسرچ سینٹر سے ایم اے کیا۔ ان کی خصوصی دلچسپی کے مضامین نیوز، فوٹوگرافی اور فلم تھے۔
دانش نے بہت جلد میڈیا میں اپنی حیثیت منوانا شروع کی،وہ پہلے ہندوستان ٹائمز میں نامہ نگار ہوئے، پھرTV Topynet Work میں صحافی کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ دانش کو فوٹوگرافی کا انتہا درجہ کا شوق تھا، یوں دانش صدیقی نے دنیا کی معروف خبررساں ایجنسی رائٹر میں بحیثیت فوٹوگرافر شمولیت اختیار کی۔ دانش نے گزشتہ 11برسوں کے دوران دنیا بھر میں ہونے والی مختلف جنگوں کی کہانی کو اپنے کیمرہ میں محفوظ کیا۔ جب 2016ء میں عراق میں موصل کے شہر پر قبضہ کی لڑائی شروع ہوئی تو دانش صدیقی کو عراق بھیج دیا گیا۔
وہ ایک سال تک موصل میں فوٹوگرافی کرتے رہے۔ 2015 میں نیپال میں آنے والے زلزلہ کو کور کیا۔ اسی سال برما میں روہنگیا کے مہاجرین کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ روہنگیا مہاجرین چھوٹی لانچوں کے ذریعہ برما سے فرار ہوئے۔ انھیں کبھی بنگلہ دیش میں پناہ ملی کبھی کسی ملک میں داخلہ کی اجازت نہ ملی۔ دانش نے روہنگیا مہاجرین کے المیہ کو اپنی تصاویر میں محفوظ کیا۔
اسی طرح 2019 اور 2020 میں ہانگ کانگ میں نوجوانوں نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے تاریخی تحریک شروع کی۔ چین کے حکام نے طاقت کے ذریعہ اس تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے دوران لاکھوں مظاہرین نے تاریخی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔
دانش صدیقی کے کیمرے اور مخصوص اینگل سے بنائی گئی تصاویر دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئیں اور فوٹیج ٹی وی چینلز کی اسکرین کی زینت بنیں۔ یوں پوری دنیا کو اس تحریک کے منظم ہونے کے بارے میں پتہ چلا۔ 2020میں نئی دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ ان فسادات میں بہت سے بے گناہ مسلمان قتل ہوئے۔ دانش کی ایک تصویر پر ساری دنیا متوجہ ہوئی۔ اس تصویر میں ہندو مشتعل ہجوم ایک مسلمان کو تشدد کا نشانہ بنارہا ہے۔ ہندو بلوائیوں نے دانش کو گھیرلیا تھا۔ یہ بلوائی دانش کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر دانش صدیقی کے ساتھی ہندو فوٹوگرافروں نے اس کی جان بچائی۔
اس سال کورونا وائرس نے دہلی، بمبئی اور دیگر شہروں میں تباہی مچائی۔ ہزاروں افراد آکسیجن نہ ملنے اور اسپتال میں بیڈ نہ ہونے کی بناء پر سڑکوں اور اسپتالوں کے دروازوں پر مر گئے۔ دانش نے اس وبائی تباہ کاریوں کو اپنی تصاویر میں محفوظ کیا۔ 2018 میں دانش صدیقی اور ان کے ساتھی فوٹوگرافر عدنان عابد کو Pulitz Price of feature photography ایوارڈ ملا۔ دانش اور عدنان عابدی کو دنیا کا مشہور ایوارڈ روہنگیا مہاجرین پر ڈاکیومنٹری بنانے پر دیا گیا تھا۔ دانش صدیقی گزشتہ کئی ماہ سے افغانستان میں سرکاری فوجیوں اور طالبان کے درمیان لڑائی کی تصاویر کو اپنے کیمرہ میں منتقل کررہے تھے۔
وہ پاکستان کی سرحد کے قریب اسپن بولدلک کے مقام پر سرکاری فوجیوں اور طالبان کے درمیان خون ریز جھڑپوں کو کور کررہے تھے کہ کسی سمت سے آنے والی گولیوں نے ان کی جان لے لی۔ افغانستان کی حکومت نے دانش کی موت کا الزام طالبان پر عائد کیا۔ طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں مگر دنیا ایک ذہین ہونہار فوٹوگرافرسے محرو م ہوگئی۔ دانش کے والد بھارت کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ہیں۔ ان کی اہلیہ کا تعلق جرمنی سے ہے اور دو بچے ہیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت دنیا بھر کے معروف افراد نے ان سے تعزیت کی مگر بھارت کے وزیر اعظم مودی تعزیت کرنے والوں کی اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔ افغانستان کی خانہ جنگی میں جہاں ہزاروں افراد مارے جارہے ہیں اور لاکھوں افراد بار بار اپنا گھار بار چھوڑنے پر مجبو ہوئے ہیں وہاں اپنے فرائض انجام دینے والے بہت سے صحافی بھی اپنی جانیں کھوچکے ہیں۔ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم Committee to Protect Journalists دنیا بھر میں فرائض کے دوران ہلاک اور زخمی ہونے والے صحافیوں کی فہرست جاری کرتی ہے۔
اس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اس صدی کے آغاز سے اب تک 53 کے قریب صحافی افغانستان میں متحارب گروہوں کی لڑائی میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان میں مقامی افغان صحافی بھی شامل ہیں اور وہ غیر ملکی صحافی بھی شامل ہیں جو افغانستان میں جنگ کو کور کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ جب سے امریکا نے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ افغان صحافی جو کابل کے علاوہ دیگر شہروں میں فرائض انجام دے رہے تھے سخت مشکلات کا شکار ہوئے۔ ان میں سے کچھ خواتین بھی ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے کام کرتی ہیں اور کچھ کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہیں۔
ایک افغان خاتون صحافی نے جو اندورن افغانستان سے اپنی جان بچا کر کابل پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھیں انھوں امریکا کے سرکاری ریڈیو کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں صحافیوں اور خاص طور پر خواتین صحافیوں کا کام کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ طالبان نے ریڈیو اور ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کی تھیں کہ موسیقی کے پروگرام بند کردیے جائیں اور خواتین کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 21 سال سے ہونے والی لڑائی میں کئی لاکھ افغان شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں افراد کو بار بار اپنا وطن چھوڑنا پڑا ہے۔
اب خبریں یہ ہیں کہ طالبان نے آدھے افغانستان پر یا تو قبضہ کیا ہوا ہے یا مزید علاقوں پر قبضہ کے لیے کابل کی سرکاری فوج اور طالبان میں جنگ جاری ہے اور روس جو افغانستان کا پڑوسی ملک ہے افغانستان کے حالیہ بحران کی ذمے داری امریکا پر عائد کررہا ہے۔ چین، پاکستان اور دیگر ممالک کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ امریکا نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان بھی وقتاً فوقتاً اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اگرچہ دوہا، استنبول، تاشقند اور بیجنگ سے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کی خبریں آتی ہیں، بھارت، پاکستان اور ایران کے وزراء خارجہ افغانستان کی صورتحال پر مسلسل تبادلہ خیال کرتے ہیں مگر افغانستان میں مستقل امن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم عمران خان یہ پیشگوئی کررہے ہیں کہ افغانستان کی خانہ جنگی سے پاکستان براہ راست متاثر ہوسکتا ہے اور ماضی کی طرح لاکھوں مہاجرین پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں۔ بعض دانشوروں کو خطرہ ہے کہ ایسی ہی صورتحال رہی تو افغانستان میں مستقبل میں امن ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔
سفارتکار یہ تجویز دے رہے ہیں کہ اگر افغانستان میں متحرب گروہوں کی عسکری اور مالیاتی امداد بند ہوجائے تو پھر متحارب گروہ کسی نہ کسی سمجھوتہ پر متفق ہوجائیں گے ۔بڑی طاقتوں سمیت افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی اسی بیانیہ کو اپنی پالیسی قرار دیتے رہے مگر عملی صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ دانش صدیقی کی موت دنیا بھر کے ابلاغ عامہ کے مضمون کے طلبہ کے لیے صدمہ کا باعث ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ وقت کب آئے گا کہ افغانستان کی جنگ میں مزید کوئی ذہین صحافی اور فوٹوگرافر مارا نہیں جائے گا اور کوئی افغان نہ تو جان سے جائے گا اور نہ ہی اس کو اپنا گھر چھوڑنا پڑے گا اور خواتین اور مردبغیر کسی خوف کے زندگی کی دوڑ میں شامل ہوجائیں گے۔